Al-Qurtubi - Al-Ghaafir : 36
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰهَامٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَۙ
وَقَالَ : اور کہا فِرْعَوْنُ : فرعون يٰهَامٰنُ : اے ہامان ابْنِ لِيْ : بنادے میرے لئے صَرْحًا : ایک (بلند) محل لَّعَلِّيْٓ : شاید کہ میں اَبْلُغُ : پہنچ جاؤں الْاَسْبَابَ : راستے
اور فرعون نے کہا کہ ہامان میرے لئے ایک محل بنوا تاکہ میں اس پر چڑھ کر راستوں پر پہنچ جاؤں
(وقال فرعون یھا من۔۔۔ ) وقال فرعون لھا من ابی لی صرحا ًجب آل فرعون نے کہا جو کہا تو فرعون کو خوف ہوا کہ اس مومن کا کلام قوم کے دل میں اثر انداز ہوگا تو اسے خیال گزرا کہ وہ اس چیز کا امتحان لے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) توحید کا پیغام لائے ہیں اگر اس کا درست ہونا صحیح ہوگیا تو وہ ان سے مخفی نہیں رکھے گا اگر وہ درست نہ ہو تو وہ انہیں ان کے دین پر پختہ رکھے گا اس نے اپنے وزیر ہامان کو حکم دیا کہ وہ محل بنائے، سورة قصص میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ لعلی ابلغ الاسباب۔ اسباب السموات، اسباب السموات پہلے الاسباب سے بدل ہے۔ قتادہ، زہری، سدی اور خفش کے قول کے مطابق اسباب السماء سے مراد اس کے دروازے ہیں۔ اور یہ شعر پڑھا : ومن ھاب اسباب النمایا ینلنہٗ ولر رام اسباب السماء بسلم (2) جو موتوں کے اسباب سے ڈرتا ہے وہ اسے پالیتی ہیں اگرچہ آسمان کے دروازوں کا سیڑھی کے ذریعے قصد کرے۔ ابو صالح نے کہا : اسباب السموات سے مراد اس کے راستے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد وہ امور ہیں جن کے وسیلہ سے آسمان مضبوط ہوتے ہیں۔ اسباب کو عظمت شان کے لیے مکرر ذکر کیا ہے کیونکہ جب کسی چیز کو مبہم ذکر کیا جائے پھر اس کی وضاحت کی جائے تو یہ اس کی عظمت شان کا اظہار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ 1 ؎۔ صحیح بخاری، کتاب الایمان جلد 1، صفحہ 13 2 ؎۔ تفسیر الماوردی جلد 5، صفحہ 158 فاطلع الی الہ موسیٰ میں اس کے الہ کی طرف جھانکنے والے کی نظر سے دیکھوں۔ اس نے گمان کیا تھا کہ وہ ایسا جسم ہے جسے مکان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ فرعون الوہیت کا دعویٰ کرتا تھا وہ خیال کرتا تھا کہ اسے ایسی جگہ بیٹھ کر ثابت کیا جاسکتا ہے جہاں سے کسی کی نگرانی کی جاسکے عام قرأت فاطلع ہے اس کا عطف ابلغ پر ہے۔ اعرج، سلمیٰ ، عیسیٰ اور حفص نے فاطلع کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : لعلی کے جواب میں فاء کے ساتھ ہے۔ نحاس نے کہا : نصب کا معنی رفع کے معنی کے خلاف ہے کیونکہ نصب کا معنی ہے جب میں اسباب تک پہنچوں گا میں مطلع ہو جائوں گا، رفع کا معنی ہے میں اسباب تک پہنچوں گا پھر اس کے بعد اس کی اطلاع پائوں مگر ثم، فاء کی بنسبت تراخی میں شدید ہے۔ وانی لا ظنہ گا ذبا میں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں گمان کرتا ہوں کہ وہ میرے سوا جو کسی کے الہ کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں وہ جھوٹا ہے۔ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ محض علت کو ختم کرنے کے لیے کر رہا ہوں یہ اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ فرعون کو اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں شک تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ظن یقین کے معنی میں ہے یعنی میں یقین کرتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے میں جو کچھ کہتا ہوں یہ شبہ کو زائل کرنے کے لیے کہتا ہوں۔ وکذلک زین لفرعون سوء عملہٖ جس طرح فرعون نے یہ بات کی اور اسے شک ہوا شیطان نے یا اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اسکے عمل کو مزید کردیا مراد شرک اور جھٹلانا ہے۔ وصدعن السبیل یہ کو فیوں کی قرأت ہے وصد مجہول ہے، یہ ابو عبید اور ابو حاتم کا پسندیدہ قول ہے۔ وصد کی قرأت بھی جائز ہے دال کے کسرہ کو صاد کی طرف نقل کردیا، یہ یحییٰ بن وثاب اور علقمہ کی قرأت ہے۔ ابن ابی اسحاق اور عبد الرحمن بن بکرہ نے وصد عن السبیل قرأت کی ہے یعنی رفع اور تنوین کے ساتھ قرأت کی ہے باقی قراء نے وصد یعنی فرعون نے لوگوں کو صراط مستقیم سے روکا۔ تباب کا معنی خسران اور گمراہی ہے اسی سے تبت یدا ابی لھب (لہب : 1) وما زادوھم غیر تتبیب۔ (ہود) ایک جگہ فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس کے مینار کو گرا دیا وہ خود اور اس کی قوم ہلاک ہوگئی جس طرح پہلے بحث گزر چکی ہے۔
Top