بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
(اے محمد) ﷺ ہم نے تم کو فتح دی فتح بھی صریح و صاف
اس فتح کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس سے مراد کیا ہے ؟ بخاری شریف میں ہے محمد بن بشار، غندر سے، وہ شعبہ سے وہ قتادہ سے وہ حضرت انس ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے (1) ۔ حضرت جابر ؓ نے کہا : ہم فتح سے مراد یوم حدیبیہ ہی شمار کیا کرتے تھے۔ فراء نے کہا : فتح سے مراد فتح مکہ لیا کرتے تھے (2) جبکہ فتح مکہ تو فتح ہے اور ہم فتح سے مراد بیعت رضوان لیتے جو حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہماری تعداد چودہ سو تھی اور حدیبیہ ایک کنواں ہے۔ ضحاک نے کہا : یہ قتال کے بغیر فتح ہوئی صلح بھی فتح کی صورت ہے (3) مجاہد نے کہا : اس سے مراد حدیبیہ کے مقام پر جانور قربان کرنا اور اپنے سر کا حلق کرانا تھا (4) حدیبیہ کی فتح عظیم نشانی تھی اس کا پانی نکالا گیا تو آپ نے اس میں کلی کی تو اس میں پانی زیادہ ہوگیا یہاں تک کہ جو افراد آپ کے ساتھ تھے سب نے اس پانی کو پیا۔ موسیٰ بن عقبہ نے کہا : جب صحابہ حدیبیہ سے واپس آگئے (5) تو ایک آدمی نے کہا : یہ فتح نہیں، انہوں نے ہمیں بیت اللہ شریف کی زیارت سے روک دیا ہے تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” بلکہ یہ سب سے بڑی فتح ہے مشرک اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ وہ تمہیں اپنے شہروں سے نرمی سے جانے دیں، تم سے فیصلہ کا سوال کریں، امان میں تم سے رغبت کریں جبکہ انہوں نے تم سے وہ کچھ دیکھ لیا ہے جس کو وہ ناپسند کریں۔ “ (1) امام شعبی نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : کے بارے میں فرمایا : اس سے مراد فتح حدیبیہ ہے رسول اللہ ﷺ نے اس کے ذریعے۔ وہ کچھ حاصل کیا جو آپ نے کسی غزوہ میں حاصل نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی خطائوں کو معاف کردیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت رضوان ہوئی، صحابہ کو خیبر کی کھجوریں کھلائی گئیں، ہدی اپنے مقام کو پہنچی۔ رومی ایرانیوں پر غالب آئے۔ مومن اہل کتاب کے مجوسیوں پر غالب آنے سے خوش ہوئے زہری نے کہا : حدیبیہ عظیم فتح تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ چودہ سو صحابہ کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف آئے تھے۔ جب صلح ہوگئی تو لوگ ایک دوسرے سے ملے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے متعلق جانا اور اس کے کلام کو سنا جس نے بھی اسلام کا ارادہ کیا اس کو قبول کرنے کی اس میں آسانی پائی دو سال بھی نہ گزرے تھے مگر مسلمان دس ہزار کا لشکر لے کر مکہ مکرمہ آئے۔ مجاہد نے یہ بھی کہا اور عوفی کا یہ قول ہے : اس سے مراد فتح خیبر ہے : پہلا قول اکثر کا قول ہے جبکہ خیبر ایک وعدہ تھا جو ان سے کیا گیا جس کی وضاحت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :۔ حضرت مجمع بن جاریہ جو ان قراء میں سے ایک ہیں جنہوں نے قرآن پڑھا کہا : ہم نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں حاضر تھے جب ہم اس سے واپس آئے تو لوگ جو اونٹوں کو تیز چلا رہے تھے (2) بعض لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا : لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ؟ انہوں نے بتایا : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر وحی کی ہے کہا : ہم تیزی سے نکلے تو ہم نے نبی کریم ﷺ کو کراع غمیم میں پایا جب لوگ جمع ہوگئے تو نبی کریم ﷺ نے ان آیات کو پڑھا : حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا یہ فتح ہے ؟ فرمایا :” ہاں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، وہ فتح ہے، خیبر کے اموال صلح حدیبیہ میں شریک لوگوں میں تقسیم کئے گئے ان میں وہی افراد شامل تھا جو حدیبیہ میں موجو دتھا۔ (3) ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ کا فرمان فتحنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مکہ مکرمہ زبردستی فتح کیا گیا کیونکہ فتح کا لفظ نہیں بولا جاتا مگر جسے سختی کے ساتھ فتح کیا گیا ہو یہ اس اسم کی حقیقت ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : صلح کا معنی سمجھ نہیں آتا مگر جب وہ فتح کے ساتھ ملا ہوا ہو پس فتح صلح میں مجازی میں ہوگا۔ روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ زبردستی فتح ہوا۔ اس بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔
Top