Al-Qurtubi - An-Nisaa : 106
وَّ اسْتَغْفِرِ اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۚ
وَّاسْتَغْفِرِ : اور بخشش مانگیں اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور خدا سے بخشش مانگنا بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
آیت نمبر : 106۔ اس آیت میں ایک مسئلہ ہے ؛ طبری اس معنی کی طرف گئے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ سے اپنے اس خیال سے استغفار کریں جو آپ نے بددیانت لوگوں کے لیے جھگڑنے کا کیا تھا۔ (1) (تفسیر طبری جلد 5، صفحہ 309) آپ ﷺ کو استغفار کا حکم دیا، کیونکہ آپ نے ان کا دفاع کرنے اور یہودی کا ہاتھ کاٹنے کا ارادہ کیا تھا، یہ ان کا مذہب ہے جو انبیاء پر صغائر کو جائز قرار دیتے ہیں، ابن عطیہ نے کہا : یہ گناہ نہیں ہے، کیونکہ ظاہر پر دفاع کرنے والے تھے اور آپ ان کی برات کا نظریہ رکھتے تھے اور معنی یہ ہے کہ آپ اپنی امت کے گنہگاروں کے لیے اور باطل کے لیے جھگڑنے والوں کے لیے استغفار کریں اس کا مقام لوگوں میں اس طرح ہے کہ آپ دعوی کرنے والوں کی بات سنیں اور جو دلائل سنیں ان کے مطابق فیصلہ کریں اور آپ گنہگار کے لیے استغفار کریں (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 110 دارالکتب العلمیہ) بعض علماء نے فرمایا : یہ تسبیح کے طریقہ پر استغفار کا حکم ہے جیسے کوئی شخص کہتا ہے : استغفر اللہ “ یہ بطور تسبیح ہوتا ہے اس میں گناہ سے توبہ کا ارادہ نہیں ہوتا، بعض نے فرمایا : خطاب نبی مکرم ﷺ کو ہے اور مراد بنو ابیرق ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” یایھا النبی اتق اللہ “۔ (الاحزاب : 1) اور فرمایا (آیت) ” فان کنت فی شک “۔ (یونس : 94)
Top