Al-Qurtubi - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
تاکہ خدا تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے اور تم کو سیدھے راستے چلائے
ابن انباری نے کہا : فتحا مبینا پر کلام مکمل نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : یہ فتح سے متعلق ہے گویا فرمایا : ہم نے آپ کو فتح مبین عطا فرمائی تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے فتح کے ساتھ مغفرت کو جمع کردے اور اللہ تعالیٰ آپ کے لئے وہ چیز جمع کر دے جس سے دنیا و آخرت میں آپ کی آنکھ ٹھنڈی ہو۔ ابو حاتم سبحساتی نے کہا : یہ لام قسم ہے : یہ غلط ہے کیونکہ لام مسکور نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے ساتھ نصب دی جاتی ہے اگر یہ جائز ہے تو یہ بھی جائز ہوتا ہے اس کی تاویل لیقومن زید ہے۔ زمحشری نے کہا : اگر تو یہ سوال کرے کہ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کو مغفرت کی علت کیسے بنایا ہے ؟ میں کہوں گا : اللہ تعالیٰ نے اسے مفغرت کی علت نہیں بنایا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں چار امور کو جمع کیا گیا ہے وہ مغفرت، اتمام نعمت، صراط مستقیم کی ہدایت اور غالب مدد۔ گویا فرمایا : ہم نے تیرے لئے فتح مکہ کو آسان بنا دیا تیرے دشمن کی خلاف تیری مدد کی تاکہ آپ کے لئے دونوں جہانوں کی عزتوں اور دنیا و آخرت کے غلبہ کو جمع کردے۔ یہ بھی جائز ہے کہ مراد فتح مکہ ہو اس حیثیت سے کہ یہ دشمن کے ساتھ جہاد ہے : مغفرت اور ثواب کا سبب ہے۔ ترمذی شریف میں حضرت انس سے مروی ہے کہ یہ آیت نبی کریم ﷺ پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ ﷺ حدیبیہ سے واپس آ رہے تھے ( 1) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” مجھ پر ایک ایسی آیت نازل کی گئی ہے جو روئے زمین پر جو بھی چیز ہے اس سے یہ مجھے زیادہ محبوب ہے “ پھر نبی کریم ﷺ نے ان پر اس آیت کو پڑھا۔ صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ آپ کو مبارک ہو اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو بیان کردیا ہے جو آپ کے ساتھ معاملہ کرنے والا ہے وہ ہمارے ساتھ کیا معاملہ کرے گا ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی : کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے، اس کے بارے میں حضرت مجمع بن جاریہ سے بھی ایک روایت مروی ہے۔ علماء نے تاخر کے معنی میں اختلاف کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : سے مراد کہ ان اعلان نبوت سے قبل جو آپ سے ایسے اعمال ہوئے جن کو آپ اپنی شان کے خلاف خیال کرتے ہیں اور سے مراد اعلان نبوت کے بعد جو اعمال ہوئے : یہ مجاہد کا قول ہے، اسی کی مثل طبری اور سفیان ثوری نے کہا : طبری نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (نصر) کی طرف راجع ہے یعنی اعلان نبوت سے پہلے اور اعلان نبوت کے بعد اس آیت کے نزول تک۔ سفیان ثوری نے کہا : سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو وحی کے نزول سے پہلے آپ نے دور جاہلیت میں کئے اور سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو بعد آپ نے نہ کیئے یہ واحدی کا قول ہے سورة بقرہ میں یہ بحث گزر چکی ہے کہ انبیاء سے گناہ صغیرہ صادر ہو سکتے ہیں : یہ ایک قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ماتقدم سے مراد فتح سے پہلے اور وماتاخر سے مراد جو اس کے بعد ہیں۔ عطا خراسانی نے کہا : سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حواء کی خطا ہے اور و ماتاخر سے مراد آپ کی امت کے گناہ ہیں (1) ایک قول یہ کیا گیا ہے : سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف اولی اعمال اور وماتاخر سے مرا دانبیاء کے خلاف اولی اعمال ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ماتقدم سے مراد غزوہ بدر کے دن کی خطا اور وماتاخر سے مراد غزوہ حنین کے موقع کی خطا ہے۔ غزوہ بدر کے موقع پر جو خطا ہوئی وہ یہ تھی کہ آپ نے یہ دعا کی : اے اللہ اگر تو نے اس جماعت کو ہلاک کردیا (2) تو زمین میں کبی تیری عبادت نہیں کی جائے گی (3) آپ نے اس قول کو کئی دفعہ دہرایا اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی آپ کو کیسے علم ہوا کہ اگر میں نے اس جماعت کو ہلاک کردیا تو میری کبھی بھی عبادت نہیں کی جائے گی ؟ تو یہ وہ پہلی خطا تھی۔ جہاں تک دوسری خطا کا تعلق ہے تو وہ غزوہ حنین کا موقع ہے جب لوگ شسکت کھا گئے تو آپ نے اپنے چچا حضرت عباس اور چچازاد بھائی ابو سفیان سے کہا : مجھے وادی سے نگریزوں کی ایک مٹھی اٹھا کر ددو تو دونوں نے سنگریزے اٹھا کردیئے آپ نے انہیں ہاتھ میں لیا اور مشرکوں کے منہ پر مارا اور فرمایا : تو مشرک سارے کے سارے شکست کھا گئے کوئی آدمی نہ بچا مگر اس کی آنکھیں ریت اور سنگریزوں سے بھر گئیں پھر آپ نے اپنے ساتھوں کو ندا کی تو وہ پلٹ آئے جب وہ واپس لوٹے تو آپ نے انہیں فرمایا : اگر میں انہیں وہ مٹھی بھر سنگریزے نہ مارتا تو وہ شکست نہ کھاتے “ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا : (الانفال 17) یہ دوسری خطا تھی۔ ابو علی روز باری نے کہا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اگر آپ کی کوئی پرانی یا نئی خطا ہوگی تو ہم آپ کے لئے اسے بخش دیں گے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : نعمت سے مراد جنت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد نبوت و حکمت ہے ،۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے مراد مکہ مکرہ، طائف و خیبر کی فتح ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جس نے تکبر کیا تھا اس نے خشوع و خضوع اپنا لیا اور جو جابر بنا ہوا تھا اس نے طاقت اختیار کرلی۔ یعنی آپ کو ہدایت پر ثابت قدم کرے گا یہاں تک کہ آپ کو اپنے پاس بلا لے گا۔ یعنی ایسی مدد کرے گا جو غالب ہوگی جس کے بعد کوئی ذلت و عاجزی نہ ہوگی۔
Top