Al-Qurtubi - An-Nisaa : 114
لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا
لَا خَيْرَ : نہیں کوئی بھلائی فِيْ : میں كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے نَّجْوٰىھُمْ : ان کے مشورے اِلَّا : مگر مَنْ اَمَرَ : حکم دے بِصَدَقَةٍ : خیرات کا اَوْ : یا مَعْرُوْفٍ : اچھی بات کا اَوْ اِصْلَاحٍ : یا اصلاح کرانا بَيْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان وَمَنْ : اور جو يَّفْعَلْ : کرے ذٰلِكَ : یہ ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ اللّٰهِ : اللہ کی رضا فَسَوْفَ : سو عنقریب نُؤْتِيْهِ : ہم اسے دیں گے اَجْرًا : ثواب عَظِيْمًا : بڑا
ان لوگوں کی بہت سی مشورتیں اچھی نہیں ہاں (اس شخص کی مشورت اچھی ہوسکتی ہے) جو خیرات یا نیک بات یا لوگوں میں صلح کرنے کو کہے اور جو ایسے کام خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرے گا تو ہم اس کو بڑا ثواب دیں گے
آیت نمبر : 114۔ اس سے مراد بنی ابیرق کی قوم ہے جس نے جو تدبیر کی تھی۔ اور انہوں نے وہ تدبیر نبی مکرم ﷺ سے ذکر کی تھی النجوی دو آدمیوں کے درمیان سرگوشی کرنا ہے، تو کہتا ہے : ناجیت فلانا مناجاۃ ونجاء وھم ینتجون ویتناجون ونجوت فلانا انجوہ نجوا اس کا معنی ہے سرگوشی کرنا، نجوی یہ نجوت الشی سے مشتق ہے یعنی میں نے اسے خاص کیا، میں نے اسے علیحدہ کیا، النجوۃ بلند زمین کو کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اردگرد کی زمین سے بلند ہوتی ہے شاعر نے کہا : فمن بنجوتہ کمن بعقوتہ والمستکن کمن یمشی بقرواح (1) (زاد المسیر فی علم التفسیر، جلد 1، صفحہ 119) پس نجوی کا معنی سرگوشی کرنا ہے، یہ مصدر ہے، جماعت کے لیے بھی بولا جاتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے : قوم عدل ورضا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واذھم نجوی “۔ (الاسرائ : 47) پہلی صورت میں غیر جنس سے استثنا ہوگی اور وہ استثنا منقطع ہے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے، من محل رفع میں ہوگا یعنی (آیت) ” الا من امر بصدقۃ او معروف او اصلاح بین الناس “۔ لین جو صدقہ کا حکم دے یا نیکی کا حکمدے یا لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور نیکی کی طرف بلائے تو ایسی سرگوشی میں بھلائی ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ من محل جر میں ہو تقدیر کلام اس طرح ہو : لا خیر فی کثیر میں نجواھم الا نجوی من امر بصدقۃ “ ھر اس کو حذف کیا گیا، دوسری صورت میں یعنی جب نجوی علیحدہ جماعت کا اسم ہو تو من بدل کی حیثیت سے محل جر میں ہوگا۔ یعنی : لا خیر فی کثیر من نجواھم الا فیمن امر بصدقۃ۔ یا جس نے کہا : ما مررت باحد الا زیدا “ اس کے قول پر محل نصب میں ہوگا۔ بعض مفسرین نے کہا : ان میں سے زجاج بھی ہے، نجوی پوری جماعت کا کلام ہے یا دو آدمیوں کا کلام ہے خواہ وہ سرگوشی سے ہو یا جہرا ہو (2) (زاد المسیر فی علم التفسیر، جلد 1، صفحہ 119) اس میں بعد ہے۔ واللہ اعلم۔ المروف کا لفظ تمام نیک اعمال کو شامل ہے، مقاتل نے کہا : المعروف سے یہاں مراد فرض ہے۔ (3) (زاد المسیر فی علم التفسیر، جلد 1، صفحہ 120) اور پہلا قول اصح ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ہر نیکی صدقہ ہے اور یہ بھی نیکی میں سے ہے کہ تو اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملے “۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” معروف اپنے اسم کی طرح ہے، سب سے پہلے قیامت کے روز جنت میں معروف (نیکی) اور معروف والے (نیکی کرنے والے) داخل ہوں گے “۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا : ناشکرے کی ناشکری تجھے نیکی سے دور نہ کرے، کبھی ناشکرے کے کئی گنا انکار کے باوجود شکر گزار شکر کرتا ہے حطیئۃ نے کہا : من یفعل الخیر لا یعدم جو ازیہ لا یذھب العرف بین اللہ والناس : اور ریاشی نے یہ شعر کہا ہے : ید المعروف غنم حیث کا نت تحملھا کفورا او شکورا ففی شکر الشکور لھا جزاء وعند اللہ ما کفر الکفور : ماوردی نے کہا : جو شخص نیکی کرسکتا ہے وہ نیکی کرنے میں جلدی کرے اور اس سے محروم ہونے سے بچے اور اس سے عجز کے خوف سے نیکی کرنے میں جلدی کرے اور اسے جاننا چاہیے کہ یہ اس کے زمانہ کی فرصتوں میں سے ہے اور اس کے امکان کی غنیمتوں سے ہے، کوئی قادر شخص نیکی میں سستی نہ کرے، کتنے ہی قدرت پر اعتماد کرنے والے لوگوں سے نیکی فوت ہوگئی اور پھر اس نے شرمندگی کا وارث بنایا، اس پر قدرت کے باوجود زائل ہوگئی اور خجالت کا وارث بنا دیا، جیسا کہ شاعر نے کہا : مازلت اسمع کم من واثق خجل حتی ابتلیت فکنت الواثق الخجلا : اگر اپنے زمانہ کے مصائب کو بھانپ لیا جاتا اور اپنے امر کے عواقب سے محفوظ ہوا جاتا تو اس کی غنیمتیں ذخیرہ شدہ ہوتیں اور اس کے واجبات ضرور ادا کیے جاتے، نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا : ” جس پر نیکی کا دروازہ کھولا گیا تو وہ اس کو غنیمت جانے، کیونکہ اسے معلوم نہیں کب بند ہوجائے۔ ” (1) (ابن مبارک الزہد، صفحہ 117) نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہر چیز کا پھل ہوتا ہے، اور نیکی کا پھل جلدی کرنا ہے “۔ (2) (ماوردی ادب الدنیا والدین، صفحہ 188) نوشیروان سے کیا گیا : تمہارے نزدیک بڑی سے بڑی مصیبت کیا ہے ؟ اس نے کہا : تجھے نیکی پر قدرت ہو اور اسے نہ کرے حتی کہ وہ فوت ہوجائے، عبدالحمید نے کہا : جس نے فرصت کو اس کے وقت سے مؤخر کیا تو اسے اس کے فوت ہونے کا یقین ہونا چاہیے، بعض شعراء نے کہا : اذا ھبت ریاحک فاغتنمھا فان لک خافقۃ سکون : ولا تغفل عن الاحسان فیھا فما تدری السکون متی یکون : جب تیری صحت و خوشحالی کی ہوائیں چل رہی ہوں تو اس کو غنیمت جان، کیونکہ ہر حرکت کرنے والی چیز کے لیے سکون ہے اور اسی حالت میں احسان سے غافل نہ ہو تجھے معلوم نہیں کہ سکون کب ہوجائے گا ؟ بعض ذوی المحرمات نے ایک والی کو لکھا جس نے اپنی حرمت کی رعایت میں سستی کی تھی : اعلی الصراط ترید رعیۃ حرمتی ام فی الحساب تمن بالانعام : للنفع فی الدنیا اریدک فانتبہ لحوائجی من رقدۃ النوام : کیا تو اپنی حرمت کی رعایت کا پل صراط پر ارادہ رکھتا ہے یا تو حساب کے دن انعام کے ساتھ احسان کرے گا میں تجھ سے دنیا میں نفع لینے کا ارادہ کرتی ہوں تو میری حاجات کو پورا کرنے کے لیے نیند سے بیدار ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : نیکی مکمل نہ ہوگی مگر تین خصلتوں کے ساتھ : اس کو جلدی کرنا اور اس کو تھوڑا سمجھنا اور اس کو پوشیدہ رکھنا، جب تو نیکی کو جلدی کرے گا تو تو اسے بہتر کرے گا، جب تو اسے چھوٹا سمجھے گا تو تو اسے عظیم کرے گا، جب تو اسے چھپائے گا تو تو اسے مکمل کرے گا، کسی شاعر نے : زاد معروفک عندی عظما انہ عندک مستور حقیر : تتناساہ کان لم تاتہ وھو عند الناس مشھور خطیر : میرے نزدیک تیری نیکی نے تیری عظمت کو زیادہ کیا ہوہ تیرے نزدیک پوشیدہ اور حقیر ہے تو اسے بھول جا گویا تو نے وہ نیکی کی ہی نہیں جب کہ وہ لوگوں کے نزدیک مشہور اور عظیم ہو۔ نیکی کی شرط میں یہ ہے کہ اس پر احسان نہ جتلایا جائے اور اپنے اچھے فعل پر تکبر نہ کیا جائے، کیونکہ ان دونوں صورتوں میں شکر کا اسقاط ہے اور اجر کا ضیاع ہے، سورة بقرہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اواصلاح بین الناس “۔ یہ خونوں کے تنازعے ختم کرنے اور مال اور عزت کے جھگڑے مٹانے سب کو شامل ہے اور ہر اس چیز کو شامل ہے جو مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور فتنہ و فساد بھڑکانے کا باعث ہو اور ہر اس کلام کو شامل ہے جس سے مراد رضا الہی ہو۔ حدیث پاک میں ہے : ” ابن آدم کا سارا کلام اس کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف حجت ہے مگر جو نیکی کا حکم دینے برائی سے منع کرنے اور اللہ کے ذکر کے لیے ہو “ (1) (جامع الترمذی، کتاب الزہد، جلد 2، صفحہ 64، ایضا ابن ماجہ، حدیث نمبر 3963، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) جس نے ریاکاری اور سردار بننے کا طلب کیا وہ ثواب نہیں پائے گا۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو لکھا : جھگڑے والوں کو لوٹاؤ حتی کہ وہ آپس میں صلح کرلیں، کیونکہ قاضی کا فیصلہ انکے درمیان کینہ پیدا کرتا ہے، مزید سورة مجادلہ میں مناجات کی حرام صورتوں کا ذکر آئے گا۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے فرمایا : جس نے دو شخصوں کے درمیان صلح کرائی اللہ تعالیٰ اسے ہر کلمہ کے عوض ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا، اور نبی مکرم ﷺ نے حضرت ابو ایوب سے فرمایا : ” کیا میں تمہاری ایسے صدقہ پر راہنمائی نہ کروں جسے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول پسند کرتے ہو ؟ (وہ یہ ہے) لوگوں کے درمیان صلح کرانا جب وہ ان میں فساد پیدا ہوجائے اور انکے درمیان قرب پیدا کرنا جب وہ ایک دوسرے سے دور ہوجائیں “ (2) (شعب الایمان فی اصلاح بین الناس، جلد 7، صفحہ 490، حدیث نمبر 11094) اوزاعی (رح) نے کہا : اللہ کی بارگاہ میں کوئی قدم اس قدم سے زیادہ محبوب نہیں جو جھگڑنے والوں کے درمیان صلح کے لیے اٹھایا جاتا ہے، اور جس نے دو آدمیوں کے درمیان صلح کرائی اللہ تعالیٰ اس کے لیے آگ سے برات لکھ دے گا، محمد بن منکدر نے کہا : دو آدمی مسجد کے کونے میں جھگڑے، میں ان کی طرف مائل ہوا اور میں نے ان کے ساتھ صلح کی کوشش کرتا رہا حتی کہ انہوں نے صلح کرلی، حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا : جو کہ مجھے دیکھ رہے تھے میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ” جو دو شخصوں کے درمیان صلح کرائے گا وہ شہید کے ثواب کا مستحق ہوگا “۔ یہ تمام اخبار ابو مطیع مکحول بن مفضل نفسی نے اپنی کتاب ” اللؤلئیات “ میں ذکر کی ہیں، میں نے اس کو مصنف کے خط سے ایک ورقہ میں پایا انہوں نے ان کے اصل پر آگاہ نہیں کیا۔ (آیت) ” ابتغاء “ مفعول لاجلہ کی حیثیت سے منصوب ہے۔
Top