Al-Qurtubi - Az-Zumar : 49
فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا١٘ ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا١ۙ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ١ؕ بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب مَسَّ : پہنچتی ہے الْاِنْسَانَ : انسان ضُرٌّ دَعَانَا ۡ : کوئی تکلیف وہ ہمیں پکارتا ہے ثُمَّ اِذَا : پھر جب خَوَّلْنٰهُ : ہم عطا کرتے ہیں اس کو نِعْمَةً : کوئی نعمت مِّنَّا ۙ : اپنی طرف سے قَالَ : وہ کہتا ہے اِنَّمَآ : یہ تو اُوْتِيْتُهٗ : مجھے دی گئی ہے عَلٰي : پر عِلْمٍ ۭ : علم بَلْ هِىَ : بلکہ یہ فِتْنَةٌ : ایک آزمائش وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے نہیں
جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا ہے پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے نعمت بخشتے ہیں تو کہتا ہے ہے یہ تو مجھے (میرے) علم (ودانش) کے سبب ملی ہے نہیں بلکہ وہ آزمائش ہے مگر ان میں سے اکثر نہیں جانتے
49 ۔ 52:۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آیت حضرت حذیفہ بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ قتادہ نے کہا : علی علم یعنی میرے نزدیک کمائی کی کئی صورتیں تھیں ان سے یہ بھی مروی ہے کہ علی علم کا معنی ہے (1) اس خیر کی وجہ سیجو میرے پاس تھی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : علی علم کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس علم کی بنا پر جو میری فضیلت کے بارے میں موجود تھا حضرت حسن بصری نے کہا : علی علم کا معنی ہے اس علم کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے کہ مجھے علم تھا کہ جب دنیا مینعطا کیا گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں میرا مقام و مرتبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بلکہ یہ آزمائش ہے یعنی جو نعمتیں تجھے دی گئی ہیں وہ آزمائش ہیں جس کے ساتھ تجھے آزمایا جائے گا۔ فراء نے کہا : یہاں ہی ضمیر مونث زکر کی گئی ہے کیونکہ فتنہ کا لفظ مونث ہے اگر یہ ھو فتنۃ ہوتا تب بھی جائز تھا۔ نحاس نے کہا تقدیر کلام یہ ہے بل اعطیتہ فتنۃ بلکہ اسے جو میں نے عطا کیا ہے وہ آزمائش ہے۔ قدقالھا ھا ضمیر اس لئے ذکر کی کیونکہ کلمہ مونث ہے۔ الذین من قبلھم اس سے مراد کفار ہیں جس طرح قارون وغیرہ جب اس نے یہ کہا تھا : انما اوتیتہ علی علم عندی) القصص (78: فما اغنن عنھم ما کانو یکسبون۔ ما نافیہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ان کی اولاد اور اموال نے کچھ نفع نہ دیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ما استفہامیہ ہے ان کے اموال نے انہيں کس چیز کا نفع دی افاصابھم سیات ما کسبوا یعنی ان کے اعمال کی برائیوں کی جزاء۔ سیئہ کی جزاء کو بھی سیئہ کہتے ہیں والذین ظلموا یعنی جنہوں نے اس امت میں شرک کیا تو انہیں بھوک اور تلوار کی صورت میں اعمال کی سزا ملے گی وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز کرنے والے نہیں نہ یہ اللہ تعالیٰ کو ناپید پائیں گے اور انہ ہی ان کے سابقین نے انہیں نا پیدا پایا۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ اولم یعلموا ان اللہ یبسط الرزق لمن یشاء و تقدر ان فیذلک لا یت لقوم یومنون۔ مومن کا خصوصا ذکر کیا ہے کیونکہ وہی آیات میں تدبر کرتا ہے اور ان سے نفع حاصل کرتا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رزق کی وسعت بعض اوقات خفیہ تدبیر اور استدراج ہوا کرتا ہے اور اس میں کمی رفعت اور عظمت شان ہوا کرتی ہے۔
Top