Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Nisaa : 6
وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰى حَتّٰۤى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ١ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْۤا اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْ١ۚ وَ لَا تَاْكُلُوْهَاۤ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّكْبَرُوْا١ؕ وَ مَنْ كَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ١ۚ وَ مَنْ كَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْهِمْ اَمْوَالَهُمْ فَاَشْهِدُوْا عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا
وَابْتَلُوا
: اور آزماتے رہو
الْيَتٰمٰى
: یتیم (جمع)
حَتّٰى
: یہانتک کہ
اِذَا
: جب
بَلَغُوا
: وہ پہنچیں
النِّكَاحَ
: نکاح
فَاِنْ
: پھر اگر
اٰنَسْتُمْ
: تم پاؤ
مِّنْھُمْ
: ان میں
رُشْدًا
: صلاحیت
فَادْفَعُوْٓا
: تو حوالے کردو
اِلَيْھِمْ
: ان کے
اَمْوَالَھُمْ
: ان کے مال
وَلَا
: اور نہ
تَاْكُلُوْھَآ
: وہ کھاؤ
اِسْرَافًا
: ضرورت سے زیادہ
وَّبِدَارًا
: اور جلدی جلدی
اَنْ
: کہ
يَّكْبَرُوْا
: کہ وہ بڑے ہوجائینگے
وَمَنْ
: اور جو
كَانَ
: ہو
غَنِيًّا
: غنی
فَلْيَسْتَعْفِفْ
: بچتا رہے
وَمَنْ
: اور جو
كَانَ
: ہو
فَقِيْرًا
: حاجت مند
فَلْيَاْكُلْ
: تو کھائے
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
فَاِذَا
: پھر جب
دَفَعْتُمْ
: حوالے کرو
اِلَيْھِمْ
: ان کے
اَمْوَالَھُمْ
: ان کے مال
فَاَشْهِدُوْا
: تو گواہ کرلو
عَلَيْھِمْ
: ان پر
وَكَفٰى
: اور کافی
بِاللّٰهِ
: اللہ
حَسِيْبًا
: حساب لینے والا
اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو۔ پھر (بالغ ہونے پر) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کردو۔ اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہیے اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر (یعنی بقدر خدمت) کچھ لے لے اور جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کرلیا کرو اور حقیقت میں تو خدا ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔
آیت نمبر :
6
۔ اس آیت میں سترہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وابتلوالیتمی “۔ الابتلاء کا معنی آزمائش کرنا ہے، یہ پہلے گزر چکا ہے یہ آیت یتیموں کو مال دینے کی کیفیت کے بیان میں تمام لوگوں کے لیے خطاب ہے، بعض علماء نے فرمایا : یہ آیت ثابت بن رفاعہ اور اس کے چچا کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ اس طرح ہے کہ رفاعہ فوت ہوا اور اس نے اپنا چھوٹا بچہ چھوڑا تو ثابت کا چچا نبی مکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : میرے بھائی کا بیٹا یتیم ہے وہ میری پرورش میں ہے اس کے مال سے میرے لئے کیا حلال ہے اور میں اسے کب مال دے دوں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مسئلہ نمبر : (
2
) اختیار کے معنی میں علماء کا اختلاف ہے، بعض علماء نے فرمایا : وصی، یتیم کے اختلاف میں غور وفکر کرے، اس کی اغراض کو سنے اور اس کی نجابت کا علم حاصل کرے اور اس کے مصالح میں اس کی کوشش اور مال کی حفاظت اور مال میں سستی کی معرفت حاصل کرے، جب اس میں خیر دیکھے تو ہمارے علماء وغیرہم نے فرمایا : اس کو اس کے مال میں سے کچھ دے دینے میں کوئی حرج نہیں، اس کے لیے اس میں تصرف مباح ہے اگر تو وہ اس مال میں اضافہ کرے اور اس میں بہتر انداز میں تصرف کرے تو اختیار پایا گیا اور وصی پر اس کا سارا مال دینا واجب ہوگیا اور اگر اس مال میں بہتر انداز میں تصرف نہ کرے تو وصی پر واجب ہے کہ اس کا مال اپنے پاس روکے رکھے۔ علماء میں کوئی ایسا نہیں جو کہے کہ جب بچے کی آزمائش کی جائے اور وصی اسے دانا پائے تو اس سے ولایت اٹھ جاتی ہے اور اس کا مال اسے دینا واجب ہوجاتا ہے اور اس میں تصریف کی کھلی چھٹی ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” حتی اذا بلغوالنکاح “۔ (حتی کہ جب نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں) فقہاء کی ایک جماعت نے کہا : چھوٹا بچہ دو چیزوں سے خالی نہیں ہوتا یا وہ لڑکا ہوگا یا لڑکی ہوگی اگر وہ لڑکا ہوگا تو ایک مہینہ گھر کے اخراجات میں اسے اہتمام کرتے ہوئے دیکھا جائے گا یا وصی اسے تھوڑی سی چیز دے گا جس میں وہ تصرف کرے گا تاکہ اس کی تدبیر اور تصرف کو پہچان لے جب کہ اس کے ساتھ ساتھ وصی اس کی نگرانی کرے گا تاکہ مال کو ضائع نہ کرے دے، اگر وہ اسے ضائع کرے گا تو وصی پر اس کی ضمان نہ ہوگی اگر وہ اسے مال کی حفاظت میں پوری کوشش کرنے والا دیکھے تو اس کا مال اس کے حوالے کر دے اور اس پر گواہ بنالے، اگر وہ یتیم بچی ہوگی تو اس کو وہ چیزیں دی جائیں گی جن کا تعلق تدبیر ونظر کے اعتبار سے گھر کو بنانے سنوارے سے ہوتا ہے مثلا اون کاتنے والیوں کو اون دینے اور پھر کپڑا واپس لینے، اس کی اجرت دینے اور عمدہ روٹی لینے اور عمدہ بنائی لینے وغیرہ کا کام دیکھے گا، اگر وصی اسے دانا دیکھے گا تو اس کا مال اس کے حوالے کر دے گا اور اس پر گواہ بنا لے گا ورنہ وہ حجر کے تحت رہیں گی حتی کہ وہ ان کی دانائی محسوس کی جائے۔ حسن اور مجاہد وغیرہ نے کہا : اور ان کو ان کی عقول، ادیان اور مال بڑھانے میں آزماؤ۔ مسئلہ نمبر : (
3
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” حتی اذا بلغوا النکاح “ ، یعنی جب بالغ ہوجائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واذا بلغ الاطفال منکم الحلم “۔ (نور :
59
) یعنی جب تمہارے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں، اور نکاح کی حالت کو پہنچ جائیں اور بلوغت پانچ چیزوں کے ساتھ ہوتی ہے تین چیزوں میں مرد اور عورتیں مشترک ہیں اور دو چیزیں عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور وہ دو چیزیں حیض اور حمل ہیں۔ حیض اور حمل کے بارے میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ بلوغ ہے ان کے ہوتے ہوئے احکام وفرائض واجب ہوتے ہیں اور دوسری تین چیزوں میں عطا کا اختلاف ہے۔ رہا زیر ناف بالوں کا آنا اور عمر تو امام اوزاعی، امام شافعی، اور امام احمد بن حنبل، نے کہا : پندرہ سال بلوغت کی عمر ہے جس کو احتلام نہ ہو، یہی قول ابن وہب، اصبغ عبدالملک بن الماجشون، عمر بن عبدالعزیز اور اہل مدینہ کی ایک جماعت کا ہے، ابن عربی (رح) نے بھی اس کو پسند کیا ہے، ان علماء کے نزدیک جو اس عمر کو پہنچ جائے اس پر حدود وفرائض واجب ہیں، اصبغ بن الفرج نے فرمایا : ہم جو کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ بلوغت کی حد جس کی وجہ سے فرائض اور حدود لازم ہوتے ہیں وہ پندرہ سال عمر ہے اس مسئلہ میں جو میرے پاس معلومات ہیں ان میں سے یہ قول مجھے زیادہ پسند ہے اور میرے نزدیک یہی عمدہ ہے، کیونکہ وہ عمر جس میں جہاد میں حصہ دیا جاتا ہے اور جو قتال (جنگ) میں شریک ہو سکتا ہے وہ یہی عمر ہے اور اس مسئلہ میں حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث سے حجت پکڑی گئی ہے جب انہوں نے جنگ خندق میں اپنے آپ کو پیش کیا جب کہ ان کی عمر پندرہ سال تھی تو انہوں نے شرک کی اجازت دی گئی جب کہ جنگ احد میں انہیں اجازت نہیں ملی تھی، کیونکہ اس وقت ان کی عمر چودہ سال تھی، یہ حدیث مسلم نے نقل کی ہے۔ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ جلد
2
صفحہ
317
) ابو عم بن عبدالبر نے کہا : یہ اس شخص کے بارے میں ہے جس کی تاریخ پیدائش معلوم ہو اور رہا وہ جس کی تاریخ پیدائش معلوم نہ ہو اور عمر کے سال کا علم نہ یا وہ اس کا انکاری ہو تو اس صورت میں اس روایت کے مطابق عمل کیا جائے گا جو نافع نے اسلم سے اور انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے الاجناد کے امراء کو لکھا کہ جزیہ نہ لگاؤ مگر اس پر جس کے زیر ناف بال اگ آئے ہوں، حضرت عثمان ؓ نے چوری کرنے والے لڑکے کے بارے میں فرمایا : دیکھو اگر زیر ناف بال اگ آئے ہیں تو اس کا ہاتھ کاٹ دو ، عطیہ القرظی نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے بنی قریظہ کے ہر اس شخص کو حضرت سعد بن معاذ کے فیصلہ کے مطابق قتل کردیا جس کے زیر ناف بال اگ آئے تھے اور جن کے بال نہیں اگے تھے ان کو زندہ رکھا میں ان میں سے تھا جن کے بال ابھی نہیں اگے تھے پس مجھے آپ نے چھوڑ دیا، امام مالک (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : جس کو احتلام نہیں ہوا پر بلوغت کا حکم نہیں لگایا جائے گا حتی کہ وہ اس عمر کو پہنچ جائے کہ جس میں کسی کو احتلام ہوتا ہے اور یہ سترہ سال کی عمر ہے اس وقت اس پر حد ہوگی جب وہ کوئی ایسا فعل شنیع کرے گا جس پر حد واجب ہوتی ہے، کبھی امام مالک (رح) نے فرمایا : بلوغت کی حد یہ ہے کہ اس کی آواز بھاری ہوجائے اور اس کی بینی پھول جائے، امام ابوحنیفہ (رح) سے دوسری روایت انیس سال کی ہے۔ اور یہ زیادہ مشہور قول ہے اور یحییٰ کے متعلق فرمایا : اس کی بلوغت کی عمر سترہ سال ہے اور اس پر نظر حکم ہے۔ اللولئی نے امام ابوحنیفہ (رح) سے اٹھارہ سال بھی روایت کیے ہیں، داؤد نے کہا : جب تک احتلام نہیں ہوتا عمر کے ساتھ بلوغت شمار نہ ہوگی اگرچہ چالیس سال بھی عمر ہوجائے رہا زیر ناف بالوں کا پیدا ہونا، بعض علماء نے کہا : اس سے بلوغت پر استدلال کیا جائے گا، ابن القاسم اور سالم سے یہ مروی ہیامام مالک کا بھی ایک قول یہ ہے اور امام شافعی (رح) کا بھی ایک قول یہی ہے، احمد، اسحاق اور ابو ثوررحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ بلوغت کی علامت ہے لیکن اس کے ساتھ کفار پر حکم لگایا جائے گا پس جس کے زیر ناف بال پیدا ہوچکے ہوں گے اسے قتل کیا جائے گا اور جس کے زیر ناف بال نہ ہوں گے اسے بچوں میں شمار کیا جائے گا۔ یہ امام شافعی (رح) کا دوسرا قول ہے انہوں نے یہ استدلال عطیہ القرظی (رح) کی حدیث سے کیا ہے اور باریک بالوں اور روؤں کا اعتبار نہ ہوگا۔ بلکہ حکم بالوں پر مرتب ہوگا۔ ابن القاسم (رح) نے کہا : میں نے امام مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میرے نزدیک حضرت عمر بن خطاب ؓ کی حدیث پر عمل ہے۔ اگر زیر ناف بالوں پر استرا استعمال کرتا ہے تو میں اس پر حد لگاؤں گا، اصبغ نے کہا : مجھے ابن القاسم نے کہا میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ حد صرف بالوں کے اگنے اور بلوغت دونوں کے جمع ہونے کی صورت میں لگائی جائے گی، امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : زیر ناف بالوں کی وجہ سے حکم ثابت نہ ہوگا نہ تو وہ بلوغ ہے اور نہ بلوغ پر دلالت ہے۔ زہری اور عطا نے کہا : جس کو احتلام نہ ہو اس پر حد نہیں ہے، یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے اور مالک کا ایک رجحان بھی ایک قول کے مطابق اسی طرح ہے، امام مالک (رح) کے بعض اصحاب کا یہی قول ہے اس کا ظاہر یہ ہے کہ بالوں کے اگنے اور عمر کا اعتبار نہیں ہے، ابن عربی (رح) نے کہا : جب حضرت ابن عمر کی حدیث عمر میں دلیل نہیں ہے تو پھر ہر وہ عدد جو سالوں کے متعلق علماء ذکر کرتے ہیں وہ صرف دعوی میں ہے، وہ عمر جس کو رسول اللہ ﷺ نے جائز قرار دیا وہ اس عمر سے بہتر ہے جس کا اعتبار نہیں کیا اور شرع میں اس پر دلیل بھی قائم نہیں، اس طرح نبی مکرم ﷺ نے بنی قریظہ میں زیر ناف بال اگنے کا اعتبار کیا ہے، میں اس کا عذر تسلیم نہیں کرتا جس نے ان دو امروں کو ترک کردیا جن کا اعتبار نبی مکرم ﷺ نے کیا ہے اور اس کی تاویل کی ہے اور اس مدت کا اعتبار کرتا ہے جس کا لفظ نبی مکرم ﷺ نے اعتبار نہیں کیا ہے اور نہ تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے شریعت میں نظر بنائی ہے۔ میں کہتا ہوں : یہاں تو اس کا یہ قول ہے اور سورة انفال میں اس کا دوسرا قول ہے۔ کیونکہ وہاں اس نے حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث کو نہیں چھوڑا اور اسی طرح کی تاویل کی ہے جو ہمارے علماء نے کی ہے، کیونکہ اس کا موجب ان کے درمیان فرق ہے جو جنگ کی طاقت رکھتا ہے اور جس کے مال غنیمت میں حصہ مقرر کیا جاتا ہے اور وہ پندرہ سال کی عمر کا شخص ہے اور جو جنگ کی طاقت نہیں رکھتا اور اس کے لیے حصہ مقرر نہیں کیا جاتا اور وہ بچوں میں شمار ہوتا ہے، یہ وہ مفہوم ہے جو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حدیث سے سمجھا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فان انستم منھم رشدا فادفعوا الیھم اموالھم “۔ یعنی جب تم ان سے دانائی دیکھو اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” انس من جانب الطور نارا “۔ (القصص :
29
) (موسی (علیہ السلام) نے طور کی جانب سے آگ دیکھی) ازہری نے کہا : عرب کہتے ہیں ” اذھب فاستانس ھل تری احدا “ (جاؤ دیکھو کیا کوئی شخص دیکھتے ہو) نابغہ نے کہا : علی مستانس وحد۔ اس سے وہ وحشی بیل مراد لیتا ہے جو دیکھتا ہے کہ کیا اسے کوئی شکاری نظر آتا ہے تاکہ وہ اس سے محتاط ہوجائے، بعض علماء نے فرمایا : انست واحسست ووجدت “۔ تمام کا ایک معنی ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فان انستم منھم رشدا “ یعنی تم ان سے دانائی جان لو، اس میں اصل ابصرتم ہے یعنی اس کا معنی دیکھنا ہے۔ عام قرات رشدا را کے ضمہ اور شین کے سکون کے ساتھ ہے، سلمی، عیسیٰ ، ثقفی، اور حضرت ابن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے رشدا راء اور شین کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے یہ دونوں لغتیں ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : رشدا، رشد کا مصدر ہے اور رشدا، رشد کا مصدر ہے اسی طرح ارشاد ہے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) علماء نے ” رشدا “ کی تاویل میں اختلا کیا ہے حضرت حسن اور حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہم وغیرہما نے فرمایا : اس کا مطلب ہے عقل اور دین میں اصلاح (
1
) (جامع البیان للطبری، جلد
3
،
4
صفحہ
314
) حضرت ابن عباس ؓ سدی (رح) اور ثوری (رح) نے کہا : عقل اور مال کی حفاظت میں (
2
) (زاد المسیر، جلد
2
صفحہ
11
) اصلاح ہے سعید بن جبیر ؓ اور شعبی (رح) نے کہا : ایک شخص اپنی داڑھی پکڑتا ہے اور وہ دانائی کو نہیں پہنچا ہوتا (
3
) (جامع البیان للطبری، جلد
3
،
4
صفحہ
314
) پس یتیم کو مال نہیں دیا جائے گا اگرچہ وہ بوڑھا ہو بھی ہوجائے حتی کہ اس سے دانائی معلوم ہوجائے۔ ضحاک (رح) نے اسی طرح کہا ہے : یتیم کو مال نہیں دیا جائے گا اگرچہ وہ سو سال کو پہنچ جائے حتی کہ اس سے مال کی اصلاح معلوم ہوجائے، مجاہد (رح) نے کہا : یعنی خاص عقل میں اصلاح مراد ہے (
4
) (جامع البیان للطبری، جلد
3
،
4
صفحہ
314
) اکثر علماء نے کہا : رشد، بلوغت کے بعد ہوتی ہے، اگر بلوغت کے بعد بھی دانا نہ ہو، اگرچہ بوڑھا بھی ہوجائے تو اس سے حجر کا حکم زائل نہ ہوگا، یہ امام مالک وغیرہ کا مذہب ہے۔ ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : آزاد بالغ پر حجر نہیں کیا جائے گا جب وہ اس سے حجر کا حکم زائل نہ ہوگا، یہ امام مالک (رح) وغیرہ کا مذہب ہے، ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : آزاد بالغ پر حجر نہیں کیا جائے گا جب وہ مردوں کی حد کو پہنچ جائے اگرچہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ فاسق ہو اور سب سے زیادہ فضول خرچی کرنے والا ہو جب کہ وہ عقل مند ہو، امام زفر بن ہذیل کا یہی قول ہے اور یہی نخعی کا مذہب ہے اور انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو حضرت قتادہ ؓ نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ حبان بن منقذ (چیزیں) خریدتے تھے اور ان کی سوچ اور رائے میں کمزوری تھی، عرض کی گئی یا رسول اللہ ! ﷺ حبان پر حجر کردیں یہ چیزیں خریدتا ہے اور اس کی سمجھ میں ضعف ہے، نبی مکرم ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا : تو بیع نہ کیا کر اس نے کہا : حضور ﷺ میں بیع کیے بغیر رہ نہیں سکتا، نبی مکرم ﷺ نے اسے فرمایا جب تو بیع کیا کر تو کہہ دیا کر کہ دھوکا نہیں ہوگا اور تیرے لئے تین دن کا خیار ہوگا۔ احناف اور انکے ہم نوا علماء فرماتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ سے اس پر حجر کرنے کو کہا گیا، کیونکہ اس کے تصرفات میں نقصان ہوتا تھا تو نبی مکرم ﷺ نے اس پر حجر نہیں کیا تھا پس ثابت ہوا کہ حجر کرنا جائز نہیں ہے، اس حدیث میں احناف کے لیے کوئی حجت نہیں ہے، کیونکہ یہ اس شخص کے ساتھ خاص تھا جیسا کہ ہم نے سورة بقرہ میں بیان کیا ہے اور دوسرے لوگوں کے لیے حکم مختلف ہے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : اگر وہ شخص مال اور دین کو خراب کرنے والا ہو یا مال کو خراب کرنے والا ہو دین کو ضائع کرنے والا نہ ہو تو اس پر حجر کیا جائے گا اور اگر اپنے دین کو ضائع کرنے والا اور اپنے مال کی اصلاح کرنے والا ہو تو اس کے متعلق دو قول ہیں ایک یہ کہ اس پر حجر کیا جائے گا یہ ابو العباس بن شریح کا اختیار ہے اور دوسرا یہ کہ اس پر حجر نہ ہوگا یہ ابو اسحاق مروزی کا مختار قول ہے۔ امام شافعی (رح) کا بھی اظہر قول یہی ہے، ثعلبی نے کہا جو ہم نے سفیہ (بےوقوف) پر حجر کے متعلق ذکر کیا ہے یہ حضرت عثمان ؓ حضرت علی ؓ ، حضرت زبیر ؓ ، حضرت عائشہ ؓ حضرت ابن عباس ؓ اور عبداللہ بن جعفر ؓ کا قول ہے اور تابعین میں سے شریح کا قول ہے اور ثعلبی نے کہا : ہمارے اصحاب نے اس مسئلہ میں اجماع کا دعوی کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) جب ثابت ہوگیا تو تو جان لے کہ مال کا دینا دو شرائط پر ہے دانائی کا محسوس کرنا اور بالغ ہونا، اگر ایک شرط پائی جائے اور دوسری نہ پائی جائے تو مال یتیم کے حوالے کرنا جائز نہیں اسی طرح آیت کی نص ہے اور ابن القاسم (رح) اشہب اور ابن وہب کی مالک سے اس آیت کے متعلق یہی روایت ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) امام زفر (رح) اور نخعی (رح) کے علاوہ فقہاء کا یہی قول ہے انہوں نے پچیس سال کی عمر کو پہنچنے کے ساتھ دانائی محسوس کرنے کو ساقط کردیا ہے، امام ابوحنیفہ نے کہا : اس عمر میں چونکہ وہ دادا ہوجاتا ہے، یہ امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کے ضعف پر دلیل ہے اور اس کے ضعف پر دلیل ہے جس کے ساتھ ابوبکر رازی نے احکام القرآن میں ان دو آیتوں کے استعمال سے حجت پکڑی ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، یہ مطلق اور مقید کے باب سے ہے اور اہل اصول کا اتفاق ہے کہ مطلق کو مقید کی طرف لوٹایا جاتا ہے، اس کا دادا ہونا کیا فائدہ دے گا جب وہ غیر سنجیدہ ہو۔ مگر ہمارے علماء نے لڑکی میں بلوغت کے ساتھ خاوند کا اس سے دخول کرنا شرط قرار دیا ہے اس وقت رشد میں ابتلا واقع ہوگا، جبکہ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) اس کا خیال نہیں رکھتے اور وہ مذکر اور مونث میں مذکورہ اقوال کے مطابق اختیار کا اعتبار کرتے ہیں، ہمارے علماء نے مذکر اور مونث میں فرق کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : عورت، مرد کے مخالف ہوتی ہے، کیونکہ وہ پردے میں ہوتی ہے بکارت کی وجہ سے وہ نہیں باہر نکلتی ہے اور نہ امور کا اسے تجربہ ہوتا ہے اسی وجہ سے اس میں نکاح کے وجود پر دانائی کو موقوف کیا گیا ہے، نکاح کے ساتھ تمام مقاصد سمجھتی ہے، جبکہ مراد اس کے خلاف ہوتا ہے وہ اپنے تصرف اور نشاۃ کے آغاز سے بلوغت تک لوگوں سے ملاقات کے ساتھ اس کو اختیار حاصل ہوجاتا ہے، اس کی عقل بلوغت کے ساتھ مکمل ہوجاتی ہے پس اس کے لئے غرض حاصل ہوجاتی ہے اور جو امام شافعی (رح) نے کہا وہ زیادہ درست ہے، کیونکہ حشفۃ کے داخل کرنے ساتھ نفس وطی اس کی رشد و دانائی میں اضافہ نہیں کرتی جب کہ وہ تمام امور اور مقاصد کو جاننے والی ہو اور مال کو فضول خرچ کرنے والی نہ ہو پھر ہمارے علماء نے یہ زائد فرمایا ہے کہ خاوند کے دخول کے بعد اتنی مدت کا گزرنا بھی ضروری ہے جس میں احوال کی مہارت حاصل ہوتی ہے، ابن عربی (رح) نے کہا : ہمارے علماء نے اس زمانہ کی تحدید میں کئی اقوال ذکر کیے ہیں ان میں پانچ، چھ اور سات سال باپ والی لڑکی کے بارے میں ہیں اور وہ یتیمہ جس کا باپ اور وصی نہ ہو اس کے لئے دخول کے بعد ایک سال مقرر کیا ہے اور جس پر والی مقرر کیا ہے اس پر ہمیشہ حجر ہوگا حتی کہ اس کی دانائی ثابت ہوجائے، ان تمام اقوال میں کوئی دلیل نہیں ہے، باپ والی لڑکی میں سالوں کی حد بیان کرنا مشکل ہے اور یتیمہ میں ایک سال کی تحدید اس سے بھی زیادہ مشکل ہے اور جس پر والی مقرر کیا گیا ہے اس پر ہمیشہ حجر ہوگا حتی کہ اس کی دانائی واضح ہوجائے، اس کو وصی حجر سے نکالتا ہے یا حکم اس سے نکالتا ہے، یہ قرآن کا ظاہر ہے اور اس تمام سے مقصود اس ارشاد کے تحت داخل ہے۔ (آیت) ” فان انستم منھم رشدا “ پس رشد و دانائی کا اعتبار تو متعین ہوگیا لیکن راشد کے حال کے مختلف ہونے کے سبب اس کا محسوس کرنا مختلف ہے، پس اس کو پہچان لے اور اس پر اپنی ترکیب کر اور وہ فیصلہ کرنے سے اجتناب کر جس پر دلیل نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) علماء کا اختلاف ہے اس لڑکی کے بارے میں جو باپ والی ہو اور اس مدت میں کوئی کام کرے، بعض علماء نے فرمایا : حجر کی بقا کی وجہ سے وہ رد پر محمول ہوگا اور جو کام اس مدت کے بعد کرے گی وہ جواز پر محمول ہوگا۔ بعض نے فرمایا : جو کام وہ اس مدت میں کرے گی وہ رد پر محمول ہوگا مگر جب کہ اس میں درستگی ظاہر ہو تو جواز پر محمول ہوگا اور جو کام اس مدت کے بعد کرے گی وہ جواز پر محمول ہوگا مگر یہ کہ اس میں سفاہت واضح ہو۔ مسئلہ نمبر : (
8
) جس پر حجر کیا گیا ہے اس کو مال دینے میں علماء کا اختلاف ہے کہ کیا سلطان کی ضرورت ہوگی یا نہیں۔ ایک جماعت نے کہا : یہ معاملہ سلطان وقت کی طرف لے جانا ضروری ہے اور اس کے نزدیک اس کی دانائی ثابت ہوگی تو اس کا مال اس کو دیا جائے گا، ایک گروہ نے کہا : یہ وصی کے اجتہاد پر موقوف ہے سلطان کی طرف معاملہ لے جانے کی ضرورت نہیں۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
11
دارالکتب العلمیہ) ابن عطیہ (رح) نے کہا : ہمارے زمانہ کے وصی میں درست یہ ہے کہ وہ سلطان کی طرف مسئلہ لے جائے اور اس کے پاس رشد کے ثبوت سے مستغنی نہ ہو کیونکہ اس میں حفاظت ہے اس سے کہ اوصیاء متفق ہوجائیں کہ بچہ دانا ہوگیا ہے اور وہ محجور علیہ (جس کو تصرف سے روکا گیا ہے) کو بری کردے جس کو اس وقت میں تحصیل کی قلت اور نادانی کی وجہ سے تصرف سے روکا گیا تھا۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
11
دارالکتب العلمیہ) ۔ مسئلہ نمبر : (
9
) جب دانائی کے پائے جانے کے ساتھ مال اس کے حوالے کیا جائے گا پھر اگر وہ قلت تدبیر اور فضول خرچی کے ظہور کے ساتھ بےوقوفی کی طرف لوٹ آئے تو ہمارے نزدیک اس کی طرف حجر پھر لوٹ آئے گا اور امام شافعی (رح) کا ایک قول بھی یہی ہے، امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : حجر دوبارہ نہیں لوٹے گا، کیونکہ وہ بالغ عاقل ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ قصاص اور حدود میں اس کا اقرار جائز ہے اور ہماری دلیل یہ ارشاد ہے : (آیت) ” ولا تؤتوالسفھآء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیما “۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فان کان الذی علیہ الحق سفیھا اوضعیفا اولا یستطیع ان یمل ھو فلیملل ولیہ بالعدل “۔ (بقرہ :
282
) ترجمہ ؛ پھر اگر وہ شخص جس پر قرض ہے بےقوف ہو یا کمزور ہو یا اس کی طاقت نہ رکھتا ہو کہ خود لکھا سکے تو لکھائے اس کا ولی (سرپرست) انصاف سے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کوئی فرق نہیں فرمایا کہ محجور سفیہ ہو یا اطلاق کے بعد اس پر سفاہت طاری ہو۔ مسئلہ نمبر : (
10
) وصی کے لیے یتیم کے مال میں وہ سب کچھ کرنا جائز ہے جو باپ کے لیے کرنا جائز ہوتا ہے مثلا تجارت کرنا، بضاعت پر دینا، بیع وشراء کرنا وغیرہ اور اس پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اس کے تمام اموال کی زکوۃ ادا کرے خواہ سوانا چاندی ہو، کھیتی ہو یا جانور ہوں اور فطرانہ بھی ادا کرے اور اس کی طرف سے جنایات کی دیت اور اگر وہ چیزیں ضائع کر دے اس کی قیمت ادا کرے، والدین کا نفقہ اور تمام لازمی حقوق ادا کرے، یتیم کا نکاح کرنا، اس کی طرف سے مہر ادا کرنا، اس کے لیے لونڈی خریدنا، جیسے وہ لونڈی بنائے، اس کے مفاد میں تمام مصالح کا اہتمام کرنا، جب وصی بعض قرض خواہوں کو قرضہ ادا کر دے اور مال میں کچھ بچ جائے جو اس کا مزید قرضہ ادا کر دے تو وصی کا یہ فعل جائز ہے اور اگر باقی مال تلف ہوجائے تو وصی پر باقی قرض خواہوں کے لئے کچھ نہ ہوگا اور نہ ان پر جنہوں نے قرضہ وصول کرلیا، اگر قرض خواہوں نے تمام مال لے لیا پھر دوسرے قرض خواہ آگئے، اگر تو وصی کو باقی قرض کا علم تھا یا میت باقی قرض کے ساتھ معروف تھا تو وصی ان عرفاء کے لیے اتنے پیسوں کا ضامن ہوگا جوان کا حصہ بنتا ہے اور وصی ان لوگوں سے پیسے واپس لے گا جنہوں نے مکمل اپنا قرضہ وصول کرلیا تھا اور اگر وصی کو اس کا علم نہ ہو اور میت قرضہ کے ساتھ معروف ہو تو وصی پر کچھ نہ ہوگا اور جب وصی نے میت کا قرضہ بغیر گواہی کے دے دیا تو وہی ضامن ہوگا، اگر اس نے گواہی قائم کی اور طویل زمانہ گزر گیا حتی کہ گواہ فوت ہوگئے تو اس پر کچھ نہیں ہوگا۔ سورة بقرہ میں (آیت) ” وان تخالطوھم فاخوانکم “۔ (بقرہ
220
) کے تحت وصی کے خرچ کرنے کے متعلق احکام گزر چکے ہیں جو کافی وشافی ہیں، الحمد للہ۔ مسئلہ نمبر : (
11
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا تاکلوھا اسرافا وبدارا ان یکبروا “۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو بغیر اسراف کے کھایا جائے وہ جائز ہے، پس اس کے لیے دلیل خطاب ہوگی بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کے مال نہ کھاؤ کیونکہ یہ اسراف ہے، اللہ تعالیٰ نے اوصیاء کو یتیموں کا مال کھانے سے منع فرمایا ہے وہ اتنا کھا سکتے ہیں جو انکے لیے کھانا ضروری اور مباح ہے، اس کا بیان آگے آئے گا، اسراف کا لغوی معنی حد سے تجاوز کرنا ہے، سورة آل عمران میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔ السرف کا مطلب خرچ کرنے میں خطا ہے، اسی سے شاعر کا قول ہے : اعطو ھنیدہ یحدوھا ثمانیۃ ما فی عطائھم من ولا سرف : یعنی وہ عطا کی جگہ میں خطا نہیں کرتے۔ ایک اور شاعر نے کہا : وقال قائلھم والخیل تخبطھم اسرفتم فاجبنا اننا سرف : نضر بن شمیل نے کہا : السرف کا معنی فضول خرچی کرنا ہے اور السرف کا معنی غفلت ہے، اسراف کا مزید معنی کا بیان انشاء اللہ تعالیٰ سورة انعام میں آئے گا۔ (آیت) ” وبدارا “۔ اس کا معنی ان کا جلدی بڑا ہونا ہے، وہ حالت بلوغ کو ہے، البدار، المبادرۃ یہ قتال اور مقاتلہ کی طرح ہے اس کا اسرافا پر عطف ہے اور (آیت) ” ان یکبروا “۔ بدار کی وجہ سے محل نصب میں ہے۔ یعنی جو تیری پرورش میں ہے اس کے مال کو غنیمت نہ سمجھ کہ تو اسے کھائے اور کہے کہ میں اس کے بڑے ہونے کے لیے جلدی کر رہا ہوں، تاکہ دانا نہ ہوجائے اور اپنا مال لے نہ لے۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے مروی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
12
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ومن کان غنیا فلیستعفف “۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا : جو یتیموں کے مال سے ان کے سرپرستوں کے لیے حلال ہے، غنی کو حکم دیا کہ وہ یتیم کے مال کے استعمال سے رک جائے اور فقیر وصی کے لیے مباح قرار دیا کہ وہ معروف طریقہ سے اس کے مال سے کھا سکتا ہے، کہا جاتا ہے۔ : عف الرجل عن الشیء واستعف “ جب کوئی کسی چیز سے رک جائے۔ الاستعفاف عن الشیء کا مطلب ہے چیز کو ترک کردینا، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت ” والیستعفف الذین لایجدون نکاحا “۔ (نور :
33
) (اور چاہیے کہ پاک دامن بنے رہیں وہ لوگ جو نہیں کر پاتے شادی کرنے کی قدرت) العفۃ کا معنی ہے جو چیز حلال نہیں ہے اس سے رک جانا اور جس کا کرنا واجب نہیں اس سے رک جانا، ابو داؤد نے حسین المعلم عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے روایت فرمایا ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : میں فقیر ہوں میرے پاس کچھ نہیں ہے اور میرے پاس ایک یتیم ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو اپنے یتیم کے مال سے کھا جب کہ تو اسراف کرنے والا نہ ہو، فضول خرچی کرنے والا نہ ہو اور مال کو جمع کرنے والا نہ ہو۔ (
1
) (ابو داؤد، کتاب الوصایا، باب ما جاء فیما لولی الیتیم ان ینال من مال الیتیم ‘، حدیث نمبر
2488
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (
13
) علماء کا اختلاف ہے کہ مخاطب کون ہے اور اس آیت سے مراد کیا ہے ؟ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے (آیت) ” ومن کان فقیرا فلیاکل بامعروف “ کے تحت مروی ہے فرمایا : یہ یتیم کے اس ولی کے بارے نازل ہوئی جو اس کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اس کی اصلاح کرتا ہے جب وہ محتاج ہو تو اس کے لیے یتیم کے مال سے کھانا جائز ہے، ایک روایت میں ہے : اس کے مال کی مقدار معروف طریقہ سے کھانا جائز ہے۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد یتیم ہے اگر وہ غنی ہو تو ولی پر وسعت کا مظاہرہ کرے اور اس کے مال سے اجتناب کرے اگر وہ فقیر ہو تو ولی پر اپنے مال کی مقدار اس پر خرچ کرے یہ ربیعہ اور یحییٰ بن سعید (رح) کا قول ہے۔ پہلا قول جمہور کا ہے اور وہی صحیح ہے کیونکہ یتیم اپنے مال میں اپنی صغرسنی اور سفاہت کی وجہ سے تصرف کرنے کے ساتھ مخاطب نہیں ہوتا واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
14
) معروف طریقہ سے کھانے کے متعلق علماء کا اختلاف ہے کہ وہ کیا ہے ؟ ایک قوم نے کہا : وہ یتیم کے مال سے قرض لے جب اسے ضرورت ہو پھر جب خوشحال ہو تو ادا کر دے، یہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ حضرت عبیدہ، ؓ حضرت ابن جبیر ؓ شعبی (رح) ابو العالیہ (رح) اور اوزاعی (رح) کا قول ہے اور اپنی حاجت سے زیادہ یتیم کے مال سے قرض نہ لے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا : خبردار میں نے بیت المال سے اپنا معاملہ اس طرح کیا ہے جس طرح ولی کا معاملہ یتیم کے مال سے ہوتا ہے، اگر میں غنی ہوں گا تو میں اس مال سے پرہیز کروں گا اگر فقیر ہوں تو معروف طریقہ سے کھاؤں گا پھر جب خوشحال ہوں گا تو وہ مال واپس کر دوں گا، حضرت عبداللہ بن مبارک (رح) نے عاصم سے انہوں ابو العالیہ سے (آیت) ” ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف “۔ کے متعلق روایت کیا ہے کہ وہ قرض لے کر کھائے پھر بطور دلیل یہ آیت پڑھی۔ (آیت) ” فاذا دفعتم الیہم اموالھم فاشھدوا علیہم “۔ دوسرا قول : ابراہیم، عطا، حسن بصری، نخعی، اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہم سے مروی ہے کہ فقیر وصی نے جو معروف طریقہ سے کھایا اس کی اس پر قضا نہیں ہے، کیونکہ یہ اس کا حق ہے یہی فقہاء کا نظریہ ہے، حسن نے فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وصی کے لیے کھانا ہے وہ اتنا کھائے جو اس کی بھوک کو مٹا دے اور اتنا کپڑا پہنے جو اس کی شرمگاہ کو ڈھانپ دے، روئی کے اعلی کپڑے اور لباس نہ پہنے۔ اس قول کی صحت پر دلیل اجماع امت ہے کہ امام جو مسلمانوں کا نگران ہوتا ہے جو وہ بیت المال سے کھاتا ہے وہ اس پر بطور قرض واجب نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مال میں اس کا حصہ مقرر فرمایا ہے، پس حضرت عمر کے قول میں پہلے قول والوں کے لیے حجت نہیں ہے کہ ” جب میں خوشحال ہوں گا تو ادا کر دوں گا “ اگرچہ صحیح بھی ہو۔ حضرت ابن عباس ؓ ، ابو العالیہ ؓ اور شعبی (رح) سے مروی ہے کہ معروف طریقہ سے کھانا سے مراد مویشیوں کے دودھ سے نفع حاصل کرنے، غلاموں سے خدمت لینے اور سواریوں پر سوار ہونے کی طرح ہے جبکہ اصل مال کو نقصان نہ ہو جس طرح خارش زدہ اونٹ کو تارکول لگاتا ہے، گمشدہ چیز کا اعلان کرتا ہے، حوض کی لپائی کرتا ہے اور کھجوریں توڑتا ہے، رہے اموال کے اعیان اور اصول تو ان کا لینا وصی کے لیے جائز نہیں، یہ تمام فقہاء کے قول سے نکالا گیا ہے، وہ اپنے عمل کی اجرت کی مقدار لے لے، ایک طائفہ نے یہ کہا ہے اور یہی معروف ہے، اس پر قضا نہیں ہے، لیکن اس سے زائد لینا حرام ہے، حسن بن صالح بن حی (اس کو ابن حبان کہا جاتا ہے) نے باپ اور حاکم کے وصی کے درمیان فرق کیا ہے، باپ کے وصی کے لیے معروف طریقہ سے کھانا جائز ہے اور رہا حاکم کا وصی تو اس کے لیے مال لینا کسی صورت میں جائز نہیں، یہ تیسرا قول ہے اور چوتھا قول مجاہد (رح) سے مروی ہے، فرمایا : نہ وہ قرض لے اور نہ کسی اور اعتبار سے لے، مجاہد (رح) کا خیال ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اس کی ناسخ یہ آیت ہے۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم “۔ ترجمہ : اے ایمان والو ! نہ کھاؤ اپنے مال آپس میں ناجائز طریقہ سے مگر یہ کہ تجارت ہو تمہاری باہمی رضا مندی سے۔ اور یہ تجارت نہیں ہے زید بن اسلم نے کہا : اس آیت میں رخصت اس ارشاد سے منسوخ ہے۔ (آیت) ” ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما “۔ ترجمہ : بیشک جو لوگ کھاتے ہیں یتیموں کا مال ظلما “۔ بشر بن الولید نے امام ابو یوسف (رح) سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نہیں جانتا شاید یہ آیت اس آیت سے منسوخ ہو۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم “۔ ترجمہ : اے ایمان والو ! نہ کھاؤ اپنے مال آپس میں ناجائز طریقہ سے مگر یہ کہ تجارت ہو تمہاری باہمی رضا مندی سے۔ پانچواں قول یہ ہے کہ حضر اور سفر کے درمیان فرق ہے پس جب مقیم ہو تو ممنوع ہے اور جب اس کی وجہ سے سفر کرنے کا محتاج ہو تو جتنی ضرورت ہے اتنا لے لے اور کوئی چیز جمع نہ کرے۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام ابو یوسف (رح) اور امام محمد (رح) کا قول ہے۔ چھٹا قول : ابو قلابہ نے کہا : غلہ میں سے جو چنے اس میں سے معروف طریقہ سے کھائے، رہا سونا، چاندی تو اس سے قرض لینا اور کسی اور اعتبار سے لینا جائز نہیں ہے۔ ساتواں قول عکرمہ ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے : (آیت) ” ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف “۔ جب محتاج اور مجبور ہو تو معروف طریقہ سے کھائے، شعبی نے کہا : جب ایسی کیفیت میں کہ وہ خون اور خنزیر کے گوشت کے قائم مقام ہو تو اس سے لے سکتا ہے اور اگر وہ اپنا مال پائے تو پھر اسے پورا کر دے، نحاس نے کہا : اس کا کوئی معنی نہیں، کیونکہ جب انسان ایسی اضطراری کیفیت میں ہو تو اس کے لیے یتیم اور کسی دوسرے کے مال سے لینا، خواہ وہ قریبی ہو یا دور ہو جائز ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور نخعی (رح) نے یہ فرمایا ہے کہ اپنے مال سے وصی معروف طریقہ سے کھائے تاکہ یتیم کے مال کی ضرورت ہی نہ رہے اور غنی اپنی غنا کی وجہ سے پرہیز کرے اور فقیر اپنی نفس پر کنجوسی کرے تاکہ یتیم کے مال کی ضرورت نہ رہے، نحاس نے کہا : اس آیت کی تفسیر میں جو مروی ہے اس میں سے بہتر یہی قول ہے، کیونکہ لوگوں نے اموال ممنوع ہیں بغیر کسی قطعی حجت کے ان میں کسی چیز کا استعمال جائز نہیں، میں کہتا ہوں : اس قول کا الکیاطبری نے احکام القرآن میں پسند فرمایا ہے اور فرمایا : بعض سلف نے اس آیت کے حکم میں یہ وہم کیا ہے کہ وصی کے لیے بچے کے مال سے اتنی مقدار میں کھانا جائز ہے جو اسراف کی حد کو نہ پہنچے اور یہ جو اللہ تعالیٰ (آیت) ’‘ لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم “۔ ترجمہ : نہ کھاؤ اپنے مال آپس میں ناجائز طریقہ سے مگر یہ کہ تجارت ہو تمہاری باہمی رضا مندی سے۔ کا حکم فرمایا ہے اس کے خلاف ہے۔ یہ یتیم کے مال میں ثابت نہیں ہوتا اور (آیت) ” ومن کان غنیا فلیستعفف “۔ کا ارشاد اپنے مال کے کھانے کی طرف راجع ہے نہ کہ یتیم کے مال کے کھانے کی طرف راجع ہے، پس اس کا معنی ہے یتیم کے اموال کو اپنے اموال کے ساتھ نہ کھاؤ بلکہ اپنے اموال کے کھانے پر اکتفا کرو اور اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے (آیت) ” ولا تاکلوا اموالھم الی اموالکم، انہ کان حوبا کبیرا “۔ ترجمہ : نہ کھاؤ ان کے مال اپنے مالوں سے ملا کر واقعی یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” ومن کان غنیا فلیستعفف، ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف “ ، کا معنی ظاہر ہوگیا کہ تھوڑی خوراک پر اکتفا کرے تاکہ وہ یتیم کا مال کھانے کا محتاج ہی نہ ہو۔ یہ آیت کا مکمل معنی ہے، ہم بہت سی ایسی محکم آیات پڑھتے ہیں جن میں غیر کا مال اس کی رضا کے بغیر کھانے سے معنی فرمایا ہے خصوصا یتیم کے حق میں، یہ آیت کئی معانی کا احتمال رکھتی ہے، پس محکم آیات کے موجب پر اس کو محمول کرنا متعین ہے، اگر سلف کے مذہب کی تائید کرنے والا کہے کہ قضاۃ، مسلمانوں کے لیے کام کرنے کی وجہ سے تنخوائیں لیتے ہیں تو پھر وصی جو یتیم کے لیے کام کرتا ہے وہ اپنے عمل کی مقدار اجرت کیوں نہ لے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سلف میں سے کسی نے وصی کے لیے بچے کے مال سے لینا جائز قرار نہیں دیا جبکہ وصی غنی ہو جبکہ قاضی کا حکم اس سے مختلف ہے پس دونوں مسئلوں میں فرق ہے وہ مال جو فقہاء قضاۃ اور وہ خلفاء لیتے ہیں جو اسلام کے امور چلاتے ہیں ان کے لیے تیرا مال متعین نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے وہ مال مختلف اوصاف کے مالک مختلف لوگوں کے لیے مقرر فرمایا ہے اور قضاۃ بھی ان اصناف میں سے ہیں اور وصی اپنے عمل کی وجہ سے شخص معین کے مال سے اس کی رضا کے بغیر لیتا ہے، اس کا عمل مجہول ہے اور اس کی اجرت بھی مجہول ہے اور یہ استحقاق سے بعید ہے۔ میں کہتا ہوں : ہمارے شیخ امام ابو العباس فرماتے تھے کہ اگر یتیم کا مال اتنا زیادہ ہو کہ اس کی بہت زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوحتی کہ ولی اپنی حاجات اور مہمات سے بھی غافل ہوجائے تو اس میں ولی اپنے عمل کی اجرت مقرر کرلے اور اگر یتیم کا مال تھوڑا ہو وصی کو اپنا حاجات سے غافل نہ کرتا ہو تو وصی اس کے مال سے کچھ نہ کھائے مگر اس کے لیے تھوڑا دودھ پینا، تھوڑا سا کھانا اور گھی کھانا مستحب ہے یہ اس کے مال کو نقصان پہنچانے والا اور زیادہ لینے والا نہ ہو بلکہ اتنا مال لے جتنا کہ عادۃ کھانا یا لینا جائز ومعاف ہوتا ہے۔ ہمارے شیخ نے فرمایا : جو میں نے اجرت کا ذکر کیا ہے اور تھوڑی سی کھجور اور دودھ لینے کا ذکر کیا ہے۔ یہ تمام معروف میں آجاتا ہے آیت کو اس پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم میں کہتا ہوں : بچے کے مال سے اجتناب کرنا افضل ہے انشاء اللہ تعالیٰ اور قاضی مال تقسیم کرنے والا جو لیتا ہے اور اسے رسم کا نام دیتا ہے اور اس کے حواری جو لوٹ مار عوام سے کرتے ہیں میں اس کے حلال ہونے اور جواز کی کوئی صورت نہیں جانتا یہ لینے والے اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے عموم میں داخل ہیں۔ (آیت) ” ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما انما یاکلون فی بطونھم نارا “۔ ترجمہ : بیشک وہ لوگ جو کھاتے ہیں یتیموں کے مال ظلم سے وہ تو بس کھا رہے ہیں اپنے پیٹوں میں آگ۔ مسئلہ نمبر : (
15
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فاذا دفعتم الیھم اموالھم فاشھدوا علیھم “۔ اللہ تعالیٰ نے مال کی حفاظت کرنے اور لغزش کرنے پر تنبیہ کرنے کے لئے گواہ بنانے کا حکم دیا ہے اور بعض علماء کے نزدیک گواہ بنانا مستحب ہے، بیشک قول وصی کا معتبر ہے، کیونکہ وہ امین ہے اور ایک جماعت کے نزدیک گواہ بنانا فرض ہے یہی آیت کا ظاہر ہے، وہ امین نہیں ہے کہ اس کا قول قبول جیسا کہ وکیل ہے جب وہ کہے کہ جو اسے دیا گیا ہے وہ اس نے واپس کردیا ہے یامودع کو واپس کردیا ہے۔ وہ باپ کے لیے امین ہے جب باپ نے اسے امین بنایا تھا تو غیر پر اس کا قول قبول کرنا نہیں ہے کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ وکیل اگر دعوی کرے کہ اس نے زید کو وہ دے دیا ہے جس کا اسے حکم دیا گیا تھا تو اس کا قول بغیر دلیل کے تسلیم نہیں کیا جائے گا، اسی طرح وصی کا حکم ہے، حضرت عمر بن خطاب ؓ اور ابن جبیر ؓ کا خیال ہے کہ یہ گواہی اس پر ہوگی جو وصی حالت یسر میں وہ مال واپس کرے گا جو اس نے حالت فقر میں یتیم کے مال سے قرض لیے لیا تھا، عبیدہ نے کہا : یہ آیت اس شخص کی ادائیگی کے وجوب پر دلیل ہے جو یتیم کے مال سے کھائے معنی یہ ہے جب تم قرضہ لو یا تم کھاؤ تو واپسی کے وقت گواہ بنا لو، صحیح یہ ہے کہ لفظ اس صورت کو اور اس کے علاوہ صورت کو عام ہے اور ظاہر یہ ہے کہ جب تم اس یتیم پر خرچ کرو تو گواہ بنا لو حتی کہ اگر اختلاف واقع ہو تو دلیل قائم کرسکے تمام مال جو امانت کے اعتبار سے گواہیوں کے ذریعہ قبضہ کیا جائے تو وہ اس سے بری نہ ہوگا مگر دیتے وقت گواہی قائم کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” فاشھدوا “ جب کسی نے بغیر گواہی کے مال پر قبضہ کیا ہو تو اسے واپس کرتے وقت بغیر گواہی کے بھی واپس کرسکتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
16
) جس طرح وصی اور کفیل پر یتیم کے مال کی حفاظت اور اس کے لیے اس میں زیادتی کرنا لازم ہوتی ہے اسی طرح وصی پر بچے کے بدن کی حفاظت کرنا بھی لازم ہوتا ہے مال کی حفاظت تو اس کو محفوظ کرنے کے ساتھ کرتا ہے اور بدن کی حفاظت کرنا بھی لازم ہوتا ہے مال کی حفاظت تو اس کو محفوظ کرنے کے ساتھ کرتا ہے اور بدن کی حفاظت اس کو ادب سکھانے کے ساتھ کرتا ہے، یہ مفہوم سورة بقرہ میں گزر چکا ہے، روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی مکرم ﷺ سے عرض کیا کہ میری پرورش میں یتیم ہے کیا میں اس کے مال سے کھا سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں جبکہ مال کو جمع کرنے والا نہ ہو اور اپنے مال کو یتیم کے مال کے ذریعے بچانے والا نہ ہو (
1
) (سنن ابی داؤد کتاب الوصایا، باب ما جاء فی مالولی الیتیم۔۔۔ الخ حدیث نمبر
2488
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس شخص نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا میں اس کو سزا دے سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اتنی سزا دے سکتا ہے جتنی تو اپنے بچے کو دیتا ہے ابن عربی (رح) نے کہا : اگرچہ سندا ثابت نہیں پھر بھی کسی کو اس حدیث سے مفر نہیں۔ مسئلہ نمبر : (
17
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وکفی باللہ حسیبا “۔ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کا محاسبہ کرنے والا ہے اور ان کی جزا دینے والا ہے اس میں ہر حق سے انکار کرنے والے کے لیے وعید ہے، اس میں باء زائدہ ہے اور اور اسم جلالت محل رفع میں ہے۔
Top