Al-Qurtubi - An-Nisaa : 111
وَ مَنْ یَّكْسِبْ اِثْمًا فَاِنَّمَا یَكْسِبُهٗ عَلٰى نَفْسِهٖ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَمَنْ : اور جو يَّكْسِبْ : کمائے اِثْمًا : گناہ فَاِنَّمَا : تو فقط يَكْسِبُهٗ : وہ کماتا ہے عَلٰي نَفْسِهٖ : اپنی جان پر وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور جو گناہ کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے اور خدا جاننے والا ہے (اور) حکمت والا ہے
آیت نمبر : 111 تا 112۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ومن یکسب خطیئۃ اواثما “۔ بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” خطیئۃ “۔ اور اثما دونوں کا ایک معنی ہے۔ لفظ کے اختلاف کی وجہ سے تاکیدا مکرر فرمایا، طبری نے کہا : الخطئۃ اور الاثم کے درمیان فرق ہے، خطیئۃ کبھی ارادۃ ہوتی ہے اور کبھی بغیر ارادہ کے ہوتی ہے اور اثم عمدا ہوتا ہے۔ (2) (تفسیر طبری، جلد 5، صفحہ 319) بعض نے فرمایا : الخطیئۃ وہ ہوتی ہے جس میں ارادہ نہ ہو جیسے قتل خطا۔ بعض نے فرمایا : الخطیئۃ چھوٹا گناہ ہوتا ہے اور الاثم بڑا گناہ ہوتا ہے، اس آیت کا لفظ عام ہے اس کے تحت تمام لوگ شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ثم یرم بہ بریئا “۔ البری کا اسم سورة بقرہ میں گزر چکا ہے، بہ کی ضمیر الاثم یا الخطیئۃ کے لیے، کیونکہ اس کا معنی بھی الاثم ہے یا دونوں کے لیے ہے، بعض نے فرمایا : یہ الکسب کی طرف راجع ہے، (آیت) ” فقد احتمل بھتانا و اثما مبینا “۔ یہ تشبیہ ہے، کیونکہ گناہ بوجھ اور ثقل ہوتے ہیں یہ محمولات کی طرح ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” ولیحملن اثقالھم واثقالا مع اثقالھم “۔ (العنکبوت : 13) البھتان، البھت سے ہے، اس کا مطلب ہے تو اپنے بھائی پر کوئی تہمت لگائے جب کہ وہ اس سے بری ہو۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے “۔ ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کہا : اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا :” اپنے بھائی کا ایسی چیز کے ساتھ ذکر کرنا جو اسے ناپسند ہے “۔ جو تو کہتا ہے تو یہ غیبت ہے اور اگر اس میں وہ بات نہ ہو اور تو اسے کہے تو وہ بہتان ہے “ (1) صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ والادب، جلد 2، صفحہ 322) یہ نص ہے، بری کو تہمت لگانا یہ بہتان ہے کہا جاتا ہے، بھتہ، بھتاوبھتانا جب کوئی کسی کے بارے میں ایسی بات بیان کرے جب کہ اس نے کی نہ ہو، وہ شخص بہات ہوگا اور جس کے لیے بات کی گئی ہو مبہوت ہے، کہا جاتا ہے : بھت الرجل جب کوئی حیران و ششدر ہوجائے، اور بھت (عین کلمہ کے ضمہ کے ساتھ) اس کی مثل ہے اور ان دونوں سے افصح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فبھت الذی کفر “۔ (بقرہ : 258) کیونکہ کہا جاتا ہے : رجل مبہوت اور باھت اور بھیت نہیں کہا جاتا، یہ کسائی کا قول ہے۔
Top