Al-Qurtubi - An-Nisaa : 92
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَئًا١ۚ وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا١ؕ فَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ١ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ١٘ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مسلمان کے لیے اَنْ يَّقْتُلَ : کہ وہ قتل کرے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان اِلَّا خَطَئًا : مگر غلطی سے وَمَنْ : اور جو قَتَلَ : قتل کرے مُؤْمِنًا : کسی مسلمان خَطَئًا : غلطی سے فَتَحْرِيْرُ : تو آزاد کرے رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان وَّدِيَةٌ : اور خون بہا مُّسَلَّمَةٌ : حوالہ کرنا اِلٰٓى اَھْلِهٖٓ : اس کے وارثوں کو اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّصَّدَّقُوْا : وہ معاف کردیں فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہو مِنْ : سے قَوْمٍ عَدُوٍّ : دشمن قوم لَّكُمْ : تمہاری وَھُوَ : اور وہ مُؤْمِنٌ : مسلمان فَتَحْرِيْرُ : تو آزاد کردے رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو مِنْ قَوْمٍ : ایسی قوم سے بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَھُمْ : اور ان کے درمیان مِّيْثَاقٌ : عہد (معاہدہ فَدِيَةٌ : تو خون بہا مُّسَلَّمَةٌ : حوالہ کرنا اِلٰٓى اَھْلِهٖ : اس کے وارثوں کو وَتَحْرِيْرُ : اور آزاد کرنا رَقَبَةٍ : ایک گردن (غلام) مُّؤْمِنَةٍ : مسلمان فَمَنْ : سو جو لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزے رکھے شَهْرَيْنِ : دو ماہ مُتَتَابِعَيْنِ : لگاتار تَوْبَةً : توبہ مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور کسی مومن کو شایان نہیں کہ مومن کو مار ڈالے مگر بھول کر اور جو بھول کر بھی مومن کو مار ڈالے تو (ایک تو) ایک مسلمان غلام آزاد کریں اور (دوسرے) مقتول کے وارثوں کو خون بہادے ہاں اگر وہ معاف کریں (تو ان کو اختیار ہے) اگر مقتول تمہارے دشمنوں کی جماعت میں سے ہو اور وہ خود مومن ہو تو صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہے اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو تو وارثان مقتول کو خون بہا دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہے اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ متواتر دو مہینے متواتر روزے رکھے یہ (کفارہ) خدا کی طرف سے (قبول) توبہ (کے لیے) ہے اور خدا (سب کچھ) جانتا (اور) بڑی حکمت والا ہے
آیت نمبر : 92۔ اس آیت میں بیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطا “۔ یہ اہم احکامات کے متعلق ہے اس کا معنی یہ ہے کہ مومن کی شان کے لائق نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے مگر خطا سے، (آیت) ” وما کان “۔ یہ نفی کے معنی پر نہیں بلکہ یہ تحریم اور نہی کے معنی میں ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وما کان لکم ان تؤذوا رسول اللہ “۔ (الاحزاب : 53) اگر یہ نفی کی بنا پر ہوتا تو کبھی کوئی مومن نہ پایا جاتا جو کسی مومن کو قتل کرتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کی نفی کردے اس کو وجود جائز نہیں ہوتا جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ماکان لکم ان تثبتوا شجرھا (النمل : 60) بندے کبھی بھی درخت کے اگانے پر قادر نہیں ہوں گے۔ قتادہ ؓ نے کہا : اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عہد میں اس کے لیے یہ نہیں تھا، بعض علماء نے فرمایا : گزشتہ زمانہ میں اس کے لیے یہ جائز نہیں تھا جس طرح اب کسی وجہ سے جائز نہیں پھر استثنی منقطع فرمائی یہ پہلے میں سے نہیں ہے، یہاں الا بمعنی کن ہے تقدیر یوں ہوگی کبھی بھی اس کے لیے مومن کو قتل کرنا جائز نہیں مگر اسے خطاء قتل کر دے تو اس پر یہ یہ ہوگا، یہ سیبویہ اور زجاج کا قول ہے، اور استثنا منقطع میں سے یہ ہے (آیت) ” مالھم بہ من علم الا اتباع الظن “۔ انہیں اس کی کچھ خبر نہیں مگر گمان کی پیروی۔ نابغہ نے کہا : وقفت فیھا اصیلانا اسائلھا عمت جوابا وما بالربع من احد : الا الاواری لایا ما ابینھا والنوی کالحوض بالمظلومۃ الجلد : جب الا واری حقیقۃ احد کی جنس سے تھیں تو اس کے لفظ میں داخل نہیں، اسی طرح ایک اور شاعر نے کہا : امسی سقام خلاء لا انیس بہ الا السباع ومر الریح بالغرف : (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 92 دارالکتب العلمیہ) ایک اور شاعر نے کہا : وبلدۃ لیس بھا انیس الا الیعافیر والا العیس : ایک اور شاعر نے کہا : وبعض الرجال نخلۃ لاجنی لھا ولا ظل الا ان تعد من النخل سیبویہ نے یہ شعر اس مثال کے لیے دیا ہے کہ مستثنی منقطع بھی ہوتا ہے جو مستثنی منہ کی جنس سے نہیں ہوتا۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں، جریر کا قول کتنا انوکھا ہے : من البیض لم تظعن بعیدا ولم تطا علی الارض الا ذیل مرط مرحل (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 92 دارالکتب العلمیہ) گویا یوں کہا : لم تطا علیالارض الا ان تطاذیل البرد۔ یہ آیات کریمہ عیاش بن ابی ربیعہ کے حارث بن یزید کو قتل کرنے کے سبب نازل ہوئیں ان دونوں کے درمیان کینہ اور بغض تھا، جب حضرت حارث ؓ نے مسلمان ہو کر ہجرت کی تو حضرت عیاش ؓ اسے ملا اور اس نے اسے قتل کردیا اسے حضرت حارث کے اسلام لانے کا علم نہیں تھا، جب اسے بتایا گیا کہ حضرت حارث ؓ تو مسلمان تھا تو وہ نبی مکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : یا رسول اللہ ! میرا اور حارث کا یہ معاملہ ہوا مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہ تھا مجھے اس کے اسلام کا علم نہ ہوا حتی کہ میں نے اسے قتل کردیا تو یہ آیت نازل ہوئی، بعض علماء نے فرمایا : یہ استثنا متصل ہے یعنی مومن کی شان نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے اور نہ اس سے قصاص لیا جائے گا مگر وہ قتل خطاء ہو تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا لیکن ایسی ایسی صورت میں دوسریہ وجہ یہ ہے کہ یہاں کان بمعنی استقر اور وجد مقرر کیا جائے، گویا فرمایا : مومن کا مومن کو قتل کرنا جائز نہیں مگر جو خطاء سہو، کیونکہ کبھی وہ اس میں مغلوب ہوتا ہے، ان دونوں تاویلوں پر استثنا غیر منقطع ہوگا، یہ آیت اپنے ضمن میں قتل عمد کی بڑائی اور اس کی برائی کو لیے ہوئے ہے جیسے تو کہتا ہے : اے فلاں تجھے یہ کلام کرنی جائز نہیں مگر یہ کہ بھول کر۔ یعنی عمدا تو ایسی کلام بہت بڑا گناہ ہے اور یقینی طور پر ایسی کلام کرنا ممنوع ہے، بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے ولا خطاء یعنی خطاء بھی یہ جائز نہیں، نحاس نے کہا : الا بمعنی واؤ ہونا جائز نہیں، یہ کلام عرب میں معروف نہیں اور معنی میں یہ صحیح نہیں کیونکہ خطا ممنوع نہیں۔ دلیل خطاب سے کافر کے مسلمان کو قتل کرنے کا جواز نہیں سمجھا جاسکتا، کیونکہ مسلمان کا خون محترم ہے مومن کا ذکر خاص طور پر تاکیدا کیا گیا ہے، کیونکہ اس سے محبت، بھائی چارہ، شفقت اور عقیدت ہوتی ہے، اعمش نے خطاء کو تینوں جگہ ممدود پڑھا ہے، خطاء کی بہت سی صورتیں ہیں جن کا شمار نہیں ہوسکتا سب میں قدر مشترک قصد کا نہ ہونا ہے، مثلا کسی نے مشرکین کی صفوں پر تیر پھینکا تو کسی مسلمان کو جا لگا اسی طرح جو کسی زانی یا محارب یا مرتد کو قتل کرنے کی سعی کر رہا تھا اسے طلب کیا تاکہ اسے قتل کرے کوئی دوسرا اسے ملا اس نے اسے وہی سمجھا اور اسے قتل کیا تو یہ بھی خطا ہے، اسی طرح کسی نے کسی شکار پر نشانہ لگایا وہ کسی انسان یا کسی اور چیز کو لگ گیا تو یہ بھی خطا ہے، ان تمام صورتوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ الخطاء اخطاء خطا واخطا سے اسم ہے جب کہ جان بوجھ کر ایسا نہ کیا ہو۔ الخطا اخطا کے قائم مقام ہے، اخطا اس شخص کے لیے کہا جاتا ہے کہ جو کسی کام کا ارادہ کرتا ہے پھر وہ دوسرا کام کربیٹھے، اور جو غیر درست کام کرے اس کے لیے اخطا بولا جاتا ہے، ابن المنذر نے کہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطا، ومن قتل مؤمنا خطا فتحریر رقبۃ مؤمنۃ ودیۃ مسلمۃ الی اھلۃ “۔ جو خطاء کسی کو قتل کرے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق دیت کا حکم دیا ہے، اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے سنت ثابت ہے۔ اہل علم کا اس قول پر اجماع ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) داؤد کا نظریہ ہے کہ نفس کے ضیاع میں آزاد اور غلام کے درمیان قصاص ہوگا اور ہر اس عضو میں قصاص ہوگا جس کا قصاص لیا جاسکتا ہے، اور انہوں نے اس آیت سے دلیل پکڑی ہے۔ : (آیت) ” وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن، والجروح قصاص “۔ (المائدہ : 45) اور نبی مکرم ﷺ سے حجت پکڑی ہے، المسلمون تتکافا دماء ھم (1) (سنن ابن ماجہ ابواب الدیات، صفحہ 197) مسلمانوں کے خون برابر ہیں، آپ ﷺ نے آزاد اور غلام میں کوئی تفریق نہیں کی ہے، یہ ابن ابی لیلی کا قول ہے، امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب نے کہا : آزاد اور غلام کے درمیان قصاص نہیں مگر نفس کے ضیاع میں، پس آزاد کو غلام کے بدلے قتل کیا جائے گا جس طرح آزاد کے بدلے غلام کو قتل کیا جائے گا اور زخموں اور اعضاء میں سے کسی چیز میں ان کے درمیان قصاص نہ ہوگا، علماء کا اللہ تعالیٰ کے فرمان : (آیت) ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطا “۔ کے متعلق اجماع ہے کہ اس میں غلام داخل نہیں اس سے آزاد مراد ہیں غلام مراد نہیں، اسی طرح نبی کریم ﷺ کے ارشاد المسلمون تتکافا دماء ھم “۔ (2) (ایضا حدیث نمبر 2674، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) سے مراد بھی آزاد ہیں، جمہور علماء کا یہی نظریہ ہے جب غلاموں اور آزاد لوگوں کے درمیان نفس سے کم میں قصاص نہیں تو نفس اس کا زیادہ حق دار ہے۔ یہ مسئلہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فتحریر رقبۃ مؤمنۃ “۔ یعنی اس پر غلام کا آزاد کرنا ہے، یہ وہ کفارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے کفارہ قتل اور کفارہ ظہار میں واجب فرمایا ہیعلماء کا اختلاف ہے کہ کون سا غلام کافی ہے، حضرت ابن عباس ؓ حسن ؓ ، شعبی، نخعی اور قتادہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وغیرہ نے کہا : وہ رقبہ (غلام) مومنہ ہے، یہ وہ ہے جس نے نماز پڑھی ہو اور ایمان کو سمجھا ہو، اس میں چھوٹا غلام کافی نہیں اس باب میں یہی صحیح ہے، عطاء بن ابی رباح نے کہا : مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والا چھوٹا بچہ بھی کافی ہے۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 93 دارالکتب العلمیہ) ایک جماعت نے کہا : ان میں سے امام مالک (رح)، اور امام شافعی (رح) بھی ہیں، ہر وہ غلام جائز ہے جس کی نماز جنازہ پڑھنے اور اسے دفن کرنے کا حکم دیا گیا ہے، امام مالک (رح) نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی، اور روزہ رکھا وہ میرے نزدیک محبوب (4) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 93 دارالکتب العلمیہ) اور تمام علماء کے نزدیک اندھا، اپاہج جس کے ہاھت یا پاؤں کٹے ہوئے ہوں یا جس کے ہاتھ، پاؤں شل ہوں ایسا غلام جائز نہیں۔ اکثر علماء نے نزدیک لنگڑا اور کانا جائز ہے مالک نے کہا : مگر بہت زیادہ لنگڑا ہو جائز نہیں۔ اور امام مالک (رح)، امام شافعی (رح) اور اکثر علماء کے نزدیک جس کا ایک ہاتھ یا ایک پاؤں کٹا ہوا ہو جائز نہیں ،۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب کے نزدیک یہ جائز ہے۔ اور اکثر علماء نے نزدیک دائمی مجنون جائز نہیں۔ امام مالک (رح) نزدیک وہ غلام جائز نہیں جس کو جنون لاحق ہوتا ہے اور پھر ٹھیک ہوجاتا ہو۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک جائز ہے، امام مالک (رح)، ایسا غلام جائز نہیں جو دو سال تک آزاد کیا جائے گا، امام شافعی (رح) کے نزدیک جائز ہے مدبر غلام امام مالک (رح) اوزاعی اور اصحاب الرائے کے نزدیک جائز نہیں۔ امام شافعی (رح) اور ابوثور (رح) کے قول میں جائز ہے۔ ابن المنذر (رح) نے اس کو پسند کیا ہے، امام مالک (رح) نے کہا : وہ صحیح نہیں جس کا بعض آزاد ہوچکا ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فتحریر رقبۃ “۔ اور جس کا بعض آزاد ہوچکا ہو اس کے آزاد کرنے والے کو یہ نہیں کہا جاتا کہ اس نے رقبۃ (غلام) آزاد کیا بلکہ کہا جاتا ہے : غلام کا بعض آزاد کیا، اس کے معنی میں بھی اختلاف ہے، بعض نے فرمایا : گناہ سے پاک کرنے اور قاتل کے گناہ کی طہارت کے لیے یہ کفارہ واجب کیا گیا ہے اور اس کا گناہ احتیاط کا ترک اور تحفظ کا ترک ہے حتی کہ اس کے ہاتھوں ایک ایسا شخص ہلاک ہوا جس کا خون محفوظ تھا، بعض علماء نے فرمایا : مقتول میں جو اللہ تعالیٰ کا حق تھا اس کو معطل کرنے کی وجہ سے بطور بدل یہ کفارہ واجب کیا ہے اس کے لیے اس کے حق میں ایک حق تھا اور وہ زندگی سے لطف اندوز ہونا تھا اور حلال کرنا چیزوں میں تصرف ہے اور اللہ تعالیٰ کا اس میں حق تھا وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا اس کے لیے عبودیت کا اسم ثابت تھا، خواہ وہ بڑا تھا یا چھوٹا تھا، آزاد تھا یا غلام تھا، مسلمان تھا یا ذمی تھا، جس کے ذریعیی وہ جانوروں اور بہائم ممتاز ہوتا تھا اور اس کے ساتھ اس سے امید تھی کہ اسکی نسل سے کوئی ایسا شخص پیدا ہو جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گا اور اطاعت کرے گا، اور قاتل اس سے خالی نہ ہوگا کہ اس نے اس سے وہ اسم (نام) فوت کیا جس کا ہم نے پیچھے ذکر کیا ہے اور وہ معنی جس کو ہم نے بیان کیا ہے اسی وجہ سے کفارہ کا وہ ضامن ہے یعنی ان دونوں معانی میں سے ایک معنی ہو، پس اس میں بیان ہے کہ نص اگرچہ خطاء قاتل پر واقع ہے اور عمدا قتل کرنے والا بھی اس کی مثل ہے بلکہ اس نفس کے قتل کی وجہ سے اس پر کفارہ کا وجوب اولی ہے۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ودیۃ مسلمۃ “۔ دیت اس مال کو کہا جاتا ہے جو مقتول کے کے ولی کو مقتول کے خون کے عوض دیا جاتا ہے۔ (آیت) مسلمۃ “۔ جو دیا گیا ہو، ادا کیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں دیت کے طور پر جو مال دیا جائے گا اس کی تعیین نہیں فرمائی آیت میں مطلقا دیت کے وجوب کا ذکر ہے، اس میں دیت کے عاقلہ پر ہونے یا قاتل پر ہونے کا ذکر نہیں فرمایا : یہ حدیث پاک سے لیا گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مواسات کا ایجاب عاقلہ، غرامات (جرمانہ) اور تلف شدہ چیزوں کے اصول کے خلاف ہے اور جو عاقلہ پر واجب ہے وہ تغلیظا واجب نہیں اور نہ قاتل کا بوجھ ان پر ڈالا گیا ہے بلکہ یہ محض ہمدردی اور مواسات ہے، امام ابوحنیفہ (رح) کا نظریہ ہے کہ یہ نصرت کے اعتبار سے ہے، پس انہوں نے اہل دیوان (وہ محکمہ والے جس میں وہ کام کرتا) پر اس کو واجب کیا ہے اور نبی مکرم ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے کہ دیت سو اونٹ ہیں، نبی مکرم ﷺ نے عبداللہ بن سہل کی دیت، جو خبیر میں قتل کیے گئے تھے حویصہ، محیصۃ اور عبدالرحمن کو، سو اونٹ عطا فرمائی، یہ کتاب کے مجمل کا نبی مکرم ﷺ کی زبان پر بیان ہے۔ اہل علم کا اجماع ہے کہ اونٹوں والوں پر سو اونٹ ہیں اور جو اونٹوں والے نہیں ہیں ان کی دیت میں اختلاف ہے، ایک جماعت نے کہا : سونے والوں پر ہزار دینار ہیں او وہ اہل شام اور اہل مصر اور اہل مغرب ہیں، یہی قول امام مالک (رح)، امام احمد (رح) اسحاق (رح)، اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علیہم کا ہے اور یہی امام شافعی (رح) کا پہلا قول ہے اور یہ حضرت عمر، حضرت عروہ بن زبیر اور قتادہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین مروی ہے اور چاندی والوں پر بارہ ہزار دراہم ہیں، یہ اہل عراق فارس اور خراسان کا قول ہے یہی امام مالک (رح) کا مذہب ہے اس بنا پر کہ حضرت عمر ؓ سے انہیں یہ خبر پہنچی ہے کہ انہوں نے اہل القری (شہریوں) پر دیت کی قیمت لگائی جو سونے والوں پر ہزار دینار اور چاندی والوں بارہ ہزار درہم مقرر فرمائے، امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب اور ثوری (رح) نے کہا : چاندی کی دیت دس ہزار دراہم ہے، اور شعبی (رح) نے عبیدہ (رح) سے اور انہوں نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے سونے والوں پر ہزار دینار دیت مقرر فرمائی اور چاندی والوں پر دس ہزار دراہم مقرر فرمائے اور گائیوں والوں پر دو سو گائیں اور بکریوں والوں پر ہزار بکریاں اور اونٹوں والوں پر سو اونٹ مقرر فرمائے اور کپڑوں والوں پر دو سو جوڑے مقرر فرمائے، ابو عمر ؓ نے کہا : اس حدیث میں دلیل ہے کہ دنانیر اور دراہم، دیت کی اصناف میں ایک صنف ہے، بطور بدل اور قیمت نہیں ہیں یہی حضرت عثمان، حضرت علی، اور حضرت ابن عباس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی حدیث سے ظاہر ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے حضرت عمر ؓ سے مروی گائیوں اور بکریوں اور کپڑوں کے جوڑوں میں اختلاف کیا ہے اور یہی قول عطاء طاؤوس اور تابعین کی ایک جماعت کا ہے اور یہی قول مدینہ طیبہ کے ساتوں فقہاء کا ہے، ابن المنذر (رح) نے کہا : ایک طائفہ نے کہا : آزاد مسلمان کی دیت سو اونٹ ہے اس کے علاوہ کوئی دیت نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے متعین فرمائی ہے، یہی قول امام شافعی (رح) کا ہے اور یہی قول طاؤوس کا ہے۔ ابن المنذر (رح) نے کہا : آزاد مسلمان کی دیت ہر زمانہ میں سو اونٹ ہوگی، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے متعین فرمائی اور حضرت عمر ؓ سے دراہم کی تعداد کے بارے میں روایات مختلف ہیں اور ان روایات میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے، کیونکہ وہ تمام مراسیل ہیں، میں نے تجھے امام شافعی (رح) کا مذہب بتایا اور ہم اس کے مطابق کہتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (5) فقہاء کا دیت کے اونٹون کی عمروں میں اختلاف ہے۔ ابو داؤد نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کی دیت کا فیصلہ سو اونٹ فرمایا جو خطاء قتل کیا گیا ہو، تیس بنت مخاض، تیس بنت لبون، تیس حقے، اور دس ابن لبون، خطابی نے کہا : میں کسی فقیہ کو نہیں جانتا جس نے اس حدیث کے مطابق قول کیا ہو، اکثر علماء نے فرمایا : قتل خطا کی دیت کے پانچ حصے ہیں۔ اسی طرح اصحاب الرائے اور ثوری (رح) نے کہا ہیی۔ اسی طرح امام مالک، ابن سیرین اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے، مگر انہوں نے اصناف میں اختلاف کیا ہے۔ اصحاب الرائے اور امام احمد (رح) نے کہا : پانچواں حصہ ابن محاض، پانچواں حصۃ بنت مخاض، پانچواں حصہ بنت لبون، پانچواں حصہ حقے پانچواں حصہ جذعے، پانچواں حصہ بنت لبون، پانچواں حصہ بنت مخاض، پانچواں حصہ ابن لبون، یہ قول حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے، امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) نے فرمایا : پانچواں حصہ حقاق، پانچواں حصہ جذاع پانچواں حصہ بنت لبون، پانچواں حصہ بنات مخاض، اور پانچواں حصہ بنولبون، یہ قول عمر بن عبدالعزیز (رح)، سیلمان بن یسار، زہری، ربیعہ، اور لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہم کا ہے، خطابی نے کہا : اصحاب الرائے کے لے اثر ہے مگر اس کا راوی عبداللہ بن خشف بن مالک ہے جو مجہول ہے اس حدیث کے علاوہ وہ معروف نہیں ہیں، امام شافعی (رح) نے اپنے قول سے عدول کیا اس کی وجہ راوی کی علت ہے جو ہم نے ذکر کی ہے کیونکہ اس میں بنی مخاض کا ذکر ہے اور صدقات کے اونٹوں کی عمروں میں بنی مخاض کا کوئی دخل نہیں ہے۔ نبی مکرم ﷺ سے قسامت کے واقعہ میں مروی ہے کہ آپ ﷺ نے خیبر کے قتیل کی دیت صدقہ کے اونٹوں میں سے اونٹ دیئے اور صدقہ کے اونٹوں میں ابن مخاض نہیں ہوتا، ابو عمر ؓ نے کہا : زید بن جبیر ؓ نے خشف بن مالک عن عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قتل خطا میں دیت پانچ قسم کی بیان فرمائی۔ مگر اس حدیث کو مرفوع کسی نے روایت نہیں کیا سوائے خشف بن مالک کوفی طائی کے یہ مجہول ہے، کیونکہ ان سے روایت نہیں کیا مگر زید بن جبیر بن حرمل طائی جثمی جو بنی جشم بن معاویہ کوفی ثقات میں سے ایک تھا۔ میں کہتا ہوں : دارقطنی نے اپنی سنن میں خشف بن مالک کی حدیث کو ذکر کیا ہے، حجاج بن ارطاۃ عن زید بن جبیر عن خشف بن مالک عن عبداللہ بن مسعود کی روایت سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے قتل خطا کی دیت میں سو اونٹ کا فیصلہ فرمایا : ان میں سے بیس حقے تھے، بیس جذعے تھے، بیس بنت لبون تھے، بیس بنت مخاض تھے، بیس بنو مخاص تھے، داقطنی نے کہا : یہ حدیث ضعیف ہے اور علماء فن حدیث کے نزدیک کئی وجوہ سے ثابت نہیں ہے ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ روایت اس روایت کے مخالف ہے جو ابو عبیدہ بن عبداللہ بن مسعود نے اپنے باپ سے سند صحیح کے ساتھ روایت کی ہے، جس میں کوئی طعن نہیں ہے، نہ اس کی کوئی تاویل ہے، ابو عبیدہ اپنے باپ کی حدیث، ان کے مذہب اور فتوی کو خشف بن مالک اور ان جیسے دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والے ہیں، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اپنے رب سے زیادہ ڈرنے والے تھے اور اپنے دین پر زیادہ حریص تھے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کریں کہ آپ نے ایسا فیصلہ فرمایا اور پھر وہ اس کے خلاف فتوی دیں یہ حضرت عبداللہ بن مسعود پر تصور نہیں کیا جاسکتا اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہوتا جس کے متعلق انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی بات نہ سنی ہوتی تھی اور نہ انہیں اس کے متعلق کوئی قول پہنچا ہوتا تو وہ کہتے : اس کے متعلق اپنے رائے دیتا ہوں۔ اگر تو وہ درست ہے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے ہے، پھر اس کے بعد انہیں یہ بات پہنچتی کہ ان کا فتوی رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے موافق ہے تو آپ کے ساتھی آپ کو بہت خوش دیکھتے تھے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق ان کا فتوی نکلا ہے کہ، جس شخص کی یہ صفت ہو اور یہ حالت ہو اس سے کیسے یہ صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے کوئی چیز روایت کریں اور پھر اس کی مخالفت کریں، دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ خبر مرفوع جس میں بنی مخاض کا ذکر ہے وہ ہم خشف بنمالک عن ابن مسعود کے سلسلہ سے جانتے ہیں اور خشف مجہول شخص ہے ان سے صرف زید بن جبیر بن حرمل الجثمی نے روایت کیا ہے، اور علماء حدیث ایک غیر معروف شخص کی منفرد روایت سے حجت نہیں پکڑتے ان کے نزدیک اس خبر سے ثابت ہوتا ہے جب اس کا راوی عادل مشہور ہو یا ایسا شخص ہو جس سے جہالت کا اسم زائل ہو اور اسم جہالت کا زائل ہونا اس طرح ہے کہ اس سے دو یا ددو سے زیادہ آدمی روایت کریں، جب یہ صفت ہو تو اس سے جہالت کا اسم زائل ہوجائے گا اور اس وقت وہ معروف ہوجائے گا اور جس سے صرف ایک شخص روایت کرے اور خبر کے ساتھ منفرد ہو تو اس کی کبر پر توقف واجب ہے حتی کہ کوئی اور اس کی موافقت کرے۔ واللہ اعلم۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ خشف بن مالک کی حدیث کو زید بن جبیر سے حجاج بن ارطاۃ نے روایت کیا ہے اور وہ تدیس کے ساتھ مشہور ہے یعنی وہ اس سے حدیث بیان کرتا ہے جس سے اس کی ملاقات نہیں ہوتی اور جس سے سنا نہیں ہوتا۔ اس سے سفیان بن عیینہ یحییٰ بن سعید القطان اور عیسیٰ بن یونس نے روایت کو ترک کیا، حالانکہ وہ اس کے پاس بیٹھتے تھے اور اسے جانتے تھے، پس کسی شخص کے متعلق ان کا علم تمہارے لیے کافی ہے یحییٰ بن معین نے کہا : حجاج بن ارطاۃ کی حدیث سے حجت نہیں پکری جاتی، عبداللہ بن ادریس (رح) نے کہا : میں نے حجاج کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ آدمی فضیلت حاصل نہیں کرتا حتی کہ جماعت سے نماز چھوڑ دے۔ عیسیٰ بن یونس نے کہا : میں نے حجاج کو یہ کہتے سنا کہ میں نماز کی طرف نکلتا ہوں، مجھے بوجھ اٹھانے والے، سبزیاں بیچنے والے روک لیتے ہیں، جریر نے کہا : میں نے حجاج کو یہ کہتے سنا ہے کہ مجھے مال اور شرف کی محبت نے ہلاک کردیا۔ اس کے مخالف بھی بہت سی وجوہ ذکر کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ثقات کی ایک جماعت نے یہ حدیث حجاج بن ارطاۃ سے روایت کی ہے، پس اس کے بارے میں اختلاف ہے، اس کے علاوہ بھی وجوہ ہیں جن کا ذکر بہت طویل ہوجائے گا جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے وہ دیت کے بارے میں کو فیوں کے مذہب کے ضعف پر دلالت کرتا ہے اگرچہ ابن المنذر (رح) نے اپنی جلالت کے ساتھ اس کو اختیار کیا ہے جیسا کہ آگے آئے گا، حماد بن سلمہ نے روایت کیا ہے ہمیں سلیمان تیمی نے بیان کیا انہوں نے ابومجلز سے روایت کیا، انہوں نیی ابو عبیدہ سے روایت کیا کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : خطا کی دیت میں پانچ قسم کے اونٹ ہیں، بیس حقے، بیس جذعے، بیس بنات مخاض، بیس بنات لبون اور بیس بنی لبون، دارقطنی نے کہا : یہ سند حسن ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں علقمہ عن عبداللہ سے اسی طرح مروی ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کا مذہب ہے کہ دیت میں پانچ قسم کے اونٹ ہوں گے، خطابی نے کہا : بہت سے علماء سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : خطا کی دیت میں چار قسم کے اونٹ ہیں۔ یہ امام شعبی، نخعی، اور حسن بصری ہیں اور اسی کی طرح اسحاق بن راہویہ کا خیال گیا ہے مگر یہ کہتے ہیں پچیس جذعے، پچیس حقے، پچیس بنات لبون اور پچیس بنات مخاض، یہ حضرت علی بن ابی طالب سے مروی ہے (1) (ابو داؤد کتاب الدیات، باب فی دیۃ خطاء حدیث نمبر 3944، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو عمر ؓ نے کہا : امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کا قول سلیمان بن یسار سے مروی ہے اس کے متعلق کسی صحابی سے کچھ مروی نہیں ہے لیکن اس پر اہل مدینہ کا عمل ہے اسی طرح ابن جریج نے ابن شہاب سے حکایت کیا ہے۔ میں کہتا ہوں : ہم نے حضرت ابن مسعود ؓ سے ایسی بات روایت کی ہے جو امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کے قول کے موافق ہے، ابو عمر ؓ نے کہا : دیات میں اونٹوں کی عمریں نہ قیاسا لی گئی ہیں نہ نظرا بلکہ یہ اتباعا اور تسلیما لی گئی ہیں اور یہ اثر کی جہت سے نہیں لی گئیں اور اس میں نظر کا کوئی دخل نہیں۔ پس ہر مجتہد نے یہی کہا جو اس کے نزدیک سلف صالحین سے صحیح مروی تھا۔ میں کہتا ہوں : خطابی نے جو کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ کسی نے عمرو بن شعیب کی حدیث کے مطابق قول کیا ہو، ابن المنذر (رح) نے طاؤوس اور مجاہد سے یہ قول حکایت کیا ہے مگر مجاہد (رح) نے بنت مخاض کی جگہ تین جذعوں کا ذکر کیا ہے، ابن المنذر (رح) نے کہا : میں پہلے قول کے مطابق کہتا ہوں ان کی مراد حضرت عبداللہ اور اصحاب الرائے کا قول ہے جس کو دارقطنی نے ضیعف قرار دیا ہے، ابن عبدالبر نے کہا : کم ازکم یہ کہا جاسکتا ہے کہ نبی مکرم ﷺ سے مروی مرفوع حدیث اس قول کے موافق ہے۔ میں کہتا ہوں : ابن المنذر (رح) کے لیے تعجب ہے، حالانکہ بڑا مجتہد اور نقاد ہے اس نے ایسی حدیث کے ساتھ قول کیسے لیا اہل نقد جس کی صحت پر اس کی موافقت ہی نہیں کرتے ؟ لیکن ذہول اور نسیان، انسان کو لاحق ہوتا ہے کمال تو فقط اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے جو عزت والا ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) نبی مختار حضرت محمد ﷺ سے مروی اخبار سے ثابت ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے قتل خطا کی دیت کا فیصلہ عاقلہ پر فرمایا اور اہل علم کا اس قول پر اجماع ہے، عاقلہ کی دیت میں علماء کے اجماع میں دلیل ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے ابو رمثہ سے جو کہا تھا، جب وہ اور اس کا بیٹا آئے تھے :” نہ تجھ پر زیادتی کی جائے گی اور نہ اس پر زیادتی کی جائے گی۔ (1) سنن نسائی، کتاب البیوع، جلد 2، صفحہ 250، سنن ابی داؤد باب فی الخضاب، حدیث نمبر 3675، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس سے قتل عمد مراد ہے نہ کہ قتل خطاء، اور علماء کا اجماع ہے کہ جو دیت کے ثلث سے زائد ہوگا وہ عاقلہ پر ہوگا اور ثلث (3؍1) میں اختلاف ہے اور جو علماء جمہور کا نظریہ ہے وہ یہ ہے کہ عاقلہ پر نہ عمد کی صورت میں، نہ اعتراف کی صورت میں اور نہ صلح کی صورت میں دیت ہوگی اور خطا کی دیت بھی نہ ہوگی مگر جو ثلث (3؍1) سے تجاوز کر جائے اور جو ثلث سے کم ہوگی وہ مجرم کے مال سے ہوگی۔ ایک طائفہ نے کہا : خطا کی دیت مجرم کی عاقلہ پر ہوگی خواہ جنایت تھوڑی ہو یا زیادہ ہو، کیونکہ زیادہ چٹی سے تھوڑی چٹی ہے جس طرح کہ قتل عمد کی دیت مجرم کے مال سے ہوتی ہے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ ہو، یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) دیت کا حکم یہ ہے کہ یہ عاقلہ (خاندان) پر قسط وار ہوگی، عاقلہ سے مراد عصبی رشتہ دار ہیں، عورت کی اواد اس میں شامل نہیں جب کہ وہ عاقلہ کے عصبہ سے نہ ہو اور ماں کی طرف سے بھائی بھی اس میں شامل نہیں کیونکہ ماں اور باپ کی طرف سے بھائیوں کے وہ عصبہ نہیں ان سے دیت وصول نہیں کی جائے گی اس طرح اہل حجاز کے جمہور علماء کے قول میں دفتر والوں کو عاقلہ شمار نہیں کیا جائے گا۔ کو فیوں نے کہا : اگر وہ کسی دفتر میں کام کرتا ہوگا تو وہ دفتر والے اس کے عاقلہ ہوں گے۔ دیت کو تین سالوں میں تقسیم کیا جائے گا جیسا کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت علی ؓ نے فیصلہ فرمایا تھا کیونکہ اونٹ کبھی حاملہ ہوتے ہیں پس وہ اسے نقصان دیں گے نبی مکرم ﷺ نے چند اغراض کے لیے ایک ہی مرتب دیت دی تھی، کبھی آپ بطور صلح اور تسدید دیتے تھے، کبھی تالیف قلب کے لیے جلدی عطا فرما دیتے تھے، جب اسلام کا علم بلند ہوگیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اس نظام پر اس کو مقدر کیا یہ ابن عربی کا قول ہے۔ ابو عمر نے : علماء قدیم وجدید کا اجماع ہے کہ دیت عاقلہ پر ہوگی اور یہ تین سال میں ہوگی اس سے کم میں نہ ہوگی اور علماء کا اجماع ہے کہ یہ مردوں میں سے بالغوں پر ہوگی، سیرت نگاروں اور اہل علم کا اجماع ہے کہ دیت زمانہ جاہلیت میں بھی عاقلہ ادا کرتے تھے، اسلام میں رسول اللہ ﷺ نے اس کو برقرار رکھا اور وہ مدد کے لیے دیتے تھے پھر اسلام آیا تو معاملہ اس پر جاری رہا حتی کہ حضرت عمر ؓ نے دفتر والوں پر دیت کو مقرر کیا، فقہاء نے اس کی روایت پر اتقاق کیا اور اس قول پر اتفاق کیا، علماء کا اجماع ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ میں دفتر (ملازم جن کے نام کا اندراج ہوتا) پر دیت نہ تھی، حضرت عمر ؓ نے دیوان (دفتر) کو متعین کیا اور لوگوں کو اس پر جمع کیا اور ہر طرف والوں کو مددگار بنایا اور ان پر دشمنوں سے لڑنے کو متعین فرمایا۔ مسئلہ نمبر : (8) میں کہتا ہوں : ان مسائل میں سے جو اس باب کی لڑی میں گر جاتا ہے اور جو اس نظام میں داخل ہوتا ہے وہ ماں کے بطن میں بچے کا قتل ہے، وہ یہ ہے کہ ماں کے پیٹ پر ضرب لگائی جائیے پھر وہ زندہ بچہ گرا دے، پھر وہ بچہ مر جائے، تمام علماء نے فرمایا، قتل خطا میں پوری دیت ہے اور قسامت کے بعد قتل عمد میں بھی پوری دیت ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : بغیر قسامت کے ہے۔ اس میں اختلاف ہے جس سے زندگی جانی جائے گی، علماء کا اتفاق ہے کہ جو بچہ چیخا یا دودھ پیایا آہستہ سے سانس لیا تو وہ زندہ ہے، اس میں پوری دیت ہے۔ اگر بچے نے حرکت کی تو امام شافعیرحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : حرکت اس کی زندگی پر دلالت کرتی ہے۔ امام مالک (رح) نے فرمایا : حرکت کرنا زندگی کی دلیل نہیں مگر یہ کہ وہ زیادہ دیر رہے، تمام علماء کے نزدیک حکم میں مذکر اور مونث برابر ہیں، اگر عورت نے مردہ بچہ گرا دیا تو اس میں غرہ ہے یعنی غلام یا لونڈی ہے، اگر اس نے بچہ نہ گرایا اور مرگئی اور وہ بچہ اس کے پیٹ میں تھا اور نکلا نہیں تھا تو اس میں کچھ نہیں ہوگا اس پر اجماع ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیث بن سعد اور داؤد سے مروی ہے انہوں نے عورت کے بارے میں کہا : جب وہ پیٹ پر ضرب کی وجہ سے مر جائے پھر اس کے مرنے کے بعد مردہ بچہ نکلے تو اس میں غرہ ہے خواہ اس نے وہ مرنے سے پہلے یا مرنے کے بعد گرایا ہو، ضرب لگنے کے وقت ماں کی زندگی کا اعتبار ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں تمام فقہاء نے کہا : اس میں کوئی چیز نہیں جب وہ ماں کے مرنے کے بعد زندہ نکلے امام طحاوی (رح) نے فقہاء کی جماعت کے لیے حجت پیش کرتے ہوئے کہا : علماء کا اجماع ہے اور لیث بھی اس بات میں ان کے ساتھ ہے کہ اگر اس کے پیٹ پر مارا گیا جب کہ وہ زندہ تھی پھر وہ مر گئی جب کہ جنین (بچہ) اس کے پیٹ میں تھا اور وہ نہیں گرا تو اس میں کچھ نہیں اسی طرح جب ماں کے مرنے کے بعد گرے۔ مسئلہ نمبر : (9) اور غرہ سفید ہوگا، ابو عمرو بن علاء نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد : فی الجنین غرۃ عبد اوامۃ (1) (مسند احمد بن حنبل جلد 2، صفحہ 348) کے بارے میں کہا : اگر رسول اللہ ﷺ نے غرہ کا معنی مراد نہ لیا ہوتا تو آپ فرماتے، جنین میں غلام یا لونڈی ہے، لیکن آپ نے سفید کا ارادہ فرمایا : پس دیت میں سفید غلام یا سفید لونڈی قبول کی جائے گی، کالاغلام اور کالی لونڈی قبول نہیں کی جائے گی، علماء کا غرۃ کی قیمت میں اختلاف ہے۔ امام مالک (رح) نے فرمایا : اس کی قیمت دینار ہو یا چھ ہزار دراہم ہو آزاد مسلمان کی دیت کا بیسواں حصہ ہو اور اس کی آزاد ماں کی دیت کا دسواں حصہ ہو یہی قول ابن شہاب، ربیعہ، اور تمام اہل مدینہ کا ہے۔ اصحاب الرائے نے کہا : اس کی قیمت پانچ سو دراہم ہو، امام شافعی (رح) نے کہا : غرۃ کی عمر سات سال یا آٹھ سال ہو اور اس پر واجب نہیں کہ وہ عیب دار غرہ قبول کرے۔ امام مالک (رح) کے مذہب کا مقتضی یہ ہے کہ اسے اختیار ہے کہ وہ غرۃ دے یا ماں کی دیت کا دسواں حصہ دے سونے میں سے دس دینار اگر وہ سونے والے ہوں اور چاندی میں سے چھ سو دراہم اگر وہ چاندی والے ہوں یا پانچ اونٹ دے۔ امام مالک (رح) اور ان کے اصحاب نے کہا : یہ مجرم کے مال سے دیت ہوگی، یہی قول حسن بن حی کا ہے، امام ابوحنیفہ (رح) امام شافعی (رح) اور ان دونوں کے اصحاب نے کہا : یہ دیت عاقلہ پر ہوگی اور یہی اصح ہے کیونکہ حضرت مغیرہ بن شعبۃ کی حدیث ہے کہ دو عورتیں تھیں، جو دو انصاری مردوں کی بیویاں تھیں ایک روایت میں ہے ان دونوں عورتوں کا جھگڑا ہوا تو ایک عورت نے دوسری کو لوہے کے ڈنڈے کے ساتھ مارا اور اسے قتل کردیا، ان کے خاوند یہ مسئلہ نبی مکرم ﷺ کی بارگاہ میں لے گئے اور عرض کی : ہم اس کی دیت دیں جو نہ چیخا، نہ اس نے کھایا، نہ پیا، نہ آواز دی اس قسم کا شخص تو رائیگاں ہوتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا : کیا بدوؤں کی سجع کی طرح سجع ہے ؟ آپ ﷺ نے اس بچے کے بارے میں غرہ کا فیصلہ فرمایا اور مارنے والی عورت کے عاقلہ پر اسے مقرر فرمایا (1) (صحیح، باب القسامۃ، جلد 2 صفحہ 62) یہ حدیث صحیح ثابت ہے، اختلاف کی جگہ میں نص ہے، حکم کو ثابت کرتی ہے۔ جب اس عورت کی دیت جس کو ضرب لگائی ہے عاقلہ پر ہے تو گرنے والے بچے کی بھی قیاس ونظر میں دیت عاقلہ پر ہوگی، ہمارے علماء نے اس کے قول سے حجت پکڑی ہے جس کے خلاف فیصلہ کیا گیا تھا وہ معین ہے اور وہ مجرم ہے اگر گرنے والے کی دیت کا فیصلہ عاقلہ پر ہوتا ہے تو کلام اس طرح ہوتی کہ فقال الذی قضی علیھم اور قیاس اس بات کا تقاضا کرتا ہے ہر مجرم پر اس کی جنایت کا وبال ہوتا ہے مگر وہ مسئلہ جس کے خلاف دلیل قائم ہو جس کا کوئی معارض نہ ہوا اجماع ہو جس کا خلاف جائز نہ ہو یا کوئی نص سنت سے موجود ہو جس کے ناقل عادل ہوں اور اس کا کوئی معارض نہ ہو تو اس کے ساتھ حکم ثابت ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ولا تکسب کل نفس الا علیھا، ولا تزر وازرۃ وزر اخری “۔ (الانعام : 164) اور نہیں کمائے گا کوئی نفس مگر وہ اس کے ذمہ ہوگا اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ مسئلہ نمبر : (10) علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ گرنے والا بچہ جب زندہ نکلے تو اس میں دیت کے ساتھ کفارہ بھی ہے اور جب مردہ نکلے تو کفارہ میں اختلاف ہے۔ امام مالک (رح) نے کہا : اس میں غرہ اور کفارہ ہے امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) نے کہا : اس میں غرۃ ہے کفارہ نہیں ہے، جنین (گرنے والا بچہ) کی طرف سے جو غرۃ دیا جائے گا اس کی میراث کے بارے اختلاف ہے، امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) نے کہا : جنین کی طرف سے غرہ میراث میں تقسیم ہوگا جیسا کتاب اللہ کا حکم ہے، کیونکہ وہ دیت ہے، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا : غرہ صرف ماں کو ملے گا، کیونکہ وہ جنایت ہے جو عورت پر کی گئی ہے اس کے کسی عضو کو کاٹنے کے ساتھ اور یہ دیت نہیں اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اس میں مذکر اور مونث کا اعتبار نہیں جس طرح کہ دیات میں لازم ہوتا ہے پس یہ دلیل ہے کہ وہ عضو کی طرح ہے، ابن ہرمز کہتے ہیں کہ اس کی دیت خاص اس کے والدین کے لیے ہے، (3؍2) والد کے لیے اور 3؍1 والدہ کے لیے ہے، والدین میں سے جو زندہ ہوگا وہ اس کے لیے ہوگا اگر ان میں سے ایک مر چکا ہو تو وہ دوسرے کے لیے ہوگا خواہ وہ باپ ہو یا ماں ہو، بھائی کسی چیز کے وارث نہ ہوں گے۔ مسئلہ نمبر : (11) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الا ان یصدقوا “۔ اس کی اصل ان یتصدقوا، ہے تاکو صاد میں مدغم کیا گیا ہے۔ التصدق کا معنی عطا کرنا ہے یعنی مگر یہ کہ اولیاء قاتلین کے ورثاء کو معاف کردیں وہ جو اللہ نے ان کے لیے، ان پر دیت واجب کی ہے، یہ پہلے سے استثنا نہیں۔ ابو عبدالرحمن اور نبی ح نے الا ان تصدقوا صاد اور تا کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 93 دارالکتب العلمیہ) اسی طرح ابو عمرو نے پڑھا ہے مگر انہوں نے صاد کو شد کے ساتھ پڑھا ہے اس قرات پر دوسری تاکا حذف جائز ہے اور یا کی قرات پر اس کا حذف جائز نہیں اور حضرت ابی اور حضرت ابن مسعود ؓ کی قرات میں الا ان یتصدقوا، ہے۔ اور وہ کفارہ جو اللہ کے لیے ہے وہ ورثاء کے ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا، کیونکہ اس نے ایک شخص کو تلف کیا جو اللہ کی عبادت میں تھا پس اس پر واجب ہے کہ ایک دوسرا شخص اپنے رب کی عبادت کے لیے خاص کرے، اور دیت ساقط ہوجاتی ہے وہ ان کا حق ہے اور مجرم کے مال میں کفارہ واجب ہے وہ نہیں اٹھایا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (12) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فان کان من قوم عدولکم وھو مؤمن “۔ یہ اس مومن کا مسئلہ ہے جو کفار کے شہروں میں قتل ہوجاتا ہے یا انکی جنگوں میں قتل ہوجاتا ہے اس بنا پر کہ وہ کفار سے ہے، حضرت ابن عباس ؓ ، قتادہ ؓ سدی ؓ ، عکرمہ، ؓ مجاہد ؓ ، اور نخعی ؓ کے نزدیک معنی یہ ہے کہ اگر یہ مقتول مومن ہو ایمان لایا ہو اور اپنی کافر قوم میں باقی رہا ہو جو تمہاری دشمن ہے تو اس میں دیت نہیں ہے اور اس کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے، (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 93 دارالکتب العلمیہ) مقتول کے اولیاء کفار ہیں پس انہیں دیت دینا صحیح نہیں، کیونکہ وہ اس سے قوت حاصل کریں گے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 93 دارالکتب العلمیہ) جو شخص ایمان لائے اور ہجرت نہ کرے تو اس کی حرمت کم ہے پس اس کی دیت نہ ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” والذین امنوا ولم یھاجروا مالک من ولایتھم من شیء یھاجروا “۔ (الانفال : 72) اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت نہیں کی ہے ان کی میراث سے کچھ بھی حتی کہ وہ ہجرت کریں۔ علماء کی ایک جماعت نے کہا : دیت کے سقوط کی وجہ یہ ہے کہ اولیاء فقط کفار ہیں برابر ہے کہ قتل خطا مسلمانوں کے درمیان ہو یا اس کی قوم کے درمیان ہو، ہجرت کی ہو یا نہ کی ہو پھر وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ آیا ہو تو اس کا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے اور اس میں دیت نہیں ہے، کیونکہ کفار کو دیت دینا صحیح نہیں۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 93 دارالکتب العلمیہ) اگر دیت واجب ہوتی تو بیت المال کے لیے بیت المال پر واجب ہوتی، اس جگہ میں دیت واجب نہیں اگرچہ بلاداسلام میں قتل جاری ہو۔ یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے، اوزاعی، (رح) ثوری (رح)، اور ابو ثور (رح) کا یہی قول ہے، پہلے قول کے مطابق اگر مومن مسلمانوں کے شہروں میں قتل کیا گیا اور اس کی قوم مسلمانوں سے جنگ کرتی تھی، تو اس کی دیت بیت المال کے لیے ہوگی اور کفارہ بھی ہوگا (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 93 دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : اس باب سے وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں حضرت اسامۃ ؓ سے مروی ہے فرمایا : ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک جنگی مہم پر بھیجا تو ہم نے جہینۃ کے حرقات (جگہ کا نام) پر صبح حملہ کیا، میں ایک شخص پر غالب آگیا تو اسنے کہا : ” لا الہ الا اللہ “۔ میں نے اسے نیزہ مارا، پھر میرے دل میں خیال آیا کہ میں نے ایک مسلمان کو قتل کردیا ہے۔ میں نے یہ معاملہ نبی مکرم ﷺ سے ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا اس نے ” لا الہ الا اللہ “۔ کہا تھا اور تو نے اسے قتل کردیا۔ حضرت اسامہ ؓ نے کہا : میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اس نے یہ ہتھیار کے خوف کی وجہ سے کہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا ” کیا تو نے اس کا دل چیرا تاکہ تو جان لیتا کیا اس نے صحیح کلمہ پڑھا ہے یا نہیں ؟ “ (4) (صحیح مسلم، کتاب الایمان جلد 1، صفحہ 68، صحیح بخاری، حدیث نمبر 3935، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) نبی کریم ﷺ نے نہ اس کے قصاص کا فیصلہ فرمایا اور نہ دیت کا، حضرت اسامہ ؓ سے مروی ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد میرے لیے تین مرتبہ استغفار فرمایا : اور فرمایا غلام آزاد کرو اور آپ نے قصاص ودیت کا فیصلہ نہ فرمایا۔ ہمارے علماء نے فرمایا : قصاص کا سقوط واضح ہے، کیونکہ قتل دشمنی کی بنا پر نہ تھا اور رہا دیت کا سقوط تو اس کی تین وجوہ ہیں۔ (1) اسے اصل قتال میں اجازت دی گئی تھی پس اس سے محترم نفس کا اتلاف غلطی سے ہوا ہے جیسے ختنہ کرنے والے یا طبیب سے غلطی ہوجاتی ہے۔ (2) کیونکہ وہ دشمن قوم سے تھا اور مسلمانوں میں کوئی ولی نہیں تھا جس کو دیت دی جاتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہ ہے، (آیت) ” فانکان من قوم عدولکم “۔ جیسا کہ پہلے ہم نے ذکر کیا ہے۔ (3) حضرت اسامہ نے قتل کا اعتراف کیا تھا اور اس کے لیے بینہ (گواہی) قائم نہیں ہوئی تھی، اور عاقلہ سے دیت اعتراف کی صورت میں نہیں لی جاتی۔ شاید حضرت اسامہ ؓ کے لیے مال ہی نہ ہو جس میں دیت جاری کی جاتی۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (13) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان کان من قوم بینکم وبینھم میثاق “۔ یہ ذمی اور معاہد کے بارے میں ہے جو خطاء قتل ہوجائے تو دیت اور کفارہ واجب ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ ، شعبی ؓ ، نخعی ؓ اور امام شافعی (رح) کا قول ہے، طبری نے اس کو اختیار کیا ہے انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس کو مبہم رکھا ہے، اور وھو مومن نہیں فرمایا جس طرح کہ مومنین اور اہل حرب میں سے مقتول کے بارے میں فرمایا : اس سے پہلے جو تھا مقید تھا پھر اس مطلق ذکر کرنا دلیل ہے کہ یہ اس کے خلاف ہے۔ حسن، جابر بن زید اور ابراہیم نے بھی یہی کہا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر وہ شخص جو خطا قتل کیا گیا ہے وہ مومن ہے اور تمہاری معاہد قوم میں سے ہے تو ان کا عہد ثابت کرے گا کہ وہ اپنے ساتھی کی دیت کے زیادہ حق دار ہیں پس اس کا کفارہ غلام آزاد کرنا اور دیت ادا کرنا ہے حسن نے اس کو اس طرح پڑھا ہے : (آیت) ” وان کان من قوم بینکم وبینھم میثاق، وھو مومن (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 93 دارالکتب العلمیہ) اور حسن نے کہا : جب مسلمان ذمی کو قتل کر دیی تو اس پر کفارہ نہیں، ابو عمر ؓ نے کہا : اہل حجاز کے نزدیک آیت کا معنی اس آیت پر لوٹایا گیا ہے۔ (آیت) ” وما کان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الا خطا “۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فان کان من قوم “۔ اس سے مراد مومن ہے واللہ اعلم، ابن عربی نے کہا : میرے نزدیک جملہ محمول ہے جس طرح مطلق، مقید پر محمول ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ معنی وہ ہے جو حسن نے کہا ہے اور ابو عمر ؓ نے یہ معنی اہل حجاز سے نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فدیۃ مسلمۃ “۔ دیت نکرہ ہے جو معین دیت ہونے کا تقاضا نہیں کرتا، بعض علماء نے فرمایا : یہ مشرکین عرب کے بارے میں ہے انکے اور نبی مکرم ﷺ کے درمیان عہد تھا کہ وہ اسلام قبول کریں یا ان سے اعلان جنگ کیا جائے گا یہ ایک مدت تک تھا پس جوان میں سے قتل کیا جاتا اس میں دیت اور کفارہ واجب ہوتا تھا پھر یہ (آیت) ” برآءۃ من اللہ ورسلہ الی الذین عھدتم من المشرکین “۔ (توبہ) کے ارشاد سے منسوخ ہوگیا۔ مسئلہ نمبر : (14) علماء کا اجماع ہے کہ عورت کی دیت، مرد کی دیت سے نصف ہے، ابو عمر نے کہا : اس کی دیت نصف اس لیے رکھی گئی، کیونکہ اس کے لیے میراث بھی نصف ہے اور دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے، یہ قتل خطا کی دیت میں ہے رہا قتل عم تو اس میں مردوں اور عورتوں کے درمیان قصاص ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” النفس بالنفس “۔ (المائدہ : 65) (آیت) ’ الحر بالحر “۔ (بقرہ : 178) جیسا کہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (15) دار قطنی نے موسیٰ بن علی بن رباح لخمی کی حدیث روایت کی ہے انہوں نے فرمایا : میں نے اپنے والد کو یہ کہتے سنا کہ ایک اندھا حضرت عمر بن خطاب کے دور خلافت میں یہ شعر پڑھا رھا تھا ؛ یا ایا الناس لیقت منکرا ھل یعقل الاعمی الصحیح المبصرا : خرامعا کلاھما تکرا ‘: یہ واقعی اس طرح ہے کہ ایک اندھے کی قیادت ایک بینا شخص کر رہا تھا تو وہ دونوں کنوئیں میں گر گئے اندھا، بینا شخص کے اوپر گرا تو بینا شخص مرگیا حضرت عمر نے بینا شخص کی دیت کا فیصلہ نابینے شخص پر کیا، علماء کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو دوسرے کے اوپر گرا پھر ان میں سے ایک مرگیا۔ حضرت ابن زبیر ؓ سے مروی ہے کہ اوپر والا نیچے والے کا ضامن ہوگا، نیچے والا اوپر والے کا ضامن نہ ہوگا، یہ شریح، نخعی، احمد اور اسحاق کا قول ہے، امام مالک (رح) نے ان دونوں آدمیوں کے بارے میں کہا : جن میں سے ایک نے دوسرے کو کھینچا حتی کہ دونوں گرے اور دونوں مر گئے تو دیت اس کے عاقلہ پر ہوگی جس نے کھینچا تھا۔ ابو عمر ؓ نے کہا : میں اس میں کوئی خلاف گمان نہیں کرتا، واللہ اعلم۔ مگر ہمارے بعض متاخرین اور اصحاب شافعی (رح) نے کہا کہ کھینچنے والے کے عاقلہ نصف دیت کے ضامن ہوں گے، کیونکہ وہ اپنے فعل سے اور اوپر گرنے والے کی وجہ سے مرا، حکم اور ابن شبرمۃ نے کہا : اگر کوئی شخص کسی کے اوپر، مکان کے اوپر سے گرے پھر ایک مر جائے تو ان میں سے جو زندہ ہوگا وہ دوسرے کا ضامن ہوگا، امام شافعی (رح) نے کہا : وہ دو شخص جو آپس میں ٹکرائے اور دونوں مر گئے تو جس سے ٹکرایا گیا اس کی دیت ٹکرانے والے کے عاقلہ پر ہوگی اور ٹکرانے والے کی دیت رائیگاں جائے گی اور دو شہسواروں کے بارے میں فرمایا : جب وہ ٹکرائے اور دونوں مر گئے تو ان میں سے ایک پر دوسرے کی نصف دیت ہوگی، کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنے فعل اور اپنے ساتھی کے فعل سے مرا ہے، یہ عثمان البتی اور امام زفر (رح) کا قول ہے، امام مالک، اوزاعی، حسن بن حی، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم اور آپ کے اصحاب نے شہسواروں کے بارے کہا : جو ٹکرا کر مر گئے ہر ایک کی دیت دوسرے کے عاقلہ پر ہوگی، ابن خویز منداد نے کہا : اسی طرح ہمارے نزدیک دو ٹکرانے والی کشتیوں کا حکم ہے جو ٹکرا جائیں، جب کہ ملاح کشتی کو پھیرنے والا نہ ہو اور نہ سوار گھوڑے کو پھیرنے والا ہو، امام مالک (رح) سے دو کشتیوں اور سواروں کے بارے مروی ہے کہ ہر ایک اپنے ساتھی کی تلف شدہ چیز کی قیمت کا ضامن ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (16) علماء کا اہل کتاب کی دیت کی تفصیل میں اختلاف ہے، امام مالک اور آپ کے اصحاب نے کہا : یہ مسلمان کی دیت کا نصف ہے، اور مجوسی کی دیت آٹھ سو درہم ہے اور ان کی عورتوں کی دیت اس سے نصف ہے۔ یہ قول عمر بن عبدالعزیز، عروہ بن زبیر اور عمرو بن شعیب سے مروی ہے۔ امام احمد بن حنبل نے بھی یہی فرمایا ہے۔ یہ مفہوم سلیمان بن ھلال عن عبدالرحمن بن الحارث بن عیاش بن ابی ربیعہ عن عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے سلسلہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے یہودی اور نصرانی کی دیت، مسلمان کی دیت سے نصف مقرر فرمائی (1) (ابن ماجہ، باب دیۃ الکافر، حدیث نمبر 2633، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اسے عبدالرحمن سے ثوری (رح) نے بھی روایت کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ، شعبی (رح) اور نخعی (رح) نے فرمایا : معاہدین میں خطا مقتول خواہ وہ مومن ہو یا کافر ہو اپنی قوم کے عہد پر ہوگا اس کی دیت مسلمان کی دیت کی طرح ہوگی (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 94 دارالکتب العلمیہ) یہ امام ابو حنیفہ، ثوری، عثمان، عثمان، بتی، اور حسن بن حیی رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے انہوں نے تمام دینوں کو برابر بنایا ہے مسلمان ہو یا یہودی ہو، نصرانی ہو، مجوسی ہو معاہد ہو اور ذمی ہو سب برابر ہیں یہ عطا، زہری، اور سعید بن مسیب کا قول ہے ان کی حجت یہ ارشاد ہے : فدیۃ ‘ ؓ یہ مسلمان کی دیت کی طرح کامل دیت کا تقاضا کرتی ہے۔ اور انہوں نے اپنی بات کو اس روایت سے تائید دی ہے جسے محمد بن اسحاق نے داؤد بن حصین سے انہوں نے عکرمہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے بنی قریظہ اور نضیر کے واقعہ میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی دیت برابر کامل مقرر فرمائی، ابو عمر ؓ نے کہا اس حدیث میں کمزوری ہے اس جیسی حدیث میں حجت نہیں ہوتی، امام شافعی (رح) نے فرمایا : یہودی اور نصرانی کی دیت مسلمان کی دیت کا تہائی ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 94 دارالکتب العلمیہ) اور مجوسی کی دیت آٹھ سو دراہم ہیں ان کی حجت یہ ہے کہ یہ کم از کم مقدار ہے جو اس کے بارے میں کہا گیا ہے، ذمہ سے برات یقین یا حجت سے ہوتی ہے، یہ قول عمر اور عثمان (رح) سے مروی ہے یہی قول ابن مسیب، عطا، حسن، عکرمہ، عمرو بن دینار، ابو ثور (رح) اور اسحاق (رح) کا ہے۔ مسئلہ نمبر : (17) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فمن لم یجد “۔ یعنی جو غلام نہ پائے اور نہ غلام خریدنے کی اس کے مال میں وسعت ہو تو (آیت) ” فصیام شھرین “۔ تو اس پر دو ماہ کے متواتر روزے ہیں، حتی کہ اگر ایک دن بھی افطار کردیا تو نئے سرے سے شروع کرنے ہوں گے، یہ جمہور کا قول ہے، مکی نے شعبی (رح) سے روایت کیا ہے کہ دو ماہ کے روزے دیت اور غلام آزاد کرنے کی طرف کفایت کرتے ہیں اس شخص کے لیے جو غلام نہ پائے، ابن عطیہ (رح) نے کہا : یہ قول وہم ہے، کیونکہ دیت عاقلہ پر ہوتی ہے قاتل پر نہیں ہوتی، طبری نے یہ قول مسروق سے حکایت کیا ہے (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 94 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (18) حیض، تتابع، کے مانع نہیں اس میں کوئی اختلاف نہیں، حیض سے عورت جب پاک ہو اور تاخیر نہ کرے، پچھلے روزوں کے ساتھ روزوں کو ملا لے، اس پر اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ فجر کی نماز سے پاک ہوئی اس دن کا روزہ ترک کردیا جب کہ اسے اپنی طہارت کا علم تھا، اگر وہ ایسا کرے تو علماء کی جماعت کے نزدیک نئے سرے سے روزے رکھے، یہ ابوعمر ؓ نے کہا ہے، اس مریض میں اختلاف ہے جس نے دو ماہ میں سے بعض روزے متواتر رکھے، اس میں دو قول ہیں، امام مالک (رح) نے کہا : کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ جب پر کتاب اللہ میں متواتر روزے واجب کیے گئے ہوں پھر وہ افطار کرے مگر عذر یا مرض یا حیض کی صورت میں افطار کرنا جائز ہے، اس کے لیے سفر کرنا اور پھر افطار کرنا درست نہیں۔ مرض میں جنہوں نے بنا کرنے کا کہا ہے ان میں سعید بن مسیب، سلیمان بن یسار، حسن، شعبی، عطا، مجاہد، قتادہ اور طاؤوس ہیں، سعید بن جبیر، نخعی، حکم بن عیینہ اور عطا خراسانی نے کہا : مرض میں نئے سرے سے روزے شروع کرے، یہ امام ابوحنیفہ (رح)، ان کے اصحاب حسن بن حی اور امام شافعی (رح) کا قول ہے امام شافعی (رح) کا دوسرا قول کی طرح ہے کہ وہ بنا کرسکتا ہے، ابن شبرمہ نے کہا : اگر اسے غالب عذر ہو تو ایک دن کی قضا کرے جس طرح رمضان کے روزے کی قضا کی جاتی ہے، ابوعمر ؓ نے کہا : جن علماء نے بنا کا کہا ہے ان کی حجت یہ ہے کی وہ مرض کی وجہ سے تتابع (متواتر) کو توڑنے میں معذور ہے وہ عمدا ایسا نہیں کر رہا اور اللہ تعالیٰ نے بغیر ارادہ کے کوئی کام کرنے والے سے تجاوز فرمایا ہے، اور جنہوں نے نئے سرے سے روزے رکھنے کو کہا ہے ان کی حجت یہ ہے کہ تتابع فرض ہے عذر کی وجہ سے ساقط نہ ہوگا، گناہ کو عذر ساقط کرتا ہے جس طرح نماز ہے اس کی رکعات متواتر ہوتی ہیں جب اسے عذر قطع کر دے تب بھی نئے سرے سے شروع کرنی ہوتی ہے بنا نہیں کی جاتی ہے۔ مسئلہ نمبر : (19) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” توبۃ من اللہ “۔ نصب مصدر کی بنا پر ہے، اس کا معنی رجوع کرنا (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 94 دارالکتب العلمیہ) ۔ خطا کرنے والے کو توبہ کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ وہ گناہ سے بچا نہیں اور اس کے حق میں سے تھا کہ وہ اپنی حفاظت کرے، بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے کہ وہ روزے رکھے یہ اللہ کی طرف سے تخفیف کہ اس نے غلام کے عوض روزے کو قبول فرما لیا، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم فتاب علیکم “۔ (بقرہ : 187) یعنی اس نے تخفیف کی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” علم ان لن تحصوہ فتاب علیکم “۔ (المزمل : 20) مسئلہ نمبر : (20) (آیت) ” وکان اللہ “۔ یعنی وہ ہمیشہ سے تھا، (آیت) ” علیما “۔ تمام معلومات کو جاننے والا ہے۔ (آیت) ” حکیما “۔ اس کے ہر کام میں پختگی اور حکمت ہے۔
Top