Al-Qurtubi - Al-Ghaafir : 66
قُلْ اِنِّیْ نُهِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَمَّا جَآءَنِیَ الْبَیِّنٰتُ مِنْ رَّبِّیْ١٘ وَ اُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
قُلْ : فرمادیں اِنِّىْ نُهِيْتُ : مجھے منع کردیا گیا ہے اَنْ : کہ اَعْبُدَ : پرستش کروں میں الَّذِيْنَ : وہ جن کی تَدْعُوْنَ : تم پوجا کرتے ہو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا لَمَّا : جب جَآءَنِيَ : میرے پاس آگئیں الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں مِنْ رَّبِّيْ ۡ : میرے رب سے وَاُمِرْتُ : اور مجھے حکم دیا گیا اَنْ اُسْلِمَ : کہ میں اپنی گردن جھکادوں لِرَبِّ : پروردگار کیلئے الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
(اے محمد ! ﷺ ان سے) کہہ دو کہ مجھے اس بات کی ممانعت کی گئی ہے کہ جن کو تم خدا کے سوا پکارتے ہو میں ان کی پرستش کروں (اور میں انکی پرستش کیونکر کروں) جبکہ میرے پاس میرے پروردگار (کی طرف) سے کھلی دلیلیں آچکی ہیں اور مجھ کو حکم ہوا ہے کہ پروردگار عالم ہی کا تابع فرمان رہوں
( قل انی نھیت۔۔۔۔۔۔ ) قل انی نھیت اے محمد ﷺ ! کہہ دیجئے مجھے اس اللہ نے منع کیا ہے جو حی وقیوم ہے اور لا الہ الا غیرہ ہے کہ میں کسی اور کی عبادت کروں لما جاءنی المینت من ربی یہاں بینات سے مراد توحید کے دلائل ہیں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں عاجزی کا اظہار کروں رب العٰلمین کے لیے۔ مشرکین نے نبی کریم ﷺ کو اپنے آباء کے دین کی طرف دعوت دی تو آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ یہ کہیں۔ ھو الذین خلقکم من تراب ثم من نطفۃ ثم من علقمۃ ثم یخر جکم طفلا ًیہاں طفل بمعنی اطفال ہے یہ بحث پہلے گزر چکی ہے ثم لتبلغوا اشد کم یہ وہ حالت ہے جس میں قوت مجتمع ہوجاتی ہے اور عقل مکمل ہوجاتی ہے۔ سورة الانعام میں یہ وضاحت گزر چکی ہے۔ ثم لتکونوا شیوخا، شیوخا میں شین کے ضمہ کے ساتھ۔ نافع، ابن محیصن، حفص، ہشام، یعقوب اور ابو عمرو نے اپنے اصل پر پڑھا ہے کیونکہ یہ فعل کی جمع ہے جس طرح قلب کی جمع قلوب ہے اور راس کی جمع رئوس آتی ہے باقی قراء نے یاء کی رعایت کرتے ہوئے شین کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے دونوں جمع کثرت کے صیغے ہیں بہت تھوڑی تعداد میں اشیاخ کا وزن آتا ہے جو اصل میں اشیخ تھا جس طرح فلس کی جمع افلس ہے مگر یاء میں حرکت ثقیل ہے اسے شیخا واحد بھی پڑھا گیا ہے جس طرح طفلا۔ یعنی تم میں سے ہر ایک۔ واحد پر اقتصار کیا گیا ہے کیونکہ غرض جنس کا بیان ہے۔ صحاح میں ہے شیخ کی جمع شیوخ، اشیاخ، شیخۃ، شیخان، مشیخۃ، مشایخ اور مشیوخاء آتی ہے عورت کے لیے شیخۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے عبید نے کہا : کانھا شیخۃ رقوب گویا وہ نگاہ رکھنے والی بڑھیا ہے یوں اس کا باب ذکر کیا جاتا ہے شاخ الرجل یشیخ شیخا یہ اپنے اصل پر حرکت کے ساتھ ہے شیخوخۃ۔ اصل میں یاء متحرک ہے تو اسے کسرہ دیا گیا ہے کیونکہ کلام میں مفعول کا وزن نہیں۔ شیخ، تشیبخا۔ یعنی وہ بوڑھا ہوگیا۔ و شیختہ۔ میں نے اس کی تکریم کی خاطر اس کو شیخ کے طور پر بلایا۔ شیخ کی تصغیر شبیخ ہے شبیخ شین کے کسرہ کے ساتھ ہے تو شویخ نہ کہہ۔ نحاس نے کہا : اگر شاعر مجبور ہو تو اس کے لیے اشیخ کہنا جائز ہے جس طرح عین اور اعین ہے کیونکہ عین میں حسن ہے کیونکہ یہ مونث ہے۔ شیخ اسے کہتے ہیں جس کی عمر چالیس سال سے بڑھ جائے۔ ومنکم من یتول من قبل مجاہد نے کہا : اس سے مراد قبل اس کے کہ وہ بوڑھا ہوجائے یا ان احوال سے قبل جب وہ ماں کے پیٹ سے نامکمل بچہ کی حیثیت سے نکلے ولتبلغوا اجلا ًمسمی۔ مجاہد نے کہا : موت تو سب کے لیے ہے اور فعل میں لام عاقبت کا ہے لعلکم تعقلون۔ اس کا مفعول ذلک ہے پس تم جانو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ھوا لذی یحی ویمیت تنبیہ میں اضافہ کیا یعنی وہی ذات ہے جو زندہ کرنے اور موت دینے پر قادر ہے فاذا اقضی امرا یعنی جب وہ کسی عمل کو کرنے کا ارادہ کرلے تو اسے فرماتا ہے کن فیکون۔ بن عامر نے جواب امر کے طور پر یکون نصب دی ہے۔ سورة البقرہ میں یہ بحث گزر چکی ہے۔
Top