Al-Qurtubi - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ : تمہیں وصیت کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ فِيْٓ : میں اَوْلَادِكُمْ : تمہاری اولاد لِلذَّكَرِ : مرد کو مِثْلُ : مانند (برابر حَظِّ : حصہ الْاُنْثَيَيْنِ : دو عورتیں فَاِنْ : پھر اگر كُنَّ : ہوں نِسَآءً : عورتیں فَوْقَ : زیادہ اثْنَتَيْنِ : دو فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے ثُلُثَا : دوتہائی مَا تَرَكَ : جو چھوڑا (ترکہ) وَاِنْ : اور اگر كَانَتْ : ہو وَاحِدَةً : ایک فَلَھَا : تو اس کے لیے النِّصْفُ : نصف وَلِاَبَوَيْهِ : اور ماں باپ کے لیے لِكُلِّ وَاحِدٍ : ہر ایک کے لیے مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے السُّدُسُ : چھٹا حصہ 1/2) مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا (ترکہ) اِنْ كَانَ : اگر ہو لَهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد وَّوَرِثَهٗٓ : اور اس کے وارث ہوں اَبَوٰهُ : ماں باپ فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا الثُّلُثُ : تہائی (1/3) فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَهٗٓ : اس کے ہوں اِخْوَةٌ : کئی بہن بھائی فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا السُّدُسُ : چھٹا (1/6) مِنْۢ بَعْدِ : سے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْ بِھَآ : اس کی وصیت کی ہو اَوْ دَيْنٍ : یا قرض اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ وَاَبْنَآؤُكُمْ : اور تمہارے بیٹے لَا تَدْرُوْنَ : تم کو نہیں معلوم اَيُّھُمْ : ان میں سے کون اَقْرَبُ لَكُمْ : نزدیک تر تمہارے لیے نَفْعًا : نفع فَرِيْضَةً : حصہ مقرر کیا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں انکا دو تہائی اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو۔ یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں، پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے خدا کے مقرر کیے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
آیت نمبر : 11 تا 13۔ ان آیات میں پینتیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولادکم “۔ اس لیے پہلے (آیت) ” للرجال نصیب “۔ اور وللنسآء نصیب “۔ میں جو اجمال تھا اس میں اس کا بیان ہے، پس یہ سوال کے وقت سے بیان کے تاخیر کے جواز کی دلیل ہے اور یہ آیت دین کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور احکام کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے، امھات الایات “ ، میں سے ایک ہے، کیونکہ فرائض عظیم القدر ہیں حتی کہ علم کا یہ تیسرا حصہ ہے، (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1 صفحہ 328) اور علم الفرائض کا نصف علم ہونا بھی مروی ہے، یہ پہلا علم ہے جو لوگوں سے چھین لیا جائے گا اور بھلا دیا جائے گا، دارقطنی نے اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : فرائض سیکھو اور یہ لوگوں کو سکھاؤ، کیونکہ یہ نصف علم ہے اور یہ پہلی چیز ہے جو بھلائی جائے گی اور یہ پہلی چیز ہے جو میری امت سے اٹھائی جائے گی، (2) (سنن ابن ماجہ، کتاب الفرائض، باب الحث علی تعلیم الفرائض، حدیث نمبر 2709، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے فرمایا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قرآن سیکھو اور یہ لوگوں کو سکھاؤ اور فرائض سیکھو اور لوگوں کو یہ سکھاؤ، علم حاصل کرو اور لوگوں کو علم لکھاؤ میں ایک ایساشخص ہوں جس کی روح قبض کی جائے گی اور علم اٹھا لیا جائے گا اور فتن ظاہر ہوں گے حتی کہ دو آدمی فریضہ (میراث کا مسئلہ) میں جھگڑیں گے تو کوئی ایسا شخص نہیں پائیں گے جو ان کے درمیان فیصلہ کرے۔ جب یہ ثابت ہوگیا تو جان لو کہ فرائض صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا عظیم علم تھا اور ان کی عظیم مباحث میں سے تھا لیکن لوگوں نے اس علم کو ضائع کردیا ہے، مطرف نے مالک (رح) سے روایت کیا ہے فرمایا، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا : جس نے فرائض، طلاق اور حج کا علم حاصل نہیں کیا وہ اہل دیہات پر فضیلت کیسے پائے گا، ابن وہب نے مالک (رح) سے روایت کیا ہے فرمایا : میں ربیعہ کو یہ کہتے ہوئے سنتا تھا کہ فرائض کا علم سیکھا قرآن نے جو فرائض کا بیان کیا ہے اس کو سیکھے بغیر تو وہ انہیں جلدی بھول جائے گا، امام مالک (رح) نے کہا : انہوں نے سچ کہا : مسئلہ نمبر : (2) ابو داؤد اور دارقطنی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علم صرف تین ہیں ان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ فضیلت ہے، (1) محکم آیات (2) سنت قائمہ (3) فریضۃ عادلۃ (1) (سنن ابی داؤد کتاب الفرائض، باب ما جاء فی تعلیم الفرائض، حدیث نمبر 2499، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) خطابی ابو سلیمان (رح) نے کہا : محکم آیات سے مراد کتاب اللہ ہے۔ ان آیات میں احکام بیان ہوئے ہیں مگر قرآن کی جو آیات منسوخ ہیں ان پر عمل نہیں کیا جاتا اور صرف ناسخ پر عمل کیا جاتا ہے اور سنت قائمہ سے مراد سنت ثابۃ ہے جو نبی مکرم ﷺ کی سنن ثابۃ میں سے مروی ہے اور فریضہ عادلۃ دواحتمال رکھتا ہے۔ (1) تقسیم میں عادل کا ہونا پس کتاب وسنت میں مزکورہ حصص میں عدل کرنا اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ کتاب وسنت اور جو ان کے ہم معنی ہے ان سے مستنبط مسائل۔ پس یہ فریضۃ کتاب وسنت سے ماخوذ مسائل کے برابر ہوگا، کیونکہ وہ کتاب وسنت سے ماخوذ معنی میں نص ہوگا، عکرمہ ؓ سے مروی ہے فرمایا : حضرت ابن عباس ؓ نے حضرت زید بن ثابت ؓ کو بلایا وہ ان سے ایک ایسی عورت کے متعلق مسئلہ پوچھنا چاہتے تھے جس نے خاوند اور والدین چھوڑے تو حضرت زید بن ثابت ؓ نے کہا : خاوند کے لیے نصف ہوگا اور ماں کے لیے مابقی کا تہائی ہوگا، حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : تم یہ مسئلہ کتاب اللہ میں پاتے ہو یا اپنی رائے سے بیان کر رہے ہو، حضرت زید ؓ نے کہا : میں اپنی رائے سے کہتا ہوں، میں ماں کو باپ پر فضیلت نہیں دیتا، ابو سلیمان نے کہا : یہ فریضۃ کے تعدیل کے باب سے ہے جب کہ اس فریضہ کے متعلق نص نہ ہو یہ انہوں نے منصوص علیہ کا اعتبار کیا ہے اور وہ یہ ارشاد ہے : (آیت) ” وورثہ ابوہ فلامہ الثلث “۔ وارث ہوں تو ماں کے لیے تہائی حصہ ہے جب ماں کا حصہ تہائی پایا گیا اور باقی مال وہ دو تہائی ہے وہ باپ کے لیے ہے، خاوند کو حصہ دینے کے بعد باقی مال سے بچے ہوئے نصف مال کو کل مال پر قیاس کیا جبکہ والدین کے ساتھ بیتا یا ذوسھم (حصہ لینے والا) نہ ہو تو والدین کے درمیان وہ مال تین حصوں میں تقسیم ہوگا ایک حصہ ماں کے لیے اور دو حصے باپ کے لیے اور وہی باقی ہے یہ تقسیم میں زیادہ عدل ہے بنسبت اس کے کہ باقی نصف میں سے تمام مال کا تہائی ماں کو دیا جائے اور بابقی باپ کو دیا جائے تو چھٹا حصہ بنتا ہے، پس اسی طرح ماں کو باپ پر فضیلت ہوگی، حالانکہ وہ مفضولہ ہے اصل میراث میں اور ماں کے لیے باپ کے حصہ سے زیادہ ملے گا، حالانکہ اصل میراث میں باپ مقدم اور مفضل ہے، اس میں زیادہ عدل ہے بنسبت اس کے جو حضرت ابن عباس ؓ کا نظریہ ہے کہ ماں کا کل مال سے تہائی ملے گا اور باپ کو حصہ چھٹے حصہ کی طرف لوٹا کر کم کرتے ہیں پس حضرت ابن عباس ؓ کا قول چھوڑ دیا گیا اور عام فقہاء نے حضرت زید ؓ کے قول کو اپنایا، ابو عمر نے کہا : حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے خاوند اور والدین کے بارے میں کہا : خاوند کے لیے نصف ہے اور ماں کے لیے تمام مال کا ثلث 3؍1 ہے اور باقی باپ کے لیے ہے، قاضی شریح، محمد بن سیرین (رح)، داؤد بن علی (رح) اور ایک جماعت نے یہ کہا ہیی۔ ان علماء میں سے ابو الحسن (رح) محمد بن عبداللہ (رح) فرضی مصری المعروف بابن اللبان نے دونوں مسئلوں میں یہی کہا ہے اور کہا انہوں نے کہ مسئلہ المشترکۃ میں حضرت علی ؓ کا قول یہی ہے اور ایک مقام پر کہا ؛ حضرت علی ؓ سے یہی مروی ہے، ابو عمر ؓ نے کہا : حضرت علی ؓ ، حضرت زید ؓ ، حضرت عبداللہ ؓ ، تمام صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور عام علماء رحمۃ اللہ علیہم سے مشہور اور معروف وہی قول ہے جو امام مالک (رح) نے لکھا ہے اور حضرت ابن عباس پر ان کی حجت یہ ہے کہ ابوین جب ورثہ میں شریک ہوں انکے ساتھ اور کوئی شریک نہ ہو تو ماں کے لیے ایک تہائی اور دو تہائی باپ کے لیے ہوگا اور اسی طرح جب اس نصف میں والدین شریک ہوں جو خاوند سے زائد ہوتا ہے، تو دونوں اس میں اسی طرح حصہ پائیں گے (یعنی) ماں کے لیے تہائی اور باپ کے لیے دو تہائی ہوگا، نظر و قیاس میں یہی صحیح ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) آیت مواریث کے نزول کے سبب میں روایات مختلف ہیں، پس ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، اور دارقطنی نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ سعد بن ربیع ؓ کی بیوی نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ سعد فوت ہوگیا ہے اور اس نے دو بیٹیاں اور ایک بھائی چھوڑا ہے، اس کے بھائی نے سعد کا سارا ترکہ قبضہ میں کرلیا ہے، عورتوں سے ان کے مال کیوجہ سے نکاح کیا جاتا ہے، آپ ﷺ نے اس مجلس میں جواب نہ دیا، پھر وہ عورت آئی اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ سعد کی بیٹیاں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس کے بھائی کو میریی پاس بلاؤ وہ آیا تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا : سعد کی بیٹیوں کو دو تہائی دو اور اس کی بیوی کو آٹھوایں حصہ دو اور باقی مال تیرے لیے ہے، (1) (سنن ابن ماجہ کتاب الفرائض، باب فرائض، الصلب حدیث نمبر 2410، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو داؤد اور ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ پھر آیت مواریث نازل ہوئی، امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے، حضرت جابر ؓ نے بھی روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر بن سلمہ ؓ میں پیدل چل کر میری عیادت کے لیے تشریف لائے، انہوں نے مجھے بےہوش پایا۔ آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور وضو کیا پھر اس پانی سے مجھ پر چھڑکا تو مجھے ہوش آیا گیا، میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے مال میں کیا کروں ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولاد کم “۔ ان دونوں احادیث کو صحیحین میں بخاری ومسلم نے نقل کیا ہے، امام ترمذی نے بھی یہ حدیث نقل کی ہے اس میں ہے میں نے عرض کی : یا نبی اللہ میں اپنے مال کو اپنے بچوں میں تقسیم کروں، تو آپ ﷺ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولاد کم، للذکر مثل حظ الانثیین “۔ (الایۃ) امام ترمذی (رح) نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (2) (جامع ترمذی، کتاب الفرائض من رسول اللہ ﷺ باب میراث البنین مع البنات، حدیث نمبر 2022، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اس آیت کا نزول اس وجہ سے ہوا کہ مال سارا بیٹے کے لیے ہوتا اور والدین کے لیے وصیت تھی، پس ان آیات سے اس حکم کو منسوخ کیا گیا۔ مقاتل اور کلبی نے کہا : یہ آیت ام کجہ کے متعلق نازل ہوئی اس کا واقعہ ذکر ہوچکا ہے، سدی (رح) نے کہا : یہ حضرت حسان بن ثابت ؓ کے بھائی عبدالرحمن بن ثابت ؓ کی بیٹیوں کے سبب نازل ہوئی، بعض علماء نے فرمایا : زمانہ جاہلیت کے لوگ میراث صرف ان لوگوں کو دیتے جو جنگوں میں شریک ہوتے اور جو دشمن سے قتال کرتے، پس یہ آیت نازل ہوئی جس نے ہر چھوٹے بڑے کا حصہ بیان کیا، یہ بھی بعید نہیں کہ یہ تمام کا جواب ہو اس وجہ سے اس کا نزول مؤخر ہوا۔ واللہ اعلم۔ ال کیا الطبری نے کہا : بعض آثار میں وارد ہے کہ جو کچھ زمانہ جاہلیت میں تھا کہ وہ چھوٹے بچے کو میراث سے محروم کرتے تھے تو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی یہی ہوتا رہا، یہاں تک کہ اس آیت نے حکم منسوخ کردیا، اور ہمارے نزدیک اس پر شریعت کا مشتمل ہونا ثابت نہیں۔ بلکہ اس کے خلاف ثابت ہے، کیونکہ یہ آیت سعد بن ربیع ؓ کے ورثہ کے متعلق نازل ہوئی، بعض علماء نے فرمایا : یہ ثابت بن قیس بن شماس ؓ کے ورثہ کے متعلق نازل ہوئی، اہل النقل کے نزدیک پہلا قول اصح ہے، رسول اللہ ﷺ نے چچا سے میراث واپس لی، اگر ہماری شریعت میں اس سے پہلے یہ حکم ثابت ہوتا تو رسول اللہ ﷺ میراث واپس نہ لیتے کبھی بھی ہماری شریعت میں یہ ثابت نہیں ہوا کہ بچے کو میراث نہیں دی جائے گی حتی کہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر جنگ کرے اور اپنے حریم کا دفاع کرے، میں کہتا ہوں : قاضی ابوبکر بن عربی (رح) نے اسی طرح کہا ہے۔ اس آیت کا نزول ایک بدیع نکتہ پر دلالت کرتا ہے وہ یہ ہے کہ جو کچھ زمانہ جاہلیت میں تھا کہ مال بڑے لے لیتے تھے، اسلام کے ابتدائی دور میں شریعت خاموش نہ تھی اور نہ اس کو ثابت کرنے والی تھی، کیونکہ اگر یہ شریعت ہوتا اور ثابت ہوتا تو نبی مکرم ﷺ چچے کی دو بچیوں پر مال واپس کرنے کا حکم نہ لگاتے، کیونکہ جب احکام جاری ہوچکے ہوں پھر بعد میں نسخ آئے تو وہ مستقبل میں موثر ہوتا ہے، سابقہ فیصلوں کو ختم نہیں کرتا یہ ایک زمانہ جاہلیت کا ظلم تھا، شریعت اسلامیہ نے اسے اٹھا دیا یہ ابن عربی (رح) کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولاد کم “۔ شوافع نے کہا ہے کہ یہ ارشاد صلبی اولاد میں حقیقت ہے اور رہا پوتاوہ اس میں بطریق مجاز داخل ہے، جب کوئی قسم اٹھائے کہ اس کی اولاد نہیں ہے اور اس کا پوتا ہو تو وہ حانث نہ ہوگا، جب فلاں کی اولاد کے لیے وصیت کرے تو اس میں پوتے داخل نہ ہوں گے، امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں : اگر اس کی صلبی اولاد نہ ہوگی تو پوتا داخل ہوگا، اور یہ معلوم ہے کہ الفاظ تبدیل نہیں ہوتے اس سے جو علماء کہتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (5) ابن المنذر نے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولاد کم “۔ فرمایا تو آیت کے ظاہر سے یہ چیز ثابت ہوتی ہے کہ میراث تمام اولاد کے لیے ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو، لیکن جب رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بعض اولاد کا ارادہ کیا ہے اور بعض کا نہیں، پس مسلم کافر کا وارث نہ ہوگا اور کافر، مسلمان کا وارث نہ ہوگا یہی حدیث کا ظاہر ہے۔ میں کہتا ہوں : جب اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” فی اولادکم “ فرمایا تو ان میں وہ قیدی بھی داخل ہے جو کفار کے قبضہ میں ہے پس وہ بھی وارث ہوگا جب تک اس کی زندگی اسلام پر معلوم ہو، یہی اکثر اہل علم کا قول ہے مگر نخعی نے کہا : قیدی وارث نہ ہوگا، اور جب اس کی زندگی کا علم نہ تو تو اس کا حکم مفقود کا حکم ہوگا اور آیت کے عموم میں نبی مکرم ﷺ کی میراث داخل نہ ہوگی، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا : ہم وارث نہیں بناتے جو ہم چھوڑتے ہیں، صدقہ ہے، اس کا تفصیلی بیان انشاء اللہ سورة مریم میں آئے گا، اسی طرح اپنے باپ یا دادے، اپنے بھائی یا اپنے چچا کا قاتل بھی اسی عموم میں داخل نہ ہوگا، کیونکہ سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے کہ اپنے مقتول کے مال اور اس کی دیت سے وارث نہ ہوگا، اس کا بیان سورة بقرہ میں گزر چکا ہے، اگر وہ اسے خطاء قتل کر دے تو اس کی دیت سے اسے میراث نہیں ملے گی اور اس کے مال سے امام مالک (رح) کے قول کے مطابق وارث ہوگا اور امام شافعی (رح)، امام احمد (رح) سفیان (رح) اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علیہم کے قول میں نہ مال سے وارث ہوگا اور نہ دیت سے وارث ہوگا، جیسا کہ سورة بقرہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے امام مالک (رح) کا قول اصح ہے، یہی قول اسحاق (رح) اور ابو ثور (رح) کا ہے، اور یہی قول سعید بن مسیب، عطاء بن ابی رباح (رح) مجاہد (رح) زہری، (رح) اوزاعی (رح) ابن المنذر (رح) کا ہے، کیونکہ میراث ایسی چیز ہے جس کا وارث اللہ نے اسے اپنی کتاب میں بنایا ہے اس سے سنت اور اجماع کے ساتھ استثنا نہیں کی گئی، ہر مختلف فیہ مسئلہ ظاہر آیات کی طرف لوٹایا جائے گا جن میں میراث کا بیان ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) اسلام کے ابتدائی دور میں مراث کا حق کئی اسباب سے ہوتا تھا، ان میں سے حلف، ہجرۃ، اور معاقدۃ ہے، پھر یہ تمام اسباب منسوخ ہوگئے جیسا کہ اسی سورت میں (آیت) ” ولکل جعلنا موالی “ ، کے تحت تفصیل آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ علماء کا اجماع ہے کہ اولاد کے ساتھ ایسے افراد وارث ہوں جن کے لیے حصہ متعین ہے تو پہلے اسے حصہ مفروضہ کے مطابق حصہ دیا جائے گا پھر جو مال بچے گا وہ مرد کے لیے دو عورتوں کے حصہ کے برابر حصہ کے مطابق تقسیم کیا جائے گا کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : فرائض ان کے اہل کے حوالے کرو، (1) (مسند امام احمد، حدیث نمبر 2657) اس حدیث کو ائمہ نے روایت کیا ہے یعنی وہ فرائض جو کتاب اللہ میں واقع ہیں اور یہ فرائض چھ ہیں۔ 2؍1۔ 4؍1۔ 8؍1۔ 3؍2۔ 3؍1۔ 6؍1۔ 2؍1۔ پانچ کا حصہ مقرر ہے صلبی بیٹی، پوتی، سگی، بہن، باپ کی طرف سے بہن اور خاوند، یہ حصص اس صورت میں ہیں جب یہ علیحدہ ہوں کوئی انہیں اپنے حصہ سے محجوب کرنے والا نہ ہو، حاجب کے ہوتے ہوئے خاوند کا حصہ 4؍1 ہوگا اور ایک بیوی اور زیادہ بیویوں کے لیے 4؍! ہوگا جب کہ حاجب نہ ہو اور 8؍1 حصہ ہوگا ایک بیوی اور زیادہ بیویوں کے لیے جب کہ حاجب ہوگا اور 3؍2 حصہ چار افراد کا ہے صلبی بیٹیوں میں سے دو یا زیادہ ہوں اور پوتیاں، سگی بہن یا باپ کی طرف سے بہنیں جب دو یا دو سے زیادہ ہوں یہ حصص اسی صورت میں ہیں جب ان کو محجوب کرنے والا نہ ہو اور 3؍1 حصہ دو افراد کا ہے ماں کا حصہ ہے جب میت کا بیٹا اور پوتا نہ ہو اور دو یا دو سے زیادہ اس کے بھائی اور بہنیں نہ ہوں اور یہ حصہ ماں کی طرف سے دو یا دو سے زیادہ اولاد ہو، اور یہ کل مال کا تیسرا حصہ لیں گے اور مابقی کا ثلث 3؍1 یہ ماں کے لیے ہے۔ اس مسئلہ میں جب کہ میت کے وارث خاوند یا بیوی اور والدین ہوں تو اس صورت میں ماں کو مابقی کا ثلث 3؍1 ملے گا، اس کا بیان پیچھے گزر چکا ہے، اور بھائیوں کے ہوتے ہوئے دادا کے مسائل ہیں جب ان کے ساتھ ذوسہم ہو اور مابقی کا تیسرا حصہ اس کے لیے ہو۔ اور 6؍1 حصہ سات افراد کے لیے ہے، ابوان دادا جب اس کے ساتھ میت کا بیٹا اور پوتا ہو ایک دادی اور بہت سی دادیاں جب وہ جمع ہوں اور صلبی بیٹی کے ساتھ پوتی، سگی بہن کے ساتھ باپ کی طرف سے بہنیں، ماں کی اولاد میں سے ایک خواہ مذکر ہو یا مونث ہو، یہ تمام فرائض کتاب اللہ ﷺ سے ماخوذ ہیں مگر ایک دادی اور بہت سی دادیوں کا حصہ سنت سے ماخوذ ہے ان فرائض کے لیے میراث کو ثابت کرنے والے اسباب تین ہیں، ثابت نسب، منعقد نکاح اور آزاد کرنے کی ولاء کبھی یہ تین چیزیں جمع ہوجاتی ہیں، ایک شخص عورت کا خاوند بھی ہوتا ہے، اس کا آزاد کرنے والا بھی ہوتا ہے اور اس کے چچا کا بیٹا بھی ہوتا ہے اور کبھی ایک شخص میں دو چیزیں جمع ہوتی ہیں، مثلا عورت کا خاوند اور اس کا آزاد کرنے والا ہوتا ہے یا اس کا خاوند اور اس کے چچا کا بیٹا ہوتا ہے پس وہ دو وجہوں سے وارث ہوتا ہے اس کے لیے تمام مال ہوتا ہے جب کہ وہ ایک ہوتا نصف مال زوجیت کی وجہ سے اور نصف ولائیا نسب کی وجہ سے مل جاتا ہے مثلا ایک عورت ایک شخص کی بیٹی بھی ہوتی ہے اور اس کو آزاد کرنے والی بھی ہوتی ہے تو اس عورت کو تمام مل جاتا ہے جب کہ یہ ایک وارث ہو، نصف مال نسب کی وجہ سے اور نصف ولاء کی وجہ سے مل جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) میراث نہیں ہوگی مگر قرضہ اور وصیت ادا کرنے کے بعد جب کوئی شخص فوت ہوگا تو پہلے اس کے متعین حقوق نکالے جائیں گے پھر اس کے کفن، دفن کا انتظام کیا جائے گا پھر اس کے مراتب کے مطابق قرضے ادا کیے جائیں گے پھر تہائی حصہ سے اس کی وصیتیں پوری کی جائیں گی اور وہ چیزیں جو وصیت کے معنی میں ہوں گی، باقی مال ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا اور جمہ ورثاء سترہ ہیں، دس مرد ہیں، بیٹا، پوتا، چچا، چچا کا بیٹا، خاوند اور آزاد کرنے والا، اور عورتوں میں سے ساتھ ہیں بیٹی، پوتی، اگرچہ نیچے کی ہو، ماں، دادی اگرچہ بہت اوپر کی ہو، بہن، بیوی، آزاد کرنے والی عورت، بعض فضلاء نے انہیں نظم کیا ہے : والوارثون ان اردت جمعھم مع الاناث الوارثات معھم : عشرۃ من جملۃ الذکران وسبع اشخاص من النسوان : وھم وقد حصرتھم فی النظم الابن، ابن الابن وابن العم : والاب منھم وھو فی الترتیب والجد من قبل الاخ القریب : وابن الاخ الادنی اجل والعم والزوج والسید تم الام : وابنۃ الابن بعدھا والبنت وزوجۃ وجدۃ واخت : والمراۃ المولاۃ اعنی المعتقہ خذھا الیک عدۃ محققۃ : مسئلہ نمبر : (8) جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فی اولاد کم “۔ تو اس میں ساری اولاد شامل ہے خواہ وہ موجود ہو یا ماں کے پیٹ میں ہو قریبی ہو یا بعید ہو، مذکر ہو یا مونث ہو سوائے کافر کے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، بعض علماء نے کہا : یہ حکم قریبی اولاد میں حقیقت ہے، دور والوں میں مجاز ہے اور بعض نے کہا : تمام اولاد میں حقیقت ہے، کیونکہ یہ پیدا ہونے سے ہے، مگر وہ میت کے قرب کی مقدار کے اعتبار سے وارث ہوں گے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یبنی ادم “۔ (الاعراف : 35) (اے آدم کے بیٹو) نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے، انا سید ولد آدم، میں آدم کی اولاد کا سردار ہوں اور فرمایا : اے بنی اسرائیل ! تیر اندازی کرو کیونکہ تمہارا باپ (اسماعیل (علیہ السلام) تیر انداز تھا، لیکن اس اطلاق میں عرف کا استعمال، اس حقیقت پر قریبی افراد پر غالب ہے۔ اگر صلبی اولاد میں مذکر موجود ہو تو پوتے کو کچھ نہیں ملے گا اس پر اہل علم کا اجماع ہے اگر صلبی اولاد میں سے مذکر نہ ہو اور اولاد میں مذکر موجود ہو تو پوتے کو کچھ نہیں ملے گا اس پر اہل علم کا اجماع ہے، اگر صلبی اولاد میں سے مذکر نہ ہو اور اولاد کی اولاد میں مذکر ہو (یعنی پوتا موجود ہو) تو پہلے صلبی بیٹیوں کو حصہ دیا جائے گا اور وہ 3؍2، حصہ تک پہنچے گا، پھر باقی 3؍1 پوتوں کو ملے گا اگر وہ میت سے تعلق میں برابر ہوں یا مذکر لڑکیوں سے اسفل ہو تو یہ اس طرح تقسیم کریں گے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہوگا، یہ امام مالک (رح) امام شافعی (رح) اور اصحاب رائے کا قول ہے اور یہی عام صحابہ تابعین اور تبع تابعین اہل علم کا قول ہے۔ مگر حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : اگر مذکر پوتا ہو اور اس کے مقابلے میں مؤنث اولاد ہو تو مؤنث پر ہی ترکہ رد ہوگا، اگر اس مؤنث سے وہ اسفل ہو تو پھر اس مؤنث اولاد پر رد نہ ہوگا اس میں انہوں نے اس قول کا خیال رکھا ہے (آیت) ” فان کن نسآء فوق اثنتین فلھن ثلثا ماترک “۔ لڑکیوں کے لیے 3؍2 حصہ سے زیادہ نہیں بنایا اگرچہ زیادہ بھی ہوں، میں کہتا ہوں : ابن عربی (رح) نے یہ تفصیل حضرت ابن مسعود ؓ سے اسی طرح ذکر کی ہے۔ ابن المنذر اور الباجی نے بھی ان سے یہی ذکر کیا ہے، جو صلبی بیٹیوں سے بچے وہ پوتوں کے لیے ہے۔ پوتیوں کے لیے نہیں ہے۔ یہ ان دونوں حضرات نے تفصیل نہیں کی، ابن المنذر (رح) نے ابو ثور (رح) سے یہ حکایت کی ہے، اسی طرح ابو عمر (رح) نے حکایت کیا ہے، ابو عمر (رح) نے کہا : حضرت ابن مسعود ؓ نے ان میں مخالفت کی ہے، انہوں نے فرمایا : جب بیٹیاں 3؍2 حصہ مکمل کرلیں گی تو باقی پوتوں کے لیے ہوگا ان کی بہنوں کے لیے نہیں ہوگا اور نہ ان سے اوپر والی پوتیوں کے لیے ہو اور نہ نیچے والیوں کے لیے ہوگا، ابو ثور ؓ اور داؤد بن علی کا مذہب ہے، اسکی مثل علقمہ سے مروی ہے اور اس مذہب والوں کی حجت حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث ہے جو انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : مال کو فرائض والوں میں کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کرو اور جو فرائض سے بچ جائے تو قریبی مذکر رشتہ دار کے لیے ہے (1) (صحیح بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث الولد من ابیہ رامہ، حدیث نمبر 6235، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ حدیث بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے اور جمہور کی حجت اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولاد کم للذکر مثل حظ الانثیین “۔ اولاد کی اولاد بھی اولاد ہی ہے۔ نظر اور قیاس کی حجت سے یہ ہے کہ جو تمام مال میں اپنے درجہ والوں کو عصبہ بناتا ہے تو واجب ہے کہ وہ فاضل مال میں بھی اسے عصبہ بنائے جس طرح صلبی اولاد ہے، پس اس سے ثابت ہوا کہ پوتا اپنی بہن کو میراث میں شریک کرے جس طرح صلبی بیٹا بہن کو میراث میں شریک کرتا ہے، ابو ثور (رح) اور داؤد کی طرف سے حجت پکڑنے والے نے حجت پکڑی ہے کہ پوتی 3؍2 حصہ کے بعد فاضل مال میں علیحدہ وارث نہیں بنتی اس کا بھائی اسے عصبہ نہیں بناتا، اس کا جواب یہ ہے کہ جس کے ساتھ اس کا بھائی ہو تو وہ اس کی وجہ سے قوی ہوجاتی ہے اور وہ اس کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولاد کم “۔ کا ظاہر یہ ہے کہ یہ بھی اولاد میں سے ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فان کن نسآء فوق اثنتین فلھن ثلثا ماترک “۔ اللہ تعالیٰ نے ایک لڑکی کے لیے نصف مقرر فرمایا اور دو سے زیادہ کے لیے 3؍2 مقرر فرمایا اور دو کے لیے کتاب اللہ میں کوئی حصہ منصوص نہیں فرمایا : علماء نے اس دلیل پر کلام فرمایا ہے جو دو کے لیے 3؍2 حصہ کا موجب ہے وہ دلیل کیا ہے ؟ بعض علماء نے فرمایا وہ اجماع ہے یہ مردود ہے کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ سے صحیح قول مروی ہے کہ دو بیٹیوں کو نصف 2؍1 ملے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فان کن نسآء فوق اثنتین فلھن ثلثا ماترک “۔ یہ شرط اور جزا ہے، فرمایا پس دو بیٹیوں کودو تہائی 3؍2 نہیں دیا جائے گا بعض علماء نے فرمایا : دو بہنوں پر قیاس کے ساتھ دو بیٹیوں کو 3؍2، حصہ دیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورة کے آخر میں فرمایا (آیت) ” ولہ اخت فلھا نصف ماترک “۔ اور پھر فرمایا : (آیت) ” فان کا نتا اثنتین “۔ فلھام الثلثن مما ترک “۔ پس دو بیٹیاں 3؍2 کے اشتراک میں دو بہنوں کے ساتھ ملحق ہوں گی اور بہنیں جب دو سے زیادہ ہوں گی تو 3؍2 میں اشتراک میں بیٹیوں کے ساتھ ملحق ہوں گی، اس پر اعتراض ہوا ہے کہ اخوات کے بارے میں حکم منصوص ہے اور اس پر اجماع منعقد ہے اور اس کے ساتھ یہ تسلیم شدہ حکم ہے، بعض علماء نے فرمایا : آیت میں ایسی چیز موجود ہے جو دلالت کرتی ہے کہ دو بیٹیوں کے لیے 3؍2 ہے وہ یہ ہے کہ جب بیٹی ایک ہو تو اپنے بھائی کے ساتھ 3؍1 حصہ لیتی ہے تو معلوم ہوا کہ دو بیٹیوں کے لیے 3؍2 ہوگا، اس دلیل سے ان علماء نے حجت پکڑی ہے اور یہ قول قاضی اسماعیل، ابو العباس المبرد کا ہے، نحاس نے کہا : اہل نظر کے نزدیک یہ حجت غلط ہے، کیونکہ اختلاف ایک لڑکی میں نہیں دو لڑکیوں میں ہے، پس ان کا مخالف کہتا ہے جب وہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑے تو بیٹیوں کے لیے نصف ہوتا ہے، پس یہ دلیل ہے کہ یہ ان کا فرض ہے، بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” فوق “ کا لفظ زائد ہے یعنی ان کن نساء اثنتین “۔ یعنی عورتیں دو ہوں جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، (آیت) ” فاضربوا فوق الاعناق “۔ (الانفال : 12) مراد اعناق ہے۔ اس قول کو نحاس اور ابن عطیہ نے رد کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ غلط ہے، کیونکہ ظروف اور تمام اسماء کا کلام عرب میں بغیر معنی کے زائد ہونا جائز نہیں، ابن عطیہ نے کہ (آیت) ” فاضربوا فوق الاعناق “۔ یہ فصیح کلام ہے فوق زائد نہیں ہے بلکہ یہ معنی کے لیے محکم ہے کیونکہ عنق (گردن) کو مارنا ثابت ہوتا ہے جب وہ جوڑ کی ہڈی سے اوپر ہو نہ کہ دماغ میں مارنا مراد ہے، جیسا کہ درید بن الصمۃ نے کہا : میں دماغ سے نیچے سے اور ہڈی سے اوپر کی جگہ پر مارتا ہوں پس میں جوانوں کی گردنوں کو مارتا ہوں۔ اور قوی ترین حجت بیٹیوں کے لیے 3؍2 حصہ ہونے میں سبب نزول میں مروی صحیح حدیث ہے اہل حجاز اور بنی اسد کی لغت الثلث، الربع، عشر تک عین کلمہ کے ضمہ کے ساتھ ہے اور بنی تمیم اور ربیعہ کی لغت الثلث لام کے سکون کے ساتھ ہے اسی طرح عشر تک عین کلمہ کے سکون کے ساتھ ہے، کہا جاتا ہے : ثلثت القوم اثلثھم وثلثت الدراھم اثلثلھا جب تو انہیں تین مکمل کر دے۔ واثلثت ھی، لیکن وہ مائۃ اور الف میں کہتے ہیں امای تھا والفتھا وامات، الفت : مسئلہ نمبر : (10) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان کا نت واحدۃ فلھا النصف “۔ نافع اور اہل مدینہ نے واحدۃ رفع کے ساتھ پڑھا ہے اس بنا پر کہ اس کا معنی ہے وقعت وحدثت واحدۃ اور یہ کان تامہ ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : اذا کان الشتاء فادفئونی فان الشیخ یھرمہ الشتائ : جب موسم سرما ہو تو مجھے گرم کرو کیونکہ بوڑھے آدمی کو سردیوں کاموسم مزید بوڑھا کردیتا ہے۔ اور باقی قراء نے نصب کے ساتھ واحدۃ پڑھا ہے، نحاس نے کہا : یہ قرات بہتر ہے یعنی وان کا نت المتروکۃ اور المولودۃ (واحدۃ) اگر میت کے پچھے ایک بچی ہو۔ جیسے ارشاد ہے (آیت) ” فان کن نسآء “۔ جب صلبی بیٹیوں کے ساتھ، پوتیاں بھی ہوں اور صلبی بیٹیاں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو وہ پوتیوں کو میراث سے محروم کردیں گی کیونکہ پوتیوں کے لیے 3؍2 حصہ کے علاوہ میں بطور فرض میراث نہیں ملتی، اگر صلبی بیٹی ایک ہو ایک پوتی ہو یا بہت سی پوتیاں ہوں تو وہ صلبی بیٹی کے ساتھ مل کر 3؍2 حصہ مکمل کریں گی، کیونکہ دو بیٹیاں یا زائد اسی فرض 3؍2، کی وارث ہوتی ہیں اور پوتیاں، بیٹیوں کے قائم مقام ہوتی ہیں جب بیٹیاں نہ ہوں اور اسی طرح پوتے حجب اور میراث میں بیٹیوں کے قائم مقام ہوتے ہیں جب ان عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ ہو جو سدس 6؍1 کی مستحق ہے تو یہ سدس 6؍1، پوتی کے لیے ہوگا اور متوفی کی سگی بہن کی نسبت یہ 6؍1 حصہ کی زیادہ مستحق ہے، جمہور فقہاء صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم کا یہی نظریہ ہے مگر ابو موسیٰ (رح)، سلیمان بن ابی ربیعہ سے مروی ہے کہ بیٹی کے لیے نصف ہے اور نصف ثانی بہن کے لیے ہے اور ایسی صورت میں پوتی کا کوئی حق نہیں ہے۔ (1) ابو موسیٰ سے صحیح یہ مروی ہے کہ انہوں نے اس مسئلہ سے رجوع کر لیا تھا، یہ بخاری نے روایت کیا ہے، آدم نے ہمیں بتایا انہوں نے کہا ہمیں شعبہ نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں ابو قیس نے بتایا کہ میں نے ہزیل بن شرجیل کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ابو موسیٰ سے بیٹی، پوتی اور بہن کے درمیان میراث کی تقسیم کے بارے پوچھا گیا تو ابو موسیٰ رحمۃ اللہ علیہنے کہا : بیٹی کے لیے 2؍1 حصہ ہے، بہن کے لیے 2؍1 ہے اور حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس جاؤ وہ بھی میری متابعت کریں گے، حضرت ابن مسعود ؓ سے پوچھا گیا اور انہیں ابو موسیٰ کے قول کے متعلق خبر دی گئی تو حضرت ابن مسعود ؓ نے کہا : پھر میں تو گمراہ ہوگیا اور میں ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہیں ہوں (اگر میں ایسا فیصلہ کروں) میں تو اس میں نبی مکرم ﷺ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کروں گا بیٹی کے لیے نصف ہوگا اور پوتی کے لیے 6؍1، ہوگا دو ثلث مکمل کریں گے اور باقی بہن کے لیے ہوگا، ہم پھر ابو موسیٰ (رح) کے پاس آئے انہیں حضرت ابن مسعود ؓ کے قول کے متعلق بتایا تو انہوں نے کہا : جب تک یہ عالم اجل تم میں موجود ہے مجھے سے مسئلہ نہ پوچھا کرو۔ اگر پوتی یا پوتیوں کے ساتھ ان کے درجہ میں یا ان سے نیچے لڑکا ہو تو وہ انہیں عصبہ بنادے گا۔ اور دوسرا نصف ان کے درمیان ہوگا، مذکر کے لیے دو لڑکیوں کے حصہ کے برابر ہوگا، جتنی مقدار کو بھی پہنچ جائے، جب کہ حضرت ابن مسعود ؓ کا قول اس کے خلاف ہے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے، جب صلبی بیٹیاں یا صلبی بیٹی اور پوتیاں دو ثلث (3؍2) مکمل کرلیں اور اسی طرح وہ سگی بہن اور بہنوں اور باپ کی طرف سے بھائیوں کے متعلق فرماتے ہیں، سگی بہن کے لیے نصف ہے اور باقی بھائیوں اور بہنوں کے لیے جب تک انہیں تقسیم کی وجہ سے 6؍1 سے زیادہ نہ پہنچے اگر اس 6؍1 سے زیادہ پہنچے تو انہیں 3؍2 حصہ مکمل کرتے ہوئے 6؍1، حصہ دیا جائے گا اور اس سے زائد انہیں نہیں دیا جائے گا، یہی ابو ثور (رح) نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (11) جب کوئی شخص مر جائے اور اپنی حاملہ بیوی چھوڑ جائے تو مال کی تقسیم میں توقف کیا جائے گا حتی کہ بچی یا بچہ پیدا ہوجائے، اہل علم کا اجماع ہے کہ جب کوئی شخص مرجائے اور اس کی بیوی حاملہ ہو تو ماں کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ وارث ہوگا اور اس کی میراث جاری ہوگی، جب وہ زندہ پیدا ہوگا اور آواز نکالے گا اور عام علماء کا قول ہے کہ جب مردہ پیدا ہوگا تو وارث نہ ہوگا، اگر زندہ پیدا ہو اور آواز نہ نکالے تو ایک جماعت کا خیال ہے کہ اس کے لیے میراث نہ ہوگی اگرچہ وہ حرکت بھی کرے یا چھینک مارے جب تک کہ آواز نہ نکالے اور ایک طائفہ نے کہا : جب حرکت، آواز نکالنے یا دودھ پینے یا سانس لینے کے ساتھ بچے کی زندگی معلوم ہوجائے گی تو اس کے احکام زندہ کے احکام ہوں گے، یہ امام شافعی (رح)، سفیان (رح) ثوری (رح) اور اوزاعی (رح) کا قول ہے۔ ابن المنذر نے کہا : یہ امام شافعی (رح) نے جو کہا ہے وہ نظر کا احتمال رکھتا ہے مگر خبر اس سے مانع ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کا یہ قول ہے ” جو بچہ پیدا ہوتا ہے شیطان اسے چوک دیتا ہے وہ شیطان کی چوک کی وجہ سے روتا ہے سوائے ابن مریم اور اس کی والدہ کے، یہ خبر ہے اور خبر پر نسخ واقع نہیں ہوتا۔ مسئلہ نمبر : (12) جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فی اولادکم “۔ یہ حکم خنثی (ہیجڑا) کو بھی شامل ہے جس کی دونوں آگے والی شرمگاہیں ہوتی ہیں، علماء کا اجماع ہے کہ اسے پیشاب کرنے کے اعتبار سے وارث بنایا جائے گا اگر وہ مرد والی شرمگاہ سے پیشاب کرنے کے اعتبار سے وارث بنایا جائے گا اگر وہ مرد والی شرمگاہ سے پیشاب کرتا ہے تو وہ مرد کی میراث کا وارث ہوگا، اگر وہ عورت والی شرمگاہ سے پیشاب کرتا ہے تو عورت کی میراث کا وارث ہوگا۔ ابن المنذر نے کہا : امام مالک سے میں نے اس کے متعلق کوئی چیز یاد نہیں کی، بلکہ ابن القاسم (رح) نے ذکر کیا ہے کہ وہ امام مالک (رح) سے اس کے متعلق پوچھنے سے ڈر گئے، اگر وہ دونوں سے اکھٹا پیشاب کرتا ہو تو جس جگہ سے پہلے پیشاب کرتا ہوگا اس کا اعتبار ہوگا یہ سعید بن مسیب ؓ امام احمد (رح) اور اسحاق (رح) کا قول ہوگا، یہ اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علیہم سے حکایت کیا گیا ہے۔ قتادہ نے سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے خنثی کے متعلق فرمایا : اس کی مراث کا اعتبار اس کے پیشاب کرنے کی جگہ کے اعتبار سے ہوگا اگر وہ دونوں سے اکٹھا پیشاب کرتا ہوگا تو نصف مذکر اور نصف مونث ہوگا۔ یعقوب اور محمد (رح) نے کہا : جس شرمگاہ سے زیادہ پیشاب کرتا ہوگا اس کے اعتبار سے وارث ہوگا، اوزاعی سے یہی حکایت ہے، نعمان (رح) نے کہا : جب وہ دونوں سے اکٹھا پیشاب کرے تو وہ خنثی مشکل ہے، میں یہ نہیں دیکھوں گا کہ کس طرف سے زیادہ پیشاب کرتا ہے، نعمان سے یہ بھی روایت ہے کہ جب ایسا ہوگا تو توقف کیا جائے گا اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب خنثی مشکل ہوگا تو دونوں حصوں میں سے کم حصہ دیا جائے گا، یحییٰ بن آدم نے کہا : جب وہ مرد کی حیثیت سے پیشاب کرتا ہوگا اور اسے عورت کی طرح حیض بھی آتا ہوگا تو وہ پیشاب کرنے کے اعتبار سے وارث ہوگا، کیونکہ اثر میں ہے ” پیشاب کرنے کی جگہ کے اعتبار سے وارث ہوگا “ اور امام شافعی (رح) کے قول میں ہے جب اس کے دونوں طرفوں سے پیشاب اکٹھا نکلتا ہوگا اور ایک سے دوسری کی نسبت پہلے نہیں نکلتا ہوگا تو وہ خنثی مشکل ہوگا اسے مونث کی میراث کی طرح میراث دی جائے گی اور اس کے اور دوسرے ورثاء کے درمیان مال موقوف ہوگا حتی کہ اس کا امر واضح ہوجائے یا ورثاء صلح کرلیں، یہی ابو ثور (رح) کا قول ہے، شعبی نے کہا : مذکر کی نصف میراث اور مونث کی نصف میراث دی جائے گی، اوزاعی کا یہی مذہب ہے اور یہ مالک کا مذہب ہے، ابن شاس نے جو اھر ثمینۃ میں، امام مالک عالم مدینہ کے مذہب پر کہا ہے کہ خنثی کی جب دونوں شرمگاہیں ہوں گی یعنی مرد کی شرمگاہ اور عورت کی شرمگاہ جن کے ذریعے پیشاب کیا جاتا ہے تو جس کے ذریعے پیشاب کرتا ہوگا اس کا حکم اس کے مطابق ہوگا اگر دونوں سے پیشاب کرتا ہوگا تو اعتبار کثرت کا ہوگا یعنی جس شرمگاہ سے زیادہ پیشاب کرتا ہوں گا اس کا اعتبار ہوگا اگر برابر پیشاب کرتا ہوگا تو جس شرمگاہ سے پہلے کرتا ہوگا اس کا اعتبار ہوگا اگر دونوں سے اکٹھا کرتا ہوگا تو پھر داڑھی اگنے یا پستانوں کے بڑا ہونے اور عورتوں کے پستانوں کے مشابہ ہونے اعتبار ہوگا، جب دونوں امر برابر ہوں تو پھر بلوغت کے وقت کی حالت کا اعتبار ہوگا اگر حیض آتا ہوگا تو عورت کے حکم میں ہوگا اگر احتمال پایا جاتا ہوگا تو اس کا حکم ہوگا اگر دونوں پائے جاتے ہوں گے تو مشکل ہوگا، اسی طرح اگر پیشاب کرنے کی جگہ نہ ہو یعنی نہ وہ ہو جو مردوں کے ساتھ خاص ہے اور نہ وہ ہو جو عورتوں کے ساتھ خاص ہے بلکہ اس کی ایک جگہ ہو جس سے پیشاب کرتا ہو تو پھر بلوغت کا انتظار کیا جائے گا اگر کوئی تمیز دینے والی صورت ہوگی تو فبہا ورنہ مشکل ہوگا پھر جہاں اشکال کا حکم ہم لگائیں گے تو اسے مذکر اور مونث دونوں کے حصوں کا نصف ملے گا۔ میں کہتا ہوں : یہ علماء نے خنثی مشکل کی علامات ذکر کی ہیں، ہم سورة بقرہ اور اس سورت کے آغاز میں ایک علامت کی طرف اشارہ کرچکے ہیں جس کے ذریعے وہ ایک قسم کے ساتھ لاحق کیا جائے گا، یہ علامت ہے پسلیوں کے اعتبار کا (اگر پسلیاں زیادہ ہیں تو عورت ہے اگر کم ہیں تو مرد ہے) حضرت علی ؓ سے یہی علامت مروی ہے اس کے ساتھ آپ نے فیصلہ فرمایا تھا، بعض فضلاء نے بہت سے اشعار میں خنثی کا حکم نظم کیا ہے خنثی میں پستان، داڑھی اور پیشاب کی جگہ کا اعتبار ہے اگر اس کے تمام حالات برابر ہوں اور کوئی ایک صورت واضح نہ ہو اور اس کی نشانیاں مشکل ہوں تو 8؍6 حصہ ملے گا یہ اس کا حصہ ہے جو اشکا کی وجہ سے مستحق ہے، اس میں عبرت ہے، واجب ہے کہ وہ دنیا میں جب تک زندہ ہے نہ خود نکاح کرے اور نہ کسی کا نکاح کرائے جب عیال والا نہ تو میں اسے مردوں میں شمار نہیں کرتا، یہ تمام جو میں نے نظم میں ذکر کیا ہے بڑے بڑے علماء کے اقوال ہیں، ایک قوم نے خثنی پر کلام کرنے سے انکار کیا تو اس کو کوئی ملامت نہیں کی گئی کیونکہ اس کے ذکر میں شناعت ظاہر ہے اور بشاعت بالکل واضح ہے، اس کی مخفی صورت میں حضرت علی ؓ کا فیصلہ گزر چکا ہے کہ اگر اس کی پسلیاں کم ہوں تو وہ مراث، نکاح، احرام، حج، نماز اور احکام میں مردوں کی طرح ہوگا، اگر مردوں سے ایک پسلی زیادہ ہو تو وہ عورتوں میں سے ہوگا، کیونکہ عورتوں کی ایک پسلی زیادہ ہوتی ہے، اس فائدہ کو غنیمت جان، کیونکہ حوا (علیہ السلام) کی تخلیق کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کی ایک پسلی کم ہوئی یہ قول حق ہے اور اس پر دلیل نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے۔ ابو الولید بن رشد نے کہا : خنثی مشکل نہ خاوند ہوتا ہے، نہ بیوی، نہ باپ اور نہ ماں، بعض نے کہا کہ ایسے خنثے پائے گئے ہیں جن کے پیٹ سے بچے ہوئے اور جن کی پیٹھ سے اولاد ہوئی، ابن رشد نے کہا : اگر یہ صحیح ہے تو اپنی صلبی بیٹے سے باپ کی مکمل میراث پائے گا اور بطن سے پیدا ہونے والی اولاد سے ماں کی مکمل میراث پائے گا یہ بعید ہے، واللہ اعلم۔ سنن دارقطنی میں ابو ہانی عمر بن بشیر (رح) سے مروی ہے فرمایا : عامر شعبی سے ایک ایسے بچے کے بارے میں پوچھا گیا جو نہ مذکر ہے نہ مونث ہے، نہ اس کے لیے وہ شرمگاہ ہے جو مذکر کی ہوتی ہے اور نہ وہ ہے جو عورت کے لیے ہوتی ہے اس کی ناف سے پیشاب، پاخانہ کی ہئیت سے مواد نکلتا ہے، عامر سے اس کی میراث کے بارے پوچھا گیا تو عامر نے کہا : مذکر کے حصہ کا نصف اور مؤنث کے حصہ کا نصف اسے دیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (13) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا بویہ “۔ یعنی میت کے والدین، یہ ضمیر بغیر مرجع کے ہے اور جائز ہے۔ کیونکہ کلام اس پر دلالت کر رہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” حتی توارت بالحجاب اور انا انزلنہ فی لیلۃ القدر “۔ (ان دونوں قرآنی الفاظ میں ضمیر بغیر مرجع کے ہے) السدس اس کا رفع مبتدا کی حیثیت سے ہے اور اس کا ماقبل خبر ہے، اسی طرح الثلث اور السدس ہیں اسی طرح (آیت) ” نصف ما ترک “۔ اور (آیت) ” فلکم الربع “۔ ولھن الربع “۔ اور فلھن الثمن “ اور فلکل واحد منھما السدس “۔ کی ترکیب ہے۔ اور الابوان الاب اور الابۃ کا تثنیہ ہے۔ الام کے لفظ کی وجہ سے اسے ابۃ نہیں کہا جاتا۔ اور عرب دو مختلف چیزوں کو متفق چیزوں کے قائم مقام کردیتے ہیں اور ایک کو دوسری پر غلبہ دے دیتے ہیں اسکی خفت یا اس شہرت کی وجہ سے اور یہ اسماء صالحہ میں مسموع ہے مثلا اب اور الام کے لیے ابوان، الشمس والقمر کے لیے القمران اللیل والنھار کے لیے الملوان، اسی طرح العمران، ابوبکر اور عمر ؓ کے لیے بولاا جاتا ہے، تذکیر کی خفت کی وجہ سے قمر کو شمس پر غلبہ دیا، عمر کو ابوبکر پر غلبہ دیا، کیونکہ حضرت عمر ؓ کا زمانہ طویل اور مشہور تھا اور جنہوں نے العمرین سے عمر بن خطاب ؓ اور عمر بن عبدالعزیز (رح) کا ارادہ کیا ہے، اس کا قول درست نہیں، کیونکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) سے پہلیی بھی العمرین بولا جاتا تھا یہ ابن الشجری کا قول ہے، اور (آیت) ” ولا بویہ “ میں اوپر والے آباء داخل نہیں ہیں جس طرح نیچے والے ابناء (آیت) ” اولادکم “ میں داخل ہیں کیونکہ (آیت) ” لابویہ “ کا لفظ تثنیہ ہے اور یہ عموم اور جمع کا احتمال نہیں رکھتا، بخلاف (آیت) ” اولادکم “ کے قول کے (کہ یہ جمع ہے) اس کی صحت پر دلیل یہ ارشاد ہے (آیت) ” فان لم یکن لہ ولدو ورثہ ابوہ فلامہ الثلث “۔ اوپر والی ام، دادی ہے اور اس کے لیے بالاجماع ثلث مفروض نہیں ہے، پس جدۃ کا اس لفظ سے خارج ہونا قطعی ہے اور دادا کا شامل ہونا مختلف فیہ ہے، جن علماء نے کہا : وہ باپ کی طرح ہے اور اس کے ساتھ بھائی محجوب ہوتے ہیں ان میں ابوبکر صدیق ؓ ہیں اور ان کی زندگی کے ایام میں کسی صحابی نے ان کی مخالفت نہیں کی تھی اور ان کی وفات کے بعد اس مسئلہ میں اختلاف ہوا اور جنہوں نے کہا : وہ باپ ہے ان میں حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عائشہ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب، حضرت ابو الدرداء اور حضرت ابوہریرہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں یہ تمام علماء باپ کی عدم موجودگی میں داد کو باپ کی طرح سمجھتے تھے اور اس کے ہوتے ہوئے بھائیوں کو محروم کرتے تھے اور بھائی دادا کے ہوتے ہوئے انکے نزدیک کسی چیز کے وارث نہیں بنتے تھے، یہ عطا، طاؤس، حسن اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے اور یہی نظریہ امام ابو حنیفہ، ابو ثور، اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہم کا ہے اور ان کی حجت یہ ارشاد ہے (آیت) ” ملۃ ابیکم برھیم “ (الحج : 78) اور (آیت) ” یبنی ادم “۔ (الاعراف : 35) یہاں ابراہیم کو باپ اور آدم کی اولاد کہہ کر پکارا گیا ہے اور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا یا بنی اسماعیل ارموا فان باکم کان رامیا اے اسماعیل کی اولاد تیراندازی کرو، کیونکہ تمہارا باپ بھی تیر انداز تھا، حضرت علی بن ابی طالب ؓ حضرت زید ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ کا خیال یہ ہے کہ بھائیوں کے ساتھ دادا کو میراث ملے گی، اور سگے بھائیوں کے ہوتے ہوئے یا باپ کی طرف سے بھائیوں کے ہوتے ہوئے اس کی میراث ثلث 3؍1 سے کم نہ ہوگی مگر ذوی الفرائض کے ساتھ، کیونکہ ان کے زید (رح) کے قول کے مطابق سدس سے کچھ کم ہوجاتا ہے، یہ امام مالکرحمۃ اللہ علیہ، امام اوزاعی (رح)، امام ابو یوسف (رح)، امام محمد، (رح) اور امام شافعی (رح)، رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے حضرت علی ؓ بھائیوں اور دادا کو سدس 8؍1 میں شریک کرتے تھے اور ذوی الفرائض اور دوسرے ورثاء کے ساتھ سدس 6؍1 سے دادا کا حصہ کم نہیں کرتے تھے، یہ ابن ابی لیلی اور ایک جماعت کا قول ہے اور علماء کا اجماع ہے کہ داد، باپ کے ہوتے ہوئے وارث نہیں ہوتا اور بیٹا باپ کو محجوب کرتا ہے اور دادے کو باپ کے قائم مقام رکھا ہے حجب اور میراث میں جبکہ مرنے والاقریبی باپ نہ چھوڑے، جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ دادا بھتیجوں کو میراث سے محروم کرے گا مگر شعبی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے مقاسمہ میں بھتیجوں کو بھائیوں کے مقام پر رکھا ہے، جمہور کے قول کی حجت یہ ہے کہ یہ ایسا مذکر ہے جو اپنی بہن کو عصبہ نہیں بناتا چچا اور چچا کے بیٹے کی طرح دادا تقسیم نہیں کرتا، شعبی (رح) نے کہا : اسلام میں پہلا وارث دادا حضرت عمر بن خطاب ؓ تھے، حضرت عاصم بن عمر ؓ کا بیٹا فوت ہوا اور دو بھائی چھوڑے۔ حضرت عمر ؓ نے پوتے کا سارا مال لینے کا ارادہ کیا، پھر حضرت علی ؓ اور حضرت زید ؓ سے اس مسئلہ میں مشورہ کیا تو دونوں نے ایک مثال دی، حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اگر تم دونوں کی رائے جمع نہ ہوتی تو میں اسے اپنا بیٹا اور اپنے آپ کو اس کا باپ نہ دیکھتا، دارقطنی نے حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ان سے اجازت طلب کی تو زید نے اجازت دی جب کہ حضرت زید کا سر اس کی لونڈی کے ہاتھ میں تھا وہ انہیں کنگھی کر رہی تھی حضرت زید ؓ نے اپنا سر کھینچا، حضرت عمر ؓ نے اسے کہا : وہ تجھے کنگھی کرتی رہے حضرت زید ؓ نے کہا : اے امیر المومنین ! اگر آپ مجھے بلاتے تو میں خود تمہارے پاس آجاتا حضرت عمر ؓ نے کہا : مجھے آپ سے ایک کام ہے میں اس لیے آیا ہوں کہ آپ دادا کی میراث کے بارے میں غور کریں حضرت زید ؓ نے کہا : وہی ہوگا جو آپ کہیں گے حضرت عمر ؓ نے کہا یہ وحی نہیں ہے حتی کہ ہم زیادتی اور کمی کرکے نص قرانی کی مخالفت کرنے والے ہوں گے، یہ تو ایک تمہاری رائے ہے اگر میں اسے اپنے موافق دیکھوں گا تو میں اس کی پیروی کروں گا ورنہ تم پر کوئی حرج نہیں ہوگی، حضرت زید ؓ نے اپنے رائے دینے سے انکار کیا، حضرت عمر ؓ غصہ کا اظہار کرتے ہوئے باہر نکلے اور فرمایا : میں تو اس لیے آیا تھا کہ تم میرا مسئلہ حل کرو گے، پھر ایک مرتبہ اسی وقت میں حضرت عمر ؓ ، حضرت زید ؓ کے پاس آئے جس وقت پہلے آئے تھے، حضرت عمر ؓ ٹھہرے رہے حتی کہ حضرت زید ؓ نے کہا : میں تمہارے لیے اس کے متعلق لکھتا ہوں تو حضرت زید ؓ نے انتڑیوں کے ٹکڑے پر لکھا اور اس کی مثال بیان فرمائی، اس کی مثال درخت کی مثل ہے جو ایک تنے پر اگتا ہے، پھر اس میں ایک ٹہنی نکلتی ہے پھر اس ٹہنی میں دوسری ٹہنی نکلتی ہے تنا پہلی ٹہنی کو سیراب کرتا ہے اگر پہلی ٹہنی تو کاٹ دے تو پانی دوسری ٹہنی کی طرف لوٹے گا اگر تو دوسری ٹہنی کاٹ دے تو پانی پہلی ٹہنی کی طرف لوٹے گا، حضرت عمر ؓ وہ تحریر لے کر آئے اور خطبہ دیا پھر وہ تحریر ان پر پڑھی پھر فرمایا : زید بن ثابت نے دادا کے متعلق ایک قول کیا ہے میں اسے جاری کرتا ہوں۔ فرمایا : حضرت عمر ؓ پہلے دادا تھے (جو اسلام میں میراث پانے والے تھے) انہوں نے سارا مال لینے کا ارادہ کیا تھا یعنی اپنے پوتے کا سارا مال لینے اور میت کے بھائیوں کو کچھ نہ دینے کا ارادہ کیا تھا اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب ؓ نے مال کو تقسیم فرمایا۔ مسئلہ نمبر : (14) رہی دادی تو اہل علم کا اجماع ہے کہ دادی لیے 6؍1 حصہ ہے جب میت کی والدہ نہ ہو اور علماء کا اجماع ہے کہ ماں نانی اور دادی کو محروم کردیتی ہے اور اس پر بھی اجماع ہے کہ باپ، میت کی نانی کو محروم کردیتا ہے اور دادی کی میراث میں اختلاف ہے جب اس کا بیٹا زندہ ہو، ایک جماعت نے کہا : دادی وارث نہ ہوگی، جب دادی کا بیٹا زندہ ہو۔ حضرت زید بن ثابت ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ سے یہی مروی ہے اور امام مالک (رح)، ثوری (رح) امام اوزاعی (رح) ابوثور “۔ اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علیہم کا یہی قول ہے۔ ایک جماعت نے کہا : دادی اپنے بیٹے کے ساتھ وارث ہوگی، حضرت عمر ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت عثمان ؓ ، حضرت علی ؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے یہی مروی ہے اور شریح، جابر بن زید، عبید اللہ بن حسن شریک احمد، اسحاق اور ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے اور فرمایا : جس طرح دادے کو باپ کے سوا کوئی محروم نہیں کرتا اسی طرح دادی کو ماں کے سوا کوئی محروم نہیں کرتا، ترمذی نے حضرت عبداللہ ؓ سے روایت کیا فرمایا : دادی اپنے بیٹے کے ساتھ وہ پہلی دادی ہے جن کو رسول اللہ ﷺ نے اس کے بیٹے کی موجودگی میں 6؍1 حصہ عطا فرمایا جب کہ اس کا بیٹا زندہ تھا (1) (جامع ترمذی، کتاب الفرائض من رسول اللہ ﷺ ، باب ما جاء فی میراث الجدۃ مع ابنھا، حدیث نمبر 2028، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (15) بہت سی جدات کو میراث دینے میں اختلاف ہے، امام مالک (رح) نے فرمایا : صرف دو دادیاں وارث ہوں گی، مال کی ماں اور باپ کی ماں اور ان دونوں کی مائیں، اسی طرح ابو ثور نے امام شافعی سے روایت کیا ہے اور یہ تابعین کی جاعت کا قول ہے، اگر ان میں سے ایک ہو تو اس کے لیے 6؍1 حصہ ہوگا اگر دو جمع ہوجائیں اور ان کی قرابت برابر ہو تو دونوں کو 6؍1 حصہ ملے گا اسی طرح اگر زیادہ ہوں جب کہ وہ رشتہ میں برابر ہوں اور اس پر اجماع ہے اگر وہ قریب ہو جو ماں سے پہلے ہے تو اسے 6؍1 حصہ ملے گا دوسریوں کو نہیں ملے گا اگر وہ قریب ہو جو باپ سے پہلے ہے جو اس کے اور ماں سے پہلے والی کے درمیان 6؍1 حصہ ہوگا۔ اگرچہ بہت دور کی ہو اور ماں سے پہلے والی ایک جدہ وارث ہوگی اور مان کے باپ کی ماں جو جدۃ ہے وہ کسی صورت میں وارث نہ ہوگی یہ حضرت زید بن ثابت ؓ کا مذہب ہے اور اس مسئلہ میں جو ان سے مروی ہے اس میں سے یہی زیادہ محفوظ ہے، یہی امام مالک (رح) اور اہل مدینہ کا قول ہے، بعض علماء نے فرمایا : جدات مائیں ہیں جب یہ جمع ہوں تو 6؍1 حصہ قریبی کو ملے گا جس طرح آباء جمع ہوں تو میراث کا حق دار وہی ہوتا ہے جو زیادہ قریبی ہوتا ہے، اسی طرح بیٹے اور بھائی اور بھتیجے اور چچا کے بیٹے میراث میں جب جمع ہوں تو میراث کے حق دار وہ ہوں گے جو زیادہ قریبی ہوں گے، اسی طرح امہات کا حکم ہے، ابن المنذر نے کہا : یہ اصح ہے اور میں بھی یہی کہتا ہوں، امام اوزاعی تین جدات کو وارث بناتے تھے، ایک ماں سے پہلے والی اور دو باپ سے پہلے والیاں، یہی امام احمد بن حنبل (رح) کا قول ہے، دارقطنی نے یہ مرسلا نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، حضرت زید بن ثابت ؓ سے اس کا برعکس مروی ہے وہ تین جدات کو وارث بناتے تھے دو ماں کی جہت سے اور ایک باپ کی طرف سے، حضرت علی ؓ کا قول بھی حضرت زید کے قول کی طرح ہے یہ دونوں قریبی کے لیے 6؍1 حصہ مقرر فرماتے تھے خواہ وہ ماں کی طرف سے ہو یا باپ کی طرف سے ہو، اور جو دور کا رشتہ دار ہے وہ اس میں اس کا شریک نہ ہوگا، یہ ثوری (رح) امام ابوحنیفہ (رح) ان کے اصحاب اور ابو ثور (رح) کا قول ہے، رہے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ تو یہ چار جدات کو وارث بناتے تھے یہ حسن بصری محمد بن سیرین اور جابر بن زید کا قول ہے، ابن المنذر نے کہا : ہر جدہ جب متوفی (مرنے والا) کی طرف منسوب ہو اس کے نسب میں دو ماؤں کے درمیان ایک باپ واقع ہو تو وہ وارث نہ ہوگی۔ اہل علم کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (16) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لکل واحد منھما السدس “۔ بچے کے ہوتے ہوئے والدین میں سے ہر ایک کے لیے 6؍1 حصہ ہے۔ ولد کو مبہم فرمایا پس اس میں مذکر، مؤنث برابر ہوگا، کوئی شخص مرے اور ایک بیٹا اور والدین چھوڑے تو والدین میں سے ہر ایک کے لیے 6؍1 حصہ ہوگا اور باقی بیٹے کے لیے ہوگا اگر وہ ایک بیٹی اور والدین چھوڑے تو بیٹی کے لیے نصف ہوگا اور والدین کے لیے 6؍2 حصہ ہوگا اور باقی اقرب عصبہ کے لیے ہوگا اور وہ باپ ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ما ابقت الفرائض فلاولی رجل ذکر “ یعنی فرائض سے جو بچے وہ قریبی مرد کے لیے ہوگا، باپ کے لیے اسحقاق دو اعتبار سے ہے ایک عصبہ ہونے اور دوسرا فرض کے اعتبار سے۔ (آیت) ” فان لم یکن لہ ولد وورثہ ابوہ فلامہ الثلث “۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتایا کہ والدین کہ والدین جب وارث ہوں تو ماں کے لیے 3؍1 حصہ ہے اس کی دلیل (آیت) ” وورثہ ابوہ “۔ ہے یہ خبر دینا ہے کہ ماں کے لیے 3؍1 حصہ ہے اور باقی دو ثلث 3؍2 باپ کے لیے ہے یہ اس طرح ہے جیسے تو دو شخصوں کو کہتا ہے : یہ مال تم دونوں کے لیے ہے پھر تو ایک کو کہتا ہے : اے فلاں ! تیرے لیے اس میں سے 3؍1 ہے تو دوسرے کے لیے اس میں اپنی نص کے ساتھ 3؍2 مقرر کردیا کیونکہ (آیت) ” وورثہ ابوہ “ میں کلام کی قوت دلالت کرتی ہے کہ یہ دونوں تمام حصہ داروں میں سے مفرد ہیں اپنی اولاد کی طرف سے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : اس بناء پر 3؍2 باپ کے لیے بطور فرض متعین ہوگا جبکہ وہ عصبہ نہ ہو، ابن عربی نے ذکر کیا ہے کہ مذکر اولاد کے نہ ہونے کے وقت باپ کو ثلث کی زیادتی نصرت اور مشقت کے وجوب کی وجہ سے ہے اور ماں کے لیے ایک سہم (حصہ) ہوگا قرابت کی وجہ سے (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ 338) میں کہتا ہوں : یہ حکمت درست ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ تو اس کی زندگی میں بھی موجود ہیں پھر وہ سدس کی طرف کیوں لوٹایا گیا اور وہ چیز جو ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ اس کی زندگی میں سدس 6؍1 کی طرف لوٹانا بچے پر نرمی کرنے کے لیے ہے اور اس کے مال کی اچھی دیکھ بھال کے لیے ہے، کیونکہ اس کے مال سے جز کا نکالنا اس کو مال سے باندھ رکھنا ہے یا یہ حکم تعبدی ہے یہ سب سے اولی قول ہے، واللہ الموفق۔ : مسئلہ نمبر : (17) اگر کہا جائے کہ (آیت) ” وورثہ ابوہ “ میں دادا کی زیادتی کا کیا فائدہ ہے کلام کا ظاہر یہ تھا (آیت) ” فان لم یکن لہ ولد ووثہ ابو ہ “۔ اس کو جواب یہ ہے کہ اس زیادتی سے اس بات کی خبر دینا مقصود ہے کہ یہ امر مستقل اور ثابت ہے پس اس کے ثبوت اور استقرار کی خبر دی گئی ہے پس والدین کے انفراد کے وقت والدین کا حال بچوں کے حال کی طرح سے مذکر کے لیے عورتوں کے دو حصوں کے برابر ہے، باپ کے لیے اسی وجہ سے دو فرض جمع ہوجاتے ہیں ایک مفروض حصہ اور دوسرا عصبہ ہونے کے اعتبار سے، کیونکہ بچے کی طرح یہ بھی بھائیوں کو محجوب کو دیتا ہے یہ حکم میں عدل اور حکمت میں یہ ظاہر ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (18) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فلامہ الثلث “۔ اہل کوفہ نے ” فلامۃ الثلث “۔ پڑھا ہے۔ یہ لغت سیبویہ نے حکایت کی ہے کسائی نے کہا : یہ ہوازن اور ہذیل میں سے اکثر لوگوں کی لغت ہے، کیونکہ لام جب مکسور ہو اور وہ حرف کے ساتھ متصل ہو تو کسرہ کے بعد ضمہ کو ناپسند کرتے ہیں پس انہوں نے ضمہ کو کسرہ سے بدل دیا، کیونکہ کلام میں فعل نہیں تھا اور جنہوں نے ضمہ پڑھا ہے انہوں نے اصل پر پڑھا ہے، کیونکہ لام منفصل ہے کیونکہ وہ اسم پر داخل ہے، یہ تمام گفتگو نحاس نے کی ہے۔ مسئلہ نمبر : (19) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فان کان لہ اخوۃ فلامۃ السدس “۔ بھائی ماں کی ثلث سے سدس کی طرف محجوب کردیتے ہیں اور یہ حجب نقصان ہے خواہ بھائی سگے ہوں یا باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے ہوں اور اس اور ان کا حصہ نہ بھی ہو، حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں : سدس 6؍1 حصہ بھائیوں نے ماں کو جس سے محجوب کیا وہ بھائیوں کے لئے ہے اور ان سے دوسرے علماء کی طرح کا قول بھی مروی ہے کہ وہ باپ کے لیے ہے، قتادہ ؓ نے کہا : وہ سدس باپ کو ملے گا بھائیوں کو نہیں ملے گا، کیونکہ باپ ہی ان کا کفیل ہے اور ان کے نکاح کا متولی ہے اور ان کے اخراجات کا ذمہ دار ہے، اہل علم کا اجماع ہے کہ دو بھائی یا زیادہ ہوں مذکر ہوں یا مؤنث ہوں، سگے ہوں یا باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے ہوں ماں کو ثلث سے سدس کی طرف محجوب کریں گے مگر حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ بھائیوں میں سے دو ایک کے حکم میں ہیں ماں کو تین بھائیوں سے کم محجوب نہیں کریں گے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بہنیں، ماں کو ثلث سے سدس کی طرف محجوب نہیں کریں گی، کیونکہ کتاب اللہ بھائیوں کے بارے میں ہے، عورتوں کی میراث کی قوت، مردوں کی میراث کی قوت کی مثل نہیں ہے حتی کہ الحاق کا اعتبار کیا جائے۔ ال کیا الطبری نے کہا : ان کے اقوال کا تقاضا یہ ہے کہ یہ بہنیں بھائیوں کے ساتھ داخل نہیں ہیں، کیونکہ اخوۃ کا لفظ مطلق ہے یہ بہنوں کو شامل نہیں ہے جس طرح البنین کا لفظ البنات کو شامل نہیں ہے یہ اس بات کا مقتضی ہے کہ ماں کو ایک بھائی اور ایک بہن ثلث سے سدس کی طرف محجوب نہیں کرے گی اور یہ مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے، جب آیت میں بھائیوں کے ساتھ بہنیں مراد ہیں تو انفرادی طور پر بھی مراد ہوں گی اور تمام نے اس سے استدلال کیا ہے کہ جمع کا کم از کم فرد تثنیہ (2) ہے کیونکہ تثنیہ کا معنی ایک چیز کو اس کی مثل کے ساتھ جمع کرنا ہے پس معنی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ جمع ہے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : دو اور اس سے اوپر جماعت ہیں (1) (سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب الاثنان جماعۃ حدیث نمبر 961، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) سیبویہ سے حکایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے خلیل سے ما احسن وجوھما کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا : دو جماعت ہیں۔ شاعر کا قول صحیح ہے : ومھمھین قذفین مرتین ظھراھما مثل ظھور الترسین : خوفناک چٹیل دو میدان بہت دور ایسی زمینیں جن پر نہ پانی ہے نہ نبات ان کی بلند جگہیں ڈھالوں کی بلند جگہوں کی مثل ہیں۔ ایک اور شاعر نے کہا : لما اتتنا المراتان بالخبر فقلن ان الامر فینا قد شھر : ایک اور شاعر نے کہا : یحی بالسلام غنی قوم ویبخل بالسلام علی الفقیر : الیس الموت بینھما سواء اذا ماتوا وصاروا فی القبور : غنی شخص کو سلام کیا جاتا ہے اور فقیر پر سلام کے ساتھ بخل کیا جاتا ہے کیا ان دونوں میں موت برابر نہیں ہوگی جب مریں گے اور قبول میں جائیں گے ؟ جب حضرت عثمان ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ کے درمیان کلام واقع ہوئی تو حضرت عثمان ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا : ان قومک حجبوھا تیری قوم نے انہیں (قریش) محجوب کردیا ہے، وہ اہل فصاحت وبلاغت تھے اور جن علماء نے جمع کا کم از کم فرد تین کو بنایا ہے۔ اگرچہ یہاں انہوں نے بھی نہیں کہا۔ وہ حضرت ابن مسعود، ؓ امام شافعی (رح) اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم ہیں۔ مسئلہ نمبر : (20) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین “۔ ابن کثیر، ابو عمرو، ابن عامر اور عاصم نے یوصی (صاد کے فتحہ کے ساتھ) پڑھا ہے اور باقی قراء نے صاد کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے، اسی طرح دوسرے کو بھی پڑھا گیا ہے اور دونوں جگہ یوصی کے متعلق عاصم سے مختلف اقوال ہیں، صاد پر کسرہ کے ساتھ کے ساتھ پڑھا ہے، اسی طرح دوسرے کو بھی پڑھا گیا ہے اور دونوں جگہ ” یوصی “ کے متعلق کے معلق عاصم سے مختلف اقوال ہیں، صاد پر کسرہ ابوعبیدہ اور ابو حاتم کا اختیار ہے، کیونکہ میت کا ذکر اس سے جاری ہے، اخفش نے کہا : اس کی تصدیق یہ ارشاد کر رہا ہے یوصین “ اور توصون۔ مسئلہ نمبر : (21) اگر یہ کہا جائے کہ قرض کے ذکر پر وصیت کے ذکر کو مقدم کرنے میں کیا حکمت ہے حالانکہ دین بالاجماع مقدم ہے، ترمذی نے حارث عن علی کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے قرض کو وصیت سے پہلے ادا کرنے کا حکم فرمایا اور تم قرض سے پہلے وصیت کو ثابت کرتے ہو (1) (جامع ترمذی، کتاب الوصایا من رسول اللہ ﷺ ، باب ما جاء یمد بالدین قبل الوصیۃ، حدیث نمبر 2048، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ فرمایا : عام اہل علم کے نزدیک اس پر عمل ہے کہ وصیت سے پہلے قرض کو پورا کیا جائے گا۔ دارقطنی نے عاصم بن ضمرہ علی علی ؓ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دین (قرض) وصیت سے پہلے ہے اور وارث کے لیے وصیت نہیں ہے، اس حدیث کو ابو اسحاق ہمدانی نے روایت کیا ہے اس کا جواب پانچ وجوہ سے ہے۔ (1) ان دو فصلوں کو میراث پر مقدم کرنے کا قصد کیا ہے اور ان کی ذوات میں ترتیب کا قصد نہیں کیا اسی وجہ سے لفظ میں وصیت مقدم ہے۔ (2) جب وصیت لزوم کے اعتبار سے قرضہ کی نسبت کم تھی تو اس کے اہتمام کے لیے اسے مقدم فرمایا جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لایغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ (الکہف : 49) (3) وصیت کے وجود اور وقوع کی کثرت کی وجہ سے اسے مقدم فرمایا : پس یہ ہر میت لیے لازم کی طرح ہوگی جب کہ اس پر شرع کی نص بھی موجود ہے اور دین (قرضہ) کو اس سے کم سے کم ہونے کی وجہ سے اسے مؤخر فرمایا، کیونکہ قرض کبھی ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا ہے پس اس کے ذکر سے آغاز کیا جو ضروری تھا اور اس کا عطف کیا جو کبھی کبھی واقع ہوتا ہے اور او کے ساتھ عطف اس کو مزید قوت دیتا ہے اگر قرض بھی ضروری ہوتا تو عطف واؤ کے ساتھ ہوتا۔ (4) وصیت کو مقدم فرمایا کیونکہ یہ مساکین اور کمزور لوگوں کا حصہ ہے اور قرض کو مؤخر فرمایا، کیونکہ وہ قرض خواہ کا حصہ ہے وہ سلطان کی طاقت کے ذریعے طلب کرسکتا ہے اور اسے اس میں کلام کی گنجائش ہے، (5) وصیت کا منشاء انسان کی اپنی ذات سے ہے اس لیے اسے مقدم فرمایا اور قرض تو ادا کیا ہی جاتا ہے خواہ اس کا ذکر ہو یا نہ ہو۔ مسئلہ نمبر : (22) جب یہ ثابت ہوگیا تو امام شافعی نے میراث پر حج اور زکوۃ کے قرض کو مقدم فرمایا ہے، انہوں نے فرمایا : جب کوئی شخص زکوۃ میں سستی کرے تو اس کے راس المال سے زکوۃ لینا واجب ہے، یہ بادی النظر میں ظاہر ہے، کیونکہ یہ بھی حقوق میں سے ایک حق ہے پس موت کے بعد اس سے اس کی ادائیگی لازم ہے جس طرح انسانوں کے حقوق کا حکم ہے خصوصا زکوۃ کا مصرف بھی آدمی ہے، امام ابوحنیفہ (رح) اور امام امالک (رح) نے کہا : اگر میت نے اس کی وصیت کی ہو تو اس کا تہائی مال سے زکوۃ ادا کی جائے گی اگر خاموش رہا تو کوئی چیز اس کے مال سے نہیں نکالی جائے گی، یہ علماء فرماتے ہیں : کیونکہ یہ تو ورثاء کو فقراء چھوڑنے کے مترادف ہے مگر اس نے جان بوجھ کر تمام حقوق ترک کیے ہوں حتی کہ جب وہ فوت ہو تو یہ اس کے تمام مال کو گھیر لیں تو پھر ورثاء کے لیے کوئی حق باقی نہیں رہے گا۔ مسئلہ نمبر : (23) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ابآؤکم وبنآؤکم “۔ مبتدا کی وجہ سے ان پر رفع پڑھا گیا ہے اور خبر مضمر ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے ھم المقسوم علیھم وھم المعطون “۔ ان پر مال تقسیم ہوگا اور انہیں دیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (24) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا “۔ بعض علماء نے فرمایا تم نہیں جانتے کہ دعا اور صدقہ کے اعتبار سے دنیا میں کون تمہارے لیے زیادہ نفع بخش ہے جیسا کہ حدیث میں ہے ان الرجل لیرفع بدعاء ولدہ من بعدہ “۔ انسان کا مرتبہ اس کے مرنے کے بعد اس کی اوالاد کی دعا کی وجہ سے بلند کی جاتا ہے، اور صحیح حدیث میں ہے جب انسان مرتا ہے تو اس کا سلسلہ عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین چیزوں کا اجر اور فائدہ اسے مرنے کے بھی ملتا رہتا ہے، اس حدیث میں ہے :” اور نیک بیٹا جو باپ کے لیے دعا کرتا ہے “ اور بعض علماء نے فرمایا : آخرت میں جو زیادہ نفع بخش ہے تم اسے نہیں جانتے، کبھی بیٹا افضل ہوتا ہے، پس وہ اپنے باپ کی سفارش کرے گا، حضرت ابن عباس ؓ اور حسن ؓ سے مروی ہے کہ بعض مفسرین نے کہا : بیٹا جب آخرت میں باپ کے درجہ سے افضل درجہ میں ہوگا تو وہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے باپ کو اس کی طرف بلند کر دے گا اسی طرح باپ جب اپنے بیٹے سے بلند درجہ ہوگا تو وہ بھی سوال کرے گا تو اللہ بیٹے کو باپ کے پاس پہنچا دے گا، اس کی مزید تفصیل سورة الطور میں آئے گی، بعض علماء نے فرمایا : دنیا وآخرت کے اعتبار سے ہے، یہ ابن زید کا قول ہے لفظ اسی کا تقاضا کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (25) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فریضۃ “۔ اس کو مصدر مؤکد کی بنا پر نصب ہے، کیونکہ (آیت) ” یوصیکم “ کا معنی ہے یفرض علیکم۔ مکی وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ حال مؤکدہ ہے اور اس میں عامل یوصیکم ہے اور یہ ضعیف قول ہے، امت ماقبل سے متعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بتایا کہ وہ قرابت کی وجہ سے خود حکم کرنے کی مشقت سے بچائے گئے ہیں جب کہ تمہارے رشتہ دار قرابت میں جمع ہوجائیں یعنی آباء، ابناء دنیا میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور آخرت میں شفاعت کرتے ہیں جب یہ آباء اور ابناء میں ثابت ہوگیا تو تمام اقارب میں ثابت ہوگیا اگر تقسیم اجتہاد پر موقوف ہوتی تو رشتہ داروں میں سے ہر ایک کے غنا میں نظر کرنا واجب ہوتا اور اس وقت امر ضبط سے خارج ہوجاتا، کیونکہ امر مختلف ہوجاتا، پس اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا دیا کہ بندے کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ اپنے اجتہاد کو مواریث کی مقدار میں استعمال نہ کرے بلکہ شرعی مقادیر کو بیان کرے، پھر فرمایا (آیت) ” ان اللہ کان علیما “۔ اللہ تعالیٰ مواریث کی تقسیم کو جاننے والا ہے، حکیما اس نے مورایث کی تقسیم کو پختہ فرمایا اور اس کے اہل کو بیان فرمایا : زجاج نے کہا (آیت) ” علیما “۔ یعنی اشیاء کو ان کی تخلیق سے پہلے جانتا ہے۔ (آیت) ” حکیما “۔ ہر چیز کو مقدر کرنے میں اس کی حکمت کار فرما ہوتی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ماضی اور مستقبل برابر ہیں، اور سیبویہ کا مذہب یہ ہے کہ انہوں نے حکمت وعلم کو دیکھا تو انہیں کہا گیا : اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اسی طرح تھا جیسا کہ تم نے دیکھا ہے۔ مسئلہ نمبر : (26) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولکم نصف ماترک ازواجکم “۔ یہ خطاب مردوں کو ہے اور یہا الولد سے مراد صلبی بیٹے اور پوتے ہیں اگرچہ نیچے کے ہوں مذکر ہوں یا مؤنث ہوں ایک ہو یا زائد ہوں یہ بالاجماع ثابت ہے۔ اور علماء سے اس پر بھی اجماع ہے کہ بیٹے یا پوتے نہ ہوں تو خاوند کے لیے نصف ہے اور بیٹے یا پوتے کے ہوتے ہوئے 4؍1 ہے، بیوی اپنے خاوند سے 4؍1 کی وارث ہوگی جب کہ اس کی اولاد نہ ہو اور اولاد کے ہوتے ہوئے بیوی کو 8؍1 ملے گا اور علماء کا اجماع ہے کہ ایک بیوی ہو، دو ہوں، تین ہوں، چار ہوں تمام کا حکم ایک بیوی کا ہے اگر خاوند کی اولاد نہ ہوگی تو سب کو 4؍1 حصہ ملے گا اور ایک بیٹا بھی ہوگا تو 8؍1 حصہ ملے گا، تمام 8؍1 میں شریک ہوں گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور تمام کے حکم میں کوئی فرق نہیں کیا، جس طرح کہ ایک بیٹی اور ایک بہن اور بہت سی بیٹیوں اور بہنوں کے درمیان فرق کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (27) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان کان رجل یورث کللۃ “۔ الکلالۃ مصدر ہے تکللہ النسب یعنی احاط بہ، اسی سے الاکلیل ہے، یہ چاند کی منزلوں میں ایک منزل ہے، وہ چاند کو گھیر لیتی ہے، اسی سے الاکلیل ہے، اس کا مطلب تاج، پکڑی ہے جو سر کو گھیر لیتی ہے جب انسان فوت ہو اور اس کی نہ اولاد ہو اور نہ والد ہو تو اس کا ورثہ کلالہ ہے یہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، اور جمہور اہل علم کا قول ہے۔ یحییٰ بن آدم (رح) نے شریک، زہیر اور ابو الاحوص سے انہوں نے ابو اسحاق سے انہوں سلیمان بن عبداللہ سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے علماء کو اس پر متفق دیکھا ہے، کہ کلالہ وہ ہے جو فوت ہو اور اس کی اولاد نہ ہو، اسی طرح کتاب العین کے مصنف ابو منصور اللغوی، ابن عرفہ قتبی، ابو عبید، ابن الانباری نے کہا ہے : الاب دونوں انسان کی طرفیں ہیں جب وہ دونوں نہ ہوں تو اس کا نسب اس کو گھیر لیتا ہے۔ اسی سے کہا جاتا ہے : روضۃ مکللہ جب روضہ نور سے گھیرا گیا ہو، بطور دلیل یہ شعر پڑھا ہے : سکنہ روضۃ مکللۃ عم بھا الایقان والذرق : اس کا مسکن نورانی روضہ ہے اس کے اردگرد گھاس اور بوٹیاں ہیں۔ امروالقیس نے کہا : اصاح تری یرقا اریک ومیضۃ کلمع الیدین فی حبی مکلل : قرابت کو کلالۃ کہا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے میت کو تمام جوانب سے گھیر لیا ہوتا ہے وہ نہ اس سے ہوتے ہیں اور نہ وہ ان سے ہوتا ہے، وہ اسے گھیر لیتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ منسوب ہوتے ہیں جیسا کہ اعرابی نے کہا : مالی کثیر ویرثنی کلالہ متراخ نسبھم “۔ میرا مال کثیر ہے اور میرے رشتہ دار میرے وارث ہیں، جن کا نسب متاخر ہے۔ فرزوق نے کہا : ورثتم قناۃ المجد لاعن کلالۃ عن ابنی مناف عبد شمس وھاشم : اسی طرح ایک اور شاعر نے کہا : ان ابا المرء احمی لہ ومولی الکلالۃ لا یغضب : بعض علماء نے فرمایا : کلالہ کلال سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تھکانا، گویا وہ میراث کو وارث کی طرف دور سے تھکاکر لوٹاتا ہے۔ اعشی نے کہا : فالیت لا ارثی لھا من کلالۃ ولا من وجی حتی تلاقی محمدا : ابو حاتم اور الاثرم نے ابو عبیدہ سے روایت کیا ہے فرمایا : کلالۃ وہ ہوتا ہے جس کا نہ باپ، نہ بیٹا اور نہ بھائی وارث ہو، ابو عمر نے کہا : ابو عبیدہ کا باپ اور بیٹے کے ساتھ کلالہ کی شرط میں بھائی کا ذکر غلط ہے اس کی کوئی وجہ نہیں ہے اس کے علاوہ کسی نے کلالہ کی شرط میں بھائی کو ذکر نہیں کیا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو، حضرت ابوبکر ؓ سے یہ مروی تھا پھر ان دونوں حضرات نے اس سے رجوع کرلیا، ابن زید (رح) نے کہا : کلالہ زندہ اور میت دونوں ہوتے ہیں۔ عطاء (رح) سے مروی ہے کہ الکلالۃ سے مراد مال ہے، ابن عربی (رح) نے کہا : یہ عجیب قول ہے اس کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : اس کی وجہ سے اعراب سے ابھی یہ واضح کیا گیا ہے، ابن اعرابی سے مروی ہے کہ کلالہ دور کے چچا کے بیٹے ہیں، سدی (رح) سے مروی ہے کہ کلالہ میت ہے اور ان سے جمہور کے قول کی مثل مروی ہے، یہ اقوال ان کی وجوہ بھی اعراب سے واضح ہوئی ہیں بعض کو فیوں نے یورث کلالۃ یعنی را کے کسرہ اور تشدید کے ساتھ پڑھا ہے، حسن اور ایوب نے یورث را کے کسرہ اور تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے، اسی طرح اصحابی المعانی نے حکایت کیا ہے پہلا ورث سے اور دوسرا اورث سے مشتق ہے، کلالہ مفعول ہے اور کان بمعنی وقع ہے اور جنہوں نے یورث را کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، اس کے نزدیک بھی کلالہ سے مراد مال ہونے کا احتمال ہے، تقدیر ہوگی یورث ورثۃ کلالۃ، اس صورت میں یہ مصدر محذوف کی صفت ہوگا اور یہ بھی جائز ہے کہ کلالہ ورثاء کا اسم ہو اور یہ کان کی خبر ہو، تقدیر یوں ہوگی ذا ورثہ، اور کان کا تامہ ہونا بھی جائز ہے، یورث رجل کی صفت ہے، رجل کو رفع کان کی وجہ سے ہے اور کلالۃ تفسیر یا حال کی بنا پر منصوب ہے اس بنا پر کہ کلالہ سے مراد میت ہو تقدیر یوں ہوگی وان کان رجل یورث متکلل النسب الی المیت۔ مسئلہ نمبر : (28) اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کلالہ کا دو جگہوں پر ذکر فرمایا ہے۔ سورة کے آخر میں اور یہاں۔ اور دونوں جگہوں میں بھائیوں کے علاوہ کسی وارث کا ذکر نہیں فرمایا، اور رہی یہ آیت تو علماء کا اجماع ہے کہ اس میں بھائیوں سے مراد ماں کی طرف سے بھائی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” کانوا اکثر میں ذلک فھم شرکآء فی الثلث (اگر وہ زیادہ ہوں اس سے تو وہ تہائی میں شریک ہیں) اور حضرت سعد بن ابی وقاص ولہ اخل واخت من امہ پڑھتے تھے اور اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ سگے بھائی یا باپ کی طرف سے بھائی ان کی میراث اس طرح نہیں ہے پس ان کا اجماع دلیل ہے کہ سورة کے آخر میں جن بھائیوں کا ذکر ہے وہ متوفی کے سگے بھائی ہیں یا باپ کی طرف سے بھائی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان کانوا اخوۃ رجالا ونسآء فللذکر مثل حظ الانثیین “۔ اور اس میں علماء کا اختلاف نہیں کہ ماں کی طرف سے بھائیوں کی میراث اس طرح نہیں۔ پس یہ دونوں آیتیں دلالت کرتی ہیں کہ تمام بھائی کلالۃ ہیں، شعبی (رح) نے کہا : اولاد اور والد کے علاوہ ورثاء کلالۃ ہیں خواہ وہ بھائی ہوں یا دوسرے عصبہ ہوں، حضرت علی ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت زید ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بھی یہی فرمایا ہے اور پہلا قول بھی یہی ہے جس کا ہم نے ابتدا میں ذکر کیا ہے، طبری نے کہا : درست بات یہ ہے کہ کلالۃ وہ لوگ ہیں جو میت کے وارث ہوتے ہیں سوائے اولاد اور والد کے، کیونکہ حضرت جابر کی خبر صحیح میں ہے۔ ” میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کلالہ میرے وارث ہوں گے کیا میں سارے مال کی وصیت کر دوں ؟ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا نہیں۔ مسئلہ نمبر : (29) اہل لغت نے کہا : کہا جاتا ہے رجلا کلالۃ وامراۃ کلالۃ۔ اس کا نہ تثنیہ ہوتا ہے اور نہ جمع، کیونکہ یہ مصدر ہے جیسے وکالۃ، دلالۃ، سماحۃ، شجاعہ، اس کی طرف ضمیر مفرد لوٹائی فرمایا : ولہ اخ، لھما کی ضمیر نہیں ذکر فرمائی، عربوں کی عادت پر مرد اور عورت پہلے ذکر ہوچکے ہوں تو جب وہ دو اسم ذکر کرتے ہیں پھر ان کے متعلق خبر دیتے ہیں اور وہ دونوں ایک حکم میں ہوتے تو کبھی ایک اہم کی طرف ضمیر لوٹائی جاتی اور کبھی دونوں کی طرف ضمیر لوٹائی جاتی ہے، عرب کہتے ہیں : جس کے پاس غلام اور لونڈی ہوں تو کہتے ہیں : فلیحسن الیہ واولیھما والیھم : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واستعینوا بالصبروالصلوۃ وانھا لکبیرۃ “۔ (بقرہ : 45) (بقیہ تفسیر اگلی آیت میں)
Top