Al-Qurtubi - Al-Ghaafir : 29
یٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ظٰهِرِیْنَ فِی الْاَرْضِ١٘ فَمَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ اِنْ جَآءَنَا١ؕ قَالَ فِرْعَوْنُ مَاۤ اُرِیْكُمْ اِلَّا مَاۤ اَرٰى وَ مَاۤ اَهْدِیْكُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَكُمُ : تمہارے لئے الْمُلْكُ : بادشاہت الْيَوْمَ : آج ظٰهِرِيْنَ : غالب فِي الْاَرْضِ ۡ : زمین میں فَمَنْ : تو کون يَّنْصُرُنَا : ہماری مدد کرے گا مِنْۢ بَاْسِ اللّٰهِ : اللہ کے عذاب سے اِنْ جَآءَنَا ۭ : اگر وہ آجائے ہم پر قَالَ : کہا فِرْعَوْنُ : فرعون مَآ اُرِيْكُمْ : نہیں میں دکھاتا (رائے دیتا) تمہیں اِلَّا مَآ : مگر جو اَرٰى : میں دیکھتا ہوں وَمَآ : اور نہیں اَهْدِيْكُمْ : راہ دکھاتا تمہیں اِلَّا سَبِيْلَ : مگر راہ الرَّشَادِ : بھلائی
اے قوم ! آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو (لیکن) اگر ہم پر خدا کا عذاب آگیا تو (اسکے دور کرنے کے لئے) ہماری مدد کون کرے گا ؟ فرعون نے کہا میں تمہیں وہی بات سمجھاتا ہوں جو مجھے سوجھی ہے اور وہی راہ بتاتا ہوں جس میں بھلائی ہے
(یقوم لکم الملک۔۔۔۔۔۔ ) یقوم لکم الملک الیوم یہ آل فرعون کے فرعون کا قول ہے اس کا یہ قول لقوم اس امر پر دلیل ہے کہ وہ قبطی تھا وہ اسی وجہ سے اس نے انہیں اپنی ذات کی طرف منسوب کیا اس نے کہا : یقوم تاکہ اس کے وعظ کو قبول کرنے کے قریب ہوجائیں آج حکومت تمہاری ہے اس لیے تم اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائو ظھرین فی الارض یعنی غالب۔ یہ حال ہونے کی حیثیت سے منصوب ہے یعنی تمہارے غلبہ کی حالت میں یہاں ارض سے مراد ارض مصر ہے : یہ سدی اور دوسرے علماء کا قول ہے۔ اسی طرح فرمایا :” وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ج “ (یوسف : 56) مصر کے علاقہ میں ” فَمَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْم بَاْسِ اللہ اِنْ جَآئَ نَا ط “ (المومن : 29) باس سے مراد عذاب ہے انہیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے خبردار کرنا مقصود تھا اگرچہ حضرت موسیٰ سچے ہوں اس نے نصیحت کی اور خبر دار کیا تو فرعون کو ان کی دلیل کے غلبہ کا علمہ و گیا تو اس نے کہا : ما اریکم الا ما اری۔ عبد الرحمن بن زید بن اسلم نے کہا : میں تمہیں وہی مشورہ دیتا ہوں جو میں بہتر خیال کرتا ہوں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور ان پر ایمان لانے سے منع کرنے میں صحیح راستہ کی طرف ہی رہنمائی کرتا ہوں (1) ویقوم انی اخاف علیکم یوم التناد۔ وعظ اور تخویف میں زیادتی کی ہے اور اپنے ایمان کی وضاحت کی یا تو اس لیے یہ کہا کہ اپنے نفس کو قتل ہونے پر تیار کر رہے تھے یا یہ اعتماد تھا کہ وہ اسے کوئی تکلیف نہ پہنچائیں گے اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے سچے قول کی وجہ سے ان کے شر سے محفوظ رکھا۔ عام قرأت التناد ہے دال مخفف ہے وہ یوم قیامت ہے۔ امیہ بن ابی صلت نے کہا : 1 ؎۔ تفسیر الماوردی، جلد 5، صفحہ 154 وبت الخلق فیھا اذدحاما فھم سکانھا حتی التناد (1) جب اس زمین کو پھیلا دیا تو اس میں مخلوق کو پھیلا دیا وہ قیامت تک اس کے رہائشی ہیں۔ اسے یہ نام دیا گیا کیونکہ یہ لوگ ایک دوسرے کو بلائیں گے اصحاب اعراف ایسے لوگوں کو بلائیں گے جن کو وہ چہروں سے پہچانتے ہوں گے اصحاب جنت، اصحاب النار کو آواز دیں گے :” اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا “ (الاعراف : 44) اور جہنمی اصحاب جنت کو ندا کریں گے :” اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآئِ “ (الاعراف : 50) ایک منادی کرنے والا بد بختی اور سعادت کے حوالے سے اعلان کرے گا خبردار ! فلان بن فلان ایسی بد بختی کے ساتھ بد بخت ہوا جس کے بعد وہ کبھی بھی سعادت مند نہ ہوگا خبردار فلان بن فلان ایسی سعادت کے ساتھ سعادت مند ہوا ہے جس کے بعد وہ بد بخت نہیں ہوگا یہ اعمال کے وزن کے بعد ہوگا ملائکہ جنتیوں کو ندا کریں :” اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔ “ ( الاعراف) جب موت کو ذبح کردیا جائے گا تو اس وقت ندا کی جائے گی : اے جنتیو ! یہ ہمیشہ کی زندگی ہے اب موت نہیں اے جہنمیو ! یہ ہمیشہ کی زندگی ہے اب موت نہیں۔ اس ندا کے علاوہ ہر قوم کو اپنے امام کے ساتھ نداء کی جائے گی۔ حضرت حسن بصری، ابن سمیقع، یعقوب، ابن کثیر اور مجاہد نے التناد اصل اور وقف دونوں صورتوں میں یاء کو ثابت رکھنے کے ساتھ قرأت کی ہے۔ حضرت ابن عباس، ضحاک اور عکرمہ نے یوم التناذدال کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے بعض اہل عریبہ نے کہا : یہ غلط ہے کیونکہ نہ ندا، یند سے مشتق ہے یہ اس وقت کہتے ہیں جب وہ اسی طرح بھاگتا چلا جائے جس طرح اسی کا منہ ہو۔ کہا : قیامت میں اس کا کوئی معنی نہیں۔ ابو جعفر نحاس نے کہا : یہ غلط ہے اس کی قرأت اچھی ہے جبکہ اس کا معنی یوم تنافر ہے۔ ضحاک نے کہا : جب وہ جہنم کی آواز کو سنیں گے تو وہ بھاگ کھڑے ہوں گے وہ زمین کے جس حصہ میں آئیں گے وہ فرشتوں کی صفیں پائیں گے تو اسی جگہ کی طرف لوٹ جائیں گے جہاں سے آئے تھے (2) یہی یوم التناد اللہ تعالیٰ کے فرمان :” یٰـمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاََرْضِ “ ( الرحمن : 33) سے مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” وَالْمَلَکُ عَلٰٓی اَرْجَآئِہَا ط “ ( الحاقۃ : 17) ابن مبارک نے اس کے معنی کا ذکر کیا۔ عبد الرحمن بن یزید بن جابر، عبد الجبار بن عبد اللہ بن سلمان نے آیت انی اخاف علیکم یوم التناد۔ یوم توتون مدبرین ان کی آنکھیں آنسوئوں کے ساتھ انہیں جواب دیں گی وہ روئیں گے یہاں تک کہ آنسو ختم ہوجائیں گے پھر آنکھیں خون کے ساتھ انہیں جواب دیں گی تو وہ روئیں گے یہاں تک کہ خون ختم ہوجائے گا پھر ان کی آنکھیں پیپ کے ساتھ جواب دیں گی کہا : ان پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے امر بھیجا جائے گا تو وہ منہ پھیر لیں گے پھر ان کی آنکھیں پیپ کے ساتھ انہیں جواب دیں گی وہ روئیں گے یہاں تک کہ پیپ ختم ہوجائے گی ان کی آنکھیں اتنی گہر ہوجائیں گی جس طرح مٹی میں شوق ہوتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ اس وقت ہوگا جب حضرت اسرافیل فزع کا نفخہ پھونکیں گے : اسے علی بن معبد، طبریٰ اور دوسرے علماء نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے ذکر کیا ہے اس میں ہے زمین اس کشتی کی مانند ہوگی جو سمندر میں ہوتی ہے جسے موجیں تھپیڑے مارتی ہیں لوگ اس پر کا نپنے لگیں گے دودھ پلانے والی اپنے بچوں سے غافل ہوجائیں گی اور حاملہ اپنے حملوں کو گرا دیں گی بچے بوڑھے ہوجائیں گے شیاطین بھاگتے ہوئے اڑ رہے ہوں گے فرشتے انہیں ملیں گے ان کے منہ پر ماریں گے جبکہ ایک دوسرے کو ندا کر رہے ہوں گے اللہ تعالیٰ کے فرمان سے یہی مراد ہے :” یَوْمَ التَّنَادِ ۔ لا یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَج مَا لَکُمْ مِّنَ اللہ مِنْ عَاصِمٍج وَمَنْ یُّضْلِلِ اللہ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ ۔ ہم نے اس کا ذکر کتاب ” التذکرہ “ میں کیا وہاں اس موضوع پر گفتگو کی ہے۔ 1 ؎۔ تفسیر الماوردی، جلد 5، صفحہ 154 2 ؎۔ تفسیر الکشاف، جلد 4، صفحہ 165 علی بن نصر نے ابو عمرو سے وصل کی صورت میں خاص طور پر التناد دال کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو معمر نے عبد الوارث سے وصل کی صورت میں خاص کر یاء کا اضافہ کیا ہے : یہ ورش کا مذہب ہے۔ ابو معمر سے دونوں حالت میں اس کا حذف مشہور ہے۔ ورش اور ابن کثیر کے علاوہ سب نے اسے اسی طرح پڑھا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ اسے یوم التناد اس لیے نام دیا گیا کیونکہ کافر اسی دن اپنے لیے ویل، ثور اور حسرت کو پکارے گا : یہ ابن صریح نے کہا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس میں اضمار ہے تقدیر کلام یوں ہے انی اخاف علیکم یوم التناد اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے یوم تولون مدبرین یہ یوم التناد سے بدل ہے۔ ومن یضلل اللہ فمالہ من ھاد۔ یعنی اللہ تعالیٰ جس کے دل میں گمراہی پیدا کر دے تو اس کو ہدایت دینے والا کوئی نہیں (1) اس کے قائل کے بارے میں دو قول ہیں (1) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) (2) آل فرعون کا مومن : یہی زیادہ مناسب ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
Top