Al-Qurtubi - An-Nisaa : 118
لَّعَنَهُ اللّٰهُ١ۘ وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًاۙ
لَّعَنَهُ اللّٰهُ : اللہ نے اس پر لعنت کی وَقَالَ : اور اس نے کہا لَاَتَّخِذَنَّ : میں ضرور لوں گا مِنْ : سے عِبَادِكَ : تیرے بندے نَصِيْبًا : حصہ مَّفْرُوْضًا : مقررہ
جس پر خدا کی لعنت کی ہے (جو خدا سے) کہنے لگا میں تیرے بندوں سے (غیر خدا کی نذر دلوا کر مال کا) ایک مقرر حصہ لے لیا کروں گا
آیت نمبر : 118۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لعنہ اللہ “ اللعن کا اصل معنی دور کرنا ہے، یہ پہلے گزر چکا ہے اور عرف میں ایسا دور کرنا ہے جو ناراضگی اور غضب کے ساتھ ملا ہوا ہو۔ ابلیس پر تعیین کے ساتھ لعنت کرنا جائز ہے اسی طرح وہ کفار جو مر چکے ہیں مثلا فرعون، ہامان اور ابو جہل ان پر تعیین کے ساتھ لعنت کرنا جائز ہے اور رہے زندہ لوگ تو ان کے بارے میں کلام سورة بقرہ میں گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وقال لا تخذن من عبادک نصیبا مفروضا “۔ یہ شیطان نے کہا تھا یعنی میں اپنی گمراہ کن چالوں کے ساتھ ان کو تیری اطاعت سے نکالوں گا اور اپنی گمراہی کے ساتھ انہیں گمراہ کروں گا، یہ کفار اور نافرمان لوگ ہیں خبر میں ہے ” ہر ہزار میں سے ایک اللہ کے لیے ہوگا باقی شیطان کے لیے ہوں گے “۔ (1) (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 159) میں کہتا ہوں : یہ معنی صحیح ہے، اس کی تائید کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا قیامت کے روز حضرت آدم کو یہ کہنا کہ ” آگ کا حصہ نکالو “۔ حضرت آدم (علیہ السلام) عرض کریں گے، آگ کا حصہ کتنا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے “ (2) (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، جلد 2 صفحہ 967، حدیث نمبر 3099، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے، بعث النار وہ شیطان کا حصہ ہے، واللہ اعلم۔ بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد لوگوں کا بہت سی اشیاء میں شیطان کی اطاعت کرنا ہے مثلا بچے کی ولادت کے وقت وہ ایک کیل لگاتے تھے اور ساتویں دن اسے گھماتے تھے اور کہتے تھے : یہ اس لیے ہے تاکہ گھروں میں رہنے والے جن اسے جان لیں۔
Top