Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 16
اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىكُمْ بِالْبَنِیْنَ
اَمِ اتَّخَذَ : یا اس نے انتخاب کرلیں مِمَّا يَخْلُقُ : اس میں سے جو وہ پیدا کرتا ہے بَنٰتٍ : بیٹیاں وَّاَصْفٰىكُمْ : اور چن لیا تم کو بِالْبَنِيْنَ : ساتھ بیٹوں کے
کیا اس نے اپنی مخلوقات میں سے خود تو بیٹیاں لیں اور تم کو چن کر بیٹے دے دئیے
ام اتخذ مما یخلق بنت و اصفکم بالبنین۔ ” کیا اللہ تعالیٰ نے پسند کرلی ہیں اپنے لیے اپنی مخلوق سے بیٹیاں اور مخصوص کردیا ہے تمہیں بیٹوں کے ساتھ “۔ ام اتخذ مما یخلق بنت ام میں میم زائدہ ہے تقدیر کلام یہ ہے کیا اس نے جو پیدا کیا ہے اس کو بیٹیاں بنا لیا ہے جس طرح تمہارا گمان ہے فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں لفظ استفہام کا ہے معنی تو بیخ ہے واصغکم بالبنین۔ تمہیں بیٹوں کے لیے خاص کیا، یہ جملہ کہا جاتا ہے : اصفیتہ بکذا یعنی میں نے اس کو اس کے پیچھے لگایا۔ اصفیتہ الود میں نے اس کے لیے محبت کو خالص کیا۔ صافیتہ و تمافینا ہم نے خالص کیا۔ اس امر پر تعجب کا اظہار کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس امر کو منسوب کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹیوں کو منتخب کیا جبکہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو پسند کیا جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو اگرچہ جاہل یہ وہم کرے کہ اس نے اپنے لیے بیٹا منتخب کیا ہے۔ اس کافر نے اللہ تعالیٰ کی طرف دو جنسوں میں ارفع جنس کو کیوں منسوب نہیں کیا انہوں نے اپنے لیے معزز جنس کو کیوں بنایا اور اللہ تعالیٰ کے لیے ادنی درجے کی جنس کو منتخب کیا یہ اسی طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : الکم الذکرو لہ الانثی۔ تلک اذاقسمتہ ضیزی۔ (النجم)
Top