Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا
: اور جب
ضَرَبْتُمْ
: تم سفر کرو
فِي الْاَرْضِ
: ملک میں
فَلَيْسَ
: پس نہیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
جُنَاحٌ
: کوئی گناہ
اَنْ
: کہ
تَقْصُرُوْا
: قصر کرو
مِنَ
: سے
الصَّلٰوةِ
: نماز
اِنْ
: اگر
خِفْتُمْ
: تم کو ڈر ہو
اَنْ
: کہ
يَّفْتِنَكُمُ
: تمہیں ستائیں گے
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر)
اِنَّ
: بیشک
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
كَانُوْا
: ہیں
لَكُمْ
: تمہارے
عَدُوًّا مُّبِيْنًا
: دشمن کھلے
اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے بیشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں
آیت نمبر :
101
۔ اس آیت میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ضربتم “ تم سفر کرو، یہ پہلے گزر چکا ہے، سفر میں قصر کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے، ایک جماعت سے مروی ہے کہ قصر کرنا فرض ہے۔ یہ عمر بن عبدالعزیز، کوفی علماء، قاضی اسماعیل، حماد بن ابی سلیمان کا مسلک ہے انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کی حدیث : فرضت الصلاۃ رکعتین رکعتین (
3
) (صحیح بخاری، تقصیر الصلوۃ جلد
1
صفحہ
148
) (نماز دو دو رکعت فرض کی گئی۔ ) سے حجت پکڑی ہے اس میں اس کے مخالف کے لیے حجت نہیں، کیونکہ حضرت عائشہ ؓ خود سفر میں نماز مکمل پڑھتی تھیں ان کا یہ عمل اس حجت کو کمزور کردیتا ہے، فقہاء امصار کا اس پر اجماع ہے کہ یہ ایسی اصل نہیں کہ مقیم کے پیچھے مسافر کے نماز کا اعتبار کیا جائے۔ حضرت عائشہ ؓ کے علاوہ صحابہ جیسے حضرت عمر ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت جبیر بن مطعم ؓ نے روایت کیا ہے کہ ان الصلوۃ فرضت فی الحضرا ربعا وفی السفر رکعتین وفی الخوف رکعۃ “۔ (
4
) (صحیح مسلم، صلوۃ المسافرین وقصرھا، جلد
1
، صفحہ
241
) (یعنی نماز حضر میں چار رکعت، سفر میں دو رکعت اور خوف میں ایک رکعت فرض کی گئی) اس حدیث کو مسلم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ پھر حضرت عائشہ ؓ کی حدیث جسے ابن عجلان نے صالح بن کیسان سے انہوں نے عروہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے نماز دو دو رکعت فرض کی، اوزاعی نے ابن شہاب سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر دو دو رکعت نماز فرض کی “ (الحدیث) یہ اضطراب ہے۔ پھر حضرت عائشہ ؓ کا قول فرضت الصلوۃ “۔ اپنے ظاہر پر نہیں ہے اس سے نماز مغرب اور صبح خارج ہیں، کیونکہ مغرب میں کمی بیشی نہیں کی جاتی اسی طرح صبح میں بھی، یہ تمام اس حدیث کے متن کو ضعیف کرتا ہے نہ کہ اس کی سند کو، ابن الجہم نے حکایت کیا ہے کہ کہ اشہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ قصر کرنا فرض ہے، اور امام مالک (رح) کا مشہور مذہب اور ان کے عظیم ساتھیوں اور اکثر علماء خلف وسلف کا مذہب یہ ہے کہ قصر کرنا سنت ہے، یہی امام شافعی (رح) کا قول ہے۔ اور یہی صحیح ہے اس کا بیان آگے آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مالکیوں میں سے عام بغدادی علماء کا مذہب یہ کہ فرض اختیار ہے، یہ امام شافعی (رح) کے اصحاب کا قول ہے پھر اختلاف ہے کہ کون سی صورت افضل ہے ؟ بعض نے فرمایا : قصر کرنا افضل ہے، یہ ابہری وغیرہ کا قول ہے۔ بعض نے فرمایا : مکمل پڑھنا افضل ہے، یہ امام شافعی (رح) سے حکایت کیا گیا ہے ابو سعید الفروی المالکی نے حکایت کیا ہے کہ امام مالک مذہب میں صحیح اتمام اور قصر میں مسافر کے لیے تخییر ہے۔ میں کہتا ہوں : یہی حکم اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ “۔ سے ظاہر ہوتا ہے، مگر امام مالکرحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قصر کرنا مستحب ہے، اسی طرح وقت کے اندر نماز کے اعادہ کا نظریہ رکھتے ہیں اگر مکمل پڑھ لی ہو۔ ابو مصعب نے اپنی ” مختصر “ میں امام مالک اور اہل مدینہ سے حکایت کیا ہے فرمایا : سفر میں مردوں اور عورتوں کے لیے قصر کرنا سنت ہے، ابو عمر ؓ نے کہا : تیرے لیے مذہب مالک میں یہی کافی ہے اور اس میں ان کا قول مختلف نہیں کہ جو سفر میں مکمل نماز پڑھ لے تو جب تک وقت موجود ہے اس نماز کا اعادہ کرلے، سمجھداروں کے نزدیک یہ استحبات ہے، ایجاب نہیں، امام شافعی (رح) نے فرمایا : خوف کے علاوہ بھی قصر کرنا سنت ہے، رہا سفر کے ساتھ خوف میں تو قرآن وسنت میں قصر کرنا ثابت ہے جس نے چار رکعتیں پڑھ لیں اس پر کچھ نہیں ہے میں کسی کے لیے پسند نہیں کرتا کہ وہ سنت کو چھوڑ کر سفر میں مکمل نماز پڑھے، ابوبکر اثرم نے کہا : میں نے امام احمد بن حنبل (رح) سے پوچھا : آدمی سفر میں چار رکعتیں پڑھ سکتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا نہیں مجھے یہ پسند نہیں سنت دو رکعتیں ہیں، موطا امام مالک (رح) میں ابن شہاب سے، انہوں نے آل خالد بن اسید کے ایک شخص سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے پوچھا : اے ابا عبدالرحمن ! ہم صلاۃ خوف اور صلاۃ حضر کا ذکر تو قرآن میں پاتے ہیں لیکن سفر کی نماز کا ذکر نہیں پاتے، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا : اے میرے بھتیجے ! اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا : جبکہ ہم کچھ نہیں جانتے تھے، ہم اسی طرح کرتے ہیں جس طرح ہم نے آپ کو کرتے دیکھا (
1
) (صحیح ابن حبان، کتاب الصلوۃ، جلد
4
، صفحہ
301
) حدیث پاک میں بغیر خوف کے سفر میں نماز قصر کرنے کا ذکر ہے یہ سنت ہے ؟ ؛ فرض نہیں ہے، کیونکہ اس کا قرآن میں ذکر نہیں ہے، قرآن میں مذکور قصر کا ذکر اس صورت میں ہے جب وہ سفر میں ہو، خوف میں دونوں صورتوں جمع ہوں، کتاب اللہ میں صرف ان دونوں شرطوں کے ساتھ قصر مباح ہے اور اس کی مثل قرآن میں ہے (آیت) ” ومن لم یستطع منکم طولا ان ینکح “۔ الایۃ یہ پہلے گزر چکی ہے پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فاذا اطماننتم فاقیمو الصلوۃ “۔ یعنی جب تمہیں اطمینان حاصل ہو تو نماز کو مکمل کرو، رسول اللہ ﷺ نے چار رکعتوں والی نماز سے دو رکعتیں ادا فرمائیں مگر مغرب کی نماز مکمل پڑھتے تھے، تمام اسفار میں آپ قصر کرتے تھے جب کہ آپ امن میں ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوتا تھا، یہ نبی مکرم ﷺ کی مسنون سنت ہے اور یہ اللہ کے احکام میں زیادتی ہے جس طرح کہ آپ نے تمام وہ چیزیں جن میں سنت قائم فرمائی اور انہیں بیان فرمایا جن کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا قول کما رئیناہ یفعل (ہم نے آپ کو جیسے کرتے دیکھا) اور اس کے ساتھ حضرت عمر ؓ کی حدیث جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بغیر خوف کے سفر میں قصر کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تلک صدقۃ تصدق اللہ علیکم فاقبلوا صدقتۃ (
1
) (صحیح صلوۃ المسافرین، وقصرھا جلد
1
، صفحہ
241
) یہ صدقہ ہے جو اللہ نے تم پر کیا ہے تم اس کو قبول کرو، یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایک چیز کو شرط کے ساتھ مباح فرماتا ہے پھر اسی چیز کو اپنے نبی مکرم ﷺ کی زبان پر بغیر شرط کے مباح فرماتا ہے، حضرت حنظلہ بن عمر ؓ سے سفر کی نماز کے بارے پوچھا تو فرمایا : دو رکعتیں ہیں، میں نے کہا : (آیت) ” ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا “ میں تو خوف کا ذکر ہے، جب کہ وہ تو امن میں ہیں ؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا : ان دونوں حضرات کا مذہب، مسلک کیا ہے ؟ ابوعمر ؓ نے کہا : امام مالک (رح) نے اس حدیث کی اسناد ذکر نہیں کی، کیونکہ انہوں نے اس شخص کا نام ذکر نہیں کیا جس نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے سوال کیا تھا، سند میں ایک شخص کو ساقط کردیا، اور وہ شخص جس کا ذکر نہیں کیا وہ امیۃ بن عبداللہ بن خالد بن اسید بن ابی العیص بن امیۃ بن عبدالشمس بن عبدالمناف تھا۔ مسئلہ نمبر : (
2
) مسافت کی حد میں اختلاف ہے جس میں نماز قصر کی جاتی ہے۔ داؤد نے کہا : ہر سفر میں نماز قصر کی جائے گی خواہ وہ لمبا ہو یا مختصر اگرچہ وہ تین میل ہو جہاں سے لوگ جمعہ پڑھنے کے لیے آتے ہیں، انہوں نے دلیل مسلم کی حدیث سے پکڑی جو انہوں نے یحییٰ بن یزید الہنائی سے روایت کی ہے۔ فرمایا میں نے حضرت انس بن مالک (رح) سے نماز کی قصر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کے سفر پر نکلتے تو دو رکعتیں نماز ادا فرماتے (
2
) (صحیح صلوۃ المسافرین، وقصرھا جلد
1
، صفحہ
241
) تین میل اور فرسخ میں شعبہ کو شک ہے، اس میں حجت نہیں، کیونکہ اس میں شک ہے ایک تقدیر پر شاید مسافت کی حدہو جس سے قصر کا آغاز ہو اور سفر اس سے زائد طویل ہو۔ واللہ اعلم۔ ابن عربی (رح) نے کہا : ایک قوم نے دین کے ساتھ استہزا کیا، انہوں نے کہا : جو شخص اپنے شہر سے باہر نکلے وہ قصر کرے اور افطار کرے۔ اس کا قائل ایک عجمی ہے جو عربوں کے نزدیک سفر کی جو تعریف ہے اسے جانتا ہی نہیں یا دین کی تحقیر کرنے والا ہے۔ اگر علماء نے یہ ذکر نہ کیا ہوتا تو میں راضی نہ ہوتا کہ میں اسے ایک نظر کو دیکھا اور میں اپنے دل کے فضول کے ساتھ اس میں غور ہی نہ کرتا (
3
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
1
، صفحہ
488
) اس سفر کی حد جس سے قصر واقع ہوئی ہے اس ذکر نہ قرآن میں ہے اور نہ سنت میں ہے، معاملہ اس طرح ہے، کیونکہ یہ لفظ عربی ہے اس کا علم ان عربوں کے نزدیک ثابت ہے جن کو اللہ نے قرآن کے ساتھ مخاطب فرمایا اور ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ جو کسی کام کے لیے شہر سے نکلتا ہے تو وہ نہ لغۃ مسافر ہوتا ہے اور نہ شرعا، اگر وہ تین دن سفر کرے تو وہ قطعا مسافر ہوتا ہے جس طرح کہ ہم حکم لگاتے ہیں کہ جو ایک دن اور رات سفر کرے تو وہ بھی مسافر ہوتا ہے، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے والی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ ایک دن کی مسافت کا سفر کرے مگر اپنے محرم کے ساتھ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الحج، جلد
1
صفحہ
433
) یہ صحیح ہے یہ دونوں حالتوں کے درمیان متوسط حالت ہے، امام مالک (رح) کا اعتماد اسی پر ہے لیکن یہ حدیث متفق علیہ نہیں ” کبھی ایک دن اور رات “ کو روایت کیا اور کبھی ” تین دن “ (
2
) (صحیح بخاری، تقصیر الصلوۃ جلد
1
صفحہ
147
، ایضا حدیث نمبر
1026
، ضاء القرآن پبلی کیشنز) روایت کیا۔ پھر وہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی طرف آئے اور ان کے فعل پر اعتماد کیا، وہ مدینہ طیبہ کی رئم وادی تک نماز قصر کرتے تھے یہ چار برد کے فاصلہ پر ہے، کیونکہ حضرت ابن عمر نبی کریم ﷺ کی بہت شدت سے اقتدا کرنے والے تھے، دوسرے علماء نے کہا : اکثر علماء کا نظریہ یہ ہے کہ قصر تخفیف کے لیے مشروع کی گئی ہے، لمبے سفر میں ہی غالبا مشقت لاحق ہوتی ہے۔ امام مالک (رح)، امام شافعی (رح)، ان کے اصحاب، لیث، اوزاعی، فقہاء اصحاب حدیث رحمۃ اللہ علیہم امام اھم مکمل ایک دن کا اعتبار کرتے ہیں۔ امام مالک کا قول یوم دلیلۃ پورے ایک دن کی طرف راجع ہے، کیونکہ انہوں نے مسیرۃ یوم دلیلۃ پورا دن اور پوری رات چلنا مراد نہیں لیا، انہوں نے ایسا سفر مراد لیا ہے جس میں وہ اپنے اہل سے دور ہے اور ان کی طرف لوٹنا ممکن نہیں ہے، بخاری میں ہے حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ چار برد کی مسافت میں افطار کرتے تھے اور قصر کرتے تھے۔ چار برد سے مراد سولہ فرسخ ہے، یہ امام مالک (رح) کا مذہب ہے، امام شافعی (رح) اور طبری (رح) نے کہا : یہ چھیالیس میل ہے۔ (
3
) (معالم التنزیل، جلد
2
، صفحہ
142
) امام مالک (رح) سے عتبیۃ میں اس شخص کے بارے میں مروی ہے جو اپنی زمین کی طرف پینتالیس میل کے فاصلہ پر نکلا تو وہ قصر کرے، یہ امتقارب امر ہے، امام مالک (رح) سے کتب منثورہ میں مروی ہے کہ وہ چھتیس میل کی مسافت میں قصر کرے، یہ ایک دن اور ایک رات کے قریب ہے، یحییٰ بن عمر (رح) نے کہا : ہمیشہ اعادہ کرے، ابن الحکم نے کہا : وقت میں اعادہ کرے (اگر نماز مکمل پڑھ لی ہے) کو فیوں نے کہا : تین دن کی مسافت سے کم میں قصر نہ کرے، یہ حضرت عثمان ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت حذیفہ ؓ کا قول ہے صحیح بخاری حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ” عورت تین دن سفر نہ کرے مگر اپنے محرم کے ساتھ “ (
4
) (صحیح بخاری تقصیر الصلوۃ جلد
1
، صفحہ
147
) امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : تین دن کی مسافت اونٹ کی چال کے ساتھ یا پیدل چلنے کے ساتھ (قصرکا باعث ہے) حسن اور زہری (رح) نے کہا : دو دن کی مسافت میں نماز قصر کرے، یہ قول امام مالک (رح) سے مروی ہے، حضرت ابو سعید خدری ؓ نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :” عورت دو دن کی مسافت کا سفر نہ کرے مگر اپنے خاوند کے ساتھ یا ذی محرم کے ساتھ “۔ حضرت ابن عمر ؓ نے تیس میل کی مسافت میں قصر کی، حضرت انس ؓ نے پندرہ میل میں قصر کی، اوزاعی نے کہا : عام علماء قصر میں ایک مکمل دن کا اعتبار کرتے ہیں، ہم بھی اسی قول کو لیتے ہیں، ابو عمر ؓ نے کہا : اس باب میں مرفوع آثار میں اضطراب ہے جیسا کہ تو نے ان کے الفاظ میں ملاحظہ کیا، میرے نزدیک اس کا محمل یہ ہے کہ یہ مختلف سائلین کے جواب میں وارد ہوئے، پس جس صحابی نے جو سنا اسے بیان کیا گویا کبھی رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا : کیا عورت ایک دن بغیر محرم کے سفر کرسکتی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، پھر کبھی پوچھا گیا : کیا عورت بغیر محرم کے دو دنوں کا سفر کرسکتی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں۔ پھر کسی نے پوچھا : تین دن کی مسافت کا سفر بغیر محرم کے کرسکتی ہے ؟ فرمایا : نہیں، اسی طرح رات اور برید کا مطلب ہے جو روایت کیا گیا ہے ہر ایک نے وہ ادا کیا جو اس نے سنا۔ واللہ اعلم۔ اسی باب میں آثار کے معانی کو جمع کیا جاسکتا ہے اگرچہ ان کا ظاہر مختلف ہے، عورت کو بغیر محرم کے ایسا سفر کرنا ممنوع ہے جس میں فتنہ کا خوف ہو خواہ سفر تھوڑا ہو یا زیادہ ہو۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
3
) سفر کی نوعیت میں اختلاف ہے جس میں نماز قصر کی جاتی ہے، علماء کا جہاد حج، عمرہ اور ان کے مشابہ سفر مثلا صلہ رحمی، احیاء نفس وغیرہ کے سفر میں قصر کرنے پر اجماع ہے، اس کے علاوہ سفر میں قصر کرنے پر اختلاف ہے، جمہور علماء مباح سفر میں قصر کے جواز کے قائل ہیں جیسے تجارت وغیرہ، حضرت ابن مسعود سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : سوائے حج یا جہاد کے نماز قصر نہ کرے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
103
دارالکتب العلمیہ) عطا نے کہا : قصر نہ کرے مگر سفر طاعت میں اور کسی خیر کے راستہ میں، عطا سے یہ بھی مروی ہے کہ ہر سفر مباح میں قصر کرے جس طرح کہ جمہور کا قول ہے۔ علماء سے یہ بھی مروی ہے کہ ہر سفر مبارح میں قصر کرے جس طرح کہ جمہور کا قول ہے، امام مالک (رح) نے کہا : اگر شکار کے لیے نکلا معاش کیے لیے نہیں بلکہ تنزہ کے طور پر یا کسی شہر کی سیر کے لیے نکلا تو قصر نہ کرے، جمہور علماء نے کہا : معصیت کے سفر میں قصر نہیں جیسے باغی، ڈاکو وغیرہ۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور اوزاعی (رح) سے ہر سفر میں قصر کرنا مباح مروی ہے۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
103
دارالکتب العلمیہ) یہ سورة بقرہ میں پہلے گزر چکا ہے، امام احمد سے مختلف قول مروی ہیں کبھی تو انہوں نے جمہور کے قول کے مطابق کہا اور کبھی فرمایا : صرف حج یا عمرہ کے سفر میں قصر کرے، صحیح وہ ہے جو جمہور نے کہا، کیونکہ قصر مسافر سے ان مشقات کی تخفیف کے لیے مشروع کی گئی ہیی جو انسان کو سفر میں لاحق ہوتی ہیں اور ان امور پر معاونت کے لیے جو اسے درپیش ہوتے ہی جو امور جائز ہوتے ہیں اور اس میں ہر سفر برابر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ “۔ یعنی جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر کرو، پس یہ عام ہے اور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” اللہ کے بندوں میں سے بہتر وہ ہیں جو جب سفر کرتے ہیں تو قصر کرتے ہیں اور افطار کرتے ہیں “۔ امام شعبی (رح) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اس کی رخصت پر عمل کیا جائے جس طرح وہ پسند کرتا ہے کہ اس کے عزائم (فرائض وواجبات) پر عمل کیا جائے، رہا سفر معصیت سو اس میں قصر جائز نہیں۔ کیونکہ یہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی معصیت پر مدد ہوگی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (آیت) ” وتعاونوا علی البر والتقوی، ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان “۔ (المائدہ :
2
) نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی معاونت کرو اور گناہ اور عدوان پر معاونت نہ کرو۔ مسئلہ نمبر : (
4
) عطاء کا اختلاف ہے کہ کب قصر کرے ؟ جمہور کا نظریہ ہے کہ مسافر قصر نہ کرے حتی کہ اپنے دیہات وشہر کے گھروں سے نکل جائے، اس وقت وہ سفر کرنے والا ہوگا، ” المدونہ “ میں امام مالک (رح) کا قول یہی ذکر ہے۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
103
دارالکتب العلمیہ) امام مالک (رح) نے قرب میں کوئی حد بیان نہیں فرمائی، امام مالک (رح) سے مروی ہے جب شہر کے لوگ اکھٹے رہتے ہوں تو وہ اپنے گھروں والوں کو نماز قصر نہ پڑھائے حتی کہ اپنے شہر سے تین میل تجاوز کر جائے یہی حکم لوٹنے کا بھی ہے، اگر اس کے اہل اکٹھے نہ رہتے ہوں تو وہ قصر کریں جب اس شہر کے باغوں سے تجاوز کر جائیں گے حارث بن ابی ربیعہ سے مروی ہے کہ جب وہ سفر کا ارادہ کرتے تو اپنے گھر میں اپنے گھر والوں کو دو رکعتیں پڑھاتے، ان میں اسود بن یزید اور دوسرے حضرت ابن مسعود ؓ کے شاگرد بھی تھے۔ عطا بن ابی مدباح اور سلیمان بن موسیٰ کا بھی یہی قول ہے۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
103
دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : (آیت) ” واذا ضربتم فی الارض “۔ کا معنی اس بناء پر یہ ہوگا کہ جب تم زمین میں سفر کرنے کا ارادہ کرلو واللہ اعلم۔ مجاہد (رح) سے مروی ہے فرمایا : پہلے دن رات تک نماز قصر نہ کرے، یہ شاذ قول ہے۔ (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
103
دارالکتب العلمیہ) حضرت انس بن مالک ؓ کی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور عصر کی ذی الحلیفہ میں دو رکعتیں پڑھیں (
4
) (صحیح بخاری، کتاب الحج جلد
1
، صفحہ
209
، ایضا، حدیث نمبر
1446
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس حدیث کو ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے، ذی الحلیفہ اور مدینہ طیبہ کے درمیان چھ یا سات میل کا فاصلہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) مسافر پر لازم ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کے وقت قصر کی نیت کرے۔ اگر قصر کی نیت سے نماز شروع کی پھر نماز کے درمیان قیام کا ارادہ کرلیا تو اپنی نماز کو نفل بنا دے، اگر ایک رکعت پڑھنے کے بعد نیت بدل گئی تو دوسری رکعت ساتھ ملا لے اور سلام پھیر دے پھر مقیم والی نماز ادا کرے، ابہری اور ابن الجلاب نے کہا : یہ مستحب ہے، واللہ اعلم۔ اگر اس نے اپنی نماز پر بناء کرلی اور نماز کو مکمل پڑھ لیا تو نماز جائز ہوجائے گی، ابو عمر نے کہا : میرے نزدیک اسی طرح ہے جس طرح ابہری اور ابن الجلاب نے کہا : کیونکہ یہ ظہر کی نماز ہے خواہ سفری ہو یا حضری ہو، اسی طرح پانچوں نمازوں کا حکم ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) علماء کا اس مدت میں اختلاف ہے جس کی مسافر نیت کرے تو نماز کو مکمل پڑھے گا، امام مالک، شافعی، لیث بن سعد، طبری، اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم نے کہا : جب چار دن اقامت کی نیت کرلیے تو نماز مکمل کرے، اور سعید بن مسیب ؓ سے یہی مروی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب اور ثوری (رح) نے کہا : جب پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز مکمل پڑھے، اگر اس سے کم دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو قصر کرے، یہ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے امام طحاوی (رح) نے ذکر کیا ہے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے کوئی ان کا مخالف نہیں، سعید سے یہ بھی مروی ہے امام احمد (رح) نے کہا : جب مسافر نے اکیس نمازیں ایک جگہ پڑھنی ہوں تو قصر کرے، اگر اس سے زائد بنتی ہوں تو مکمل کرے، داؤد کا بھی یہی قول ہے۔ صحیح وہ ہے جو امام مالک (رح) نے کہا : کیونکہ ابن حضرمی کی حدیث جو نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے مہاجر کے لیے مکہ میں حج، عمرہ ادا کرنے کے بعد تین دن ٹھہرنا جائز قرار دیا ہے، پھر وہ واپس آجائے اس حدیث کو امام طحاوی اور ابن ماجہ وغیرہما نے روایت کیا ہے۔ چونکہ حج فتح مکہ سے پہلے فرض تھا اور مکہ میں ٹھہرنا جائز نہیں تھا، نبی مکرم ﷺ نے مہاجر کے لیے تین دن متعین فرمائے تاکہ وہ اپنی حوائج کو پورا کرے اور سفر کے اسباب تیار کرلیے، آپ نے ٹھہرنے کا حکم بیان نہیں کیا اور نہ اقامت کی جگہ کا حکم لگایا اس پر اس میں مسافر کا حکم باقی رکھا اور چوتھے دن ٹھہرنے سے منع فرمایا اور اس کے لیے ٹھہرنے والے پر مقیم کا حکم لگایا یہ ایک اصل ہے جس پر اعتماد کیا گیا ہے، اسی طرح حضرت عمر ؓ نے کہا : جب رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق یہود کو جلا وطن کیا تھا ان کے لیے تین دن متعین فرمائے تاکہ اپنے امور سمیٹ لیں، ابن عربی (رح) نے کہا : میں نے بعض مالکی علماء کو سنا کہ تین دن اقامت کے حکم سے خارج ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ جن پر عذاب نازل کرنا تھا اور جن کا دنیا سے خروج یقینی تھا ان میں تین دن تاخیر فرمائی اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” تمتعوا فی دارکم ثلثلۃ ایام ذلک وعد غیر مکذوب “۔ (ہود) اس مسئلہ میں اور بھی کئی اقوال ہیں وہ یہ کہ مسافر ہمیشہ قصر کرتا رہے حتی کہ اپنے وطن واپس آجائے اور اپنے شہر میں اتر جائے، حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ وہ دو سال نیشا پور میں ٹھہرے رہے اور نماز قصر کرتے رہے۔ یہ ابو مجلز نے کہا میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہا : میں مدینہ طیبہ آتا ہوں اور وہاں سات آٹھ مہینے اپنی حاجت طلب کرنے کے لیے قیام کرتا ہوں (میں نے نماز میں کیا کرو) حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : دو رکعت نماز پڑھ، ابو اسحاق سبیعی نے کہا : ہم سجستان میں ٹھہرے ہمارے ساتھ حضرت ابن مسعود ؓ کے شاگرد بھی تھے ہم دو سال ٹھہرے رہے اور ہم دو رکعتیں پڑھتے رہے، حضرت ابن عمر ؓ آذربائیجان میں قیام کے وقت دو دو رکعتیں پڑھتے رہے، برف ان کی واپسی میں حائل ہوگئی تھی، ابو عمر ؓ نے کہا : ہمارے نزدیک ان احادیث کا محل یہ ہے کہ اس مدت میں ان مقیم لوگوں میں سے کسی کی قیام کی نیت نہیں تھی، وہ اس طرح کہتے تھے : آج چلا جاؤں گا کل چلا جاؤں گا جب مسئلہ اس طرح ہو تو وہاں اقامت کی پختہ نیت نہیں ہوگی۔ مسئلہ نمبر : (
7
) مسلم نے، عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے نماز کو دو رکعت فرض کیا جب اس کو فرض کیا پھر حضر میں اسے مکمل فرمایا اور سفر کی نماز پہلے فریضہ پر قائم رکھی تھی (
1
) (صحیح مسلم صلوۃ المسافرین وقصرھا، جلد
1
، صفحہ
241
) زہری نے کہا : میں نے عروہ سے کہا : حضرت عائشہ ؓ سفر میں نماز مکمل کیوں پڑھتی تھیں ؟ انہوں نے کہا : وہ وہی تاویل کرتی تھیں جو حضرت عثمان ؓ کرتے تھے اور یہ جواب مکمل نہیں، حضرت عثمان ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کی نماز مکمل پڑھنے کی تاویل میں علماء کے مختلف اقوال ہیں معمر نے زہری (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمان ؓ منی میں چار رکعت نماز پڑھتے تھے، کیونکہ آپ نے حج کے بعد اقامت کی نیت کرلی تھی اور مغیرہ نیی ابراہیم سے روایت فرمایا ہے کہ حضرت عثمان نے چار رکعت پڑھی، کیونکہ آپ نے اس جگہ کو اپنا وطن بنا لیا تھا۔ یونس نے زہری (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے طائف میں مال لیا تھا اور وہاں قیام کا ارادہ کیا تھا اس لیے چار رکعت پڑھتے تھے پھر ان کے بعد ائمہ نے اس عمل کو اپنایا، ایوب نے زہری (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان نے بدوؤں کی وجہ سے نماز کو مکمل فرمایا، کیونکہ اس سال ان کی کثرت تھی تو آپ نے چار رکعتیں پڑھائیں تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ نماز کی چار رکعتیں ہیں، ابو داؤد نے اپنی مصنف میں ” کتاب المناسک “ میں باب الصلوۃ بمعنی میں یہ تمام اقوال ذکر کیے ہیں۔ ابو عمر ؓ نے ” التمہید “ میں ذکر کیے ہیں، ابن جریج نے کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت عثمان نے منی میں چار رکعتیں مکمل پڑھیں اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک اعرابی نے مسجد الخیف میں بلند آواز سے کہا : امیر المومنین ! میں نے پہلے سال سے جب آپ کو دو رکعتیں پڑھتے دیکھا تو میں اس وقت سے دو رکعت نماز پڑھتا ہوں، حضرت عثمان ؓ کو اندیشہ ہوا کہ جہال نماز کو دو رکعت گمان نہ کریں گے، ابن جریج (رح) نے کہا : حضرت عثمان ؓ نے صرف منی میں چار رکعتیں پڑھی تھیں، ابو عمر ؓ نے کہا : حضرت عائشہ ؓ کے مکمل نماز پڑھنے کی تاویلات کے بارے میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں جو ان سے روایت کی گئی ہو۔ یہ سب ظنوں اور تاویلات ہیں جن کے ساتھ کوئی دلیل نہیں ہے، اور سب سے کمزور ترین بات یہ ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے تمام لوگ آپ کے بیٹے تھے اور ان کے مکانات آپ کے مکانات تھے، (یہ اس لیے درست نہیں) حضرت عائشہ ؓ مومنین کی ماں اس لیے بنی تھی کہ وہ نبی مکرم ﷺ کی زوجہ تھیں، جو مومنین کے باپ تھے۔ آپ ﷺ نے اپنے تمام سفروں میں حج اور عمرہ میں اور غزوات میں قصر کی سنت قائم فرمائی۔ حضرت ابی بن کعب کی قرات میں اور ان کے مصحف میں (آیت) ” النبی اولی بالمؤمنین من انفسھم وازواجہ امھتھم “۔ وھو اب لھم ہے۔ مجاہد : نے (آیت) ” ھؤلآء بناتی ھن اطھرلکم “۔ (ہود :
78
) کے تحت فرمایا : وہ آپ کی بیٹیاں نہ تھیں بلکہ وہ آپ کی امت کی بیٹیاں تھیں، ہر نبی اپنی امت کا باپ ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں : اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ شریعت کو بیان فرمانے والے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ ایسی نہیں تھیں پس ان دونوں کا حکم جدا ہوا، اور اس سے بھی کمزور ترین قول یہ ہے کہ جہاں آپ نے نماز مکمل کی تھی وہاں آپ کا سفر جائز نہ تھا، یہ قطعا باطل ہے، کیونکہ حضرت عائشہ ؓ اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ خوف رکھتیں تھیں اور بہت زیادہ پرہیز کرنے والی تھی ایسے سفر سے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہ تھا، یہ تاویل شیعہ بدعتی گروہ کے جھوٹوں میں سے ہے اور ان کی تشنیعات میں سے ہے (آیت) ” سبحانک ھذا بھتان عظیم “۔ آپ اجتہاد کرتے ہوئے اور ثواب کی امید سے نکلی تھیں آپ فتنہ کی آگ کو بجھانا چاہتی تھیں، کیونکہ آپ زیادہ حق دار تھیں کہ آپ کا حیا کیا جائے اور امور ضبط کے ساتھ انجام پذیر ہوں۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔ بعض لوگوں نے کہا : آپ نے نماز مکمل کی، کیونکہ آپ صرف حج، عمرہ، اور جنگ میں قصر کا نظریہ رکھتی تھی، یہ بھی باطل ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ سے یہ منقول نہیں ہے اور نہ آپ کے مسلک سے یہ جانا گیا ہے پھر آپ نے اپنے سفر میں نماز کو مکمل فرمایا جب آپ حضرت علی ؓ کی طرف چلی تھیں، سب سے بہتر قول جو آپ کی نماز کی تکمیل میں کہا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی رخصت کو لیا تاکہ لوگوں کو دکھائیں کہ نماز کو مکمل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ قصر افضل ہے۔ عطا نے فرمایا قصر سنت اور رخصت ہے، اور حضرت عائشہ ؓ سے روایت کرنے والے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روازہ بھی رکھا اور افطار بھی کیا، نماز مکمل بھی کی اور قصر بھی کی، اس حدیث کو حضرت طلحہ بن عمر ؓ نے روایت کیا اور ان سے مروی ہے کہ نبی مکرم ﷺ یہ سب کرتے تھے روزہ بھی رکھتے تھے اور افطار بھی کرتے تھے، نماز میں قصر بھی کرتے تھے اور مکمل بھی پڑھتے تھے۔ نسائی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے مدینہ طیبہ سے مکہ کی طرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عمرہ کیا حتی کہ جب مکہ پہنچیں تو عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ نے نماز قصر کی اور میں نے مکمل کی، آپ نے افطار کیا اور میں نے روزہ رکھا، آپ ﷺ نے فرمایا : ” اے عائشہ ! تو نے اچھا کیا “۔ (
1
) (تفسیر الکشاف، جلد
1
، صفحہ
558
) آپ ﷺ نے مجھ پر کوئی اعتراض نہ کیا، اسی طرح قصرت، تا مفتوحہ کے ساتھ اور اتممت یا مضمومہ کے ساتھ مقید ہے، اسی طرح افطرت اور صمت میں ہے دارقطنی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ سفر میں قصر کرتے تھے اور نماز مکمل بھی پڑھتے تھے، افطار بھی کرتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے اس کی سند صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر : (
8
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان تقصروا من الصلوۃ “۔ ان محل نصب میں ہے یعنی فی انتقصروا، ابو عبید نے کہا : اس میں تین لغات ہیں قصرت الصلوۃ، قصر تھا واقصر تھا، علماء کا اس کی تاویل میں اختلاف ہے، ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ چار رکعتوں والی نماز میں دو رکعتیں قصر ہوں گی خوف میں اور اس کے علاوہ سفر میں بھی، کیونکہ حدیث حضرت عیلی بن امیہ سے یہی ثابت ہوتا ہے اس کا ذکر آگے آئے گا۔ دوسرے علماء فرماتے ہیں : دو رکعتوں والی نماز میں ایک رکعت قصر ہوگی اور سفر میں دو رکعتیں مکمل نماز ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے کہا تھا، یہ تمام ہے قصر نہیں ہے اور اس کا قصر ایک رکعت ہونا ہے۔ سدی نے کہا : جب تو سفر میں دو رکعت پڑھے تو وہ مکمل ہے اور قصر جائز نہیں مگر جب کہ تجھے خوف ہو، یہ آیت مباح کرنے والی ہے کہ ہر طائفہ ایک رکعت پڑھے اور اس پر زائد کچھ نہ پڑھے، اور امام کے لیے دو رکعتیں ہوجائیں گی (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
104
دارالکتب العلمیہ) حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اور حضرت کعب ؓ سے اسی طرح مروی ہے، حضرت حذیفہ نے طبرستان میں ایسا ہی کیا تھا جب کہ امیر حضرت سعید بن العاص سے اس کے متعلق ان سے پوچھا تھا، حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے غزوہ ذی قرد میں اسی طرح ہر طائفہ کو ایک رکعت پڑھائی تھی اور انہوں نے مکمل نہیں کی تھی، (
3
) (صحیح بخاری، کتاب المغازی، جلد
2
صفحہ
592
) حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے محارب خصفہ اور بنی ثعلبہ سے جنگ کے دن اپنے اصحاب کو اسی طرح نماز پڑھائی تھی (
4
) (صحیح بخاری، کتاب المغازی، جلد
2
صفحہ
592
) حضرت ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے ضجنان اور عسفان کے درمیان اسی طرح نماز پڑھائی تھی، میں کہتا ہوں : صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی مکرم ﷺ کی زبان پر حضر میں چار رکعتیں اور سفر میں دو رکعتیں اور خوف میں ایک رکعت فرض کی ہے۔ (
5
) (صحیح مسلم، صلوۃ المسافرین، جلد
1
صفحہ
241
) یہ قول اس کی تائید کرتا ہے، مگر قاضی ابوبکر بن عربی نے اپنی کتاب القبس میں ذکر کیا ہے کہ ہمارے علماء نے فرمایا : یہ حدیث بالاجماع متروک ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ صحیح نہیں ہے۔ ابن عربی وغیرہ نے اختلاف اور نزاع کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اجماع کا دعوی کیا ہے درست نہیں ہے۔ وباللہ التوفیق۔ ابوبکر رازی حنفی نے ” احکام القرآن “۔ میں حکایت کیا ہے کہ یہاں قصر سے مراد رکوع و سجود کو اشارہ کے ساتھ ادا کرنا ہے، یعنی صفت نماز میں قصر ہے۔ اور قیام کو رکوع کے ساتھ ترک کرنا مراد ہے، دوسرے علماء نے فرمایا : یہ آیت کریمہ جنگ میں مشغول ہونے اور تلواروں کے چلنے کے وقت نماز کی حدود اور ہئیت میں قصر کو مباح کرتی ہے۔ اس حالت میں سر کے اشارہ کے ساتھ نماز پڑھنے کو مباح کیا گیا ہے اور جس طرف بھی منہ ہو ایک رکعت کو ایک تکبیر کی طرف کرنے کو مباح کیا گیا ہے۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
104
دارالکتب العلمیہ) جیسا کہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے، طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے اور انہوں نے کہا : اس کی تائید یہ ارشاد کرتا ہے : (آیت) ” فاذا اطاننتم فاقیموا الصلوۃ “۔ یعنی جب اطمینان ہو تو نماز کو اس کی حدود اور کامل ہئیت کے ساتھ ادا کرو۔ میں کہتا ہوں : یہ تمام احوال قریب المعنی ہیں۔ یہ اس پر مبنی ہیں کہ مسافر کا فرض قصر ہے اور اس کے حق میں نماز صرف دو رکعتیں ہی نازل ہوئی ہیں پس قصر نہیں ہے نہ عزیمت میں کہا جائیے گا کہ کوئی گناہ نہیں اور نہ یہ کہا جائے گا : اس نے قصر کی جس پر مشروع ہی دو رکعتیں تھیں، جس طرح صبح کی نماز میں اس طرح نہیں کیا جاتا، اللہ تعالیٰ نے قصر کا دو شرطوں کے ساتھ ذکر کیا اور جس میں یہ دونوں شرطیں معتبر ہیں وہ صلاۃ خوف ہے، اس کو ابوبکر رازی نے ” احکام القرآن “ میں ذکر کیا ہے اور اس سے حجت پکڑی ہے اور اس پر حدیث حضرت یعلی بن امیہ سے رد کیا گیا ہے، ابھی انشاء اللہ قریب ہی وہ آجائے گی۔ مسئلہ نمبر : (
9
) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” ان خفتم “ یہ غالب اعتبار سے کلام ذکر کی گئی ہے، کیونکہ مسلمان پر سفروں میں عام طور پر خوف ہوتا ہے اسی وجہ سے یعلی بن امیہ نے کہا : میں نے حضرت عمر کو کہا : ہم قصر کیوں کریں جب کہ ہم امن میں ہیں ؟ حضرت عمر ؓ نے کہا : مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا جس طرح تجھے ہوا ہے میں نے اس کے متعلق رسول اللہ سے پوچھا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا :” یہ صدقہ ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تجھ پر صدقہ کیا ہے پس تم اس کا صدقہ قبول کرو “۔ (
2
) (صحیح مسلم، صلوۃ المسافرین وقصرھا، جلد
1
، صفحہ
360
) میں کہتا ہوں : اصحاب شافعیرحمۃ اللہ علیہ نے احناف حضرت یعلی بن امیہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے، انہوں نے کہا : حضرت یعلی کا قول کہ ہم قصر کیوں کریں جب کہ ہم امن میں ہیں ؟ یہ قطعی دلیل ہے کہ آیت کا مفہوم رکعات میں قصر ہے، الکیاطبری نے کہا : امام ابوحنیفہ : کے اصحاب نے اس پر کوئی ایسی تاویل پیش نہیں کی جو قابل ذکر ہو پھر صلاۃ خوف میں دو شرطوں کا اعتبار نہیں کیا جاتا، کیونکہ اگر ہم سفر نہ کریں اور سفر نہ پایا جائے، بلکہ ہمارے اوپر کفار حملہ آور ہوجائیں اور ہمارے شہروں میں آکر لڑیں تو صلاۃ خوف جائز ہوگی اس میں دونوں شرطوں کا وجود معتبر نہیں جس طرح کہ انہوں نے کہا : حضرت ابی کی قرات میں ” ان تقصروا من الصلوۃ ون یفتنکم الذین کفروا “۔ یعنی ان کی قرات “۔ (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
104
دارالکتب العلمیہ) میں (آیت) ” ان خفتم “۔ کے الفاظ نہیں ہیں۔ انکی قرات پر معنی یہ ہوگا ناپسند ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں ڈال دیں اور حضرت عثمان ؓ کے مصحف میں (آیت) ’ ان خفتم “۔ کے الفاظ موجود ہیں، بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ آیت سفر میں قصر کو مباح کرنے والی ہے ایسے شخص کے لیے جسے دشمن کا خوف ہو اور جو امن میں ہو اس کے لیے قصر نہیں، حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ وہ سفر میں فرماتی تھیں ” اپنی نماز کو مکمل کرو “ لوگوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ تو قصر کرتے تھے۔ حضرت عائشہرضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا : آپ ﷺ جنگ اور خوف میں ہوتے تھے کیا تم خوف میں ہو (
4
) (تفسیر طبری، جلد
5
، صفحہ
287
) ؟ عطا نے کہا : حضرت محمد ﷺ کے اصحاب میں سے مکمل نماز پڑھنے والے حضرات یہ تھے۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
104
دارالکتب العلمیہ) حضرت عائشہ ؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور حضرت عثمان ؓ نے بھی مکمل پڑھی تھی لیکن اس کی مخصوص وجوہ تھیں جو پہلے گزر چکی ہیں، ایک جماعت کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں قصر کو مباح نہیں فرمایا مگر دو شرطوں کے ساتھ۔ (
1
) سفر۔ (
2
) خوف۔ اور خوف نہ ہونے کی صورت میں قصر سنت سے ثابت ہے، ان علماء میں سے امام شافعی (رح) ہیں ان کا قول پہلے گزر چکا ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان خفتم “۔ ما قبل کلام سے متصل نہیں۔ کلام (آیت) ” من الصلوۃ “ پر مکمل ہوچکی ہے پھر (آیت) ” ان خفتم “۔ سے کلام کا آغاز ہو رہا ہے۔ پس اے پیارے محمد ﷺ اپنے اصحاب کو نماز خوف پڑھاؤ اور (آیت) ” ان الکفرین کانوا لکم عدوا مبینا “۔ کا قول جملہ معترضہ ہے، یہ جرجانی کا قول ہے، اور مہدوی وغیرہم نے یہی ذکر کیا ہے، قشیری اور قاضی ابوبکر بن عربی نے اس قول کا رد کیا ہے۔ قشیری ابو نصر نے کہا : اس حمل میں شدید تکلف ہے اور خواہ مخواہ کلام میں اطناب کیا ہے، انہوں نے جرجانی پر تنقید کی ہے کلام مقدر کرنے اور امثلہ بیان کرنے میں، ابن عربی نے کہا : ان تمام تاویلات کے حضرت عمر ِ ، حضرت ابن عمر اور حضرت یعلی بن امیہ محتاج نہیں ہیں۔ میں کہتا ہوں : جو کچھ جرجانی نے کہا ہے اس کے مطابق ایک حدیث آئی ہے جسے قاضی ابو الولید بن رشد نے مقدمات میں اور ابن عطیہ نے اپنی تفسیر میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے آپ نے فرمایا : ایک تاجر گروہ نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا، انہوں نے پوچھا : ہم زمین میں سفر کرتے ہیں تو ہم نماز کیسے پڑھیں ؟ اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نازل فرمایا : (آیت) ” واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ “۔ پھر کلام ختم ہوئی اس کے بعد جب ایک سال گزر گیا تو رسول اللہ ﷺ نے مشرکین سے جہاد کیا آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی تو مشرکین ! نے کہا : محمد اور آپ کے اصحاب نے تمہیں پیچھے سے حملہ کرنے کا موقع دیا ہے تم ان پر حملہ کیوں نہیں کردیتے، ان میں سے ایک شخص نے کہا : ان کے پیچھے دوسرے لوگ موجود ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے دو نمازوں کے درمیان یہ ارشاد : (آیت) ” ان خفتم ان یفتنکم الذین کفرو “۔ نازل فرمایا (
2
) (تفسیر طبری، جلد
5
، صفحہ
286
) اگر یہ خبر صحیح ہے تو اس کے ہوتے ہوئے کسی کو کلام کرنے کی گنجائش نہیں، اس میں بغیر خوف کے قصر پر قرآن سے دلیل موجود ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح مروی ہے انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) ” واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ “۔ سفر میں نماز کے بارے میں نازل ہوا پھر (آیت) ” ان خفتم ان یفتنکم الذین کفرو “۔ ایک سال بعد نماز خوف کے بارے نازل ہوا اس بنا پر آیت اپنے ضمن میں دو قضیے اور دو حکم رکھتی ہے پس (آیت) ” اذا ضربتم “۔ سفر کے متعلق ہے یہاں پر کلام مکمل ہے پھر ایک دوسرے فریضہ کی ابتدا ہوئی اور شرط کو مقدم کیا، تقدیر عبارت اس طرح ہوگی ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوۃ “ اور واؤ زائدہ ہے اور جواب (آیت) ” فلتقم طآئفۃ منھم معک “۔ ہے اور (آیت) ” ان الکفرین کانوا لکم عدوا مبینا “۔ جملہ معترضہ ہے، ایک قوم کا خیال ہے کہ خوف کا ذکر سنت سے منسوخ ہے اور حضرت عمر ؓ کی حدیث ہے جو اس کی ناسخ ہے، کیونکہ انہوں نے روایت کیا کہ نبی مکرم ﷺ نے انہیں فرمایا :” یہ صدقہ ہے اس کے ساتھ تم پر اللہ تعالیٰ نے صدقہ کیا ہے تم اس کا صدقہ قبول کرو “۔ نحاس نے کہا : جس نے بغیر خوف کے نبی مکرم ﷺ کا قصر کرنا تسلیم کیا اور آپ ﷺ کے فعرحمۃ اللہ علیہ کو آیت کا ناسخ بنایا یہ غلط ہے، کیونکہ آیت میں امن کی حالت میں قصر سے منع نہیں ہے اس میں خوف کی حالت میں قصر کی اباحت ہے۔ مسئلہ نمبر : (
10
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان یفتنکم الذین کفرو “۔ فراء نے کہا : اہل حجاز کہتے ہیں فتنت الرجل اور ربیعہ، قیس، اسد اور تمام نجدی کہتے ہیں افتنت الرجل، خلیل اور سیبویہ نے ان دونوں کے درمیان فرق کیا ہے انہوں نے کہا : فتنتہ کا مطلب ہے میں اس میں فتنہ ڈالا جیسے اکحلتہ ہے اور افتنتہ کا مطلب ہے میں نے اسے فتنہ والا بنایا، اصمعی نے کا ہ : وہ افتنتہ نہیں جانتے، (آیت) ” ان الکفرین کانوا لکم عدوا مبینا “۔ یہاں عدوا بمعنی اعداء ہے واللہ اعلم۔
Top