Al-Qurtubi - An-Nisaa : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا١ؕ وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں اَمْوَالَ : مال الْيَتٰمٰى : یتیموں ظُلْمًا : ظلم سے اِنَّمَا : اس کے سوا کچھ نہیں يَاْكُلُوْنَ : وہ بھر رہے ہیں فِيْ : میں بُطُوْنِھِمْ : اپنے پیٹ نَارًا : آگ وَسَيَصْلَوْنَ : اور عنقریب داخل ہونگے سَعِيْرًا : آگ (دوزخ)
جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔
آیت نمبر 10۔ اس آیت میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما “۔ روایت میں ہے کہ یہ آیت غطفان کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی جس کو مرثد بن زید کہا جاتا تھا اور وہ اپنے بھتیجے کے مال کا والی تھا جو یتیم تھا اور چھوٹا۔ اس نے اپنے بھیجتے کا مال کھایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے یہ آیت نازل فرمائی، یہ مقاتل بن حیان نے کہا ہے اسی وجہ سے جمہور علماء نے کہا : اس سے مراد اوصیاء ہیں جو یتیم کے مال سے وہ کہتے ہیں جو ان کے لیے مباح نہیں ہے، ابن زید ؓ نے کہا : یہ ان کفار کے بارے میں نازل ہوئی جو عورتوں اور بچوں کو میراث نہیں دیتے تھے، ہر اعتبار سے مال لینے کو کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ مقصودکھانا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے اکثر اشیاء کو تلف کیا جاتا ہے، ذکر میں پیٹ کو خاص کیا ہے ان کے نقص کو بیان کرنے کے لیے اور مکارم اخلاق کی ضد کے ساتھ اس پر طعن وتشنیع کی ہے، مال اور انجام کے اعتبار سے کھائی گئی چیز کو آگ کہا گیا ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 14) جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” انی ارنی اعصر خمرا “۔ (یوسف : 36) اس آیت میں خمر سے مراد عنبا (انگور) ہے بعض علماء نے فرمایا : نارا اسے مراد حراما ہے کیونکہ حرام آگ کا سبب بنتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے حرام آگ کا نام دے دیا۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے فرمایا : ہمیں نبی کریم ﷺ نے اپنی معراج کی رات کے متعلق بتایا کہ میں نے ایک قوم دیکھی جن کے ہونٹ، اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے ان پر ایک فرشتہ معین تھا جو ان کے ہونٹوں سے پکڑتا تھا پھر ان کے مونہوں میں آگ کی چٹانیں ڈالتا تھا جو ان کے نیچے سے نکل جاتی تھیں، میں نے جبریل (علیہ السلام) سے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟ اس نے کہا : یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلما کھاتے ہیں۔ (1) (تفسیر طبری، جلد 6، صفحہ 454) کتاب وسنت اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یتیم کا مال کھانا کبائر میں سے ہے، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو، ان سات چیزوں میں یتیم کا مال کھانے کا بھی ذکر فرمایا۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وسیصلون سعیرا “۔ ابن عامر اور عاصم نے حضرت ابن عباس ؓ کی ایک روایت میں یاء کے ضمہ کے ساتھ مجہول کا صیغہ پڑھا ہے اور اصلاہ اللہ حر النار اصلاء شے مشتق کیا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ساصلیہ سقر “۔ (مدثر) ابو حیوہ نے فعل کی کثرت کی وجہ سے تصلیۃ سے مشتق کرکے یا کے ضمہ، صاد کے فتحہ اور لام کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد ہے (آیت) ” ثم الجحیم صلوۃ “۔ (الحاقہ) (پھر اسے دوزخ میں جھونک دو ) اسی سے مشتق عربوں کا قول ہے۔ صلیتہ مرۃ بعد مرۃ وتصلیت۔ آگ کے ساتھ گرمی چاہی، شاعر نے کہا : وقد تصلیت حر حربھم کما تصلی المقرور من قرس : باقی قراء نے یا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اور انہوں نے اسے صلی النار، یصلاھا، صلی وصلاء سے مشتق کیا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لا یصلھا الا الاشقی “۔ (اللیل) الصلاء کا معنی آگ کے قرب کی وجہ سے گرم ہونا ہے یا آگ لگنے سے گرم ہونا ہے، اسی سے حارث بن عباد کا قول ہے : لم اکن من جنا تھا علم اللہ وانی لحرھا الیوم صال : السعیر کا معنی بھڑکنے والا انگارہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) یہ آیت وعید کی آیات میں سے ہے، اس آیت میں ان کی کوئی دلیل نہیں ہے، جو گناہوں کی وجہ سے کفر کا فتوی لگاتے ہیں اور اہل سنت کا نظریہ یہ ہے کہ یہ بعض گنہگاروں پر نافذ ہوگا، پس وہ آگ میں داخل ہوں گے پھر جل جائیں گے اور مر جائیں گے، درزخیوں کا حکم اس سے مختلف ہے وہ نہ مریں گے اور نہ زندہ ہوں گے (بلکہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہیں گے) گویا یہ کتاب وسنت کا جامع قول ہے تاکہ دونوں کے متعلق خبر مخبر کے خلاف واقع نہ ہو اور بعض سے اس کی مشیت سے عذاب ساقط ہونے والا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشآء “۔ ترجمہ : بیشک اللہ نہیں بخشتا اس بات کو کہ شرک کیا جائے اس کے ساتھ اور بخش دیتا ہے جو اس کے علاوہ ہے جس کو چاہتا ہے۔ یہی جواب ہوگا جو بھی اس مفہوم ومعنی میں سے تم پر وارد ہوگا، مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رہے دوزخی تو وہ اس طرح رہیں گے وہ نہ تو دوزخ میں مریں گے اور نہ زندہ رہیں گے لیکن کچھ لوگوں کو آگ ان کے گناہوں کے سبب لاحق ہوگی یا فرمایا : ان کی خطاؤں کے سبب لاحق ہوگی پھر انہیں اللہ تعالیٰ موت دے گا حتی کہ وہ جب کوئلہ بن جائیں گے تو اذن شفاعت ہوگا پھر انہیں گروہوں کی صورت لایا جائے گا پھر وہ جنت کی نہروں پر پھیلا دیئے جائیں گے پھر ارشاد ہوگا اے اہل جنت ان پر پانی بہاؤ تو وہ اس طرح اگ آئیں گے جیسے دانہ سیلاب کی مٹی میں اگتا ہے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا : گویا رسول اللہ ﷺ دیہات میں بکریاں چراتے تھے۔
Top