Al-Qurtubi - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا : کہ نہ تُقْسِطُوْا : انصاف کرسکوگے فِي : میں الْيَتٰمٰى : یتیموں فَانْكِحُوْا : تو نکاح کرلو مَا : جو طَابَ : پسند ہو لَكُمْ : تمہیں مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں مَثْنٰى : دو ، دو وَثُلٰثَ : اور تین تین وَرُبٰعَ : اور چار، چار فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تمہیں اندیشہ ہو اَلَّا : کہ نہ تَعْدِلُوْا : انصاف کرسکو گے فَوَاحِدَةً : تو ایک ہی اَوْ مَا : یا جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : لونڈی جس کے تم مالک ہو ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓى : قریب تر اَلَّا : کہ نہ تَعُوْلُوْا : جھک پڑو
اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے
آیت نمبر : 3۔ اس میں چودہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان خفتم “۔ یہ شرط ہے اور اس کا جواب (آیت) ” فانکحوا “ ہے یعنی اگر تمہیں ان کے مہور ار ان میں خرچ کرنے میں عدل نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو ان سے نکاح کرو جو تمہیں (ان کے علاوہ) پسند ہیں، ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے اور یہ لفظ مسلم کے ہیں، حضرت عروہ بن زبیر ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے (آیت) ” وان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی فانکحوا ماطاب لکم من النسآء مثنی وثلث وربع “۔ کے تحت روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : اے میرے بھانجے ! یہ اس یتیم بچی کے بارے میں ہے جو کسی ولی کی پرورش میں ہوتی تھی اور وہ اس کے مال میں شریک ہوتی تھی پس اس بچی کا مال اور جمال اس ولی کو اچھا لگتا تو وہ اس سے خود نکاح کرنا چاہتا مگر اس کے مہر میں انصاف اور جتنا کوئی دوسرا اسے مہر دیتا اتنا وہ دینے کا ارادہ نہ کرتا، پس انہیں ان عورتوں سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا مگر یہ کہ ان سے انصاف کریں اور رواج کے مطابق انہیں مہر دیں، اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ ان عورتوں کے علاوہ جو انہیں پسند ہیں ان سے نکاح کریں، حدیث مکمل ذکر کی (1) (صحیح مسلم کتاب التفسیر باب فی حدیث الھجرۃ ویقال لہ الرحل بالحاء جلد 2، صفحہ 420) ابن خویز منداد نے کہا : اسی وجہ سے ہم نے کہا : وصی کو یتیم کے مال سے خود خریدنا جائز ہے جب کہ اس میں اس کا زیادہ فائدہ نہ ہو اور مؤکل کے لیے اس میں نظر کرنا جائز ہے جو وکیل اپنے لیے خریدے یا اپنے لیے بیچے اور سلطان کو نظر کی اجازت ہے جو وصی ایسا کرے، رہا باپ اس کے لئے نظر کرنا جائز نہیں جب تک کہ محابات ظاہر نہ ہو، اس وقت سلطان اس کے سامنے آئے، اس کے متعلق سورة بقرہ میں گزر چکا ہے، ضحاک ؓ اور حسن ؓ وغیرہما نے کہا : یہ آیت جو کچھ زمانہ جاہلیت میں تھا اور جو ابتداء اسلام میں تھا اس کے لئے ناسخ ہے، ایک شخص کے لئے جائز ہوتا تھا کہ آزاد عورتوں میں سے جتنی عورتوں کے لیے چاہتانکاح کرتا، اس آیت نے چار عورتوں پر محصور کردیا (1) (جامع البیان للطبری، جلد 3، 4 صفحہ 292) حضرت ابن عباس اور حضرت ابن جبیر وغیرہما نے کہا : اس کا معنی یہ ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو کہ تم یتامی میں انصاف نہیں کرسکو کے گ، اسی طرح انہیں خوف ہو عورتوں کے بارے میں، کیونکہ وہ یتیموں کے بارے میں ڈرتے تھے اور عورتوں کے بارے میں نہیں ڈرتے تھے، خفتم اضداد میں سے ہے کیونکہ جس چیز سے ڈرا جاتا ہے کبھی اس کا وقوع معلوم ہوتا ہے اور کبھی اس کا وقوع مظنون ہوتا ہے، اسی وجہ سے اس خوف کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ (2) (ایضا جلد 3، 4، صفحہ 290) ابو عبیدہ نے کہا : (آیت) ” خفتم “ بمعنی ایقنتم ہے (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 6) اور دوسرے علماء نے فرمایا : (آیت) ” خفتم “۔ بمعنی ظننتم ہے، ابن عطیہ نے کہا : اس معنی کو محققین نے اختیار کیا ہے یہ ظن کے باب سے ہے، نہ کہ یقین کے باب سے، تقدیر یہ ہے کہ جس کی یتیمہ کے لئے انصاف میں کوتاہی کا غالب گمان ہو تو اس سے اعراض کرے اور (آیت) ” تقسطوا “ کا معنی تعدلوا ہے کہا جاتا ہے : اقسط الرجل، جب وہ عدل کرے، قسط جب کوئی دوسرے پر ظلم اور زیادتی کرے۔ (4) (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 7) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” واما القسطون فکانوا لجھنم حطبا “۔ (الجن) اس آیت میں قاسطون سے مراد ظلم کرنے والے ہیں اور حضور ﷺ نین فرمایا : المقسطون فی الدین علی منابر من نور یوم القیامۃ (5) (مسنداحمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عمر، جلد 2، صفحہ 160) یعنی دین میں عدل کرنے والے قیامت کے روز نور کے منبروں پر ہوں گے، ابن دثاب اور نخعی نے تقسطوا تاء کے فتحہ کے ساتھ قسط سے مشتق کرکے پڑھا ہے لا کی زیادتی کی تقدیر پر، گویا فرمایا : اگر تمہیں ظلم کرنے کا خوف ہو (6) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 6 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فانکحوا ما طاب لکم من النسآئ “۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ آدمیوں کے لیے ما کیسے استعمال ہوا ہے کیونکہ یہ تو غیر ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتا ہے ؟ اس کے پانچ جواب ہیں۔ (1) من اور ما ایک دوسرے کی جگہ آتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” والسمآء وما بنھا “۔ (الشمس) قسم ہے آسمان کی اور اس کی جس نے اسے بنایا : یعنی ومن بناھا، مذکورہ آیت میں ما، من کی جگہ استعمال ہوا ہے، فرمایا (آیت) ” فمنھم من یمشی علی بطنہ ومنھم من یمشی علی رجلین ومنھم من یمشی علی اربع (النور : 45) اس آیت میں من، ما کی جگہ استعمال ہوا ہے پس یہاں ما ذوالعقول کے لئے ہے اور وہ عورتیں ہیں کیونکہ اس کے بعد (آیت) ” من النسآء “ مبہم کو بیان کرنے والا ہے، ابن ابی عبلہ نے ذوالعقول کے ذکر کی بنا پر من طاب پڑھا ہے (7) (ایضا جلد 2، صفحہ 7) (2) بصریوں نے کہا : مانعوت کیلئے واقع ہوتا ہے جس طرح غیر ذوالعقول کے لئے واقع ہوتا ہے کہا جاتا ہے : ما عندک ؟ کہا جاتا ہے : ظریف کریم، معنی یہ ہے کہ عورتوں میں سے جو حلال ہیں ان سے نکاح کرو اور جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے وہ طیب نہیں ہے قرآن کریم میں ہے (آیت) ” وما رب العلمین “۔ (الشعرائ) موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے اس کے سوال کے مطابق جواب دیا۔ (3) بعض علماء نے حکایت کی ہے کہ اس آیت میں ماظرفیۃ ہے۔ یعنی جب تک تم نکاح کو اچھا سمجھتے ہو، اس میں ضعف ہے (1) ، (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 7 دارالکتب العلمیہ) (4) فراء نے کہا : ما یہاں مصدریہ ہے، نحاس نے کہا : یہ بہت بعید ہے فانکحوا الطیبۃ صحیح نہیں ہے، جوہری نے کہا : طاب بالشی یطیب طیبۃ وطیابا۔ علقمہ نے کہا : کان تطیابھا فی الانف مشموم : پانچواں : جواب یہ ہے کہ ما سے مراد یہاں عقد ہے یعنی حلال نکاح کرو، ابن ابی عبلہ کی قرات ان تین اقوال کا رد کرتی ہے ابو عمرو بن العلاء نے حکایت کیا ہے کہ اہل مکہ جب کڑک کی آواز سنتے تو کہتے، سبحان ما سبح لہ الرعد “۔ پاک ہے وہ ذات جس کے لیے کڑک نے پاکی بیان کی، اس میں ما بمعنی من ہے اس کی مثل ان کا قول ہے، سبحان ما سخرکن لنا یعنی من سخر کن لنا، علماء کا اتفاق ہے کہ (آیت) ” وان خفتم الا تقسطوا فی الیتیمی “۔ اس کے لئے مفہوم نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جس کو یتامی کے بارے ناانصافی کا خوف نہ ہو تو اس کے لئے ایک، دو ، تین یا چار سے نکاح کرنا جائز ہے، جس طرح خوف والے کے لئے جائز ہے، پس یہ دلیل ہے کہ یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی جس کو اس کا خوف تھا اور اس کا حکم اس سے اعم ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) امام ابوحنیفہ (رح) نے اس آیت سے یتیمہ کے نکاح کا بلوغت سے پہلے جائز ہونا کا تعلق جوڑا ہے، فرمایا : بلوغ سے پہلے یتیمہ ہوتی ہے، بلوغت کے مطلق عورت ہوتی ہے یتیمہ نہیں ہوتی اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر بالغہ کا ارادہ کیا ہوتا تو اس کے مہر مثل سے کم کرنے کی نہی نہ کی جاتی کیونکہ اسے یہ اختیار ہوتا ہے پس یہ تو اجماعا جائز ہے، امام مالک (رح) اور جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ اس کا نکاح جائز نہیں حتی کہ وہ بالغ ہوجائے اور اس سے مشورہ لیا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ویستفتونک فی النسآء “۔ اور نساء کا اسم اس کا اطلاق بڑی عورتوں پر ہوتا ہے جس طرح رجال کا الطاق مردوں پر ہوتا ہے اور الرجل کا اسم چھوٹے بچے کو شامل نہیں ہوتا اسی طرح النساء کا اطلاق بچی کو شامل نہیں، المراۃ کا لفظ چھوٹی بچی کے لیے نہیں بولا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فی یتمی النسآء “ پس وہاں بھی وہی مراد ہے جو یہاں (آیت) ” یتمی النساء “ سے مراد ہے جس طرح حضرت عائشہ ؓ نے کہا : آیت میں بڑی یتیمہ داخل ہے پس اس کی اجازت کے بغیر اس سے نکاح نہیں کیا جائے گا اور چھوٹی بچی سے نکاح کیا جائے گا، کیونکہ اس کے لئے اجازت نہیں ہے جب وہ بالغ ہوگی تو اس کا نکاح جائز ہوگا لیکن اس کی اجازت سے نکاح ہوگا جیسا کہ دارقطنی نے محمد بن اسحاق کی حدیث سے روایت کیا ہے، محمد بن اسحاق نے نافع سے انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے فرمایا : میرے خالو قدام بن مظعون نے میرا نکاح اپنے بھائی عثمان بن مظعون کی بیٹی سے کردیا، مغیرہ بن شعبہ اس کی ماں کے پاس آیا اور اس کے مال میں رغبت کی اور اس سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا، معاملہ نبی کریم ﷺ کی بارہ گاہ میں پیش کیا گیا، قدامہ نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ وہ میرے بھائی کی بیٹی ہے اور میں اس کے باپ کا وصی ہوں اور میں نے اس کے بارے میں کوئی کوتاہی نہیں کی میں نے اس کا نکاح ایسے شخص سے کردیا ہے جس کی فضیلت اور قرابت کو میں جانتا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا : وہ یتیمہ ہے اور یتیمہ اپنے معاملہ کی زیادہ حقدار ہے وہ مجھ سے لی گئی اور اس کا نکاح مغیرہ بن شعبہ سے کردیا۔ (2) (سنن دارقطنی کتاب النکاح، جلد 3، صفحہ 230، حدیث نمبر 36) دارقطنی نے کہا : محمد بن اسحاق نے نافع سے نہیں سنا ہے اس سے عمربن حسین نے اور انہوں نے نافع سے سنا ہے اس حدیث کو ابن ابی ذئب نے عمر بن حسین سے انہوں نے نافع سے انہوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا ہے، انہوں نے اپنے خالو عثمان بن مظعون کی بیٹی سے نکاح کیا فرمایا : اس کی والدہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی اور عرض کی : میری بیٹی اس رشتہ کو ناپسند کرتی ہے تو نبی کریم ﷺ نے ابن عمر کو اسے جدا کرنے کا حکم دیا تو اس نے اسے جدا کردیا اور فرمایا : ” یتیم بچیوں سے نکاح نہ کرو حتی کہ اس سے مشورہ کرلو جب وہ خاموش رہیں تو یہ اس کا اذن ہوگا۔ (1) (سنن دارقطنی کتاب النکاح، جلد 3، صفحہ 229، حدیث نمبر 35) حضرت عبداللہ ؓ کے بعد حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اس سے نکاح کرلیا، یہ امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ عورت بالغ ہوجائے تو ولی کی محتاج نہیں اپنی اصل کی بنا پر کہ صحت نکاح میں ولی کی شرط نہیں، سورة بقرہ میں اس کا تفصیلی ذکر ہوچکا ہے اور ان کے اس قول کا کوئی معنی نہیں کہ یہ حدیث غیر بالغہ پر محمول ہے کیونکہ ” مگر اس کی اجازت سے “ کے الفاظ اس محمل کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ پھر یتیم کے ذکر کا کوئی معنی نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (4) اس آیت کی حضرت عائشہ کی تفسیر سے وہ مسئلہ سمجھ آتا ہے جو امام مالک (رح) نے مہر مثل کے بارے میں فرمایا اور مہر کے فساد اور اس کی مقدار میں غبن واقع ہونے کی صورت میں مہر مثل کی طرف لوٹایا جائے گا کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : مہر جو کم از کم رائج ہے، پس لوگوں کے ہر طبقہ میں ان کے احوال کی حیثیت سے مہر مثل معروف ہونا واجب ہے، امام مالک نے فرمایا : لوگوں کے لئے نکاح میں ان کے لیے وہ معروف ہیں اور وہ اسے جانتے ہیں یعنی وہ مہر اور کفو ہونا اسے معلوم ہے، امام مالک (رح) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیٹی کا نکاح اپنے فقیر بھتیجے سے کردیا تو اس کی ماں نے اس پر اعتراض کیا، تو اس نے کہا : میں اس کے لیے اس کے متعلق کلام کرنے والے کی گنجائش دیکھتا ہوں، پس اس کے لیے اس کلام میں جواز رکھا گیا حتی کہ اس نے ظاہر کیا ایسی چیز کو جس نے ماں کے اعتراض کو ساقط کردیا اور اس میں یہ لفظ بھی مروی ہے کہ میں اس کے لیے کلام کرنے والے کی گنجائش نہیں دیکھتا، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اور غیر یتیمہ کے لیے جائز ہے کہ وہ مہر مثل سے کم پر نکاح کرلے کیونکہ یہ آیت یتامی کے بارے میں ہے، یہ اس آیت کا مفہوم ہے اور غیر یتیمہ اس کے خلاف ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) جب یتیمہ بالغ ہوجائے اور ولی اس کے مہر میں انصاف کا تقاضا پورا کرے تو اس کے لئے اس سے نکاح کرنا جائز ہے، حضرت عائشہ ؓ کی تفسیر پر وہ خود نکاح کرنے والا اور جس کا نکاح کیا گیا دونوں طرف سے ہوگا یہی امام ابوحنیفہ اور اوزاعی، ثوری اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے، تابعین میں سے حضرت حسن اور ربیعہ کا قول ہے، یہی امام لیث کا قول ہے امام زفرا اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہم نے فرمایا : اس کے لیے اس یتیمہ سے نکاح کرنا جائز نہیں مگر یہ کہ سلطان اجازت دے یا ولی بعد اس سے اس کا نکاح کردے یا اس کی مثل قرابت کا جو اس کی مثل ہے وہ نکاح کر دے اور خود نکاح کرنے والا ہونا، اور اپنے ساتھ نکاھ کرنا یہ جائز نہیں اور انہوں نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ ولایت عقد کی شروط میں سے ایک شرط ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” نکاح نہیں ہے مگر ولی کے ذریعے اور دو عادل گواہوں کے ذریعے ” (2) (ایضا جلد 3، صفحہ 225، حدیث نمبر 21) نکاح کرنے والے اور نکاح کرانے والے اور گواہوں کی تعداد واجب ہے، جب ان میں سے دو ایک ہوجائیں تو ان میں سے ایک ساقط ہوگا، اس مسئلہ میں ایک تیسرا قول بھی ہے وہ یہ ہے عورت اپنا معاملہ کسی شخص کے سپرد کر دے وہ اس کا نکاح اپنے آپ سے کر دے، یہ مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے اور یہی امام احمد کا قول ہے، ابن منذر نے یہ ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ما طاب لکم من النسآء “ اس کا معنی ہے جو تمہارے لئے حلال ہیں، حضرت حسن، حضرت ابن جبیر ؓ وغیرہما سے مروی ہے (1) (جامع البیان للطبری، جلد 3، 4 صفحہ 293) ان کے ذکر پر اکتفا کیا جس کے ساتھ نکاح جائز ہے، کیونکہ عورتوں میں سے محرمات کثیر ہیں، ابن اسحاق، جحدری اور حمزہ نے طاب کو امالہ کے ساتھ پڑھا ہے اور حضرت ابی بن کعب کے مصحف میں طیب یعنی یا کے ساتھ تھا یہ امالہ کی دلیل ہے (آیت) ” من النسآء “ دلیل ہے کہ نساء نہیں کہا جائے گا مگر اسے جو بالغ ہو النساء کا واحد نسوۃ ہے اور لفظ نسوۃ کا واحد نہیں ہے لیکن امراۃ کہا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” مثنی وثلث وربع “۔ یہ ما سے بدل ہونے کی بنا پر مصوب ہے، یہ نکرہ ہیں اور غیر منصرف ہیں کیونکہ ان میں عدل اور صفت کے سبب پائے جاتے ہی، ابو علی نے اسی طرح کہا ہے طبری نے کہا : یہ معرفہ ہیں کیونکہ ان پر الف، لام داخل نہیں ہوتا، یہ تعریف میں عمر کے قائم مقام ہیں، یہ کوفی کا قول ہے۔ (2) (ایضا جلد 3، 4، صفحہ 249) زجاج نے اس پر قول کو خطا کہا ہے بعض علماء نے فرمایا : یہ غیر منصرف ہیں، کیونکہ یہ اپنے لفظ اور معنی سے معدول ہیں، پس احاؤ واحد واحد سے معدول ہے اور مثنی، اثنین، اثنین سے معدول ہے، ثلاث، ثلاثۃ ثلاثۃ سے معدول ہے، رباع، اربعۃ اربعۃ سے معدول ہے، ان میں سے ہر ایک میں دو لغتیں ہیں فعال، مفعل، کہا جاتا ہے : احاد، موحد، ثناء مثنی، وثلاث، مثلث، رباع، مربع اسی طرح معشر، عشار تک ہے، ابو اسحاق ثعلبی نے ایک تیسری لغت بھی بیان کی ہے احد وثنی، ثلت وربع جیسے عمرو زفر، اسی طرح نخعی نے اس آیت میں پڑھا ہے مہدوی نے نخعی اور ابن وثاب سے ثلاث وربع بغیر الف کے ربع میں حکایت کیا ہے، یہ رباع سے تخفیف کی خاطر مقصود ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا : اقبل سیل جاء من عنداللہ یحرد حرد الجنۃ المغلۃ ثعلبی نے کہا : اس وزن پر اربع سے زیادہ نہیں کہا جاتا مگر ایک شعر الکمیت سے مروی ہے۔ فلم یستر یثوک حتی رمیت فوق الرجال خصالا عشارا : یعنی دس نیزے مارے، ابن الدہان نے کہا : بعض نے مسموع پر توقف کیا ہے یہ احاد سے رباع تک ہیں مذکورہ بیت کا شاذ ہونے کی وجہ سے کوئی اعتبار نہیں، ابو عمرو بن حاجب نے کہا : کہا جاتا ہے احاد، موحد، ثناء مثنی، ثلاث ممثلث، رباع، مربع، کیا اس کے علاوہ تسعہ (نو) تک اسی طرح کہا جائے گا یا نہیں اس میں اختلاف ہے کہ یہ ثابت نہیں ہے، امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس پر نص قائم فرمائی ہے۔ اور اس کے معنی سے معدول ہونا یہ ہے کہ یہ اس جگہ میں استعمال نہیں ہوتا جس میں غیر معدولہ اعداد واستعمال ہوتے ہیں تو کہتا ہے : جاء فی اثنان وثلاثۃ اور مثنی وثلاث کہنا جائز نہیں حتی کہ اس سے پہلے جمع ہو مثلا جاءنی القوم احاد وثناء و ثلاث ورباع (بغیر تکرار کے) یہ یہاں اور آیت میں حال کی جگہ میں ہیں اور صفت بھی ہوتے ہیں ان اعداد کی صفت ہونے کی مثال اس ارشاد میں واضح ہوتی ہے۔ (آیت) ” اولی اجنحۃ مثنی وثلث وربع “۔ (فاطر : 1) یہ الاجنحۃ کی صفت ہیں یہ نکرہ ہیں ساعدہ بن جو یۃ نے کہا : ولکنما اھلی بواد انیسہ ذناب تبغی الناس مثنی وموحد : اس میں مثنی اور موحد ذئاب کی صف کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ فراء نے یہ شعر کہا ہے : قتلنا بہ من بین مثنی وموحد باربعۃ منکم وآخر ِخامس : اسی طرح اس میں شعر میں صفت میں یعنی قتلنا بہ ناسا یہ معرفہ اور نکرہ دونوں حالتوں میں غیر منصرف ہوتے ہیں، کسائی اور فراء نے عدد میں اس کو منصرف بنایا ہے کیونکہ یہ نکرہ ہے اخفش نے کہا ہے کہ اس کیساتھ نام رکھا جائے تو معرفہ اور نکرہ دونوں صورتوں میں منصرف ہوتے ہیں کیونکہ ان سے عدل زائل ہوگیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) (آیت) ” مثنی وثلث وربع “۔ نو عورتوں کی اباحت پر دلالت نہیں کرتے جیسا کہ اس شخص نے کہا ہے جو کتاب وسنت کے سمجھنے سے بہت دور ہے، اور اس نے امت کے سلف صالحین کے اقوال سے اعراض کیا ہے اور یہ گمان کیا ہے کہ واؤ جمع کے لیے ہے اور اپنے اس قول کو اس سے تائید دی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نو عورتوں سے نکاح کیا تھا اور اپنی عصمت میں ان کو جمع کیا تھا، جو لوگ اس جہالت کا شکار ہوئے اور یہ بات کہی وہ رافضی لوگ اور بعض اہل ظاہر ہیں انہوں نے مثنی کو اثنین کی طرح بنایا ہے اسی طرح ثلاث اور رباع کے بارے میں کہا ہے، بعض اہل ظاہر اس سے بھی قبیح نظریہ رکھتے ہیں انہوں نے کہا : اٹھارہ عورتوں کے درمیان تک جمع کرنا مباح ہے اور دلیل یہ مروی ہے کہ ان صیغوں میں عدل تکرار کا فائدہ دیتا ہے اور واؤ جمع کے لئے ہے، پس انہوں نے مثنی، مثنی کو اثنین، اثنین کے معنی میں کیا ہے، اسی طرح ثلاث اور رباع کے بارے میں کہا ہے، یہ حقیقت میں لغت عرب اور سنت سے جہالت ہے اور اجماع امت کی مخالفت ہے، کیونکہ کسی صحابی اور تابعی کے بارے میں نہیں سنا گیا کہ اس نے چار عورتوں سے زیادہ عورتیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھی ہوں، امام مالک رحمۃ اللہ علیہنے اپنے موطا، نسائی اور دارقطنی نے اپنی اپنی سنن میں روایت کیا ہے کی نبی کریم ﷺ نے غیلان بن امیہ الثقفی کو کہا جبکہ اس نے اسلام قبو کیا تو اس کے عقد میں دس عورتیں تھیں “ ان میں سے چار کو اختیار کر اور باقی سے جدا ہوجا “ (1) (سنن دارقطنی، باب المہر، جلد 3، صفحہ 270، حدیث نمبر 96) ابو داؤد کی کتاب میں حارث بن قیس سے مروی ہے فرمایا : میں نے اسلام قبول کیا تو میرے پاس آٹھ عورتیں تھیں میں نے اس کا ذک رنبی کریم ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان میں سے چار کو اختیار کر “ (2) (سنن ابی داؤد کتاب الطلاق، جلد 1، صفحہ 304) مقاتل نے کہا : قیس بن حارث کے پاس آٹھ ازاد عورتیں تھیں، جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے چار عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا اور چار کو اپنے پاس رکھنے کا حکم دیا، مقاتل نے قیس بن حارث سے کہا ہے : صحیح یہ ہے کہ یہ حارث بن قیس اسدی تھا جیسا کہ ابو داؤد نے ذکر کیا ہے، اسی طرح محمد بن حسن (رح) نے سیر کبیر میں روایت کیا ہے کہ یہ حارث بن قبس تھا اور یہی فقہاء کے نزدیک معروف ہے اور جو نبی کریم ﷺ کے لیے مباح کیا گیا تھا وہ آپ ﷺ کی خصوصیات سے ہے جیسا کہ سورة الاحزاب میں اس کا بیان آئے گا، رہا ان کا قول کہ واؤ جمع کے لیے ہے یہ کہا گیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے عربوں کو واضح لغت کے ساتھ خطاب فرمایا اور عرب یہ اجازت نہیں دیتے کہ تو تسعہ نہ کہے اور کہے اثنین وثلاثۃ واربعۃ، اسی طرح عرب اس کو قبیح سمجھتے ہیں جو کہتا ہے اعط فلانا اربعۃ ستۃ ثمانیۃ اور ثمانیۃ عشر نہیں کہتا، اس آیت میں واؤ بدل ہے یعنی دو کا بدل تین سے نکاح کرلو اور تین کا بدل چار سے نکاح کرلو، اسی وجہ سے (واؤ) کے ساتھ عطف فرمایا : (1 ؤ) کے ساتھ عطف نہیں فرمایا اگر او کیی ساتھ ہوتا تو جائز ہوتا کہ دو عورتوں والے کے لئے تین عورتیں جائز نہ ہوں اور تین والے کے لئے چار عورتیں جائز نہ ہوں ان کا قول کہ مثنی اثنین کا تقاضا کرتا ہے اور ثلاث، ثلاثۃ اور رباع اربعۃ کا تقاضا کرتی ہے یہ ایسا فیصلہ ہے جس پر اہل لغت ان کی موافقت نہیں کرتے اور یہ ان کی طرف سے جہالت ہے، اسی طرح دوسرے لوگوں کی جہالت ہے کیونکہ مثنی اثنین، اثنین کا اور ثلاث، ثلاثۃ، ثلاثۃ کا رباع اربعۃ، اربعۃ کا تقاضا کرتا ہے اور اسے معلوم نہیں کہ اثنین، اثنین، ثلاثا ثلاثا، اربعا اربعا عدد کے لیے حصر ہیں جب کہ مثنی وثلاث ورباع اس کے خلاف ہیں اور عربوں کے نزدیک معدول عدد میں معنی کی ایسی زیادتی ہوتی ہے جو اصل میں نہیں ہوتی، یہ اس طرح ہے کہ جب کہا : جاءت الخیل مثنی تو اس کا مطلب دو دو ہو کر گھوڑے آئے یعنی ملے ہوئے آئے، جوہری نے کہا : اسی طرح عدد کا معدول ہے اور دوسرے علماء نے کہا : جب تو نے کہا : جاءنی قوم مثنی اوثلاث او احاد او عشار “ ، تو تیری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ تیرے پاس ایک ایک یا دو دو یا تین تین یا دس دس ہو کر آئے یہ معنی اصل میں نہیں ہے کیونکہ جب تو کہتا ہے : جاءنی قوم ثلاثۃ ثلاثۃ او قوم عشرۃ عشرۃ، تو تو نے قوم کی تعداد کو تیرہ کی تعداد میں منحصر کردیا اور جب تو نے کہا : جاءنی رباع وثناء تو تو نے ان کی تعداد کو محصور نہیں کیا تیری مراد یہ ہوتی ہے کہ تیرے پاس چار چار یا دو دو آئے، خواہ ان کی تعداد زیادہ ہو یا کم ہو اور ہر صیغہ کو کم از کم پر اپنے گمان کے مطابق محصور کرنا ایک غیر پسندیدہ فیصلہ ہے۔ رہا علماء کا اختلاف اس شخص کے بارے میں جو پانچویں عورت سے نکاح کرتا ہے جبکہ اس کے پاس چار عورتیں پہلے موجود ہیں۔ مسئلہ نمبر : (9) امام مالک (رح) اور شافعی (رح) نے فرمایا : اگر تو وہ اس کی حرمت جانتا ہے تو اس پر ہوگی یہی ابو ثور (رح) کا قول ہے۔ زہری (رح) نے کہا : اگر وہ جانتا ہے تو اسے رجم کیا جائے گا اگر وہ جاہل ہے تو دونوں حدوں میں سے ادنی حد یعنی کوڑے اس پر ہوں گے اور اس عورت کو مہر ملے گا اور ان کے درمیان تفریق کردی جائے گی اور وہ کبھی جمع نہ ہوں گے، ایک جماعت نے کہا : اس پر کوئی حد نہیں ہوگی، یہ نعمان کا قول ہے۔ یعقوب اور محمد نے کہا : دو محرم میں حد لگائی جائے گی اور اس کے علاوہ کسی سے نکاح کرنے کی صورت میں حد نہیں ہوگی، یہ اس کی مثل ہے جو مجوسی عورت سے نکاح کرتا ہے یا ایک عقد میں پانچ عورتوں سے نکاح کرتا ہے یا معتدہ سے نکاح کرتا ہے یا بغیر گواہوں کے نکاح کرتا ہے یا ایسی لونڈی سے نکاح کرتا ہے جس کے آقا کی اجازت نہیں ہے۔ ابو ثور (رح) نے کہا : جب وہ جانتا ہو کہ یہ حلال نہیں ہے تو تمام صورتوں میں اس پر حد ہوگی مگر بغیر گواہوں کے نکاح کرنے کی صورت میں حد نہ ہوگی، اس میں تیسرا قول بھی ہے، نخعی نے کہا : وہ شخص جو چوتھی عورت کی عدت گزارنے سے پہلے پانچویں عورت سے جان بوجھ کر نکاح کرتا ہے اسے سو کوڑے لگائے جائیں گے اور اسے جلاوطن نہیں کیا جائے گا یہ ہمارے علماء کا پانچویں عورت کے بارے میں فتوی ہے جیسا کہ ابن منذر نے یہ ذکر کیا ہے پھر جو اس سے زیادہ عورتوں سے نکاح کرے گا اس کے بارے کتنا سخت قول ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (10) زبیربن بکار نے ذکر کیا ہے کہ ابراہیم حزامی نے مجھے بتایا انہوں نے محمد بن معن الغفاری سے روایت کیا فرمایا : ایک عورت حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس آئی اور عرض کی : اے امیر المومنین ! میرا خاوند دن کو روزہ رکھتا ہے رات کو قیام کرتا ہے اور اس میں اس کی شکایت کرنا بھی ناپسند کرتی ہوں، وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں رہتا ہے حضرت عمر ؓ نے اسے کہا : تیرا خاوند بہت اچھا خاوند ہے وہ بار بار اپنی بات دہراتی رہی اور حضرت عمر ؓ اسے یہی جواب دیتے رہے، حضرت کعب اسدی ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہا : اے امیر المومنین ! یہ عورت اپنے خاوند کی شکایت کررہی ہے کہ وہ اس سے ہم بستر نہیں ہوتا حضرت عمر ؓ نے کہا جیسا کہ تم نے اس کی بات سمجھی ہے پس فیصلہ بھی تم ہی کرو، حضرت کعب ؓ نے فرمایا : اس کے خاوند کو میرے پاس لایا جائے اسے لایا گیا تو حضرت کعب ؓ نے اسے کہا : تیری بیوی تیری شکایت کرتی ہے، خاوند نے کہا : کھانے کے بارے میں یا پینے کے بارے میں ؟ حضرت کعب ؓ نے کہا : نہیں عورت نے کہا اشعار کا ترجمہ : اے قاضی اس کی دانش بڑی پختہ ہے میرے دوست کا اس کی مسجد نے میرے بستر سے غافل کردیا ہے، اس کی عبادت نے میرے پہلو میں سونے عدم دلچسپی پیدا کردی ہے، اسے کعب، فیصلہ کر اور تردد کا شکار نہ ہو، یہ نہ دن کو سوتا ہے اور نہ رات کو سوتا ہے عورتوں کے معاملات میں میں اس کی تعریف نہیں کرتی۔ جوابا اس کے خاوند نے کہا : اس کے بستر اور اس کے حجلہ عروسی سے مجھے دلچسپی نہیں ہے کہ میں ایسا شخص ہوں کہ جو سورة النحل، سورة بقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، اور اعراف میں نازل ہوا ہے اسی نے مجھے ہر چیز سے غافل کردیا ہے اللہ کی کتاب میں بہت بڑا خوف دلایا گیا ہے۔ حضرت کعب ؓ نے فرمایا : اے شخص تجھ پر اپنی بیوی کا حق ہے ہر عقل مند کے لئے چار دنوں میں اس کا حصہ ہے اسے اپنا حق ادا کر اور علتیں بیان کرنا چھوڑ دے۔ پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے عورتوں میں سے دو دو، تین تین، اور چار چار حلال کی ہیں تیرے لئے تین دن اور تین راتیں ہیں تو ان میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کر، حضرت عمر ؓ نے کہا : اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ میں تیرے کس امر پر تعجب کروں ان کے معاملے کو سمجھنے پر یا تیرے ان کے درمیان فیصلہ پر تم جاؤ میں نے تجھے بصرہ کی قضا کا عہدہ سونپا ہے، ابو ہدبہ ابراہیم بن ہدبہ نے : ہمیں حضرت انس بن مالک (رح) نے فرمایا کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی جو اپنے خاوند کی زیادتی کی شکایت کر رہی تھی اس نے کہا : میرے لئے وہ نہیں ہے جو عورتوں کے لیے ہوتا ہے، میرا خاوند ہمیشہ روزہ رکھتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا تیرے لئے ایکدن ہے اور اس کے لیے ایک دن ہے، ایک دین عبادت کے لئے ہے اور ایک دن عورت کے لیے ہے۔ مسئلہ نمبر : (11) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ “۔ ضحاک ؓ وغیرہ نے کہا : اس کا مطلب ہے اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم میلان، محبت، جماع (1) (جامع البیان للطبری، جلد 3، 4 صفحہ 297) حسن معاشرت، چار، تین اور دو بیویوں کے درمیان تقسیم میں عدل نہیں کرسکو گے تو پھر ایک عورت سے نکاح کرو، باری اور حسن معاشرت میں عدل کے ترک تک پہنچانے والی زیادتی (٭) (۔۔۔۔۔ عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت) سے منع کیا گیا ہے ایسی صورت میں ایک عورت سے نکاح کے وجوب کی دلیل ہے واللہ اعلم، واحدۃ کو مرفوع بھی پڑھا گیا ہے۔ ” فواحدۃ فیھا کفایۃ اور کافیۃ “۔ یعنی ایسی صورت میں ایک کافی ہے یا کفایت کرتی ہے، کسائی نے کہا : ” فواحدۃ تقنع “ یعنی ایک پر قناعت کرے، فعل کے اضمار کے ساتھ واحدۃ کو منصوب بھی پڑھا گیا ہے۔ یعنی فانکحوا واحدۃ یعنی پھر ایک سے نکاح کرو۔ مسئلہ نمبر : (12) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” او ماملکت ایمانکم “۔ اس سے مراد لونڈیاں ہیں اس کا عطف واحدۃ پر ہے یعنی اگر ایک میں بھی عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر لونڈیاں رکھو، اس میں دلیل ہے کہ وطی اور باری میں لونڈی کا حق نہیں ہے کیونکہ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر تم باری مقرر کرنے میں عدل نہ کرو تو ایک عورت سے نکاح کرو یا لونڈیاں رکھو، لونڈیوں کو ایک عورت کے قائم مقام پس وطی اور قسم میں لونڈیوں کا حق ہونے کی نفی ہوگئی، مگر یہ کہ دائیں ہاتھ کی ملک عدل میں معاشرت اور غلام کے ساتھ نرمی کے وجوب کے ساتھ قائم ہے اللہ تعالیٰ نے ملک کو الیمین کی طرف منسوب کیا ہے، کیونکہ یہ مدح کی صفت ہے اور یمین محاسن کے ساتھ خاص ہے کیونکہ وہ محاسن پر قادر ہوتا ہے، کیا آپ نے ملاحظہ نہیں کیا کہ دایاں ہاتھ میں منفقہ (خرچ کرنے والا) ہے جیسا کہ نبی کریم (علیہ الصلوۃ والسلام) نے فرمایا : حتی لا تعلم شمالہ ماتنفق یمینہ (2) (جامع ترمذی، کتاب الزہد، جلد 2، صفحہ 62) (یعنی جو دایاں ہاتھ خرچ کرے بائیں ہاتھ میں کو بھی معلوم نہ ہو) یہ معاہدہ اور بیعت کرنے والا ہے اس وجہ سے قسم کو بھی یمین کہا جاتا ہے، یہ بزرگی کے جھنڈوں کو پانے والا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : اذا ما رایۃ رفعت لمجد تلقاھا عرابۃ بالیمین : جب بزرگی کے لئے جھنڈا بلند کیا گیا تو عرابۃ نے اسے دائیں ہاتھ سے پکڑا۔ مسئلہ نمبر : (13) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” ذالک ادانی الا تعولوا “۔ یعنی یہ زیادہ قریب ہے کہ تم حق سے انحراف نہ کرو اور تم ظلم نہ کرو، حضرت ابن عباس ؓ ، مجاہد ؓ وغیرہما سے یہی مروی ہے۔ (3) (جامع البیان للطبری، جلد 3، 4، صفحہ 299) کہا جاتا ہے، عال الرجال یعول، جب کوئی ظلم کرے اور جھکاؤ کرے اسی سے عربوں کا قول ہے : عال السھم عن الھدف یعنی تیر ہدف سے ادھر ادھر ہوگیا، ابن عمر نے کہا : وہ کیل اور وزن میں ظلم کرنے والا ہے، شاعر نے کہا : قالوا اتبعنا رسول اللہ واطرحوا قول الرسول وعالوا فی الموازین : انہوں نے کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی اور انہوں نے رسول مکرم ﷺ کے قول کو پس پشت ڈال دیا اور وزن کرنے میں ظلم کیا۔ ابو طالب نے کہا : بمیزان صدق لا یغل شعیرۃ لہ شاھد من نفسہ غیر عائل : سچائی کا ترازو ہے ایک جو کی بھی خیانت نہیں کرتا اس کا نفس ہی گواہ ہے وہ ظلم کرنے والا نہیں ہے یعنی حق سے انحراف کرنے والا نہیں۔ ایک اور شاعر نے کہا : ثلاثۃ انفس وثلاث ذود لقد عال الزمان علی عیالی : تین افراد اور تین اونٹ، زمانے نے میرے عیال ظلم کیا : عال الرجل یعیل کا معنی ہے وہ محتاج ہوگیا، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان خفتم عیلۃ “۔ (توبہ : 28) (اگر تمہیں فقر وغربت کا اندیشہ ہو) اسی سے شاعر کا قول ہے : وما یدری الفقیر متی غناہ وما یدری الغنی متی یعیل : فقیر نہیں جانتا کہ اس کی غناکب ہے اور غنی نہیں جانتا کہ وہ کب فقیر ہوجائے گا۔ العیلۃ والعالۃ کا معنی الفاقۃ (بھوک) ہے عالنی الشی یعولنی جب کوئی کسی پر غالب آجائے تو یہ بولا جاتا ہے۔ عالا الامر، جب معاملہ سخت اور شدید ہوجائے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : الا تعولوا “۔ یعنی تمہاری اولاد زیادہ نہ ہو۔ ثعلبی نے کہا : یہ اور کسی نے معنی بیان نہیں کیا ہے، کہا جاتا ہے : عال یعیل، جب کسی کے عیال زیادہ ہوں، ابن عربی نے کہا : عال کے صرف سات معانی ہیں، آٹھواں معنی نہیں ہے کہا جاتا ہے۔ (1) (عال جھکنا) (2) انحراف کرنا (3) زیادہ ہونا (4) ظلم کرنا (5) بوجھل ہونا، یہ ابن ورید نے حکایت کیا ہے خنساء نے کہا : یکفی العشیرۃ ما اعالھا : اس کا خاندان کفایت کرتا ہے جو اس پر بوجھل ہوتا ہے۔ (6) عیال کی مشقت اٹھانا، اس سے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : وابدابمن تعول (1) (صحیح بخاری، کتاب النفقات، جلد 2، صفحہ 806) صدقہ اس سے شروع کرو جن کی کفالت کرتے ہو (7) غالب ہونا، اسی سے ہے عیل صبرہ اس کا صبر مغلوب ہوگیا، کہا جاتا ہے : اعال الرجل اس کے عیال زیادہ ہیں اور رہا عال بمعنی کثر عیالہ یہ صحیح نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : رہا ثعبی کا قول کہ (یہ کسی نے معنی بیان نہیں کیا) دارقطنی نے اپنی سنن میں یہ زید بن اسلم ؓ سے روایت کیا ہے یہ حضرت جابر بن زید کا بھی قول ہے۔ یہ دونوں مسلمانوں کے علماء اور اعمۃ میں سے ہیں، یہ امام شافعی سے پہلے یہ معنی بیان کرچکے ہیں، رہا وہ جو ابن عربی نے حصر کا ذکر کیا ہے اور اس کی عدم صحت کا قول کیا ہے ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ عال الامر کا معنی سخت ہونا اور معاملہ کا ناہموار ہونا ہے، یہ جوہری نے حکایت کیا ہے۔ ہر وی نے اپنی غریب میں ذکر کیا ہے ابوبکر نے : عال الرجل فی الارض یعیل فیھا، جب کوئی زمین میں سفر کرے، احمر نے کہا : کہا جاتا ہے : عالنی الشی یعیلنی عیلا معیلا جب کوئی چیز کسی کو عاجز کر دے، رہا عال کا معنی کثر عیالہ، یہ کسائی ابو عمر الدوری اور ابن اعرابی نے ذکر کیا ہے۔ کسائی ابو الحسن علی بن حمزہ نے کہا : عرب کہتے ہیں : عال یعول، اعال یعیل، یعنی اس کے عیال زیادہ ہوگئے، ابو حاتم نے کہا : امام شافعی لغت عرب کو ہم سے زیادہ جاننے والے تھے، شاید یہ بھی ایک لغت ہو، ثعلبی المفسر ہمارے استاد ابوالقاسم بن حبیب نے کہا : ابو عمر الدوری سے میں نے اس کے متعلق پوچھا وہ لغت میں یقینا امام تھے انہوں نے فرمایا : یہ حمیر کی لغت ہے اور انہوں نے بطور دلیل یہ شعر پڑھا : وان الموت یاخذ کل حی بلاشک وان امشی وعالا : بلاشک موت ہر زندہ کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اگرچہ اس کے اہل و عیال زیادہ بھی ہوں۔ ابو عمرو بن علاء نے کہا : عرب کیوجہ اتنی زیادہ ہوتیں کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ میں کسی غلطی کرنے والے سے کوئی غلطی نہ لے لوں، طلحہ بن مصرف نے الاتعیلوا ‘ پڑھا ہے۔ یہ امام شافعی (رح) کی حجت ہے، ابن عطیہ نے کہا : زجاج وغیرہ نے عال کی تاویل عیال سے کرنے میں اس طرح تقید کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لونڈیوں کی کثرت مباح کی ہے اور اس میں عیال کا زیادہ ہونا ہے پھر ” عیال زیادہ نہ ہوجائیں “ کے زیادہ قریب کیسے ہوگا۔ یہ تنقید صحیح نہیں ہے کیونکہ لونڈیاں ایسا مال ہیں جس میں خرید وفروخت کے ساتھ تصرف کیا جاتا ہے عیال جس میں تنقید ہے وہ آزاد عورتیں ہیں جن کے حقوق واجب ہیں (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 8 دارالکتب العلمیہ) ابن الاعرابی (رح) نے حکایت کی ہے کہ عرب کہتے ہیں عال الرجل جب کسی کے عیال زیادہ ہوجائیں (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 8 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (14) اس آیت سے ان علماء نے استدلال کیا ہے جو غلام کے لیے بھی چار شادیاں کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فانکحوا ما طاب لکم من النسآء “۔ یعنی عورتوں میں سے جو تمہارے لئے حلال ہیں ان میں سے دو دو تین تین، چار چار، سے نکاح کرو، اللہ تعالیٰ نے اس میں غلام کی آزاد سے تخصیص نہیں فرمائی، یہ واؤ اور طبری کا قول ہے۔ یہی امام مالک سے مشہور قول ہے اور ان کے مؤطا میں موجود کلام کا ماحاصل بھی یہی ہے، اسی طرح امام مالک سے ابن القاسم اور اشہب نے روایت کیا ہے، ابن المواز نے ذکر کیا ہے کہ ابن وہب نے مالک سے روایت کیا ہے کہ غلام صرف دو عورتوں سے نکاح کرے، یہ لیث کا قول ہے، ابو عمر نے کہا : امام شافعی (رح)، امام ابوحنیفہ (رح) ان کے اصحاب، ثوری، لیث بن سعد نے کہا : غلام دو عورتوں سے زیادہ عورتوں سے نکاح نہ کرے، یہی امام احمد (رح) اور اسحاق (رح) کا قول ہے، حضرت عمر ؓ ، حضرت علی بن ابی طالب ؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے مروی ہے کہ غلام دو عورتوں سے زیادہ نکاح نہ کرے، میں صحابہ میں سے ان کی مخالفت کرنے والا نہیں جانتا یہی امام شعبی (رح)، عطا، (رح) ابن سیرین (رح)، الحکم، (رح) ابراہیم (رح)، اور حماد کا قول ہے اور اس قول کی حجت اس کی طلاق اور حد پر قیاس صحیح ہے وہ تمام علماء جو کہتے ہیں اس کی حد، آزاد کی حد سے نصف ہے، غلام کی طلاق دو طلاق ہیں اس کا ایلا دو ماہ ہیں اور اس قسم کے دوسرا حکام، پس یہ بعید نہیں ہے کہ کہا جائے کا کہ اس کے قول ” چار عورتوں سے نکاح کرسکتا ہے “ میں تنافض ہے۔ واللہ اعلم۔
Top