Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 29
بَلْ مَتَّعْتُ هٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ حَتّٰى جَآءَهُمُ الْحَقُّ وَ رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ
بَلْ مَتَّعْتُ : بلکہ میں نے سامان زندگی دیا هٰٓؤُلَآءِ : ان لوگوں کو وَ : اور اٰبَآءَهُمْ : ان کے آباؤ اجداد کو حَتّٰى : یہاں تک کہ جَآءَهُمُ الْحَقُّ : آگیا ان کے پاس حق وَرَسُوْلٌ مُّبِيْنٌ : اور رسول کھول کر بیان کرنے والا
بات یہ ہے کہ میں ان کفار کو اور انکے باپ دادا کو متمتع کرتا رہا یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور صاف صاف بیان کرنے والا پیغمبر آپہنچا
بل متعت اسے بل معتنا بھی پڑھا گیا ہے ھولاء وبآء ھم انہیں اور ان کے آباء کو دنیا میں حتی جآء ھم الحق یہاں تک کہ حضرت محمد ﷺ توحید اور سالام ان کے پاس لے آئے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اصل ہے یہی وہ کلمہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے خاندان میں باقی رکھا رسول مبین۔ وہ رسول ان کے لئے ایسی چیزوں کی وضاحت کترا ہے جن کی انہیں ضروتر ہوتی ہے۔ ولما جآئھم الحق حق سے مراد قرآن حکیم ہے قالوا ھذا سخر و انا بہ کفرون۔ یعنی انکار کرنے والے ہیں وقالوا لولا نزل یہاں لولا، ھلا کے معنی میں ہے ھذا القرآن علیر جل اسے علی رجل بھی پڑھا گیا ہے من القریتین عظیم۔ دونوں بستیوں میں سے ایک میں جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : یخرج منھما الونروا المرجان۔ (الرحمن) دو سمندروں میں سے ایک سے یہ دونوں نکلتے ہیں یا دونوں بستیوں میں سے ایک آدمی پر۔ قریتین سے مراد مکہ اور طائف ہے۔ رجلان سے مراد دولید بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمرو بن مخزوم یہ ابوجہل کا چچا تھا۔ طائف سے ابو مسعود عرو بن مسعود ثقفی (1) یہ قتادہ کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : عمیر بن عبدبالیل ثقفی جو طائف سے تعلق رکھتا تھا (2) عتبہ بن ربیعہ جو مکہ مکرمہ سے تعلقر کھتا تھا، یہ مجاہد کا قول ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے : طائف کے عظیم آدمی سے مراد حبیب بن عمرو ثقفی ہے۔ سدی نے کہا، اس سے مراد کنانہ بن عبدبن عمرو ہے (3) ایک روایت کی گی ہے : اس سے مراد ولید بن مغیرہ ہے اسے ریحانہ قریش کا نام دیا جاتا ہے وہ کہا کرتا : محمد ﷺ جو کچھ کہتے ہیں اگر حق ہے تو وہ مجھ پر یا ابو مسعود پر نازل ہوتا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اھم یقسمون رحمت ربک اس سے مراد نبوت ہے وہ اسے جہاں چاہتے رکھتے نحن فسمنابینھم معیشتھم فی الحیوۃ الدنیا یعنی ایک قوم کو فقیر کردیا اور ایک قوم کو غنی کردیا جب دنیا کا معاملہ ان کے سپرد نہیں تو نبوت کا امران کے سپرد کیا جاسکتا ہے ؟ قتادہ نے کہا، تو ایک انسان کو کمزور، کم حیلے والا، اپنا نقطہ نظر واضح نہ کرسکنے والا پاتا ہے جبکہ مال و متاع اس کے پاس بہت زیادہ ہے، تو ایک انسان کو پاتا ہے کہ وہ سخت محنت کرتا ہے، بڑا فرمان بردار ہے مگر مال و متاع اس کے پاس کچھ نہیں (4) حضرت ابن عباس مجاہد اور ابن محیصن نے ایک روایت معایشھم نقل کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ہم نے دو بستیوں کے عظیم افراد کو عطا کیا جو عطا کیا اس وجہ سے نہیں کہ وہ ہم پر معزز ہیں جبکہ میں ان سے نعمت کو چھیننے والا ہوں تو ان کے لئے فضیلت اور شان کہاں سے آگئی ؟ ورفعنابعضھم فوق بعض درجت یعنی ہم نے ان میں باہم فضیلت رکھی کچھ صاحب فضل ہیں اور کچھ پر فضیلت حاصل ہے کچھ رئیس ہیں اور کچھ محکوم ہیں (1) یہ مقاتل کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آادی اور غلامی میں باہم فضیلت دی بعض مالک ہیں اور بعض مملوک ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : غنا اور فقر میں باہم فضیلت دی ان میں سیب عض غنی اور بعض فقیر ہیں۔ ایکق ول یہ کیا گیا ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اعتبار سے فضیلت دی۔ لیتخذبعضھم بعضاً سخریا ً سدی اور ابن زید نے کہا، غلام اور خدام کے اعتبار سے باہم فضیلت دی (2) اغنیاء فقراء کا تمسخر اڑاتے ہیں ان میں سے بعض بعض کے معاش کا سبب ہیں۔ قتادہ اور ضحاک نے کہا : یعنی ان میں سے بعض کے مالک بن جائیں (3) ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ اس سخریہ سے ماخوذ ہے جو استہزاء کے معنی میں ہے اور ھزئت منہ ربہ۔ ہر ایک جملہ کہا اجتا ہے اسم سخریہ ہے اسی طرح سخری اور سخری ہے تمام علماء نے سخریا میں سین کو ضمہ دیا ہے مگر ابن محصین اور مجاہد نے ضمہ نہیں دیا دونوں نے سخریا پڑھا ہے و رحمت ربک خیر مما یجمعوکن۔ یعنی دنیا میں سے جو وہ جمع کرتے ہیں تیرے رب کی رحمت اس سے افضل ہے پھر یہ کہا گیا ہے۔ رحمت سے مراد نبوت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد جنت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، فرائض کو مکمل ادا کرنا نوافل کی زیادتی سے بہتر ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جس چیز کے ساتھ ان پر فضل و احسان کیا جاتا یہ اس سیب ہتر ہے جو ان کو ان کے اعمال پر جزا دی جاتی ہے۔
Top