Al-Qurtubi - Az-Zumar : 69
وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ وَ جِایْٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَاَشْرَقَتِ : اور چمک اٹھے گی الْاَرْضُ : زمین بِنُوْرِ رَبِّهَا : اپنے رب کے نور سے وَوُضِعَ : اور رکھدی جائے گی الْكِتٰبُ : کتاب وَجِايْٓءَ : اور لائے جائیں گے بِالنَّبِيّٖنَ : نبی (جمع) وَالشُّهَدَآءِ : اور گواہ (جمع) وَقُضِيَ : اور فیصلہ کیا جائے گا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَهُمْ : اور وہ ان پر لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیا جائے گا
اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے چمک اٹھے گی اور (اعمال کی) کتاب (کھول کر) رکھ دی جائے گی اور پیغمبر اور گواہ حاضر کئے جائیں گے اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور بےانصافی نہیں کی جائے گی
69 ۔ 72:۔ واشرقت الارض بنور ربھا اس کے اشراق سے مراد اس کا روشن ہونا ہے یہ جملہ کہا جاتا ہے : الشرقت الشمس۔ جس وقت سورج روشن ہوجائے و شرقت الشمس جب وہ طلوع ہوجائے اور بنوربھا کا معنی ہے بعدل ربھا یعنی نور کا معنی عدل ہے (2) یہ حضرت حسن بصری اور دوسرے علماء کا قول ہے۔ ضحاک نے نور معنی حکم کیا ہے ‘ معنی ایک ہی ہے یعنی زمین اللہ تعالیٰ کے عدل اور بندوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کے لئے روشن ہوگی ظلم تاریکیاں ہیں اور عدل نور ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ قیامت کے روز نور پیدا کرے گا جو روئے زمین پر پڑے گا تو اس کی وجہ سے زمین روشن ہوجائے گی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہاں جس نور کا ذکر ہے اس سے مراد سورج اور چاند کا نور نہیں بلکہ ایسا نور ہے جسے اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے گا جس کے ساتھ زمین روشن ہوجائے گی۔ ایک روایت یہ کی گئی ہے : اس روز زمین چاندی کی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے نور کے ساتھ روشن ہوجائے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے لئے جلوہ گر ہوگا اس صورت میں معنی ہو کہ زمین ایسے نور سے روشن ہوگی جسے اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے گا اللہ تعالیٰ نے نور کو اپنی ذات کے ساتھ مضاف کیا ہے جس طرح ملک کو مالک کی طرف مضاف کیا جاتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ ایسا انسان جس میں اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان فرمائے گا کیونکہ وہ ایسا دن ہے جس کی رات نہیں۔ حضرت اب عباس ؓ اور عبید بن عمیر نے اسے یوں پڑھا ہے واشرقت الارض جب کہ فعل مجہول ہے (1) یہ قراءت تفسیر کی بناء پخر ہے یہاں کچھ لوگ گمراہ ہوگئے انہوں نے یہ وہم کیا کہ اللہ تعالیٰ نور کی جنس اور محسوس روشنی ہے جب کہ وہ محسوسات کی مشابہت سے بالا ہے جب کہ وہ آسمانوں اور زمین کو منور کرنے والا ہے خلق و انشاء کے اعتبار سے تمام نور اس کی طرف منسوب ہیں۔ ابو جعفر نحاس نے کہا : اللہ تعالیٰ کا فرمان واشرقت الارض بنور ربھا اس حدیث مرفوع کی وضاحت کرتا ہے جو کثیر صحیح سندوں سے مروی ہے : تنظرون الی اللہ عزوجل لا تضامون فی رویۃ (2) اسے چار انداز سے روایت کیا گیا ہے لا تضامون ‘ لا تضارون ‘ لا تضامون ‘ لا تضارون۔ لا تضامون کا معنی ہے انہیں کوئی ظلم لا حق نہیں ہوگا جس طرح تمہیں دنیا میں لاحق ہوتا تھا جب بادشاہوں کو دیکھا جاتا لا تضارون تمہیں کوئی تکلیف لاحق نہ ہوگی لا تضا مون تم ایک دوسرے کو نہ ملو کے دیکھنے کے لئے اس پوچھو۔ لا تضارون تم میں سے بعض بعض کے مخالف نہ ہونگے یہ جملہ کہا جاتا ہے : ضارہ مضارۃ وضرارا۔ یعنی اس کی مخالفت کی۔ ووضع الکتب حضرب ابن عباس ؓ نے کہا : کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔ قتادہ نے کہا : اس سے مراد کتاب اور وہ صحیفے ہیں جن میں انسانوں کے اعمال ہوتے ہیں انسان اسے اپنے دائیں ہاتھ پکڑے ہوتا ہے یا بائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہوتا ہے و جای بالنبین انبیاء کو لا یا جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ ان کی امتوں نے انہیں کیا جواب دیا والشھداء اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی امت میں سے دوسری امتوں پر گواہی دیں گے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وکذلک جعلنکم و امۃ و سطا لتکونو اشھداء علی الناس) البقرہ : (143 ایک قول یہ کیا گیا ہے : شہدا سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوئے وہ قیامت کے روز گواہی دیں گے کہ کس نے دین کا دفاع کیا ‘ یہ سدی کا قول ہے۔ ابن زید نے کہا : وہ کراما کاتبین ہیں جو لوگوں کے اعمال کے بارے میں گواہی دیں گے . اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” وجاءت کل نفس معھا سائق و شھید۔ “ ( ق) سائق اسے حساب کی طرف ہانک کرلے جائے گا اور شہید اس پر گواہی دے گا اس سے مراد وہ فرشتہ ہے جو انسان پر مقرر ہے جس کی وضاحت سورة قاف میں آئیگی و قضی بینھم بالحق حق سے مراد سچائی اور عدل ہے وھم لا یظلمون۔ حضرت سعید بن جبیر نے کہا : ان کی نیکیوں میں سے کوئی کمی نہ کی جائے گی اور ان کی برائیوں پر اضافہ نہ کیا جائے گا ما عملت سے مراد خیر یا شر ہے وھو اعلم بما یفعلون۔ یعنی وہ دنیا میں جو کچھ کرتے رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں خوب جانتا ہے اسے کسی کتاب اور شاہد کی کوئی ضرورت نہیں اس کے باوجود اتمام حجت کے لیے کتابیں اور گواہ حاضر کیے جائیں گے۔ 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 4 صفحہ 542 2 ؎۔ صحیح بحاری، کتاب التوحید وجوہ یو مئذ، جلد 2، صفحہ 1106
Top