Al-Qurtubi - An-Nisaa : 123
لَیْسَ بِاَمَانِیِّكُمْ وَ لَاۤ اَمَانِیِّ اَهْلِ الْكِتٰبِ١ؕ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا یُّجْزَ بِهٖ١ۙ وَ لَا یَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا
لَيْسَ : نہ بِاَمَانِيِّكُمْ : تمہاری آرزؤوں پر وَلَآ : اور نہ اَمَانِيِّ : آرزوئیں اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب مَنْ يَّعْمَلْ : جو کرے گا سُوْٓءًا : برائی يُّجْزَ بِهٖ : اس کی سزا پائے گا وَلَا يَجِدْ : اور نہ پائے گا لَهٗ : اپنے لیے مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا وَلِيًّا : کوئی دوست وَّلَا نَصِيْرًا : اور نہ مددگار
(نجات) نہ تو تمہاری آرزؤوں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزؤوں پر جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی طرح کا بدلہ دیا جائے گا اور وہ خدا کے سوا نہ کسی کو حمایتی پائے گا اور نہ مدد گار
آیت نمبر 123۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب “۔ ابو جعفر مدنی نے (آیت) ” لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب “۔ یعنی دونوں جگہ یا کی تخفیف کے ساتھ پڑھا۔ اس کے نزول کے بارے میں بہتر قول وہ ہے جو حکم بن ابان نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : یہودونصاری نے کہا : جنت میں داخل نہ ہوگا مگر جو ہم میں سے ہوگا قریش نے کہا : ہم دوبارہ زندہ نہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نازل فرمایا (آیت) ” لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب “۔ قتادہ اور سدی نے کہا : مومنین اور اہل کتاب نے باہم فخر کیا، اہل کتاب نے کہا : ہمارے نبی تمہارے نبی سے پہلے اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے کی ہے اور ہم اللہ کے تم سے زیادہ حقدار ہیں مومنون نے کہا ہمارے نبی خاتم النبیین ہیں اور ہماری کتاب تمام کتب پر غالب ہے تو یہ آیت نازل ہوئی (1) (اسباب النزول، جلد 1، صفحہ 199، قدیمی کتب خانہ کراچی) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” من یعمل سوءا یجزبہ “۔ یہاں سوء سیمراد شرک ہے، حسن نے کہا : یہ آیت کافر کے بارے میں ہے اور انہوں نے ” ھل یجازی الا الکفور “۔ پڑھا ہے اور ان سے یہ بھی مروی ہے (آیت) ” من یعمل سوءا یجزبہ “۔ فرمایا یہ اس کے لیے ہے جس کی رسوائی کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جس کی عزت واکرام کا ارادہ فرمایا اس کے لیے رسوائی نہیں، اللہ نے ایک قوم کا ذکر کیا (2) (تفسیر الحسن البصری جلد 2، صفحہ 370۔ 369) اور فرمایا : (آیت) ” اولئک الذین نتقبل عنھم احسن ماعملوا ونتجاوز عن سیاتھم فی اصحب الجنۃ وعدالصدق الذی کانوا یوعدون “۔ (الاحقاف) یہی وہ (خوش نصیب) ہیں قبول کرتے ہیں ہم جن کے بہترین اعمال کو اور درگزر کرتے ہیں ہم جن کی برائیوں سے، یہ جنتیوں میں سے ہوں گے یہ (اللہ کا) سچا وعدہ ہے جو (اہل ایمان سے) کیا گیا ہے۔ ضحاک ؓ نے کہا : اس سے مرادیہود، نصاری مجوس اور کفار عرب ہیں (3) (تفسیر طبری، جلد 5، صفحہ 340) جمہور علماء نے کہا : آیت کا لفظ عام ہے کافر، مومن ہر ایک کو اس کے برے عمل کی جزا ملے گی، کافر کی جزا آگ ہے، کیونکہ اس کا کفر اسے ہلاک کرتا ہے اور مومن کو اس کی جزا دنیا کی تکالیف کی صورت میں دی جاتی ہے (4) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 114 دارالکتب العلمیہ) جس طرح کہ مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : جب (آیت) ” من یعمل سوءا یجزبہ “۔ کا ارشاد ہوا تو مسلمانوں کو بہت زیادہ پریشانی ہوئی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم صحت کے قریب قریب اعمال کرو، اور درست عمل کرو، ہر کلیف جو مسلمان کو پہنچتی ہے وہ اس کے لیے کفارہ ہوتی ہے حتی کہ چھوٹی سی مصیبت جو اسے پہنچتی ہے اور کانٹا جو اسے چبھتا ہے “ (5) (صحیح مسلم، البروالصلہ والاداب جلد 2، صفحہ 319) (یہ سب چیزیں کفارہ ہوتی ہیں) حکیم ترمذی نے نوادرالاصول میں فصل نمبر 95 میں تخریج کیا ہے کہ ہمیں ابراہیم بن مستمر الہذلی نے بیان کیا انہوں نے کہا ہمیں عبدالرحمن بن سفیم بن حیان ابو زید نے بیان فرمایا : میں نے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے سنا انہوں نے فرمایا : میں حضرت ابن عمر کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف چلا تو حضرت عمر ؓ نے حضرت نافع ؓ سے کہا : تو مجھے مصلوب (جس کو پھانسی پر لٹکایا گیا تھا) یعنی ابن زبیر کے پاس سے نہ گزار یا فرمایا : اچانک آدمی رات کے وقت سولی کی لکڑی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے محل سے لگی، تو وہ بیٹھ گئے اپنی آنکھوں کو ملا پھر کہا : اے ابو خبیب اللہ تجھ پر رحم کرے تو تھا، تو تھا، میں نے تیرے باپ زبیر کو یہ کہتے سنا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (آیت) ” من یعمل سوءا یجزبہ، فی الدنیا اوفی الاخرۃ (جو برائی کرے گا اسے اس کی جزا دنیا میں ملے گی یا آخرت میں ملے گی) اگر تو یہ تیرا قتل تیرے اس فعل کے بدلے میں ہے تو یہ اس کی جزا ہے (1) (نوادرالاصول، جلد 1، صفحہ 132، فصل نمبر 95) ابو عبداللہ ترمذی نے کہا : جو قرآن میں ہے وہ مجمل ہے فرمایا (آیت) ” من یعمل سوءا یجزبہ “۔ اس سے نیک، فاجر، دشمن، دوست اور مومن، کافر سب داخل ہیں پھر رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں دو جگہوں کے درمیان فرق کیا فرمایا : یجزبہ فی الدنیا اوفی الاخرۃ یعنی اس پر دونوں جگہ جزا جمع نہیں ہوگی، آپ نے ملاحظہ نہیں کیا کہ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا : اگر یہ تیرا قتل، تیرے فعل کے بدلے میں ہے تو یہ جزا ہے، یعنی اس نے حرم میں قتال کیا، اس میں ایک عظیم واقعہ صادر کیا حتی کہ بیت اللہ کو جلا دیا گیا اور منجنیق کے ذریعے حجر اسود کو مارا گیا حتی کہ وہ پھٹ گیا تھا پھر چاندی کے ساتھ اس کو جوڑا گیا تھا، وہ ابھی تک اسی حالت میں ہے عبداللہ نے بیت اللہ کے رونے کی آواز سنی تھی آہ آہ، جب حضرت ابن عمر ؓ نے عبداللہ کا فعل دیکھا پھر اسے سولی پر مقتول دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کا قول ذکر کیا (آیت) ” من یعمل سوءا یجزبہ “۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا : اگر یہ قتل اس فعل کے بدلے ہے تو گویا اس فعل کی جزا یہ قتل اور پھانسی دی گئی ہے اللہ تعالیٰ ابن زبیر پر رحم فرمائے، رسول اللہ ﷺ نے دونوں فریقوں کے درمیان دوسری حدیث میں تفریق کی ہے۔ ہمیں میرے باپ نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں ابو نعیم نے بتایا فرمایا ہمیں محمد بن مسلم نے بتایا انہیں یزید بن عبداللہ بن اسامۃ بن الہاد لیثی سے روایت کیا ہے فرمایا : جب (آیت) ” من یعمل سوءا یجزبہ “۔ کا ارشاد نازل ہوا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا : یہ تو ہم میں سے کسی کو باقی چھورنے والی نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : اے ابوبکر ! مومن کو اس کی جزا دنیا میں دی جائے گی اور کافر کو اس کی جزا قیامت کے روز دی جائے گی، ہمیں جارود نے بتایا فرمایا ہمیں وکیع، ابو معاویہ اور عبدہ نے بتایا انہوں نے اسماعیل بن ابی خالد سے انہوں نے ابوبکر بن ابی زہیر ثقفی سے روایت کیا فرمایا : جب (آیت) ” من یعمل سوءا یجزبہ “۔ کا ارشاد نازل ہوا تو حضرت ابوبکر ؓ نے کہا : اے ابوبکر ! اللہ تعالیٰ نے تجھے معاف کردیا ہے، کیا تو تھکتا نہیں ہے ؟ کیا تو غمگین نہیں ہوتا ہے ؟ کیا تجھے محنت ومشقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ؟ حضرت ابوبکر نے عرض کی : کیوں نہیں فرمایا : اس کے ذریعے تمہیں جزا دی جاتی ہے قرآن میں (آیت) ” من یعمل سوءا یجزبہ “۔ میں اجمال تھا رسول اللہ ﷺ نے اس کی تفسیر بیان کردی۔ ترمذی نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی مکرم ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ سے فرمایا : ’ اے ابوبکر ! تجھے اور مومنین کی برائی کی جزا دنیا میں دے دی جاتی ہے حتی کہ جب تم اللہ تعالیٰ سے ملو گے تو تمہارا کوئی گناہ نہ ہوگا۔ رہے دوسرے لوگ (کافر) ان کے لیے وہ جزا کو جمع کرے گا حتی کہ وہ قیامت کے روز اس کی جزا دئیے جائیں گے “ (1) (جامع ترمذی، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 129) امام ترمذی (رح) نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں مقال ہے۔ موسیٰ بن عبیدہ کو حدیث میں ضعیف قرار دیا گیا ہے یحییٰ بن سعید قطان اور امام احمد بن حنبل نے ضعیف قرار دیا ہے اور مولی بن سباع مجہول ہے۔ یہ حدیث ایک اور طریق سے حضرت ابوبکر ؓ سے مروی ہے لیکن اس کی صحیح سند نہیں ہے اور یہ عائشہ ؓ سے بھی مروی ہے۔ میں کہتا ہوں : اس حدیث کو اسماعیل بن اسحاق قاضی نے نقل کیا ہے فرمایا ہمیں سلیمان بن حرب نے بیان کیا انہوں نے کہا ہمیں حماد بن سلمہ نے بیان کیا، انہوں نے علی بن زید سے روایت کیا، انہوں نے اپنی ماں سے روایت کیا کہ اس نے حضرت عائشہ ؓ سے اس آیت کے بارے پوچھا : (آیت) ” ان تبدوا ما فی انفسکم اوتخفوہ “۔ (بقرہ : 284) اور اس آیت کے متعلق پوچھا : (آیت) ” من یعمل سوءا یجزبہ “۔ تو حضرت عائشہ ؓ نے کہا : جب میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ہے مجھ سے کسی نے اس کے متعلق نہیں پوچھا آپ ﷺ نے فرمایا :” اے عائشہ ! انسان کو جو تکلیف پہنچتی ہے مثلا بخار، مصیبت، کانٹا چبھتا ہے حتی کہ وہ سامان جو انسان اپنی آستین میں رکھتا ہے پھر وہ اسے تلاش کرتے ہوئے پریشان ہوجاتا ہے پھر وہ اسے اپنے صندوق میں پا لیتا ہے، اللہ تعالیٰ ان سب چیزوں کو بدل دیتا ہے حتی کہ مومن گناہوں سے اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح سونے کی پتری بھٹی سے صاف و شفاف نکلتی ہے “۔ (2) (تفسیر درمنثور، جلد 2، صفحہ 402، جامع ترمذی، حدیث نمبر 2917، ضیا القرآن پبلی کیشنز) لیس کا اسم ان تمام اقوال میں مضمر ہے تقدیر اس طرح ہے لیس الکائن من امورکم ماتتمنونہ بل من یعمل سوء یجزبہ، بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ثواب تمہاری امیدوں کے ساتھ نہیں ہے، کیونکہ پہلے گزر چکا ہے : (آیت) ” والذین امنوا وعملوا الصلحت سندخلھم جنت۔ ‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا یجدلہ من دون اللہ ولیا ونصیرا یعنی مشرکین کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے انا لننصررسلنا ولذین (غافر) بیشک ہم (اب بھی) مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور مومنین کی اس دنیوی زندگی میں اور اس دن بھی (مدد کریں گے) جس دن گواہ (گواہی) دینے کے لیے کھڑے ہوں گے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے جو برائی کرے گا اسے جزا ملے گی مگر یہ کہ وہ توبہ کرلے، ایک جماعت کی قرات ” ولا یجدلہ “ ہے۔ یجز پر عطف کی بنا پر جزم دی گئی ہے۔ ابن بکار نے ابن عامر سے روایت کیا ہے (آیت) ” رفع کے ساتھ نئے کلام کے اعتبار سے ہے، اگر آیت کو کافر پر محمول کیا جائے توکل اس کے لیے ولی ونصیر نہ ہوگا، اگر مومن پر محمول کی جائے تو اللہ کے علاوہ اس کا کوئی مددگار و نصیر نہ ہوگا۔
Top