Al-Qurtubi - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا : اور جب حُيِّيْتُمْ : تمہیں دعا دے بِتَحِيَّةٍ : کسی دعا (سلام) سے فَحَيُّوْا : تو تم دعا دو بِاَحْسَنَ : بہتر مِنْھَآ : اس سے اَوْ : یا رُدُّوْھَا : وہی لوٹا دو (کہدو) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : پر (کا) كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَسِيْبًا : حساب کرنے والا
اور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) دعا دو یا انہیں لفظوں سے دعا دو ، بیشک خدا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
آیت نمبر : 86۔ اس آیت میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واذا حییتم بتحیۃ “۔ التحیۃ یہ حییت کا مصدر ہے۔ اصل میں تحییۃ تھا، جسے توضیۃ اور تسمیۃ ہے یا کو یا میں ادغام کیا گیا۔ التحیۃ کا معنی سلام ہے، التحیۃ کی اصل زندگی کی درازی کی دعا کرنا ہے۔ التحیات للہ یعنی آفات سے سلامتی، بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ملک بھی ہے، عبداللہ بن صالح العجلی نے کہا میں نے کسائی سے التحیات للہ کے متعلق پوچھا کہ اس کا معنی کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : التحیات، برکات کی مثل ہے۔ میں نے کہا : برکات کا کیا معنی ہے ؟ انہوں نے کہا : میں نے اس کے متعلق کچھ نہیں سنا میں نے اس کے متعلق محمد بن حسن سے پوچھا تو انہوں نے کہا : یہ ایسی چیز ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مکلف کیا ہے پھر میں کوفہ میں آیا تو میں نے عبداللہ بن ادریس سے پوچھا میں نے کہا : میں نے کسائی اور امام احمد (رح) سے التحیات للہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے مجھے ایسا ایسا کہا، عبداللہ بن ادریس (رح) نے کہا : ان دونوں کو اشعار اور ان اشیاء کا علم نہیں ؟ التحیۃ کا معنی الملک ہے۔ پھر یہ شعر پڑھا۔ اؤم بھا اباقابوس حتی انیخ علی تحیتۃ بجندی : ابن خویز رمنداد نے کہا : اسیر بہ الی النعمان حتی انیخ علی تحیتۃ بجندی : تحیۃ سے مراد ان اشعار میں ملک ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : ولکل ما نال الفتی قد نلتہ الا التحیۃ : قتبی نے کہا : التحیات للہ جمع کا صیغہ ذکر فرمایا، کیونکہ زمین میں بہت سے بادشاہ ہیں جو مختلف ملکیتیں رکھتے ہیں، پس بعض کو کہا گیا ابیت اللعن، اور بعض کو کہا گیا : اسلم وانعم بعض کو کہا گیا : عش الف سنۃ، اور ہمیں کہا گیا : تم کہو التحیات للہ، یعنی وہ الفاظ جو ملک پر دلالت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے ملکیت سے کنایہ ہیں۔ اس آیت کا ماقبل سے تعلق اس طرح ہے کہ فرمایا : تم جہاد کے لیے نکلو جیسا کہ اس کا امر پہلے ہوچکا ہے تو تم پر سلام کے ساتھ سلام کیا جائے تو تم سلام کرنے والے کو یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے بلکہ تم سلام کا جواب لوٹاؤ، کیونکہ اسلام کے احکام ان پر جاری ہوں گے۔ مسئلہ نمبر : (2) علماء کا آیت کے معنی اور تفسیر میں اختلاف ہے، ابن وہب اور ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت چھینک مارنے والے کا جواب دینے اور جواب دینے والے کے جواب کے بارے میں ہے، یہ قول ضعیف ہے کیونکہ کلام میں اس پر کوئی دلالت نہیں ہے اور چھینک کا جواب دینے والے پر جواب لوٹانا قیاسا سلام لوٹانے کے معنی میں داخل ہے، اگر یہ قول امام مالک سے صحیح ہے تو امام ملک کا میلان اس طرف اس بنا پر ہوگا۔ اور ابن خویز منداد نے کہا : اس آیت کو ہبہ پر محمول کرنا بھی جائز ہے، جب وہ لوٹانے کے لیے ہو جس کو لوٹانے کے لیے ہبۃ کیا گیا اسے اختیار ہے چاہے تو واپس کر دے، چاہے تو اسے قبول کرلے اور اس پر اس کی قیمت لوٹا دے۔ میں کہتا ہوں : امام ابوحنیفہ (رح) کے اصحاب نے اسی طرح کہا ہے انہوں نے کہا : التحیۃ یہاں ہدیہ کے معنی میں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” اور دوھا “۔ بعینہ سلام لوٹانا تو ممکن ہی نہیں ہے اور ظاہر کلام بعینہ تحتۃ ادا کرنے کا تقاضا کرتا ہے، اور یہ ہدیہ ہے اگر قبول کرے تو اسے عوض دینے کا حکم ہے یا بعینہ وہ ہدیہ لوٹا دے، یہ سلام میں تو ممکن ہی نہیں، لوٹانے کے لیے ہبۃ اور ہدیہ کا حکم سورة روم میں : (آیت) ” وما اتیتم من ربا “ کے تحت آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ؛ صحیح یہ ہے کہ یہاں التحیۃ سلام کے معنی میں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” واذا جاءوک حیوک بمالم یحیک بہ اللہ “۔ (المجادلہ : 8) نابغہ ذیبانی نے کہا : تحییھم بیض الولائدبینھم واکسیۃ الاضریج فوق المشاجب : یہاں انہیں سلام کرنے کا شاعر نے ارادہ کیا ہے۔ اس مفہوم میں مفسرین کی ایک جماعت ہے۔ جب یہ ثابت ہوگیا تو آیت کی فقہ یہ ہوگی کہ کہا جائے گا کہ علماء کا اجماع ہے کہ سلام سے ابتدا کرنا مرغوب سنت ہے اور اس کا لوٹانا فرض ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فحیوا باحسن منھا اور دوھا “۔ پھر اس میں اختلاف ہے کہ جب جماعت میں سے کوئی سلام کا جواب دے دے تو کافی ہے یا نہیں۔ امام مالکرحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی (رح) کا نظریہ یہ ہے کہ کافی ہے جو سلام کرنے والا ہے اس پر اس کی مثل لوٹایا جائے گا، کو فیوں نے کہا : سلام کا لوٹانا فروض متعینہ میں سے ہے، اور وہ کہتے ہیں : سلام کرنا، اس کا حکم سلام لوٹانے کے برعکس ہے، کیونکہ سلام کرنا تطوع اور نفل ہے اور اس کا لوٹانا فرض ہے اگر جن پر سلام کیا گیا ہے ان کے علاوہ کسی نے سلام کا جواب دیا تو ان سے فرض ساقط نہ ہوگا۔ یہ دلیل ہے کہ سلام کا لوٹانا ہر انسان پر لازم ہے حتی کہ قتادہ (رح) اور حسن (رح) نے کہا : نمازی کو جب سلام کیا جائے تو بھی کلام کے ساتھ سلام کا جواب دے اور اس سے اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی، کیونکہ اس نے وہ فعل کیا ہے جس کا اسے حک دیا گیا ہے، جب کہ لوگوں کا عمل اس کے خلاف ہے۔ پہلے علماء نے بو داؤد کی حدیث سے حجت پکڑی ہے جو حضرت علی ؓ نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کی ہے آپ ﷺ نے فرمایا : ” جب ایک جماعت گزرے تو ان میں سے ایک کا سلام کرنا کافی ہے اور بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک کا ان کے سلام کا جواب دینا کافی ہے “۔ (1) (سنن ابی داؤد کتاب السلام، جلد 2، صفحہ 352) یہ اختلاف کی جگہ میں نص ہے، ابو عمر نے کہا : یہ حدیث حسن ہے، اس کا کوئی معارض نہیں، اس کی سند میں سعید بن خالد ہے، یہ سعید بن خالد خزاعی مدنی ہے، بعض کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں۔ بعض نے اس کو ضعیف کہا ہے، ان میں ابو زرعہ، ابو حاتم اور یعقوب بن شیبہ ہیں ان محدثین نے اس کی حدیث کو منکر بنایا ہے، کیونکہ اس سند کے ساتھ اس میں وہ منفرد ہے، کیونکہ عبداللہ بن فضل نے عبید اللہ بن ابی رافع سے نہیں سنا ہے، ان کے درمیان اس حدیث کے علاوہ احادیث میں اعرج ہے۔ واللہ اعلم، نیز اس ارشاد گرامی سے حجت پکڑی ہے : یسلم القلیل علی الکثیر (1) (صحیح مسلم، کتاب السلام، جلد 2، صفحہ 212) تھوڑے زیادہ پر سلام کریں، جب اس بات پر اجماع ہے کہ ایک شخص پوری جماعت کو سلام کرسکتا ہے تو تکرار کی ضرورت نہیں اسی طرح ایک شخص جماعت کی طرف سے لوٹا دے وہ دوسروں کے قائم مقام ہوجائے گا جیسے فروض کفایہ ہوتے ہیں۔ امام مالک (رح) نے حضرت زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” سوار پیدل چلنے والے پر سلام کرے اور جب قوم میں سے ایک سلام کرے تو تمام کی طرف سے کافی ہوگا “۔ (2) (مؤطا امام مالک، کتاب الجامع، صفحہ 724) ہمارے علماء نے فرمایا : یہ دلیل ہے کہ ایک کا جواب دینا کافی ہے اور ایک شخص کے جواب دینے کے جواز میں اس کو حجت بنایا ہے۔ اس میں قلق ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فحیوا باحسن منھا اور ددھا “۔ بہتر لوٹانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زائد الفاظ کہے، وہ کہے : وعلیک السلام ورحمۃ اللہ، یہ اس کے جواب میں کہے، جس نے سلام علیک کہا اگر وہ کہے : سلام علیک ورحمۃ اللہ تو تم وبرکاتہ “۔ جواب میں زائد کرو، یہ انتہا ہے اس پر مزید کچھ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے البیت الکریم کی طرف سے خبر دیتے ہوئے فرمایا ” ورحمۃ اللہ وبرکاتہ “۔ جیسا کہ آگے بیان آئے گا اگر اس کا سلام غایت پر ختم ہو تو تو اس کے لوٹانے میں ابتدا میں واؤ کا اضافہ کر دے اور تو کہے وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ “۔ اور بالمثل لوٹانے کا مطلب یہ ہے کہ جو تجھے کہا السلام علیکم تو اس کے جواب میں ” علیک السلام کہہ دے مگر مناسب یہ ہے کہ سلام جمع کے صیغہ کے ساتھ کیا جائے اگرچہ جس کو سلام کیا گیا ہے وہ ایک ہی ہو۔ اعمش نے ابراہیم نخعی سے روایت کیا ہے فرمایا : جب تو ایک شخص کو سلام کرے تو السلام علیکم کہہ، کیونکہ اس کے ساتھ ملائکہ ہوتے ہیں اسی طرح جواب بھی جمع کے صیغہ کے ساتھ ہو، ابن ابی زید نے کہا : سلام کرنے والا السلام علیکم کہے اور جواب دینے والا وعلیکم السلام کہے یا کہے السلام علیکم جیسا اسے کہا گیا ہے۔ (آیت) ” اور دوھا “۔ کا معنی ہے کہ تم اس کے جواب میں سلام علیک نہ کہو۔ مسئلہ نمبر : (4) سلام کرنے میں بہتر اور ادب یہ ہے کہ مخلوق کے اسم پر اللہ تعالیٰ کے اسم کو مقدم کرے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” علی ال یاسین “۔ (الصافات) حضرت ابراہیم کے قصہ میں فرمایا : (آیت) ” رحمت اللہ وبرکتہ علیکم اھل البیت “۔ (ہود : 73) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے خبر دیتے ہوئے فرمایا (سلام علیک) صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے (3) (صحیح مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا، جلد 2۔ صفحہ 380) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا، ان کا طول ساٹھ ہاتھ تھا پھر جب انہیں تخلیق فرمایا : تو فرمایا تم جاؤ اور ان لوگوں پر سلام کرو، وہ فرشتوں کا گروہ تھا جو بیٹھا ہوا تھا۔ پھر جو تجھے وہ جواب دیں وہ تیرا اور تیری اولاد کا سلام ہوگا “۔ فرمایا : حضرت آدم (علیہ السلام) چلے گئے اور کہا : السلام علیکم تو جواب میں فرشتوں نے کہا : وعلیک السلام ورحمۃ اللہ “۔ فرمایا ” انہوں نے ورحمۃ اللہ زیادہ کہا :“۔ فرمایا ” ہر وہ شخص جو جنت میں داخل ہوگا وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی صورت پر ہوگا اس کا قد لمبائی میں ستر ہاتھ ہوگا حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد مخلوق کم ہوتی رہی حتی کہ کہ اب تک کم ہوتی رہی “۔ میں کہتا ہوں : یہ حدیث اپنی صحت کے ساتھ فوائد کی جامع ہے۔ (1) آدم کی تخلیق کی صفت کے متعلق خبر دینا۔ (2) ہم اللہ کے فضل سے اس صفت پر جنت میں داخل ہوں گے۔ (3) تھوڑے لوگوں کا زیادہ لوگوں پر سلام کرنا۔ (4) اللہ تعالیٰ کے اسم کو مقدم کرنا۔ (5) سلام بالمثل لوٹانا کیونکہ فرشتوں کو آپ نے کہا : السلام علیکم۔ (6) لوٹانے میں زیادتی کرنا۔ (7) تمام لوگوں کا جواب دینا جیسا کہ کو فیوں کا قول ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (5) اگر کوئی سلام کا جواب دے اور جو سلام کرنے والے کے اسم کو مقدم کر دے تو یہ حرام اور مکروہ نہیں، کیونکہ نبی مکرم ﷺ سے یہ ثابت ہے جس شخص نے اچھی طرح نماز نہیں پڑھی تھی اس نے آپ ﷺ کو سلام کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا : ” وعلیک السلام ارجع فصل فانک لم تصل، (1) (صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 170) تم پر سلام ہو تو لوٹ جاؤ اور پھر نماز پڑھ کیونکہ تو نے صحیح نماز نہیں پڑھی۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا تھا ؛ وعلیک السلام ورحمۃ اللہ، جب انہیں نبی مکرم ﷺ نے خبر دی تھی کہ جبریل انہیں اسلام کہہ رہا ہے، اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص کسی کو سلام بھیجے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے سلام کا اسی طرح جواب دے جس طرح سامنے والے شخص کو سلام کو جواب دیتا ہے، ایک شخص نبی مکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : میرا والد آپ کو سلام عرض کر رہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : علیک وابیک السلام (2) (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، جلد 2، صفحہ 351، ایضا حدیث نمبر 4554، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) تجھ پر اور تیری باپ پر سلام۔ نسائی اور ابو داؤد نے حضرت جابر بن سلیم کی حدیث روایت کی ہے انہوں نے کہا میں رسول اللہ ﷺ سے ملا میں نے کہا : علیک السلام یا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علیک السلام نہ کہو، کیونکہ علیک السلام تو میت کا سلام ہے۔ بلکہ تم کہو، السلام علیک (3) (سنن نسائی، کتاب الجنائز، جلد 1، صفحہ 287، ایضا سنن ابی داؤد، حدیث 3582، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ حدیث ثابت نہیں ہے۔ مگر عربوں کی عادت ہے کہ وہ جس کے خلاف دعا کرتے ہیں اس کا اسلم پہلے ذکر کرتے ہیں، مثلا علیہ لعنۃ اللہ وغضب اللہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وان علیک لعنتی الی یوم الدین “۔ (ص) شعراء کی مردوں کو سلام کرنے کی یہی عادت ہے، جیسے : علیک سلام اللہ قیس بن عاصم ورحمتہ ماشاء ان یترحما : شماخ نے کہا : علیک سلام من امیر وبارکت ید اللہ فی ذاک الادیم الممزق : آپ ﷺ نے اسے اس سے منع فرمایا اس لیے نہیں کہ وہ مردوں کے حق میں مشروع لفظ ہے، کیونکہ نبی مکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ مردوں پر اس طرح سلام کیا جس طرح آپ نے زندوں کو سلام کیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا : السلام علیکم دار قوم مومنین وانا انشاء اللہ بکم لاحقون “۔ (1) (سنن نسائی کتاب الجائز جلد 1، صفحہ 287، ایضا سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3562، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) حضرت عائشہ ؓ نے کہا : میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیف اقول اذا دخلت المقابر ؟ میں جب قبو میں داخل ہوں تو کیسے کہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : قولی السلام علیکم اھل الدیار من المؤمنین۔ (2) (مشکوۃ المصابیح، کتاب الادب، صفحہ 399) مزید انشاء اللہ سورة الھاکم میں تفصیل آئے گی۔ میں کہتا ہوں : یہ احتمال ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث تمام اہل قبور پر سلام کرنے میں ہو، جب کوئی ان میں داخل ہو اور ان پاس جائے، اور حضرت جابر بن سلیم کی حدیث اس گزرنے کے ساتھ خاص ہو جس سے زیارت مقصود ہو۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (6) سنت ہے کہ سوار، پیدل چلنے والے کو سلام کرے، کھڑا شخص بیٹھے ہوئے کو سلام کرے، تھوڑے زیادہ کو سلام کریں، صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے اسی طرح مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’ سوار سلام کرے “۔ (3) (صحیح مسلم کتاب السلام، جلد 2، صفحہ 212) پہلے سوار کا ذکر کیا اس کے علو مرتبہ کی وجہ سے نیز کیونکہ وہ اس سے تکبر کو دور کرے گا، اسی طرح پیدل چلنے والے کے بارے میں کہا جائے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : جب بیٹھنے والا، وقار، سکون اور ثبوت کی حالت پر ہے تو اس کو چلنے والے پر فضیلت حاصل ہے، کیونکہ اس کا حال اس کے برعکس ہے، تھوڑے لوگوں کا زیادہ لوگوں کو سلام کرنا مسلمانوں کی جمعیت اور اکثریت کے شرف کی رعایت رکھی گئی ہے۔ بخاری نے اس حدیث میں ویسلم الصغیر علی الکبیر “۔ (4) (صحیح بخاری، کتاب الاستیذان، جلد 2، صفحہ 921) (چھوٹا بڑے کو سلام کرے) کا اضافہ کیا ہے، رہا بڑے کا چھوٹے کو سلام کرنا تو وہ اشعث نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے وہ بچوں پر سلام کرنے کا نظریہ نہیں رکھتے تھے، انہوں نے کہا : سلام کا جواب دینا فرض ہے اور بچے پر سلام کا جواب دینا لازم نہیں پس ان کو سلام کرنا مناسب نہیں، ابن سیرین سے مروی ہے کہ وہ بچوں کو سلام کرتے تھے لیکن ان کا سلام سنتے نہیں تھے۔ اکثر علماء نے کہا بچوں کو سلام کرنا ان کو ترک کرنا ان کو ترک کرنے سے افضل ہے، صحیحین میں حضرت سیار سے مروی ہے فرمایا : میں ثابت کے ساتھ چلتا تھا وہ بچوں کے پاس سے گزرتے تھے تو انہیں سلام کرتے تھے، انہوں نے ذکر کیا کہ وہ حضرت انس ؓ کے ساتھ چلتے تھے آپ بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں سلام کرتے۔ (5) (صحیح مسلم کتاب السلام، جلد 2، صفحہ 214) یہ مسلم کے الفاظ کا ترجمہ ہے۔ یہ نبی مکرم ﷺ کے خلق عظیم میں سے ہے۔ اس میں چھوٹے بچے کے لیے تہذیب وتدریب ہے اور سنن کی تعلیم پر انہیں ابھارنا ہے اور اس میں شریعت کے آداب پر ان کی ریاضت ہے پس اس کی تقلید کرو، رہا عورتوں کو سلام کرنا تو یہ جائز ہے مگر نوجوان عورتیں جن سے بات کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو شیطان، وسوسہ یا آنکھ کی خیانت کی وجہ سے ان سے بات کرنے میں فتنہ کا خوف ہو تو انہیں سلام نہیں کرنا چاہیے، رہی بوڑھی عورتیں تو ان کا سلام کرنا اچھا ہے، کیونکہ وہاں امن ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ یہ عطا اور قتادہ ؓ کا قول ہے۔ امام مالک (رح) اور علماء کا ایک گروہ یہی نظریہ رکھتا ہے، کو فیوں نے اس سے منع کیا ہے جب ان میں ذوات محرم نہ ہوں، یہ علماء کہتے ہیں : جب عورتوں سے اذان، اقامت جہری قرات نماز میں ساقط ہے تو ان سے سلام کا جواب دینا بھی ساقط ہوگا پس انہیں سلام کیا ہی نہیں جائے گا، صحیح پہلا قول ہے۔ کیونکہ امام بخاری (رح) نے حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں، ہم جمعہ کے خوش ہوتے تھے، میں نے کہا : کیوں (خوش ہوتے تھے) ؟ انہوں نے کہا : ہماری ایک بوڑھی عورت تھی وہ بضاعہ کی طرف جاتی تھی ابن مسلمۃ نے کہا : مدینہ میں بضاعہ کھجور کا ایک باغ ہے، وہ وہاں سے چقندر کی جڑیں لیتی تھی انہیں ہانڈی میں ڈالتی تھی اور پھر جو کے دانے پیس کر ان پر ڈالتی تھی جب ہم جمعہ پڑھتے تھے اور واپس آتے تھے اسے سلام کرتے تھے وہ ہمیں کھانا پیش کرتی تھی، تو اس وجہ سے ہم خوش ہوتے تھے اور ہم نہ قیلولہ کرتے تھے نہ کھانا کھاتے تھے مگر جمعہ کے بعد (1) (صحیح بخاری کتاب الاستیذان، جلد 2 صفحہ 923) مسئلہ نمبر : (7) سلام اور جواب میں سنت بلند آواز سے کرنا اور جواب دینا ہے انگلیوں اور ہتھیلی سے اشارہ کرنا امام شافعی (رح) کے نزدیک کافی نہیں اور ہمارے نزدیک کافی ہے جب وہ دوری پر ہو، ابن وہب نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : السلام اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین پر رکھا ہے پس تم اسے آپس میں پھیلاؤ، انسان جب کسی قوم پر سلام کرتا ہے اور وہ اسے جواب دیتے ہیں تو اس شخص کو ان پر فضیلت ہوتی ہے، کیونکہ اس نے انہیں یاد دلایا، اگر وہ اسے سلام کا جواب نہ دیں تو اس کو وہ جواب دیتا ہے جو ان سے بہتر ہے اور پاکیزہ ہے، اعمش نے عمرو بن مرۃ سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن حارث سے روایت کیا ہے فرمایا : جب کوئی شخص کسی قوم پر سلام کرتا ہے تو اسے فضیلت ہوتی ہے، اگر وہ اسے جواب نہ دیں تو فرشتے اسے سلام کا جواب دیتے ہیں اور جواب نہ دینے والوں پر لعنت کرتے ہیں، جس کو سلام کیا جائے وہ سلام کا جواب سنا کر دے، کیونکہ جب وہ سلام نہیں سنائے گا تو وہ اس کا جواب شمار نہ ہوگا کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا ؟ جب کوئی شخص سلام کرے اور جس کو سلام کیا ہے وہ اسے نہ سنے تو اس کی طرف سے وہ سلام شمار نہ ہوگا۔ اسی طرح جو اس طرح جواب دے جو سنا نہ جائیی تو وہ جواب شمار نہ ہوگا، روای ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جب تم سلام کرو تو سناؤ اور جب تم جواب دو تو سناؤ اور جب تم بیٹھو تو امانت کے ساتھ بیٹھو اور تم میں سے کوئی کسی کی بات کو نہ اٹھائے “ ابن وہب نے کہا : مجھے اسامہ بن زید نے نافع سے روایت کر کے بتایا کہ میں شام کے ایک فقیہ کے ساتھ چل رہا تھا جس کو عبداللہ بن زکریا کہا جاتا تھا میری سواری پیشاب کرنے لگی تو اس نے مجھے روک لیا پھر میں اسے ملا اور میں نے اسے سلام نہ کیا، انہوں نے پوچھا تم نے سلام کیوں نہیں کیا ؟ میں نے کہا : میں ابھی تمہارے ساتھ تھا، انہوں نے فرمایا : اگر صحیح ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ چلتے تھے پھر درمیان میں درخت آجاتا تھا پھر جب ملتے تھے تو ایک دوسرے پر سلام کرتے تھے۔ مسئلہ نمبر : (8) کافر کو سلام کا جواب دینے کا حکم یہ ہے کہ اسے ” وعلیکم “ کہا جائے۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ کا قول ہے۔ اور آیت واذا حییتم بتحیۃ “۔ سے مراد یہ ہے مومن کی طرف سے جب سلام ہو (آیت) ” فحیوا باحسن منھا “۔ تو اس سے بہتر جواب دو اور اگر کافر کی طرف سے ہو تو اس طرح لوٹاؤ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں ” وعلیکم “ (1) (صحیح مسلم، کتاب السلام جلد 2، صفحہ 213) کہ جائے، عطانے کہا : یہ آیت مومنین کے ساتھ خاص ہے اور جو غیر مسلم سلام کرے تو اسے ” وعلیک “ کہا جائے گا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ میں کہتا ہوں : صحیح مسلم میں واؤ کا اثبات اور اسقاط آیا ہے۔ ” علیک “ (2) (صحیح مسلم، کتاب السلام جلد 2، صفحہ 213) بغیر واؤ کے یہ روایت بالکل واضح ہے۔ رہا واؤ کا اثبات تو انہیں اشکال ہے، کیونکہ واؤ عاطفہ تشریک کا تقاضا کرتی ہے پس اس سے لازم آتا ہے کہ ان کے ساتھ وہ بھی داخل ہیں جنہوں نے اس کے ساتھ ہمارے لیے موت کی دعا کی یا ہمارے دین کی موت کی دعا کی۔ اس کے متعلق علماء کے کئی اقوال ہیں۔ (1) واؤ اپنے باب پر عطف سے ہے۔ مگر ہماری دعا ان کے خلاف قبول ہوگی، ان کی بددعا ہمارے حق میں قبول نہیں ہوگی جیسا کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ زائدہ ہے، بعض نے فرمایا : یہ استیناف کے لیے ہے، پہلا قول اولی ہے۔ واؤ کے حذف کی روایت معنی کے اعتبار احسن ہے اور اس کا اثبات روایت کے اعتبار سے اصح واشہر ہے۔ یہی اکثر علماء کا نظریہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) ذمیوں کو سلام کا جواب دینے میں اختلاف ہے، کیا وہ مسلمانوں کے جواب کی طرح واجب ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ ، شعبی (رح) اور قتادہ ؓ نے آیت کے عموم اور حدیث صحیح میں ان پر سلام لوٹانے کے امر سے استدلال کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ جواب دینا واجب ہے، جب کہ اشہب اور ابن وہب کی روایت کے مطابق امام مالک (رح) کا نظریہ یہ ہے کہ واجب نہیں اگر تو جواب دے تو کہہ : علیک ‘ ابن طاؤس نے یہ پسند کیا ہے کہ انہیں جواب میں علاک السلام کہا جائے، یعنی تجھ سے سلام اوپر ہو۔ بعض علماء نے السلام (سین کے کسرہ کے ساتھ) کہنا پسند کیا ہے یعنی اس کے ساتھ پتھر ہو۔ امام مالک (رح) وغیرہ کا قول اس سلسلہ میں کافی وشافی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ سورة مریم میں (آیت) ” سلم علیک “۔ (مریم : 47) کے تحت ابتداء کرتے ہوئے انہیں سلام کرنے متعلق گفتگو آئے گی، صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تم جنت میں داخل نہ ہو گے حتی کہ تم ایمان لاؤ اور تم ایمان نہیں لاؤ گے حتی کہ تم آپس میں محبت کرو۔ کیا میں تمہاری ایک عمل پر راہنمائی نہ کروں جس کو تم کرو تم آپس میں محبت کرنے لگو، اپنے درمیان سلام کو پھیلاؤ“۔ (3) (صحیح مسلم، کتاب الایمان جلد 1، صفحہ 54) یہ حدیث مسلمانوں میں سلام پھیلانے کا تقاضا کرتی ہے نہ کہ مشرکین میں۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (10) نمازی پر سلام نہیں کیا جائے گا، اگر اسے سلام کیا جائے تو اختیار ہے اگر چاہے تو انگلی کے اشارے سے جواب دے، اگر چاہے تو جواب نہ دے حتی کہ نماز سے فارغ ہوجائے تو سلام کا جواب دے اور جو قضاء حاجت میں ہو اسے سلام نہیں کرنا چاہیے اگر اسے سلام کیا جائے تو اس پر جواب دینا واجب نہیں، ایک شخص نبی مکرم ﷺ کے پاس ایسی حالت میں آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” جب تو مجھے اس حالت میں پائے تو مجھ پر سلام نہ کر اگر تو مجھ پر سلام کرے گا تو میں تجھے جواب نہیں دوں گا “ (4) (سنن ابن ماجہ، باب الرجل یسلم وھو یبول، صفحہ 30) اور جو قرآن کی تلاوت کر رہا ہو اسے سلام نہ دیا جائے ورنہ وہ اس کی قرات کو قطع کرے گا قرآن پڑھنے والے کو اختیار ہے اگر چاہے تو جواب دے، چاہے تو جواب نہ دے حتی کہ تلاوت سے فارغ ہوجائے تو جواب دے، اور جو حمام میں ہو اسے سلام نہ دیا جائے جب کہ وہ شرم گاہ کھولے ہوئے ہو یا ایسے عمل میں مشغول ہو جس کے لیے وہ حمام میں داخل ہوا۔ اس کے علاوہ پر سلام کیا جائے۔ مسئلہ نمبر : (11) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان اللہ کان علی کل شیء حسیبا “۔ اس کا معنی حفاظت کرنے والا ہے۔ بعض نے فرمایا : کفایت کرنے والا، یہ عربوں کے اس قول سے مشتق ہے احسبنی کذا، یعنی اس نے میری کفایت کی اور اس کی مثل حسبک اللہ ہے، قتادہ نے کہا : محاسبا، جیسے کہا جاتا ہے : اکیل بمعنی مواکل ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ حساب سے فعیل ہے یہاں یہ صفت اچھی ہے، کیونکہ آیت کا معنی انسان کی زیادتی یا کمی یا پوری مقدار کے بارے میں ہے۔ نسائی نے حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : ہم نبی مکرم ﷺ کے پاس تھے ایک شخص آیا اس نے سلام کیا اس نے السلام علیکم کہا : رسول اللہ ﷺ نے اسے جواب دیا اور کہا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ “۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے جواب دیا اور فرمایا :” بیس (نیکیاں حاصل کیں) “ پھر وہ بیٹھ گیا اور ایک دوسرا شخص آیا اس نے کہا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، رسول اللہ ﷺ نے اسے جواب دیا اور فرمایا : تیس (نیکیاں حاصل کیں) (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الادب جلد 2، صفحہ 350، حدیث 4521، حدیث ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ خبر تفسیر کے ساتھ بھی آئی ہے وہ اس طرح کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی سے کہا : سلام علیکم تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اگر کہے : اسلام علیکم ورحمۃ اللہ تو اس کے لیے بیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اگر کہے : اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، تو اس کے لیے تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اسی طرح جو جواب ہیں اس طرح کہے اس کے لیے اجر ہے۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو “۔ یہ مبتدا اور خبر ہے۔ اور (آیت) ” لیجمعنکم “۔ میں لام قسم ہے یہ ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے قیامت کے روز دوبارہ اٹھنے کے بارے میں شک کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنی قسم اٹھائی۔ ہر وہ لام جس کے بعد نون مشددہ ہو وہ لام قسم ہوتا ہے، اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ موت میں اور زمین کے نیچے تمہیں ضرور جمع کرے گا۔ (آیت) ” الی یوم القیمۃ “۔ بعض علماء نے فرمایا : کلام میں الی صلہ ہے اس کا معنی ہے (آیت) ” لیجمعنکم یوم القیمۃ “۔ قیامت کو قیامت اس لیے کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” الا یظن اولئک انھم مبعوثون، لیوم عظیم، یوم یقوم الناس لرب العلمین “۔ (مطففین) بعض نے فرمایا : (آیت) یوم القیمۃ “۔ اس لیے کہا جاتا ہے، کیونکہ لوگ اس کی طرف اپنی قبور سے کھڑے ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” یوم یخرجون من الاجداث سراعا “۔ (المعارج : 43) قیامۃ کی اصل واو سے ہے۔ (آیت) ” ومن اصدق من اللہ حدیثا “۔ بیان کی بنا پر (آیت) ” حدیثا “ کو نصب ہے معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچا کوئی نہیں ہے۔ حمزہ اور کسائی نے ومن ازدق زا کے ساتھ پڑھا ہے، باقی قراء نے صاد کے ساتھ پڑھا ہے۔ اصل صاد ہے لیکن مخرج کے قرب کی وجہ سے اس کی جگہ زا پڑھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فمالکم فی المنفقین فئتین “۔ یعنی تم دو مختلف گروہ کیوں بن گئے، مسلم نے حضرت زید بن ثابت سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ احد کی طرف نکلے تو کچھ لوگ واپس آگئے جو آپ کے ساتھ تھے، نبی مکرم ﷺ کے اصحاب ان کے معاملہ میں دو گروہوں میں بٹ گئے، بعض نے کہا : ہم انہیں قتل کریں گے، بعض نے کہا : نہیں تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” فمالکم فی المنفقین فئتین “۔ (1) (صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین واحکامہم، جلد 2، صفحہ، 369) اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور یہ زائد فرمایا ہے کہ (مدینہ) طیبہ ہے اور فرمایا یہ خبیث کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح آگ لوہے کے خبث کو دور کرتی ہے، امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (2) (جامع ترمذی، کتاب التفسیر جلد 2، صفحہ 127، حدیث نمبر 2954، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) امام بخاری نے یہ الفاظ ذکر کیے ہیں ” مدینہ طیبہ ہے یہ خبث کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح آگ چاندی کے کھوٹ کو دور کرتی ہے۔ (3) (صحیح بخاری، کتاب التفسیر جلد 2، صفحہ 660) یہاں منافقین سے مراد عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہیں جنہوں نے جنگ احمد میں رسول اللہ ﷺ کو پریشان کیا اور جنگ کی طرف نکلنے کے بعد واپس آگئے جس طرح کہ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو مکہ میں ایمان لائے تھے اور ہجرت نہیں کی تھی، (4) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 88 دارالکتب العلمیہ) ضحاک ؓ نے کہا : انہوں نے کہا اگر محمد ﷺ غالب آجائیں گے تو ہم جان لیں گے اگر ہماری قوم غالب آجائے گی تو وہ ہمیں زیادہ محبوب ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے صحابہ ان سے دوستی رکھتے تھے اور کچھ ان سے برات کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فمالکم فی المنفقین فئتین “۔ ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ یہ ایک ایسی قوم کے متعلق نازل ہوئی جو مدینہ طیبہ میں آئے، اسلام کا اظہار کیا اور انہیں مدینہ طیبہ کی وبا اور بخار نے آلیا تو وہ واپس چلے گئے اور مدینہ سے نکل گئے نبی مکرم ﷺ کے کچھ صحابہ انہیں راستہ میں ملے تو پوچھا : تم کیوں واپس آگئے ؟ وہ کہنے لگے : ہمیں مدینہ کی وبا نے آلیا ہے اور ہمیں مدینہ کی ہوا راس نہ آئی، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کہا : کیا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات میں نمونہ نہیں ؟ بعض صحابہ نے کہا : یہ منافق ہیں بعض نے کہا ؛ منافق نہیں، یہ مسلمان ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” فمالکم فی المنفقین فئتین “۔ الایۃ حتی کہ وہ مدینہ طیبہ آئے تھے تو وہ کہتے تھے کہ وہ ہجرت کرنے والے ہیں پھر وہ اس کے بعد مرتد ہوگئے تھے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے مکہ کی طرف جانے کی اجازت طلب کی تاکہ وہ اپنے سامان کے پاس آئیں اور اس میں تجارت کریں، پس مومنوں نے اس کے بارے اختلاف کیا، بعض نے کہا : یہ منافق ہیں، بعض نے کہا : مومن ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے ان کے نفاق کو بیان فرما دیا یہ آیت نازل فرمائی اور انہیں قتل کرنے کا حکم دیا۔ میں کہتا ہوں : ان دونوں اقوال کی آیت کے آخر میں سیاق تائید کرتا ہے ارشاد ہے : (آیت) ” حتی یھاجروا “۔ اور پہلا قول نقل کے اعتبار سے اصح ہے، وہ بخاری، مسلم اور ترمذی کا مختار ہے، فئتین کو حال کی بنا پر نصب دی گئی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے : مالک قائما۔ اخفش سے یہ مروی ہے۔ اور کوفی علماء نے کہا : یہ مالکم کی خبر ہے جس طرح کان اور ظننت کی خبر ہوتی ہے انہوں نے الف، لام کا اس میں داخل کرنا جائز قرار دیا، فراء نے کہا : ارکسھم اور رکسھم دونوں کا معنی ہے کفر کی طرف انہیں لوٹا دیا اور انہیں اوندھا کردیا، یہ نظر بن شمیل اور کسائی کا قول ہے، الرکس اور النکس کا معنی ہے کسی کو سر کے بل اوندھا گرا دینا یا اول کو آخر پر لوٹا دینا، المرکوس کا معنی ہے المئکوس اوندھا گرایا گیا، حضرت عبداللہ اور حضرت ابی ؓ کی قرات میں واللہ رکسھم تھا (1) (احکام القرآن للطبری، جلد 5، صفحہ 227) ابن رواحہ نے کہا : ارکسوا فی فتنۃ مظلمۃ کسواد اللیل یتلوھا فتن : یعنی وہ تاریک فتنہ میں اوندھے کیے گئے ارتکس فلان فی امرکان نجامنہ، یعنی آدمی اس کام میں اوندھا ہوگیا جس سے پہلے نکل چکا تھا، الرکوسیئۃ ایک قوم ہے جو نصاری اور صائبین کے درمیان ہے۔ الراکس اس بیل کو کہتے ہیں جو کھلیان کے وسط میں ہوتا ہے اور دوسرے بیل گاہنے کے وقت اس کے اردگرد ہوتے ہیں۔ (آیت) ” اتریدون ان تھدوا من اضل اللہ “۔ یعنی تم اس کی ثواب کی طرف راہنمائی کرو گے کہ وہ ان کے لیے مومنین کا حکم لگائے۔ (آیت) ” فلن تجدلہ سبیلا “۔ یعنی رشد وہدایت اور حجت طلب کرنے کا راستہ اس میں قدریہ کا رد ہے جو اپنی ہدایت کی تخلیق کے قائل ہیں یہ پہلے گزر چکا ہے۔
Top