Al-Qurtubi - An-Nisaa : 66
وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًاۙ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّا كَتَبْنَا : ہم لکھ دیتے (حکم کرتے) عَلَيْهِمْ : ان پر اَنِ : کہ اقْتُلُوْٓا : قتل کرو تم اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ اَوِ اخْرُجُوْا : یا نکل جاؤ مِنْ : سے دِيَارِكُمْ : اپنے گھر مَّا فَعَلُوْهُ : وہ یہ نہ کرتے اِلَّا : سوائے قَلِيْلٌ : چند ایک مِّنْھُمْ : ان سے وَلَوْ : اور اگر اَنَّھُمْ : یہ لوگ فَعَلُوْا : کرتے مَا : جو يُوْعَظُوْنَ : نصیحت کی جاتی ہے بِهٖ : اس کی لَكَانَ : البتہ ہوتا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے وَاَشَدَّ : اور زیادہ تَثْبِيْتًا : ثابت رکھنے والا
اور اگر ہم انہیں حکم دیتے کہ اپنے آپ کو قتل کر ڈالوا یا اپنے گھر چھوڑ کر نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑے ہی ایسا کرتے اور اگر یہ اس نصیحت پر کار بند ہوتے جو ان کو کیجاتی ہے تو ان کے حق میں بہتر اور (دین میں) زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا
آیت نمبر : 66 تا 68۔ ان آیات کے نزول کا سبب یہ ہے کہ ثابت بن قیس بن شماس اور ایک یہودی نے باہم تفاخر کیا، یہودی نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم پر اپنے آپ کو قتل کرنا فرض کیا گیا تھا ہم نے اپنے آپ کو قتل کیا۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 75 دارالکتب العلمیہ) اور ہمارے مقتول ستر ہزار تک پہنچ گئے ثابت نے کہا اللہ کی قسم ! اگر اللہ ہم پر فرض کرتا تو اپنے آپ کو قتل کرو تو ہم ایسا کرتے۔ ابو اسحاق السبیعی نے کہا : جب یہ آیت نازل ہوئی ؛ (آیت) ” ولو انا کتبناعلیہم “۔ تو ایک شخص نے کہا : اگر ہمیں حکم دیا جاتا تو ہم ایسا کرتے، سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے ہمیں عافیت دی، یہ بات رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ان من امتی رجالا الایمان اثبت فی قلوبھم من الجبال الرواسی (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 75 دارالکتب العلمیہ) میری امت کے کچھ ایسے لوگ ہیں ایمان ان کے دل میں مستحکم پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوطی سے موجود ہے۔ ابن وہب نے کہا : مالک نے کہا : یہ کہنے والے حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے اسی طرح مکی نے کہا : وہ حضرت ابوبکر ؓ تھے۔ نقاش نے ذکر کیا کہ وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ تھے حضرت ابوبکر ؓ کی طرف سے ذکر کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فرمایا : اگر ہم پر یہ فرض کیا جاتا تو میں اپنے نفس اور اپنے گھر والوں سے اس حکم کی تعمیل کا آغاز کرتا۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 75 دارالکتب العلمیہ) ابواللیث سمرقندی نے ذکر کیا ہے کہ وہ قائل حضرت عمار بن یاسر، حضرت ابن مسعود اور حضرت ثابت بن قیس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تھے، انہوں نے کہا : اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آپ کو قتل کرنے کا حکم دیتا یا ہمیں اپنے گھروں سے نکلنے کا حکم دیتا تو ہم ضرور ایسا کرتے، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” ان لوگوں کے دلوں میں ایمان مستحکم پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوطی سے موجود ہے “۔ (لو) حرف ہے، کسی دوسری چیز کے نہ پائے جانے کیوجہ سے اس چیز کے نہ پائے جانے پر دلالت کرتا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ اس نے ہم پر مہربانی کرتے ہوئے ہم پر یہ فرض نہیں کیا تاکہ ہماری معصیت ظاہر نہ ہو کتنے ایسے احکامات ہیں جن کے خفیف ہونے کے باوجود ہم نے کوتاہی کی اتنا بھاری حکم آجاتا تو کیا حالت ہوتی، لیکن اللہ کی قسم ! مہاجرین نے اپنے گھروں کو خالی چھوڑ دیا اور وہ ان کے ذریعے پسندیدہ زندگی کی تلاش میں نکلے۔ (آیت) ” مافعلوہ “ انہوں نے اپنے آپ کو قتل نہ کیا اور نہ انہوں نے گھروں کو چھوڑا (آیت) ” الا قلیل منھم “۔ قلیل، واؤسے بدل ہے تقدیر اس طرح ہے مافعلہ احد الا قلیل “۔ اہل کوفہ کہتے ہیں یہ تکریرپر ہے مافعلوہ مافعلہ الا قلیل منھم “۔ عبداللہ بن عامر اور عیسیٰ بن عمر نے استثناء کی بنا پر الا قلیلا پڑھا ہے، اسی طرح اہل شام کے مصاحف میں ہے، اور باقی قراء نے رفع کے ساتھ پڑھا ہے، رفع تمام نحویوں کے نزدیک عمدہ ہے۔ بعض نے فرمایا : نصب فعل کے اضمار پر ہے تقدیر اس طرح ہوگی الا ان یکون قلیلا منھم “۔ رفع بہتر ہے، کیونکہ لفظ معنی سے اولی ہوتا ہے، اور وہ معنی پر بھی مشتمل ہے ار ان قلیل میں سے حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ حضرت ثابت بن قیس ؓ تھے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، حسن اور مقاتل، نے حضرت عمار اور حضرت ابن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ذکر بھی کیا ہے، ہم نے بھی پہلے ان کا ذکر کیا ہے (آیت) ” ولو انھم فعلوا مایوعظون بہ لکان خیرالھم “۔ یعنی اگر وہ ایسا کرتے تو ان کے لیے دنیا وآخرت میں بہتر ہوتا۔ (آیت) ” واشد تثبیتا “۔ یعنی حق پر مضبوطی سے ثابت قدم ہو۔ (آیت) ” واذا الاتینھم من لدنا اجرا عظیما “۔ یعنی آخرت میں ثواب۔ بعض نے فرمایا : لام، لام الجواب ہے اور اذا جزا پر دال ہے، معنی یہ ہے لوفعلوا مایوعظون بہ لاتیناھم “۔ اگر وہ کرتے جس کی انہیں نصیحت کی گئی تو ہم انہیں عطا فرماتے۔
Top