Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 80
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ١ۚ وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًاؕ
مَنْ : جو۔ جس يُّطِعِ : اطاعت کی الرَّسُوْلَ : رسول فَقَدْ اَطَاعَ : پس تحقیق اطاعت کی اللّٰهَ : اللہ وَمَنْ : اور جو جس تَوَلّٰى : روگردانی کی فَمَآ : تو نہیں اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا عَلَيْهِمْ : ان پر حَفِيْظًا : نگہبان
جو شخص فرمانبر داری کرے رسول کی تو اس نے اللہ کی فرمانبر داری کی اور جس نے رو گردانی کی سو ہم نے آپ کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا۔
رسول کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے اس آیت کریمہ میں فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری اللہ ہی کی فرمانبرداری ہے۔ معالم التنزیل (صفحہ 455: ج 1) میں اس کا سبب نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب یہ ارشاد فرمایا کہ من اطاعنی فقد اطاع اللّٰہ و من اجبّنی فقد احب اللّٰہ (جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی) تو بعض منافقین نے کہا کہ بس جی یہ آدمی تو یہ چاہتا ہے کہ ہم اسے رب ہی بنا لیں۔ جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو رب بنایا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ جس میں یہ بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری اللہ تعالیٰ کی ہی فرمانبرداری ہے کیونکہ آپ جو کچھ دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ پیغام پہنچانے والے واسطہ سے جو پیغام پہنچے اور اس پر عمل کیا جائے وہ پیغام بھیجنے والے کے ہی حکم پر عمل کرنا ہوتا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پیغام لانے والا رب ہوجائے۔ نصاریٰ نے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت و رسالت کے درجہ سے آگے بڑھا دیا ان کو خدا کا بیٹا بتادیا اور ان کو الوہیت کا درجہ دے دیا۔ کہاں نصاریٰ کی جہالت اور حماقت اور کہاں رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ فتنہ انکار حدیث پر ایک نظر : دور حاضر میں جن لوگوں نے انکار حدیث کا فتنہ اٹھا رکھا ہے آیت شریفہ میں ان کا بھی جواب ہے یہ لوگ عوام کو طرح طرح کی باتیں کر کے بہکاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ قول رسول اللہ ﷺ حجت نہیں (العباذ باللہ) قرآن مجید میں جگہ جگہ اطاعت رسول اور اتباع رسول کا حکم دیا گیا ہے۔ اور آپ کو مقتدا بتایا ہے اور فرمایا ہے (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) اور آپ کے بارے میں فرمایا ہے (یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیّبَاتِ وُ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبَآءِثَ ) (وہ حلال قرار دیتے ہیں ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو اور خبیث چیزوں کو ان پر حرام قرار دیتے ہیں) قرآن مجید مجمل ہے تفصیلی احکام رسول اللہ ﷺ نے بتائے ہیں جو شخص رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال کو شرعی حجت نہ مانے وہ درحقیقت قرآن کا بھی منکر ہے۔ منکریں حدیث نے اہل قرآن ہونے کا لیبل تو لگا لیا اور حقیقت میں قرآن و حدیث دونوں کے منکر ہیں جو قرآن ماننے کا دعویدار ہے وہ قرآن کی اس بات کو کیوں نہیں مانتا کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اتباع اوراقتداء فرض ہے اور آپ کے اتباع کو اللہ کا محبوب بننے کا ذریعہ بتایا ہے (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ) آپ کا کام صرف ابلاغ ہے : پھر فرمایا کہ (وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا) ( جو شخص روگرانی کرے آپ کی ہدایت قبول نہ کرے راہ حق اختیار نہ کرے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ کے ذمہ پہنچا دینا ہے زبردستی عمل کروانا آپ کے ذمہ نہیں ہے) اگر کوئی شخص ایمان قبول نہ کرے تو آپ سے کسی قسم کی باز پرس نہیں۔ کما قال تعالیٰ (فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظاً و کما قال تعالیٰ فَذَکِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ ) ۔ صاحب معالم التنزیل اور صاحب در منثور نے بعض علماء کا قول نقل کیا ہے کہ یہ جہاد فرض ہونے سے پہلے کی بات ہے جب کہ آپ کی بعثت کا ابتدائی زمانہ تھا بعد میں جہاد کا اور سختی کرنے کا حکم نازل ہوا۔ اور جن آیات میں قتال کا حکم ہے وہ اس مضمون کے لیے ناسخ ہوگئیں۔ نسخ کی بات اسی صورت میں صحیح ہے جبکہ آیت کا مضمون یہ ہو کہ ابھی جہاد و قتال نہ کرو اور اگر آنحضرت ﷺ کو تسلی دینا مقصود ہو کہ آپ ہدایت قبول نہ کرنے والوں کی طرف سے فکر مند نہ ہوں کیونکہ آپ کے ذمہ صرف پہنچانا ہے قبول کرانا نہیں ہے تو منسوخ کہتے کی کوئی وجہ نہیں۔
Top