Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 22
بَلْ قَالُوْۤا اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤى اٰثٰرِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ
بَلْ : بلکہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّا : بیشک ہم نے وَجَدْنَآ : پایا ہم نے اٰبَآءَنَا : اپنے آباؤ اجداد کو عَلٰٓي اُمَّةٍ : ایک طریقے پر وَّ اِنَّا : اور بیشک ہم عَلٰٓي اٰثٰرِهِمْ : ان کے آچار پر۔ نقش قدم پر مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ ہیں۔ راہ پانے والے ہیں
بلکہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پایا ہے اور ہم انہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں
اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر ا۔ علی امتہ مراد طریقہ اور مذہب ہے ؛ یہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے (1) ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز، مجاہد اور قتادہ اسے امتہ پڑھا کرتے تھے اور امتہ کا معنی طریقہ ہے۔ جو ہری نے کہا : امتہ کا معنی نعمت ہے اور امتہ، امتہ کی بھی ایک لغت ہے اس سے فراد طریقہ اور دین ہے ؛ یہ ابو عبیدہ سے مروی ہے۔ عدی بن زید نے نعمتہ کا معنی لیتے ہوئے کہا : ثم بعد الفلاح و الملک والامتہ وارتھم ھناک القبور کامیابی، بادشاہت اور نعمت کے بعد وہاں قبروں نے انہیں چھپا لیا۔ یہ جوہری کے علاوہ سے مروی ہے۔ قتادہ اور عطیہ نے کہا : علی امتہ کا معنی ہے دین پر (2) ۔ قیس بن خطیم کا قول اسی معنی میں مروی ہے : کنا علی امتہ آبائنا ویقتدی الاخر بالاول ہم اپنے آباء کے دین پر ہیں اور بعد والا پہلے کی اقتداء کر رہا ہے۔ جوہری نے کہا : امتہ کا معنی طریقہ اور دین ہے یہ جملہ کہا جاتا ہے : فلاں لا امتہ لہ فلاں کا کوئی دین نہیں، شاعر نے کہا : وھل یستوی ذوامتہ و کفور کیا دین والا اور کافر برابر ہو سکتے ہیں۔ مجاہد اور قطرب نے کہا علی دین، علی ملتہ (3) ۔ دین اور ملت پر۔ بعض مصاحف میں ہے قالوا اناوجدنا آباء نا علی ملتہ یہ تمام اقوال قریب قریب ہیں (4) ۔ فراء سے مروی ہے : ملت پر، قبلہ پر۔ اخضش نے کہا : استقامت پر۔ اور نابغہ کا شعت پڑھا : حلفت فلم اترک لنفک ریبتہ وھل تاثمن ْذوامتہ وھو طائع میں نے قسم اٹھادی ہے اور میں نے تیرے نفس کے لیے کوئی شک نہیں چھوڑا کیا استقامت پر کار بند گناہگار ہو سکتا ہے جبکہ خوشی سے کام کر رہا ہو۔ مسئلہ نمبر 2۔ وانا علی اثرھم مھتدون۔ یعنی ہم ان سے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔ ایک اور آیت میں مقتدون کے الفاظ ہیں۔ یعنی ہم ان کی اقتدا کرتے ہیں معنی ایک ہی ہے۔ قتادہ نے کہا : ہم اقتدا کرتے ہیں (1) ، ہم پیروی کرتے ہیں۔ اس میں تقلید کے ابطال پر دلیل ہے کہون کہ ان کی اپنے آباء کی تقلید پر مذمت کی گئی ہے اور اس پر مذمت کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں جس امر کی دعوت دی اس میں غور و فکر کو انہوں نے ترک کردیا تھا۔ اس بارے میں گفتگو سورة بقرۃ میں گذر چکی ہے۔ مقاتل نے بیان کیا کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ، ابو سفیان، ابوجہل، عتبہ، شیبہ جو ربیعہ کے بیٹے تھے کے بارے میں نازل ہوئی انہوں نے وہی بات کی جوان سے قبل لوگوں نے بات کی تھی۔ مقصور نبی کریم ﷺ کو تسلی دینا ہے اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : مایقال لک الا ماقد قیل للرسل من قبلک (حم السجدہ : 43) مترف سے مراد خوشحال آدمی ہے یہاں اس سے مراد بادشاہ اور جابر لوگ ہیں۔ قل او لو نئتکم باھدی مما وجدتم علیہ اباء کم قالوا انا مبا ارسلتم بہ کفرون۔ ” اس نبی نے فرمایا کہ اگر میں لے آئوں تمہارے پاس زیادہ درست چیز اس سے جس پر پایا ہے تم نے اپنے باپ دادا کو تب بھی ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم جو دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے اس کو نہیں مانتے “۔
Top