Al-Qurtubi - Al-Fath : 23
سُنَّةَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ١ۖۚ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا
سُنَّةَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور الَّتِيْ : وہ جو قَدْ خَلَتْ : گزرچکا مِنْ قَبْلُ ښ : اس سے قبل وَلَنْ : اور ہرگز نہ تَجِدَ : تم پاؤگے لِسُنَّةِ اللّٰهِ : اللہ کا دستور تَبْدِيْلًا : کوئی تبدیلی
(یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے
اس سے مرا حدیبیہ ہے یزید بن ہارون نے روایت نقل کی ہے کہ حماد بن سلمہ، ثابت سے وہ حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ کے اسی افراد مسلح ہو کر تعیم پہاڑ سے اترے وہ بیخبر ی کے عالم میں نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے ہم نے انہیں جھگڑے کے بغیر پکڑ لیا اور انہیں زندہ رہنے کا موقع دیا اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی ؓ نے کہا : ہم حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے جس درخت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے اسی اثنا میں کہ ہم بیٹھے ہوتے تھے کہ تیس نوجوان ہمارے سامنے آگئے جو مسلح تھے رسول اللہ ﷺ نے انہیں ارشاد فرمایا کیا تم کسی فرد کے عہد و پیمان میں یہاں آئے ہو یا کسی نے تمہیں امان دی ہے۔ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم : نہیں تو نبی کریم ﷺ نے انہیں جانے دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ ابن ہشام نے وکیع سے ذکر کیا ہے : قریش کے ستر یا اسی افراد مسلمانوں پر غارت گری مچانے اور ان کے اطراف میں کوئی موقع تلاش کرنے کے لئے آئے مسلمان ان کا ارادہ بھانپ گئے تو مسلمانوں نے انہیں قیدی بنا لیا یہ اس وقت ہوا جب صلح کے بارے میں گفتگو کے لئے سفراء آ جارہے تھے رسول اللہ ﷺ نے انہیں چھوڑ دیا۔ ان افراد کو عتقا کہا جاتا ان میں حضرت معاویہ اور ان کے والد بھی تھے۔ مجاہد نے کہا : نبی کریم ﷺ عمرہ کے ارادہ سے نکلے کہ بیخبر ی کے عالم میں آپ ﷺ کے صحابہ نے حرم سے کچھ افراد کو پکڑ لیا نبی کریم ﷺ نے انہیں چھوڑ دیا یہ کامیابی مکہ کی وادی میں ہوئی تھی۔ (1) قتادہ نے کہا : ہمارے سامنے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے ایک صحابی تھا جسے زینم کہا جاتا وہ حدبیہ کے ایک ٹیلہ پر چڑھا تو مشرکوں نے اسے تیر مارا اور اسے قتل کردیا نبی کریم ﷺ نے ایک گھڑ سوار دستہ بھیجا تو وہ کفار کے بارہ شاہ سوار پکڑ کرلے آئے۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں ارشاد فرمایا : کیا تمہارے حق میں میرے اوپر کوئی عہد و پیمان ہے (2) “ انہوں نے عرض کی، نہیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں آزا کردیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن ابزی اور کلبی نے کہا : مراد اہل حدیبیہ ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ مسلمانوں سے روک لئے یہاں تک کہ صلح ہوگئی سب نکل کھڑے ہوئے تھے اور مسلمانوں کا قصد کیا تھا اور مسلمانوں کے ہاتھوں کو بھی ان سے روک لیا تھا یہ بحث پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت خالد بن ولید مشرکوں کے گھڑ سوار دستہ میں موجود تھے۔ قشیری نے کہا : یہ ایک روایت ہے صحیح بات یہ ہے کہ وہ اس وقت نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔ حضرت سلمہ بن اکوع نے کہا : صلح کی بات چل رہی تھی کہ ابو سفیان آئے جبکہ وادی میں لوگوں اور اسلحہ کی ریل پیل تھی، کہا : میں چھ مشرکوں کو ہانکتا ہوا لایا جو مسلح تھے وہ اپنی ذاتوں کے لئے نفع اور نقصان کے کوئی مالک نہ تھے میں انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا حضرت عمر راستہ میں تھے انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ہم جنگ جو لوگوں کے پاس آ رہے ہیں نہ ہمارے پاس کوئی اسلحہ ہے اور نہ ہی سواری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے راستہ میں ہی سے مدینہ کی طرف بھیجا تو صحابہ ہر قسم کا اسلحہ اور ہر قسم کے جانور لے آئے اس وقت مدینہ طیبہ میں موجود تھے رسول اللہ ﷺ کو خبر دی گئی کہ عکرمہ بن ابی جہل پانچ سو سواروں کے ساتھ آپ کے مقابلہ کے لئے نکلا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید سے کہا : یہ ” یہ تیرا چچازاد ہے جو پانچ سو سواروں کے ساتھ آ رہا ہے “ حضرت خالد نے عرض کی : میں اللہ تعالیٰ کی تلوار ہوں اور رسول اللہ ﷺ کی تلوار ہوں اسی دن سے انہیں سیف اللہ کا لق دیا گیا ان کے ساتھ گھڑ سوار دستہ تھا انہوں نے کفار کو بھگا دیا اور مکہ کی دیواروں تک دھکیل دیا۔ یہ روایت زیادہ صحیح ہے ان کے درمیان لڑائی پتھروں کے ساتھ ہوئی تھی ایک قول یہ کیا گیا ہے : تیروں اور کمانوں کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کف البد سے مراد معاہدہ میں یہ شرط تھی کہ کفار میں سے جو ہمارے پاس آئے گا توہ وہ ان پر لوٹا دیا جائے گا۔ مکہ مکرمہ سے کچھ مسلمان نکلے انہیں خوف تھا کہ رسول اللہ ﷺ انہیں مشرکوں کی طرف لوٹا دیں گے وہ ساحل سمندر پر اکٹھے ہوگئے ان میں حضرت ابو بصیر بھی تھے وہ کفار پر غارت گری مچاتے اور ان کے قافلے لوٹ لیتے یہاں تک کہ قریش کے سردار نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی : انہیں اپنے پاس بلا لیجئے تاکہ ہم امن میں ہوجائیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : بنو غطفان اور بنو اسد نے خیبر کے یہودیوں کا مسلمانوں سے دفاع کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ یہودیوں کے حلیف تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس چیز سے روک دیا یہی کف البد ہے اس میں دو قول ہیں (1) مراد مکہ مکرمہ ہے (2) مراد حدیبیہ ہے، کیونکہ اس کا کچھ حصہ حرم کا حصہ ہے۔ یہ ماوردی نے کہا : مراد فتح مکہ ہے : یہ آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ مکہ صلح کے ساتھ فتح ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : میں کہتا ہوں : یہ آیت صلح حدیبیہ کے متعلق فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی جس طرح ہم نے صحابہ اور تابعین میں سے علماء سے روایت نقل کی ہے امام ترمذی نے روایت نقل کی ہے کہ عبد بن حمید، سلیمان بن حرب سے وہ حماد بن سلمہ سے وہ ثابت سے وہ حضرت انس ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ اسی افراد تنعیمیم پہاڑ سے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ پر اترے جبکہ نماز صبح کا وقت تھا وہ ارادہ رکھتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کو شہید کردیں انہیں پکڑ لیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں آزاد کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ ابو عیسیٰ نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے (1) یہ بحث پہلے گزر چکی ہے جہاں تک فتح مکہ کا تعلق ہے جس پر اخبار دلالت کرتی ہیں کہ وہ زبردستی فتح ہوا اس بارے میں گفتگو سورة حجر میں اور دوسری سورتوں میں گزر چکی ہے۔
Top