Al-Qurtubi - Al-Ghaafir : 79
اَللّٰهُ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ٘
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے لَكُمُ : تمہارے لئے الْاَنْعَامَ : چوپائے لِتَرْكَبُوْا : تاکہ تم سوار ہو مِنْهَا : ان سے وَمِنْهَا : اور ان سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو
خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے چارپائے بنائے تاکہ ان میں سے بعض پر سوار ہو اور بعض کو تم کھاتے ہو
( اللہ الذی جعل لکم۔۔۔۔۔۔۔ ) اللہ الذی جعل لکم الانعام ابو اسحاق زجاج نے کہا : انعام سے مراد یہاں اونٹ ہیں لترکموا منھا ومنھا تاکلون۔ جن علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ گھوڑے کا گوشت کھانا منع ہے اور اونٹ کا گوشت کھانا مباح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انعام کے بارے میں فرمایا :” ومنھا تاکلون “ اور گھوڑوں کے بارے میں فرمایا :” وَّالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْھَا “ (النحل : 8) ان کے کھانے کی اباحت کا ذکر نہیں کیا۔ سورة نحل میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ ولکم فیھا منافع اونٹ کے بالوں، اون بکری کے بالوں، دودھ، مکھن، گھی اور پنیر وغیرہ میں تمہارے لیے منافع ہے ولتبلغوا علیھا حاجۃ فی صدور کم یعنی یہ جانور بوجھ اٹھاتے ہیں اور دور دراز سفروں پر لے جاتے ہیں۔ سورة نحل میں مفصل بحث گزر چکی ہے اب اس کے اعادہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر فرمایا : وعلیھا یعنی خشکی میں اونٹوں پر وعلی الفلک اور سمندر میں کشتیوں پر تحملون۔ ویریکم ایتہ یہاں آیات سے مراد وہ آیات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور اس کی قدرت پر دلات کرتی ہے فای ایت اللہ تنکرون۔ تنکرون کی وجہ سے منصوب ہے کیونکہ کلمہ استفہام کلام کے شروع میں آتا ہے اس لیے اس میں اس کا ما قبل عمل نہیں کرتا اگر فعل کے ساتھ ایسی ضمیر ہو جو اسی کی طرف لوٹے تو اس میں رفع پسندیدہ ہے اگر استفہام ہمزہ یا مل کی صورت میں ہو اور ان کے بعد کوئی اسم، اس کے بعد فعل ہو جس کے ساتھ ایسی ضمیر ملی ہو جو اس اسم کی طرف لوٹے تو نصیب دینا پسندیدہ ہوگا معنی یہ بنے گا جبکہ اس کا انکار نہیں کرتے کہ یہ اشیاء اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں تو تم دوبارہ اٹھانے پر اس کی قدرت کا کیوں انکار کرتے ہو ؟۔
Top