Al-Qurtubi - An-Nisaa : 94
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا١ۚ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١٘ فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِیْرَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ فَتَبَیَّنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ فَتَبَيَّنُوْا : تو تحقیق کرلو وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : تم کہو لِمَنْ : جو کوئی اَلْقٰٓى : دالے (کرے) اِلَيْكُمُ : تمہاری طرف السَّلٰمَ : سلام لَسْتَ : تو نہیں ہے مُؤْمِنًا : مسلمان تَبْتَغُوْنَ : تم چاہتے ہو عَرَضَ : اسباب (سامان) الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی فَعِنْدَ : پھر پاس اللّٰهِ : اللہ مَغَانِمُ : غنیمتیں كَثِيْرَةٌ : بہت كَذٰلِكَ : اسی طرح كُنْتُمْ : تم تھے مِّنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَمَنَّ : تو احسان کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر فَتَبَيَّنُوْا : سو تحقیق کرلو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو خَبِيْرًا :خوب باخبر
مومنو ! جب تم خدا کی راہ میں باہر نکلا کرو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے پھر خدا نے تم پر احسان کیا تو (آئندہ) تحقیق کرلیا کرو اور جو عمل تم کرتے ہو خدا کو سب کی خبر ہے
آیت نمبر : 94۔ اس میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا اذا ضربتم فی سبیل اللہ فتبینوا “۔ یہ جہاد اور قتل کے ذکر کے ساتھ متصل ہے، الضرب کا معنی زمین پر چلنا ہے، عرب کہتے ہیں : ضربت فی الارض جب کوئی تجارت یا جنگ یا کسی اور غرض سے سفر کرے، یہ ” فی “ کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے اور بغیر ” فی “ کے بھی۔ مثلا ضربت الارض جب آدمی قضاء حاجت : (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 96 دارالکتب العلمیہ) کا قصد کرے اسی سے نبی کریم ﷺ کا قول ہے : لا یخرج الرجلان یضربان الغائط یتحدثان کاشغین عن فرجیھما فان اللہ یمقت علی ذالک “۔ (2) (مسند احمد بن حنبل، جلد 3، صفحہ 36، ایضا ابو داؤد حدیث نمبر 14، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) کوئی دو شخص قضاء حاجت کے لیے نکلیں تو وہ اپنی شرمگاہیں کھولے ہوئے باتیں نہ کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے، یہ آیت کریمہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے بارے نازل ہوئی وہ اپنے سفر میں ایک شخص کے پاس سے گزرے جس کے پاس اونٹ اور بکریاں تھیں جنہیں وہ بیچنا چاہتا تھا اس نے مسلمانوں پر سلام کیا اور کہا : ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “۔ ایک مسلمان نے اس پر حملہ کردیا اور اسے قتل کردیا۔ جب نبی مکرم ﷺ کے سامنے یہ واقعہ ذکر کیا گیا تو آپ پر بہت ناگوار گزرا، پھر یہ آیت نازل ہوئی (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 96 دارالکتب العلمیہ) بخاری نے عطاء عن ابن عباس ؓ کے سلسلہ میں روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ایک شخص اپنی بکریوں میں تھا اسے مسلمان ملے، اس نے کہا : السلام علیکم، مسلمانوں نے اسے قتل کردیا اور اس کی بکریاں پکڑ لیں، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (آیت) ” عرض الحیوۃ الدنیا “۔ تک نازل فرمائی (آیت) ” عرض الحیوۃ الدنیا “۔ سے مراد یہ غنیمت ہے فرمایا حضرت ابن عباس ؓ نے السلام پڑھا ہے یہ بخاری کے علاوہ میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس کے اہل کو دیت اور بکریاں بھی لوٹا دیں، اس واقعہ میں قاتل اور مقتول کی تعیین میں اختلاف ہے۔ اکثر علماء کا جو قول ہے وہ وہ ہے جو ابن اسحاق کی سیرت میں مصنف ابو داؤد میں اور الاستیعاب لابن البر میں ہے کہ یہ قاتل محلم بن جثامہ تھا اور مقتول عامر بن اضبط تھا، نبی مکرم ﷺ نے محلم کے خلاف دعا کی تو وہ بعد میں صرف سات دن زندہ رہا پھر وہ دفن کیا گیا تو زمین نے اسے قبول نہ کیا پھر دفن کیا گیا تو پھر بھی زمین نے قبول نہ کیا پھر دتیسری مرتبہ دفن کیا گیا تو زمین نے قبول نہ کیا جب لوگوں نے دیکھا کہ زمین اسے قبول نہیں کر رہی تو لوگوں نے اسے گھوٹیوں میں پھینک دیا۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” زمین تو اسے بھی قبول نہیں کرلیتی ہے، جو اس سے بدتر ہوتا ہے “ (4) (سنن ابن ماجہ، ابواب الفتن، صفحہ 290) حسن نے کہا : اس بدترین شخص کو زمین لے لیتی ہے، لیکن قوم کو یہ نصیحت کی گئی کہ وہ اس کام کی طرف نہ لوٹیں، سنن ابن ماجہ نے حضرت عمران بن حصین سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکین کی طرف بھیجا تو انہیں سخت جنگ کی اور انہوں نے انہیں کندھے دیے پھر میرے ایک قریبی شخص نے مشرکین پر نیزے سے حملہ کردیا جب وہ اس پر غالب آیا تو پھر اس نے کہا : ” لا الہ الا اللہ “۔ میں مسلمان ہوں، مسلمان نے اسے نیزہ مار کر قتل کردیا، پھر وہ مسلمان شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : یا رسول اللہ ﷺ میں ہلاک ہوگیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا : تو نے کیا گیا ہے ؟ آپ نے ایک یا دو مرتبہ پوچھا، اس نے اپنا واقعہ عرض کیا، اسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تو نے اس کا پیٹ کیوں نہ چاک کیا تاکہ تو اس کی کیفیت جان لیتا “۔ اس نے کہا : یا رسول اللہ، اگر میں اس کا پیٹ چاک کرتا تو کیا میں اس کے دل کی کیفیت جان لیتا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں تو نے نہ اس کی بات کو قبول کیا اور نہ تو اس کے دل کی کیفیت جانتا “۔ پھر رسول اللہ ﷺ اس سے خاموش ہوگئے تھوڑی دیر گزری حتی کہ وہ فوت ہوگیا پس ہم نے اسے دفن کیا، صبح وہ زمین پر باہر پڑا تھا، ہم نے کہا : شاید دشمن نے اس کی قبر کو کھودا ہو، پھر ہم نے دفن کیا پھر ہم نے اپنے نوجوانوں کو حفاظت کرنے کا حکم دیا، پھر بھی وہ صبح زمین پر پڑا تھا، پھر ہم نے کہا شاید نوجوان سو گئے ہوں، پھر ہم نے اسے دفن کیا، پھر ہم نے خود نگرانی کی لیکن صبح پھر وہ زمین کے اوپر تھا، پھر ہم نے اسے گھاٹیوں میں پھینک دیا۔ (1) (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن، صفحہ 290، ایضا حدیث نمبر 3919، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) بعض علماء نے کہا : قاتل اسامہ بن زید تھا اور مقتول مرداس بن نہیک غطفانی ثم الفزاری من بنی مرۃ من اہل فدک تھا، یہ ابن القاسم نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے مرداس نے رات کو اسلام قبول کیا اور اس کیی متعلق اپنے گھر والوں کو بتایا، جب اسامہ ؓ پر نبی مکرم ﷺ نے معاملہ کی سختی کا ذکر فرمایا تو اسامہ نے قسم اٹھائی کہ وہ کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کرے گا جو ” لا الہ الا اللہ “۔ کہے گا اس کے متعلق کلام گزر چکی ہے، بعض علماء نے فرمایا : قاتل ابو قتادہ تھا، بعض نے فرمایا : ابو ورداء تھا، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ زمین نے جس کو پھینک دیا تھا وہ محلم تھا جو ہم نے ذکر کیا ہے شاید یہ تمام واقعات قریب قریب واقع ہوئے تو تمام کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، روایت ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے اس مسلمان کو بکریاں اور اونٹ واپس کردیا اور اس کے تلف ہونے کی وجہ سے دیت بھی دی، واللہ اعلم۔ ثعلبی نے ذکر کیا ہے اس لشکر کا امیر ایک شخص تھا جس کو غالب بن فضالہ لیثی کہا جاتا تھا بعض نے کہا : مقداد نام تھا، یہ سہیلی نے حکایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فتبینوا “۔ یعنی غور کرو۔ تبینوا جماعت کی قرات ہے اور یہ ابوعبیدہ ؓ اور ابو حاتم ؓ کا مختار ہے ان دونوں حضرات نے کہا : جو خوب غور وفکر اور تثبت سے کام کرے تو کہا جاتا ہے : تبینت الامر وتبین الامر بنفسہ، یہ لازم اور متعدی استعمال ہوتا ہے۔ حمزہ نے فتثبتوا یعنی ثا کے ساتھ اور اس کے بعد باء کے ساتھ پڑھا ہے، تبینوا میں زیادہ تاکید ہے، کیونکہ انسان کبھی کسی کام کو مضبوط تو کرتا ہے، لیکن اس میں غور نہیں کرتا، اذا میں شرط کا معنی ہے اسی وجہ سے فتبینوا “۔ پر فا داخل ہوئی ہے، جزا پر فالگائی جاتی ہے جیسے شاعر نے کہا : واذا تصبک حصاصۃ فتجمل : اور بہتر یہ ہے کہ فا نہ لگائی جائے جیسا کہ شاعر نے کہا : والنفس راغبۃ اذا رغب تھا واذا ترد الی قلیل تقنع : سفر وحضر میں قتل سے پہلے غور و دغوض ضروری ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں سفر کو خاص طور پر ذکر فرمایا، کیونکہ وہ حادثہ سفر میں واقع ہوا تھا جس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم لست مؤمنا “۔ السلم، السلم اور السلام تینوں کا ایک معنی ہے، یہ بخاری کا قول ہے تینوں طرح پڑھا بھی گیا ہے، ابوعبید قاسم بن سلام نے السلام کو اختیار کیا اور اہل نظر نے اس کی مخالفت کی انہوں نے کہا : السلم بہتر ہے، کیونکہ اس کا معنی پیروی کرنا اور تسلیم کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (آیت) ” فالقوا السلم ماکنا نعمل من سوء “۔ (النحل : 28) السلم کا معنی تسلیم کرنا ہے یعنی تم اسے نہ کہو جس نے اپنے ہاتھ ڈال دیے اور سرتسلیم خم کردیا اور تمہاری دعوت کو ظاہر کیا ہے کہ تو مومن نہیں ہے، بعض نے فرمایا : السلم سے مراد السلام علیکم کا قول ہے یہ پہلے مفہوم کی طرف راجع ہے، اسلام کے سلام کے ساتھ سلام کرنا اطاعت اور انقیاد کی دلیل ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا معنی انحیاز اور ترک ہو۔ اخفش نے کہا : فلان سلام جب کوئی کسی سے خلط ملط ہوتا ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 96 دارالکتب العلمیہ) السلم سین کی تشدید اور کسرہ کے ساتھ اور لام کے سکون کے ساتھ ہو تو اس کا معنی صلح ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) ابو جعفر سے مروی ہے کہ انہوں نے (آیت) ” لست مؤمنا “۔ دوسری میم کے فتح کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ امنتہ سے مشتق ہوگا جب تو اسے پناہ دے، فھو مومن وہ پناہ دیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) مسلمان جب کافر سے ملے جس کا کوئی عہد نہیں ہے تو مسلمان کے لیے اس کو قتل کرنا جائز ہے اگر وہ کہے : ” لا الہ الا اللہ “۔ تو پھر اس کا قتل کرنا جائز نہیں، کیونکہ اسلام کے ساتھ وہ محفوظ ہوگیا جو اسلام اس کے خون، مال اور اہل کی حفاظت کرے، اگر وہ اس کے بعد اس کو قتل کردے گا تو بدلے میں اسے بھی قتل کیا جائے گا، اور مذکورہ واقعات میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے قتل ساقط ہوا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھے انہوں نے سمجھا کہ یہ اس نے ہتھیار کے خوف سے اور قتل سے بچنے کے لیے کہا ہے، اس کو بچانے والا اس کا قول ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے بتایا کہ وہ اپنے آپ کو بچانے والا ہوگا اس نے جیسا بھی کہا ہو۔ اسی وجہ سے اسامہ کو فرمایا :” کیا تو نے اس کے دل کو نہیں چیرا تھا تاکہ جو جان لیتا کہ کیا اس نے یہ کیا ہے یا نہیں “ (2) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 68) اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے، یعنی غور وفکر کیا جائے گا کہ وہ اپنے قول میں سچا ہے یاجھوٹا ہے اور یہ ممکن نہیں۔ اور صرف یہی باقی رہ جاتا ہے کہ وہ اپنی زبان سے بیان کرے، اس میں بہت سے مسائل مستنبط ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ احکام کا دارومدار ظن غالب پر ہوتا ہے نہ کہ قطعیت پر اور باطن کے رازوں پر آگاہی کے ساتھ۔ مسئلہ نمبر : (6) اگر کوئی کہہ دے : سلام علیکم تو اسے قتل کرنا جائز نہیں حتی کہ اس کے پیچھے جو کچھ ہے وہ جان لے، کیونکہ یہ اشکال کی جگہ ہے، امام مالک (رح) نے کافر کے بارے فرمایا : جو پایا گیا تو اس نے کہا : میں امن طلب کرتے ہوئے آیا ہوں، میں امان طلب کرتا ہوں، یہ مشکل امور ہیں، میرا خیال ہے اس کو اس کی پناہ کی طرف لوٹایا جائے گا اور اس پر اسلام کا حکم نہیں لگایا جائیگا، کیونکہ اس کے لیے کفر تو ثابت ہے پس اسے وہ چیز ظاہر کرنی ضروری ہے جو اس کے قول پر دلالت کرے، صرف یہ کہنا کہ میں مسلمان ہوں اور میں مومن ہوں کافی نہیں ہے نہ نماز پڑھنا کافی ہے حتی کہ وہ ایسا کلمہ کہے جس کے ساتھ نبی مکرم ﷺ نے حکم کو معلق کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : امرت ان اقتال الناس حتی یقولوا ” لا الہ الا اللہ “۔ (3) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 37) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں حتی کہ وہ ” لا الہ الا اللہ “ کہیں۔ مسئلہ نمبر : (7) اگر نماز پڑھے یا کوئی ایسا فعل کرے جو اسلام کے خصائص میں سے ہے تو اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، ابن عربی (رح) نے کہا : ہمارے خیال میں اس سے وہ مسلمان نہ ہوگا مگر اس سے پوچھا جائے گا اس نماز کے پیچھے کیا ہے اگر وہ کہے : مسلمان کی نماز تو اسے کہا جائے گا ” لا الہ الا اللہ “۔ کہہ، اگر وہ یہ کہے تو اس کا صدق ظاہر ہوجائے گا اگر وہ انکار کرے گا تو ہم جان لیں گے کہ وہ مزاح کر رہا ہے اور جو اس کا یہ فعل اسلام خیال کرتا تھا اس کے نزدیک یہ انکار ردت ہوگیا صحیح یہ ہے کہ یہ کفر اصلی ہے ردت نہیں ہے، یہی حکم ہے جس نے سلام علیکم کہا : اسے کلمہ پڑھنے کا مکلف کیا جائے گا اگر وہ کلمہ پڑھ لے تو اس کی ہدایت ثابت ہوجائے گی اگر وہ انکار کرتا ہے تو اس کا عناد ظاہر ہوجائے گا اور اسے قتل کیا جائے گا (آیت) ” فتبینوا “۔ کے قول کا یہی معنی ہے یعنی مشکل امر میں خوب غوروخوض کرلو۔ اوتثبتوا یعنی جلد نہ کرو، دونوں کا معنی برابر ہے اگر کسی نے اسے قتل کردیا تو وہ ایک ممنوع کام کا ارتکاب کرنے والا ہوگا، اگر کہا جائے کہ نبی کرم ﷺ کا محلم پر سختی کرنا اور قبر سے اس کا باہر آجانا اس کا مخرج کیسا ہے ؟ ہم کہیں گے : کیونکہ اس کی نیت سے معلوم ہوچکا تھا کہ وہ اسلام کی کوئی پرواہ نہیں کرتا پس اس نے اسے جاہلیت کے بغض ودشمنی کی وجہ سے جان بوجھ کر قتل کیا تھا۔ مسئلہ نمبر : (8) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” تبتغون عرض الحیوۃ الدنیا “۔ یعنی جو مال لینا چاہتے ہیں، دنیا کے سامان کو عرض کیا جاتا ہے کیونکہ وہ عارضی ہے، زائل ہونا والا ہے اور ثابت نہیں ہے، ابو عبیدہ نے کہا : دنیا کے تمام سامان کو عرض (را کے فتحہ کے ساتھ) کہا جاتا ہے، اسی سے ہے : الدنیا عرض حاضر یا کل منھا البر والفاجر (1) (مجمع الزوائد، کتاب الصلوۃ، جلد 2 صفحہ 415، حدیث نمبر 3151) دنیا موجود سامان ہے جس سے نیک اور فاجر کھاتا ہے۔ اور العرض (را کے سکون کے ساتھ) دنانیر اور دراہم کے سوا چیزوں کو کہا جاتا ہے، ہر عرض وعرض ہے لیکن ہر عرض، عرض نہیں ہے صحیح مسلم میں نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ ” غنا کثرت عرض (سامان دولت) سے نہیں ہوتی بلکہ غناحقیقۃ نفس کا غنا ہے “ (2) (صحیح مسلم کتاب الزکوۃ جلد 1، صفحہ 336، صحیح بخاری حدیث نمبر 5965، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) بعض علماء نے اس معنی کو نظم میں بیان کیا ہے۔ تقنع بما یکفیک واستعمل الرضا فانک لا تدری اتصبح ام تمسی : فلیس الغنی عن کثرۃ المال انما یکون الغنی والفقر من قبل النفس : یہ ابو عبیدہ ؓ کے قول کی تصحیح کرتا ہے کہ مال ہر اس چیز کو شامل ہے جو متمول ہونے کا باعث ہو، ” کتاب العین “۔ میں ہے العرض سے مراد ہر وہ چیز ہے جو دنیا سے پائی گئی ہو۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” تریدون عرض الدنیا “۔ (الانفال : 67) تم دنیا کے سامان کا ارادہ کرتے ہو، عرض کی جمع عروض ہے۔ ابن الفارس کی ” المجمل “ میں سے العرض وہ مرض وغیرہ جو انسان کو لاحق ہوتی ہے۔ عرض الدنیا جو دنیا کے مال سے تھوڑا ہو یا زیادہ ہو، اور العرض سے مراد وہ سامان ہے جو نقدی کے علاوہ ہے۔ اعرض الشیء کا مطلب ہے جب ظاہر اور ممکن ہو، العرض جو طول کے خلاف ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فعند اللہ مغانم کثیرۃ “۔ جو شخص احکام الہی کی پیروی کرتے ہوئے آئے گا اور ممنوع چیزوں کا ارتکاب نہیں کرے گا اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سی غنیمتیں تیار کر رکھی ہیں پس تم ان نعمتوں کو گراؤ نہیں۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 96 دارالکتب العلمیہ) (آیت) ” کذلک کنتم من قبل “۔ یعنی تم بھی اپنے ایمان کو اپنی قوم کے خوف سے چھپاتے تھے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے دین کو عزت دینے اور دین کو غالب کرنے کے ساتھ تم پر احسان فرمایا : اسی طرح ان میں سے ہر ایک اپنی قوم میں تمہارے ساتھ نماز پڑھنے کے انتظار میں ہے پس یہ درست نہیں کہ جب وہ تمہارے پاس پہنچے تو تم اسے قتل کر دو حتی کہ معاملہ بالکل واضح ہوجائے۔ ابن زید نے کہا : اس کا معنی ہے اسی طرح تم کافر تھے (آیت) ” فمن اللہ علیکم “۔ تم پر اللہ نے احسان فرمایا کہ تم اسلام لے آئے پس تم انکار نہ کرو کہ وہ اس طرح ہو پھر وہ اسلام کا اظہار کرے جب وہ تم سے ملے پس تم اس کے معاملہ میں خوب تحقیق کرلو (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 97 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (10) اس آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام زبان سے اقرار کا نام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا تقولوا لمن القی الیکم السلم لست مؤمنا “۔ یہ علماء فرماتے ہیں : جب ” لا الہ الا اللہ “۔ کہنے والے کو ” مومن نہیں ہے “ کہنے سے منع کیا گیا ہے، تو صرف اس قول سے اسے قتل کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے، اگر ایمان صرف زبان سے اقرار نہ ہوتا تو ان کے قول پر عیب نہ لگاتے، ہم نے کہا : قوم نے اس حالت میں شک کیا کہ یہ قول ان سے بچنے کے لیے کہا ہو پس انہوں نے اسے قتل کردیا اللہ تعالیٰ نے ظاہر شریعت کے علاوہ بندوں کے لیے کوئی حکم نہیں بنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ “۔ (2) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 37) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کروں حتی کہ وہ ” ا لا الہ الا اللہ “۔ کہ دیں، اس میں کوئی دلیل نہیں کہ ایمان فقط اقرار کا نام ہے، کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ منافقین یہ قول کہتے تھے، حالانکہ وہ مومن نہیں تھے جیسا کہ سورة بقرہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے اس کی مزید وضاحت نبی مکرم ﷺ کے اس فرمان نے کردی۔ افلا شققت عن قلبہ (3) (احکام القرآن للطبری، جلد 5، صفحہ 264) اس سے ثابت ہوا کہ ایمان صرف اقرار نہیں، ایمان کی حقیقت تصدیق بالقلب، دل سے تصدیق کرنا ہے اور بندے کے لیے اس تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں مگر جو کچھ اس سے سنے، اس سے انہوں نے بھی استدلال کیا جنہوں نے کہا : زندیق کی توبہ قبول کی جائے گی جب وہ اسلام کو ظاہر کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زندیق اور دوسرے کافروں میں کوئی فرق نہیں کیا جب وہ اسلام کو ظاہر کرے، اس پر گفتگو سورة بقرہ میں گزر چکی ہے، اس آیت میں قدریہ کا رد ہے، اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اس نے مومنین پر تمام مخلوق کے درمیان سے احسان فرمایا انہیں توفیق کے ساتھ خاص فرمایا : اور قدریہ کہتے ہیں : اس نے تمام مخلوق کو ایمان کے لیے تخلیق کیا، اگر معاملہ اس طرح ہوتا جیسا کہ انہوں نے گمان کیا ہے تو مومنین کو احسان کے ساتھ خاص کرنے کا کوئی معنی نہ ہوتا۔ مسئلہ نمبر : (11) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فتبینوا تاکید کے لیے، پھر غور وخوض کے امر کو ذکر فرمایا (آیت) ” ان اللہ کان بما تعملون خبیرا “۔ یہ احکام الہیہ کی مخالفت سے ڈرانا ہے، یعنی اپنے آپ کی حفاظت کرو اور اپنے نفسوں کو ایسی لغزشوں سے بچاؤ جو تمہیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں۔
Top