Al-Qurtubi - An-Nisaa : 65
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
فَلَا وَرَبِّكَ : پس قسم ہے آپ کے رب کی لَا يُؤْمِنُوْنَ : وہ مومن نہ ہوں گے حَتّٰي : جب تک يُحَكِّمُوْكَ : آپ کو منصف بنائیں فِيْمَا : اس میں جو شَجَرَ : جھگڑا اٹھے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر لَا يَجِدُوْا : وہ نہ پائیں فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں حَرَجًا : کوئی تنگی مِّمَّا : اس سے جو قَضَيْتَ : آپ فیصلہ کریں وَيُسَلِّمُوْا : اور تسلیم کرلیں تَسْلِيْمًا : خوشی سے
تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے
آیت نمبر : 65۔ اس آیت میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) مجاہد ؓ وغیرہ نے کہا : اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے، جنہوں نے طاغوت کے پاس فیصلہ لے جانے کا ارادہ کیا تھا اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (1) ۔ (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 75 دارالکتب العلمیہ) طبری نے کہا : فلا کا قول پیچھے جو ذکر ہوچکا ہے اس کا رد ہے تقدیر عبارت یوں ہوگی، کہ معاملہ اس طرح نہیں جس طرح وہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے ہیں اس پر جو آپ پر نازل کیا گیا ہے۔ پھر قسم سے آغاز فرمایا : (آیت) ” وربک لا یؤمنون “۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 74 دارالکتب العلمیہ) دوسرے ائمہ نے فرمایا : قسم پر لا کو نفی کے ساتھ اہتمام اور اس کو قوت کے اظہار کے لیے مقدم کیا گیا ہے پھر قسم کے بعد دوبارہ نفی کے ساتھ اہتمام کی تاکید کے لیے ذکر فرمایا اور دوسرے (لا) کا ساقط کرنا صحیح تھا اور پہلے لا کی تقدیم کے ساتھ اکثر اہتمام باقی تھا اور پہلے لا کو ساقط کرنا صحیح تھا اور نفی کا معنی باقی ہوگا لیکن اہتمام کا معنی ختم ہوجائے گا (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 74 دارالکتب العلمیہ) شجر اس کا معنی اختلاف کرنا اور خلط ملط ہونا ہے، درخت کو شجر اس لیے کہتے ہیں، کیونکہ اس کی ٹہنیاں ایک دوسرے سے الجھی ہوئی ہوتی ہیں ہودج کی لکڑیوں کو شجار کہتے ہیں، کیونکہ وہ ایک دوسرے میں داخل ہوتی ہیں۔ شاعر نے کہا : نفسی فداءک والرماح شواجر والقوم ضنک للقاء قیام : میرا نفس تجھ پر فدا تھا جب نیزے گتھم گتھم تھے۔ طرفۃ نے کہا : دھم الحکام ارباب الھدی وسعاۃ الناس فی الامرالشجر : حکام ارباب الھدی اور ایک مختلف امر میں کوشش کر رہے تھے۔ ایک طائفہ نے کہا : یہ آیت حضرت زبیر ؓ اور انصاری کے بارے میں نازل ہوئی ان کا باغ کو پانی پلانے میں جھگڑا تھا تو آپ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو کہا : تو اپنی زمین کو پانی پلا، پھر پانی اپنے پڑوسی کی زمین کی طرف چھوڑ دے۔ انصاری کہنے لگا : میں تیری طرف دیکھتا ہوں کہ آپ اپنی پھوپھی کے بیٹے سے محبت کرتے ہیں، یہ جملہ سن کر نبی مکرم ﷺ کا غصہ سے رنگ بدل گیا اور آپ نے پھر حضرت زبیر ؓ سے کہا : تو اپنی زمین کو پانی پلا، پھر پانی روک لے حتی کہ پانی وٹوں تک پہنچ جائے اور پھر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” فلا وربک “۔ الخ، یہ حدیث امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے۔ (4) (صحیح بخاری، کتاب الصلح، جلد 1، صفحہ 373) امام بخاری (رح) کی سند یہ ہے عن علی بن عبداللہ عن محمد بن جعفر عن معمر۔ اور مسلم نے قتیبہ سے پھر دونوں نے زہری سے روایت کی ہے، انصاری شخص کے بارے اختلاف ہے بعض نے فرمایا : وہ اہل بدر میں سے ایک انصاری تھا مکی اور نحاس نے کہا : وہ حاطب بن ابی بلتعۃ ؓ تھا ثعلبی، وحدی، اور مہدوی رحمۃ اللہ علیہم نے کہا : وہ حاطب تھا، بعض نے کہا : ثعلبہ بن حاطب تھا، اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں صحیح پہلا قول ہے، کیونکہ وہ غیر متعین اور غیر مسمی ہے، اسی طرح بخاری اور مسلم میں بھی رجل من الانصار ذکر ہے۔ طبری نے منافق اور یہودی میں اس کے نزول کو اختیار کیا ہے۔ (1) (احکام القرآن للطبری، جلد 5، صفحہ 190) جیسا کہ مجاہد (رح) نے کہا : یہ اپنے عموم کے ساتھ حضرت زبیر ؓ کے واقعہ کو شامل ہے ابن عربی نے کہا : یہ صحیح ہے پس جس نے نبی مکرم ﷺ کو کسی فیصلہ میں متہم کیا وہ کافر ہے لیکن انصاری سے لغزش ہوئی تو نبی مکرم ﷺ نے اس سے اعراض کیا اور اس کی لغزش کو معاف کردیا، کیونکہ آپ ﷺ کو اس کے یقین کی صحت کا علم تھا، ان سے یہ لغزش عجلت میں ہوگئی تھی، نبی مکرم ﷺ کے بعد کسی کے لیے یہ محکم نہیں ہے ہر وہ شخص جو حاکم کے حکم سے راضی نہ ہوگا اور وہ اس میں طعن کرے گا اور اسے رد کرے گا تو وہ گناہگار ہوگا اس سے توبہ طلب کی جائے گی اور جو حاکم میں طعن کرے اس کے فیصلہ میں طعن نہ کرے تو اس کو تعزیر لگانے اور اسے معاف کرنے کا حق ہے، اس کا مزید بیان سورة اعراف کے آخر میں آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (2) جب اس آیت کے نزول کا سبب وہ ہے جو ہم نے حدیث سے ذکر کیا تو اس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے حضرت زبیر ؓ اور اس کے خصم کے بارے فیصلہ دیا وہ بطور صلح تھا، آپ نے فرمایا : ” اے زبیر تو پانی پلا “۔ کیونکہ پانی اس کے قریب تھا۔ ” پھر اپنے پڑوسی کی طرف پانی چھوڑ دے “ یعنی اپنے حق میں سے کچھ چھوڑ دے اور پورا پورا حق نہ لے اور اپنے پڑوسی کی طرف پانی چھوڑنے میں جلدی کر (2) (صحیح بخاری، کتاب الصلح، جلد 1، صفحہ 373) آپ ﷺ نے حضرت زبیر کو مسامحت اور آسانی کرنے پر ابھارا جب انصاری نے یہ سنا اور اس سے راضی نہ ہوا اور ناراض ہوا، کیونکہ ہو چاہتا تھا کہ حضرت زبیر ؓ بالکل پانی کو نہ روکے، تو اس نے اپنی زبان سے غلط ہلاک کرنے والا، شان رسالت کے جو لائق نہ تھا وہ کلمہ بولا، اس نے کہا : یہ اس لیے فیصلہ فرمایا ہے کہ زبیر تمہاری پھوپھی کا بیٹا ہے، اس کے جملہ میں آن ہے یہ ان مفتوحہ انکار کی جہت پر ہمزہ کی مد کے ساتھ ہے۔ اس وقت نبی مکرم ﷺ کا غصہ کی وجہ سے چہرہ متغیر ہوگیا، پھر آپ نے حضرت زبیر ؓ کے لیے پورا پورا حق لینے کا فیصلہ دیا وہ کسی قسم کی مسامحت کا مظاہرہ نہ کریں، اس پر یہ نہیں کہا جائے گا کہ آپ ﷺ نے حالت غضب میں کیسے فیصلہ فرمایا جب کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” قاضی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے “۔ (3) (سنن ابی داؤد کتاب القضا، جلد 2، صفحہ 149) ہم کہیں گے : آپ ﷺ تبلیغ اور احکام میں خطا سے معصوم تھے عقل کی دلیل کے ساتھ جو دلالت کرتی ہے کہ آپ جو اللہ کی طرف سے تبلیغ کرتے ہیں اس میں سچے ہیں، دوسرا کوئی آپ کی مثل نہیں ہے، اس حدیث میں ہے کہ حاکم جھگڑنے والوں کے درمیان اصلاح کا راستہ اختیار کرے اگرچہ اس پر حق ظاہر بھی ہوجائے، امام مالک (رح) نے اس سے منع کیا ہے امام شافعی (رح) کا قول اس میں مختلف ہے۔ اس حدیث میں جواز پر واضح حجت ہے۔ اگر وہ صلح کرلیں تو فبہا ورنہ صاحب حق اپنا پورا حق وصول کرے گا اور حکم ثابت ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (3) امام مالک (رح) کے اصحاب کا اوپر والے کا نیچے والے کی طرف پانی چھوڑنے کی صفت میں اختلاف ہے۔ ابن حبیب نے کہا : اوپر والا تمام پانی اپنے باغ میں داخل کرے گا اس سے اپنے باغ کو سیراب کرے گا حتی کہ پانی باغ میں اتنا ہوجائے کہ کھڑا ہونے والے کے ٹخنوں تک پہنچ جائے تو پھر پانی کا راستہ بند کرے اور ٹخنوں سے جو زائد مقدار میں پانی ہو وہ اپنے قریبی کی طرف چھوڑے معاملہ اسی طرح چلتا جائے حتی کہ پانی آخری کھیت والے کو پہنچ جائے میرے لیے مطرف اور ابن الماجشون نے اسی طرح تفسیر بیان کی ہے، یہ ابن وہب کا قول ہے ابن القاسم نے کہا : جب پانی باغ میں ٹخنوں کی مقدار تک پہنچ جائے، تو تمام پانی نیچے والے کی طرف چھوڑ دیی اور اپنے باغ میں کچھ بھی نہ روکے، ابن حبیب نے کہا : مطرف ابن الماجشون کا قول میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے وہ اسے زیادہ جانتے تھے، کیونکہ مدینہ طیبہ میں ان دونوں کا گھر تھا وہاں یہ واقعہ پیش آیا اور وہاں یہ عمل جاری تھا۔ مسئلہ نمبر : (4) امام مالک (رح) نے حضرت عبداللہ بن ابی بکر سے روایت کیا ہے کہ انہیں یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مہزور اور مذینب (مدینہ طیبہ کی دو وادیاں جن میں بارش کا پانی بہتا تھا) کے پانی کے بارے میں فرمایا : ”(پہلے باغ والا) پانی کو ٹخنوں تک روک لے پھر وہ نیچے والے کی طرف چھوڑ دے “۔ (1) (موطا امام مالک، کتاب الاقضیہ، صفحہ 643) ابو عمر نے کہا : میں یہ حدیث نہیں جانتا کہ کسی طریق سے نبی مکرم ﷺ سے متصل مروی ہو اس کی ارفع سندیہ ہے محمد بن اسحاق عن ابی مالک بن ثعلبۃ عن ابیہ، نبی مکرم ﷺ کے پاس مہزوروالے آئے تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ پانی جب ٹخنوں تک پہنچ جائے اوپر والا پانی کو نہ روکے۔ (2) (المعجم الکبیر اللطبرانی جلد 2، صفحہ 86۔ حدیث نمبر 1386) عبدالرزاق نے ابو حازم قرطبی سے انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے اپنے دادا سے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ ” مہز ور کے پانی میں یہ فیصلہ فرمایا کہ ہر کھیت میں پانی کو روک لیا جائے گا حتی کہ ٹخنوں تک پہنچ جائے گا تو پھر چھوڑ دیا جائے گا اس کے علاوہ پانیوں کا یہی حکم ہوگا “۔ ابوبکر البزار سے اس حدیث کے بارے پوچھا گیا تو اس نے کہا : میں نے نبی مکرم ﷺ سے اس کے بارے میں حدیث محفوظ نہیں کی جو ثابت ہو۔ ابو عمر ؓ نے کہا : اس معنی میں اگرچہ اس لفظ کے ساتھ حدیث ثابت نہیں ہے جس کی صحت پر اجماع ہے، اسے ابن وہب نے لیث بن سعد اور یونس بن یزید سے ان دونوں نے ابن شہاب سے روایت کی ہے کہ عروہ بن زبیر نے انہیں بیان فرمایا کہ انہیں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ انہیں حضرت زبیر ؓ سے روایت کر کے بتایا کہ انکا ایک انصاری شخص سے پانی کی نالی میں جھگڑا ہوا دونوں اس نالی سے اپنے کھجوروں کے باغات کو سیراب کرتے تھے، یہ انصاری شخص نبی مکرم ﷺ کے ساتھ جنگ بدر میں شریک ہوا تھا، انصاری نے کہا : ” تو پانی چھوڑ دے “ زبیر نے انکار کیا، دونوں اپنا جھگڑا نبی مکرم ﷺ کے پاس لے گئے، آگے مکمل حدیث ذکر کی۔ ابو عمر نے کہا : ایک حدیث میں یرسل کے الفاظ ہیں اور دوسری میں اذا بلغ الماء الکعبین لم یحبس الاعلی (جب پانی ٹخنوں تک پہنچ جائے تو اوپر والا نہ روکے) یہ ابن القاسم کے قول کی تائید کرتے ہیں، نظر کا تقاضا یہ ہے کہ اوپر والا اگر پانی نہیں چھوڑے گا مگر جو ٹخنوں سے زائد ہوگا تو وہ پانی تھوڑی مدت میں ختم نہیں ہوگا اور وہ نہیں پہنچے گا وہاں تک جہاں اس نے پہنچنا ہے جب تمام پانی چھوڑے اور اوپر والا اگر ٹخنوں تک پانی لینے کے بعدچھوڑ دے تو اس میں عام فائدہ ہے ار زیادہ نفع ہے اس صورت میں تمام لوگوں شریک بنایا گیا ہے پس ہر حال میں ابن القاسم کا قول اولی ہے جب کہ اسفل (نیچے والا) کے لیے اس کی اصل ملک نہ ہو جو اس کے ساتھ خاص ہو اگر کوئی کسی عمل کی وجہ سے یا ملک صحیح کی وجہ سے یا قدیمی استحقاق اور ملک کے ثبوت کی وجہ سے پانی کا مستحق ہو تو ہر ایک اپنے حق پر قائم رہے گا جیسا کہ اس کا قبضہ ہے اور اصل مسئلہ ہے، وباللہ التوفیق۔ مسئلہ نمبر : (5) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت “۔ حرجا کا معنی تنگی اور شک ہے اسی وجہ سے گھنے درخت و حرج وحرجۃ کہا جاتا ہے، اس کی جمع حراج ہے، ضحاک ؓ نے کہا : اس کا معنی ہے جو اب آپ نے فیصلہ فرمایا اس کا انکار کرکے گناہ نہ پائیں (آیت) ” ویسلموا تسلیما “۔ یعنی فیصلہ میں آپ کے امر کی اطاعت کریں، زجاج نے کہا : ” تسلیما “۔ مصدر مؤکد ہے اور جب تو کہتا ہے : ضربت ضربا “۔ تو گویا تو کہتا ہے : میں اس میں شک نہیں کرتا اسی طرح (آیت) ” ویسلموا تسلیما “۔ یعنی وہ آپ کے فیصلہ کو اس طرح تسلیم کریں کہ ان کے نفسوں میں کوئی شک نہ ہو۔
Top