Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 12
وَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا وَ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَ الْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَۙ
وَالَّذِيْ : اور وہ ذات خَلَقَ الْاَزْوَاجَ : جس نے بنائے جوڑے كُلَّهَا : سارے کے سارے اس کے وَجَعَلَ : اور اس نے بنایا لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ : سے الْفُلْكِ : کشتیوں میں (سے) وَالْاَنْعَامِ : اور مویشیوں میں سے مَا تَرْكَبُوْنَ : جو تم سواری کرتے ہو
اور جس نے تمام قسم کے حیوانات پیدا کیے اور تمہارے لئے کشتیاں اور چارپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو
والذی خلق الا زواج کلھا و جعل لکم من الفلک والا نعام ماترکبون۔ لتستواعلی ظھورہ ثم تذکروا نعمتہ ربکم اذا اس تو یتم علیہ و تقولو اسنحن الذی مخر لنا ھذا وما کنا لہ مقرنین۔ وانا الی ربنا لمنقلیبون۔ ” اور جس نے ہر قسم کی مخلوق پیدا فرمائی اور بنادیں تمہارے لیے کشتیاں اور مویشی جن پر تم سوار ہوتے ہو تاکہ تم جم کر بیٹھو ان کی پیٹھوں پر پھر (دلوں میں) یاد کرو اپنے رب کی نعمت کو جب تم خوب کم کر بیٹھ جائو ان پر اور (زبان سے) یہ کہو : پاک ہے وہ ذات جس نے فرمانبردار بنا دیا ہے اسے ہمارے لیے اور ہم اس پر قابو پانے کی قدرت نہ رکھتے تھے اور یقینا ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والی ہیں “۔ اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ والذی خلق الازواج یعنی اللہ تعالیٰ نے جوڑے پیدا کیے۔ سعید بن جبیر نے کہا : تمام قسم کی اصناف پیدا کیں (1) ۔ حضرت حسن بصری نے کہا : جس نے موسم سرما، موسم گرما، رات، دن، آسمان، زمین، سورج، چاند، جنت اور جہنم کو پیدا کیا (2) ۔ ایک قول یہ کیا گیا : حیوانوں میں سے مذکر اور مئونث پیدا کیے (3) ؛ یہ ابن عیسیٰ کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : نباتات کے جوڑے مراد ہیں، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : واثبتنا فیھا من کل زوج بھیج۔ (ق) من کل زوج کریم۔ (لقمان : 10) ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد ایمان و کفر، نفع و نقصان، فقرو غنا اور صحت و بیماری ہیں جو انسان میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں : یہ قول تمام اقوال کو عام ہے اپنے عموم کی وجہ سے تمام کو جمع ہے۔ وجعل لکم من الفلک فلک سے مراد کشتیاں ہیں والانعام سے ماد اونٹ ہیں ماتر کبون۔ جن پر خشکی اور گرمی میں سورای کرتے ہو۔ لتستو اعلی ظھورہ یہاں ضمیر ذکر کی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ماترکبون کی طرف لوٹ رہا ہے ؛ یہ ابو عبید کا قول ہے۔ فراء نے کہا : ظھورہ کو واحد ضمیر کی طرف مضاف کیا ہے (4) ، کیونکہ اس سے مراد جنس ہے ایک جمع کے معنی میں ہوگا جس طرح جیش اور جندواحد ہونے کے باوجود جمع کے معنی میں ہوتے ہیں اسی وجہ سے ضمیر مذکر ذکر کی اور ظہور کو جمع ذکر کیا تقدیر کلام یہ ہوگی علی ظھور ھذا الجنس۔ مسئلہ نمبر 2۔ سعید بن جبیر نے کہا : یہاں انعام سے مراد اونٹ اور گائے ہے (5) ۔ ابو معاذ نے کہا : صرف اونٹ ہیں (1) ؛ یہی صحیح ہے کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ” اسی اثنا میں کہ ایک آدمی گائے پر سوار تھا کہ گائے نے اس سے کہا : مجھے اس مقصد کے لیے پیدا نہیں کیا گیا مجھے تو ہل چلانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے (2) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” میں، ابو بکر، اور عمر اس پر ایمان لائے “ جبکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ اس وقت حاضر نہ تھے۔ سورة النحل کے آغاز میں یہ بحث گذر چکی ہے۔ الحمد اللہ۔ مسئلہ نمبر 3۔ لتستو اعلی ظھورہ اس سے مراد خاص طور پر اونٹ ہیں اس دلیل کی وجہ سے جو ہم نے ذکر کی ہے اور کشتیوں کے اندر بیٹھا جاتا ہے ان کشتیوں پر سوار نہیں ہوا جاتا لیکن سورت کے آغاز میں ان دونوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک کو دوسرے پر عطف کیا جاتا ہے۔ یہ بھی احتمال ہو سکتا ہے کہ کشتی کے ظاہر کو اس کا باطن بنا دیا جائے کیونکہ پانی کشتی کو ڈھانپے اور چھپائے ہوئے ہوتا ہے اس کا بطن ہی ظاہر بنا دیا جائے گا۔ کیونکہ یہ باطن لوگوں کے لیے منکشف ہوتا ہے اور دیکھنے والوں کے لیے یہی پست ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ ثم تذکروانعمتہ ربکم اذاستویتم علیہ یعنی جس پر سواری کرتے ہو۔ نعمت کے ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہے کہ اس نے اس چیز کو ہمارے لیے خشکی اور تری میں مسخر کردیا ہے وتقو لو اسبحن الذی سخر لنا ھذا یعنی اس نے ہمارے لیے سواری کو مسخر کیا۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کع قراءت میں ہے سنحان من مخرلنا ھذا۔ وما کنا لہ مقرنین۔ یعنی ہم اس کی طاقت نہ رکھتے تھے ؛ یہ حضرت ابن عباس ؓ اور کلبی کا قول ہے (3) ۔ اخفش اور ابو عبیدہ کا نقطہ نظر ہے کہ مقرنین کا معنی ہے ضابطین ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے قوت میں مماثل۔ یہ عربوں کے اس قول سے ماخوذ ہے : قرن فلان جب وہ قوت میں اس کی مماثل ہو، یہ جملہ کہا جاتا ہے : فلان مقرن لفلان یعنی فلاں، فلاں کو قابو کرنے وال ہے، اسی معنی میں یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں ارانت کذا۔ اقرن لہ وہ اس پر قوی ہوگیا گویا وہ اس کا ہم مقابل ہوگیا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وما کنا لہ مقرنین یعنی ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ قطرب نے عمرو بن معد یکرب کا شعت پڑھا : لقد علم القبائل ما عقیل لنا فی النائبات بمقرنینا قبائل جان گئے ہیں عقیل حادثات زمانہ میں ہمارے ہم پلہ نہیں ہیں۔ ایک اور شاعرنے کہا : رکبتم صعبتی اشرا و حینفا التم للضعاب بمعرنینا نیز مقرن اسے کہتے ہیں جس پر ضیاع غالب آجائے اس کے اونٹ ہوں یا بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اور ان پر اس کا کوئی معاون نہ ہو یا وہ اونٹوں کو پانی پلائے اور انہیں کوئی ہنکانے والا نہ ہو۔ سکیت نے کہا : اس کی اصل میں وہ قول ہیں : (1) یہ اقران سے ماخوذ ہے یہ باب چلایا جاتا ہے اقرن یقرن اقرا نا جب طاقت رکھے اقرنت کذاجب تو اسے محکم بنائے گویا اسے پہاڑ میں بنایا، قرن سے مرا پہاڑ ہے اسے پختہ بنایا اور مضبوط کیا (2) یہ مقارنہ سے ماخوذ ہے اس سے مراد وہ چال میں ایل دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں یہ جملہ کہا جاتا ہے : قرنت کذابکذاجب تو اسے اس کے ساتھ باندھ دے اور تو اسے اس کا ساتھی بنا دے۔ مسئلہ نمبر 5۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ جب ہم سواریوں پر سورا ہوں تو ہم کیا کہیں اور جب ہم کشتی پر سوار ہوں تو حضرت نوح (علیہ السلام) کی زبان سے ایل اور آیت میں اس کو بھی پہچان لیا ہے وہ یہ ارشاد ہے : وقال ارکبوافیھا بسم اللہ مجرھا و مرسھا ان ربی لغفور رحیم۔ (ہود) کتنے ہی جانروں پر سوار لوگ ہیں کہ سواری سوار کے ساتھ لڑکھڑا گئی یا سرگرداں ہوگئی یا اس نے سوار کو نیچے گرا دیا یا سوار اس کی پشت سے نیچے گرگیا اور ہلاک ہوگیا، کتنے ہی کشتی میں سوار ہونے والے ہیں کشتی ان کے ساتھ ٹوٹ گئی تو سب غرق ہوگئے۔ جب سوار ہو یا ایک ممنوع امر کے ساتھ ملا ہوا ہے اور تلف کے اسباب میں سے چند اسباب کے ساتھ ملا ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے والا ہے وہ اس کی قضا سے بچنے والا نہیں وہ اپنے دل اور زبان سے اس کے ذکر کو نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ملاقات کے لیے اس طرح تیار ہوجائے کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح کرنے والا ہو اور اس احتیاط کو بھی پیش نظر رکھے کہ اس کی یہ سواری اللہ تعالیٰ کے علم میں اس کے موت کے اسباب میں سے ہو اور وہ خود اس سے غافل ہو۔ سلیمان بن یسار نے یہ حکایت بیان کی ہے کہ لوگ سفر میں تھے جب وہ سوار ہوئے تہ کہتے : سبحن الذی سخرلنا ھذاوما کنا لہ مقرنین۔ ان میں سے ایک آدمی تھا جو انتہائی کزور سواری پر سوار تھا اونٹ میں سے رازم اسے کہتے ہیں جو زمین پر کھڑا رہتا ہے اور کمزوری کی وجہ سے حرکت نہیں کرتا یا یوں جملہ بولا جاتا ہے قدر زمت الناقتہ ترزم وترزم رزامورزاما وہ ٹھکاوٹ اور کمزوری کی وجہ سے کھڑی ہوگئی وہ حرکت نہیں کرتی۔ صحاح میں جو ہری نے یہ بات کہی ہے۔ اس آدمی نے کہا : جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو اس پر غالب ہوں اس اونٹنی نے اسے گرادیا اور اسکی گردن ٹوٹ گئی۔ روایت بیان کی جاتی ہے : ایک بدو اپنے قعود اونٹ (چرواہا ہر ضرورت کے لیے جس اونٹ کو استعمال کرتا ہو) پر سوار ہوا اس نے کہا : اسے قابو کرنے والا ہوں، وہ قعود اونٹ اسے لے کر دوڑ پڑا یہاں تک کہ اسے گرادیا تو اس کی گردن ٹوٹ گئی ! پہلا واقعہ مادردی اور دوسرا ابن علی نے ذکر کیا ہے۔ کہا : کسی بندے کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس دعا کو چھوڑے زبان سے اس کا ذکر واجب نہیں جب وہ سوار ہو تو یہ کہے اور سفر میں جب اسے یاد آجائے سنحن الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین۔ وانا الی ربنالمنقلبون۔ اے اللہ ! تو ہی سفر میں ساتھی ہے اہل اور مال میں تو ہی خلیفہ ہے، اے اللہ ! میں سفر کی مشقت سے واپس پلٹنے کے غم، کور کے بعد جاو اور اہل و مال میں برے منظر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ الجور بعد الکور سے فراد ہے امور کے مجتمع ہونے کے بعد ان کا بکھر جانا۔ عمر بن دینار نے کہا : میں ابو جعفر کے ساتھ ان کی زمین کی طرف نکلا جو باغ کی مثل تھی جسے مدر کہ کہتے وہ ایک تندخواونٹ پر سوار ہوئے میں نے ان سے عرض کی : اے ابو جعفر ! کیا تجھے ڈر نہیں کہ یہ تجھے گرا دے گا تو فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ہر اونٹ کی کہ ان پر ایک شیطان ہوتا ہے جب تم اس پر سوار ہو تو اللہ تعالیٰ کا نم یاد کیا کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے پھر اس سے خدمت لو “ (1) ۔ حضرت علی بن ربیعہ نے کہا : میں نے حضرت علی شیر خدا رضی وللہ عنہ کو دیکھا وہ ایک روز سوار ہوئے جب آپ نے اپنا قدم رکاب میں رکھا تو کہا : بسم اللہ جب سواری پر بیٹھ گئے تو کہا : الحمد للہ پھر کہا : سبحن الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین۔ وانا الی ربنا لمنقلبون۔ پھر تین بار کہا : الحمدللہ واللہ اکبر اللھم لا الہ الا انت ظلمت نفسی فاغفر لی انہ لا یغفر الذنوب الا انت پھر آپ ہنسے۔ میں نے ان سے پوچھا کس چیز نے تجھے ہنسایا ہے ؟ کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے اور اسی طرح کہا جس طرح میں نے کہا ہے پھر آپ ہنسے میں نے پوچھا : یارسول اللہ ﷺ ! کس چیز نے آپ کو ہنسایا ہے فرمایا : اس بندے کے قول پر تعجب کی وجہ سے جع کہتا ہے : اللھم لا الہ الا نت ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لا مغفر الذنوب الا انت (2) وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کوئی گناہ نہیں بخشتا۔ ابودائود طیالسی نے اسے اپنی مسند میں اور ابو عبداللہ محمد بن خویز منداد نے احکام میں ذکر کیا ہے۔ ثعلبی نے اسی کی مثل حضرت علی شیر خدا ؓ سے مختصر نقل کیا ہے، الفاظ یہ ہیں نبی کریم ﷺ جب اپنا قدم رکاب میں رکھتے تو فرماتے بسم اللہ جب اوپر بیٹھ جاتے تو فرماتے (3): الحمد للہ علہ کل حال سبحن الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین۔ وانا الی ربنا لمنقلبون۔ جب تم کشتی اور چوپائے سے نیچے اترو تو کہو اللھم انزلنا منز لا مباد کا وانت خیر المنزلین۔ ابن ابی نجیح نے مجاہد سے روایت نقل کی ہے کہ جو آدمی سوار ہوا اور سبحن الذی سخرلنا ھذا و ما کنا لہ مقرنین۔ نہ کہا شیطان اسے کہتا ہے : تو اسکے لیے نغمہ گا (4) ۔ اگر وہ اچھی طرح نہ گا سکتا ہو تو اسے کہتا ہے : اپنی طرف سے بنالے : یہ نحاس نے ذکر کیا ہے۔ جو آدمی اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے : آج ہم گھوڑوں پر سیر کریں یا کشتی میں سیر کریں وہ سوار ہوتے ہیں جبکہ وہ اپنے ساتھ شراب کے برتن اور آلات لہو و لعب اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں وہ لگا تار اسے پیتے رہتے ہیں یہاں تک شراب سے اکتاہٹ ہوجاتی ہے جبکہ وہ جانوروں کی پشتوں پر ہوتے ہیں یا کشتیوں کے اندر ہوتے ہیں جبکہ کشتیاں انہیں لے کر کل رہی ہوتی ہیں وہ صرف شیطان کا ذکر کرتے ہیں، وہ صرف اس کے حکم کو ہی مانتے ہیں، وہ ایسے لوگوں کے پاس کھڑا ہونے سے بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ زمحشری نے کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ ایک حاکم سوار ہوا جبکہ وہ شراب پیتا تھا ایل شہر سے دوسرے شہر کے درمیان ایک ماہ کی مسافت تھی اسے ہوش نہ آیا مگر جب وہ اپنے گھر پہنچ چکا تھا اسے سفر کا احساس تک نہ ہوا ایسے سواروں کے عمل اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو حکم دیا ہے ان کے درمیان کتنا بعد ہے (5) ۔ وجعلو الہ من عبادہ جزئا ان الا نسان لکفو رمبین۔ ” اور بنا دی ہے مشرکوں نے اس کے لیے اس کے بندوں سے اولاد، بیشک انسان کھلا ہونا شکر گزار ہے “۔ وجعلو الہ من عبادہ جزئ ! یہاں جزئ، عدل کے معنی میں ہے یعنی مثل (1) ۔ قتادہ سے مروی ہے : اس سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی عبادت کی جاتی ہے۔ زجاج اور مبرد نے کہا : یہاں جزء سے فراد بیٹیاں ہیں۔ مومن ان کی جہالت پر متعجب ہوئے جب انہوں نے یہ اقرار کیا کہ آسمانوں اور زمین کا خالق اللہ تعالیٰ ہے پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شریک اور بچہ بنایا انہیں علم نہیں تھا کہ جو آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر قادر ہے وہ کیس شے کا محتاج نہیں ہو سکتا جس کے ساتھ قوت حاصل کرے یا اس سے انس حاصل کرے کیونکہ یہ نقص کی صفات میں سے ہے۔ ماوروی نے کہا : عربوں کے نزدیک جزء سے مراد بیٹیاں ہیں (2) ۔ جب عورت بیٹیاں جنے تو عرب کہتے ہیں اجزات المراءۃ شاعر نے کہا : ان اجزات خرۃ ہو ما فلا عجب وقد تجزی الحرۃ المذکار احیانا (3) اگر شریف عورت نے کسی روز بچی جنی ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کئی مواقع پر وہ بچے بھی جن دیتی ہے۔ زمحشری نے کہا : عجیب و غریب تفاسیر میں سے یہ ہے کہ جزء کی تفسیر عورتوں سے کی جائے اور یہ دعوی کیا جائے کہ جزء کا لفظ لغت عرب میں عورتوں کے لیے آتا ہے (4) یہ عربوں پر جھوٹ ہے اور نئی وضع ہے انہوں نے اسی پر قناعت نہ کی یہاں تک کہ انہوں نے اس سے یہ فعل مشتق کرلیا اجزات المراۃ پھر شعر بنادیے : ان اجزات حرۃ یوما فلا عجب زوجتھامن بنات الاوس مجزئتہ (5) اللہ تعالیٰ کا فرمان : وجعلو الہ من عبادہ جزء اللہ تعالیٰ کے فرمان ولین سالتھم کے ساتھ متصل ہے اگر تو ان سے آسمانوں اور زمین کے خالق کے بارے میں پوچھے تو وہ اس کا اعتراف کریں گے اس اعتراف کے باوجود انہوں نے اس کے بندوں میں سے اسکا جز بنا دیا ہے اور مخلوقات کی صفات سے اس کا وصف بیان کیا ہے من عبادہ جزءا کا معنی ہے انہوں نے کہا : ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں، انہوں نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کا جز بنا دیا جس طرح اولاد والد کا جز ہوا کرتی ہے۔ اسے جزء ! دو ضموں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ ان الانسان لکفور مبین۔ انسان سے مراد کافر ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : وہ مصائب کو شمار کرتا ہے اور نعمتوں کو بھول جاتا ہے مبین کا معنی ہے وہ کفر کو ظاہر کرتا ہے (6)
Top