Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 26
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖۤ اِنَّنِیْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَۙ
وَاِذْ قَالَ : اور جب کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم نے لِاَبِيْهِ : اپنے والد سے وَقَوْمِهٖٓ : اور اپنی قوم سے اِنَّنِيْ : بیشک میں بَرَآءٌ : بےزار ہوں مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ : اس سے جو تم عبادت کرتے ہو
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ جن چیزوں کو تم پوجتے ہو میں ان سے بیزار ہوں
واذ قال ابرھیم لا بیہ و قومہ اننی برآء مما تعبدون۔ الا الذی فطرنی نانہ سیھدین۔ ” اور یاد کیجئے جب کہا ابرہیم نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہ میں بےزارہوں ان سے جن کی تم عبادت کرتے ہو بجز اس کے جس نے مجھے پیدا فرمایا بیشک وہی میری راہنمائی کرے گا “۔ واذ قال انہیں یاد دلا یئے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا : جن کی تمام عبادت کرتے ہو میں ان سے بری ہوں۔ براء کا لفظ واحد اور اس سے اوپر کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کا نہ تثنیہ بنایا جاسکتا ہے نہ جمع اور نہ ہی اس کا مونث بنایا جاتا ہے کیونکہ یہ مصدر ہے اور صفت کی جگہ اسے رکھا گیا ہے یہ نہیں کہا جاتا : البراء ان، البراء ون، کیونکہ معنی ذوالبراء اور ذو والبراء ہے۔ جوہری نے کہا : تبرات من کذا، انامنہ براء وخلاء منہ اس کا تثنیہ اور جمع نہیں بنائی جاتی کیونکہ یہ اصل میں مصدر ہے جس طرح سمع سما عا جب تو کہے : انا بری منہ دخلی۔ اس کا تثنیہ، جمع اور مونث بنائی جائیگی اور تو جمع میں کہے گا : نحن منہ برآئ، جس طرح فقیہ کی جمع فقہاء آتی ہے اور براء بھی آتی ہے جس طرح کریم کی جمع کرام آتی ہے ابراء بھی جمع آتی ہے جس طرح شریف کی جمع اشراف آتی ہے اس کی جمع ابریاء بھی آتی ہے جس طرح نصیب کی جمع انصباء اور برئیون آتی ہے یوں کہا جاتا ہے : امراۃ برئیتہ، ھمابرئیتاں، ھن برئیات، برایا ای طرح یہ استعمال ہوتا ہے رجل بری وبرائ۔ جس طرح عجیب اور عجاب ہے البراء جب فتحہ کے ساتھ استعمال ہو تو یہ مہینے کی پہلی رات ہوتی ہے اسے یہ نام اس لیے دیا جاتا ہے کیونکہ چاند سورج سے بری ہوتا ہے الا الذی فطرنی یہ متثنیٰ متصل ہے کیونکہ انہوں نے اپنے معبودوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تھی۔ قتادہ نے کہا : وہ کہا کرتے تھے اللہ ربنا اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ مستثنی منقطع ہو یعنی لیکن جس نے مجھے پیدا کیا وہ مجھے ہدایت دے گا۔ یہ اس لیے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد اور اپنی قوم کو تنبیہ کرنے کی غرض سے تھا کہ ہدایت اسکے رب کی جانب سے ہوتی ہے۔
Top