Al-Qurtubi - Al-Fath : 12
بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰۤى اَهْلِیْهِمْ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِكَ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ ظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ١ۖۚ وَ كُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا
بَلْ ظَنَنْتُمْ : بلکہ تم نے گمان کیا اَنْ لَّنْ : کہ ہرگز نہ يَّنْقَلِبَ : واپس لوٹیں گے الرَّسُوْلُ : رسول وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) اِلٰٓى : طرف اَهْلِيْهِمْ : اپنے اہل خانہ اَبَدًا : کبھی وَّزُيِّنَ : اور بھلی لگی ذٰلِكَ : یہ فِيْ : میں، کو قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں وَظَنَنْتُمْ : اور تم نے گمان کیا ظَنَّ السَّوْءِ ښ : بُرا گمان وَكُنْتُمْ : اور تم تھے، ہوگئے قَوْمًۢا بُوْرًا : ہلاک ہونیوالی قوم
بات یہ ہے کہ تم لوگ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ پیغمبر اور مومن اپنے اہل و عیال میں کبھی لوٹ کر آنے ہی کے نہیں اور یہی بات تمہارے دلوں کو اچھی معلوم ہوئی اور (اسی وجہ سے) تم نے برے برے خیال کئے اور (آخر کار) تم ہلاکت میں پڑگئے
یہ گمان اس لئے تھا کہ انہوں نے کہا تھا کہ حضرت محمد ﷺ اور ان کے ساتھی بہت تھوڑے ہیں وہ واپس نہیں پلٹیں گے۔ اسم اشارہ سے مراد نفاق ہے۔ تزیین شیطان کی طرف سے تھی یا اللہ نے ان کے دلوں میں یہ چیز پیدا کردی تھی ظن سوء یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی مدد نہیں کرے گا بورا سے مراد ہلاک ہونے والے، یہ مجاہد کا قول ہے (1) قتادہ نے کہا : وہ فسادی لوگ ہیں وہ بھلائی میں سے کسی چیز کے قابل نہیں (2) جوہری نے کہا : بور سے مراد ایسا آدمی ہے جو فسادی ہے ہلاک ہونے والا ہے جس میں کوئی بھلائی نہیں۔ عبداللہ بن زبعری سہمی نے کہا : اے اللہ کے رسول : جب میں گمرہ اور تباہ حال تھا اس وقت میری زبان سے جو چاق کئے اب میری زبان انہیں سینے والی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے امرۃ بور۔ ابو عبید نے اس کو بیان کیا ہے قوم بور یعنی ہلاک ہونے والی قوم : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : بوریہ بائر کی جمع ہے جس طرح حائل کی جمع حول آتی ہے یعنی فلاں ہلاک ہوگیا۔ ابارہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کردیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : بوراً کا معنی شریر لوگ، یہ ابن بحر نے کہا : حضرت حسان بن ثابت نے کہا : اس میں البور کا معنی ہلاک ہونے والا ہے
Top