Al-Qurtubi - Az-Zumar : 46
قُلِ اللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَیْنَ عِبَادِكَ فِیْ مَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
قُلِ : فرمادیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ فَاطِرَ : پیدا کرنے والا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین عٰلِمَ : اور جاننے والا الْغَيْبِ : پوشیدہ وَالشَّهَادَةِ : اور ظاہر اَنْتَ : تو تَحْكُمُ : تو فیصلہ کرے گا بَيْنَ : درمیان عِبَادِكَ : اپنے بندوں فِيْ مَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
کہو کہ اے خدا (اے) آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے (اور) پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے تو ہی اپنے بندوں میں ان باتوں کا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں فیصلہ کرے گا
46 ۔ 48:۔ فاطر المسوت والارض یہ منصوب ہے کیونکہ یہ منادی ہے اور مضاف ہے اسی طرح علم الغیب بھی ہے۔ سیبویہ کے نزدیک اس کا نعت ہونا جائز نہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف ؓ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا : نبی کریم ﷺ کسی چیز سے نماز کا آغاز کیا کرتے تھے ؟ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا : آپ رات کو اٹھتے تو نماز کا آغاز ان الفاظ سے کرتے اللھم رب جبریل و میکائیل و اسرافیل فاطر السموت والارض عالم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اے اللہ ! جبریل ‘ میکائیل و اسرافیل کے رب ! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے ! اے غیب و شہادت کو جاننے والے ! تو اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے ان چیزوں میں جن میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔ ولو ان للذین ظلموا جو جھوٹ بولیں اور شرک کریں اگر وہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لئے جو کچھ زمین میں ہے سب فدیہ دے دیں۔ یہ بحث سورة آل عمران اور سورة الرعد میں گزر چکی ہے۔ و بدالھم من اللہ مالم یکونو یحتسمون۔ اسی معنی میں وہ روایت کی گئی ہے جسے منصور نے مجاہد سے نقل کیا ہے کہا : انہوں نے ایسے اعمال کیے انہوں نے یہ گمان کیا تھا کہ وہ نیکیاں ہیں جبکہ وہ برائیاں تھیں ‘ یہ سدی کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ : انہوں نے ایسے اعمال کئے انہوں نے گمان کیا تھا کہ وہ موت سے قبل اس برے عمل سے توبہ پا جائیں گے یہ بھی جائز ہے کہ انہوں نے یہ وہم کیا تھا کہ انہیں توبہ کے بغیر ہی بخش دیا جائے گا تو ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے وہ ظاہر ہو جس کا وہ گمان نہیں رکھتے تھے ‘ یعنی انہیں جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔ سفیان ثوری نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا : ریا کاروں کے لئے ہلاکت ہے ‘ ریا کاروں کے لئے ہلاکت ہے یہ ان کی آیت اور ان کا قصہ ہے۔ عکرمہ بن عمار نے کہا : محمد بن منکدر نے موت کے وقت بڑی جزع و فزع کی آپ سے کہا گیا : یہ جزع و فزع کیسی ہے ؟ کہا : میں اللہ تعالیٰ کی ایک آیت سے ڈرتا ہوں و بدا الھم من اللہ مالم یکونو یحتسمون۔ میں ڈرتا ہوں کہ میرے لئے وہ چیز ظاہر ہو جس کا میں گمان نہیں رکھتا تھا۔ ان کے لئے کفر و معاصی کا عقاب ظاہر ہوا اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے اس نے ان کا احاطہ کرلیا۔
Top