بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 1
حٰمٓۚۛ
حٰمٓ : حا۔ میم
حٰم۔
آیات نمبر ا، 2، 3 حم۔ والکتب المبین۔ اس کے بارے میں گفتگو گذر چکی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حم قسم ہے والکتب المبین دوسری قسم ہے، اللہ تعالیٰ کو حق حاصل ہے کہ جس کی چاہے قسم اٹھائے اس کا جواب قسم انا جعلنہ ہے۔ ابن انباری نے کہا : جس نے والکتب کا جواب حم کو نبایا جس طرح تو کہتا ہے نزل واللہ، وجب واللہ تو اس نے الکتب المبین پر وقف کیا ہے، جس نے جواب قسم انا جعلنہ کو نبایا ہے اس نے والکتب المبین پر وقف نہیں کیا۔ جعلنہ کا معنی ہے ہم نے اس کا نام رکھا اور ہم نے اس کی صفت بیان کی۔ اسی وجہ سے یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے جس طرح اس ارشاد میں ہے ماجعل اللہ من بحیرۃ (المائدہ : 103) سدی نے کہا : ہم نے اسے نازل کیا ہے جو قرآن ہے (1) ۔ مجاہد نے کہا : ہم نے یہ کہا۔ زجاج اور سفیان ثوری نے کہا : ہم نے اسے بیان کیا۔ عربیا ہم نے اسے عربوں کی زبان میں نازل کیا کیونکہ ہر نبی کی کتاب اس کی قوم کی زبان میں بازل کی گئی (2) ؛ یہ سفیان ثوری اور دوسرے علماء نے کہا : مقاتل نے کہا : آسمان والوں کی زبان عربی ہے (3) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کتاب سے مراد وہ تمام کتابیں ہیں جو انبیاء پر نازل کی گئیں کیونکہ کتاب اسم جنس ہے گویا جتنی بھی کتابیں نازل کی گئیں ان کی قسم اٹھائی کہ اس نے قرآن کو عربی بنایا جعلنہ میں ضمیر قرآن کے لیے ہے اگرچہ اس سورت میں اس کا پہلے ذکر نہیں ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : انا انزلنہ فی لیلتہ القدر۔ لعلکم تعقلون۔ تاکہ تم اس کے احکام اور اس کے معافی کو سمجھو۔ اس تعبیر کی بنا پر یہ عربوں کے لیے خاص ہوگا عجمیوں کے لیے نہیں ہوگا (4) ؛ یہ ابن عیسیٰ کا قول ہے۔ ابن زید نے کہا : معنی ہے تاکہ تم سوچ وبچار کرو۔ اس تعبیر کی بنا پر عربیوں اور عجمیوں سب کے لیے عام ہوگا۔ کتاب کی صفت مبین سے لگائی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنے احکام اور فرائض کو بیان فرمایا ہے جس طرح کئی مواقع پر یہ بحث گذر چکی ہے۔
Top