Al-Qurtubi - Al-Fath : 8
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
اِنَّآ : بیشک اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
اور ہم نے (اے محمد) ﷺ تم کو حق ظاہر کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا اور خوف دلانے والا (بنا کر) بھیجا ہے
قتادہ نے کہا : ہم نے آپ کو آپ کی امت پر گواہ بنا کر بھیجا ہے کہ انہوں نے حق کی تبلیغ کی (1) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان پر گواہ بنا کر بھیجا کہ انہوں نے اطاعت یا معصیت میں سے جو اعمال کئے ایک قول یہ کیا گیا ہے : ہم نے آپ کو ان کے لئے ان امور کو بیان کرنے والا بنا کر بھیجا جن کے ساتھ ہم نے آپ کو ان کی طرف بھیجا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : قیامت کے روز ان پر گواہی دیں گے۔ سورة النساء میں حضرت سعید بن جبیر کی روایت سے یہ معنی واضح طور پر گزر چکا ہے مبشرا جو اطاعت کرے اس کو جنت کی بشارت دینے والا بنا کر بھیجا گیا اور آگ سے خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا گیا اسے جو نافرمانی کرے یہ قتادہ اور دوسرے علماء کا قول ہے ؎ سورة بقرہ میں بشارت اور نذارت کا اشتقاق اور دونوں کا معنی گزر چکا ہے۔ تینوں کو حال مقدرہ کی حیثیت سے نصب دی گئی ہے سیبویہ نے یہ مثال بیان کی ہے۔ معنی ہے بیشک ہم نے آپ کو بھیجا اس حال میں کہ ہم آپ کی شہادت کو قیامت کے روز مقدر کرنے والے ہیں اسی بناء پر تو کہتا ہے۔ ابن کثیر، ابن محصین اور ابو عمرو نے لیومنو پڑھا ہے اسی طرح سب کو یاء کے ساتھ خبر کے طور پر پڑھا ہے : ابو عبید نے اسے پسند کیا ہے کیونکہ مومنوں کا اس اس سے پہلے اور اس کے بعد ذکر موجود ہے جہاں تک اس سے ماقبل کا تعلق ہے تو اور جہاں تک اس کے بعد کا تعلق ہے تو وہ باقی قراء نے تاء کے ساتھ خطاب کا صیغہ پڑھا ہے : اسے ابو حاتم نے پسند کیا تم اس کی عظمت بجا لائو اور تفخیم شان کا اہتمام کرو، یہ حضرت حسن بصری اور کلبی کا نقطہ نظر ہے تعزیر کا معنی تعظیم و توقیر ہے۔ قتادہ نے کہا : تم اس کی مد دکرو اور اس کا دفاع کرو اسی سے حد میں تعزیز ہوتی ہے کیونکہ یہ بھی انسان کو برے اعمال سے روکتی ہے قظامی نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : تم آپ کی معیت میں تلوار کے ساتھ قتال کرتے ہو، بعض اہل لغت نے کہا : تم آپ کی اطاعت کرو (1) یعنی تم آپ کو سردار بناتے ہو (2) یہ سدی کا قول ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے تم اس کی عظمت بجالاتے ہو توقیر کا معنی تعظیم کرنا ہے۔ دونوں میں ھاء نبی کریم ﷺ کے لئے ہے یہاں وقف نام ہے پھر تو کلام کو شروع کرے گا تم اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرو گے صبح و شام ایک قول یہ کیا گیا ہے : غائب کی ضمیریں تمام کی تمام اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اس صورت میں ہوگا یعنی تم اس کے لئے ربوبیت کی صحت کو ثابت کرو اور اس کے لئے اس امر کی نفی کرو کہ اس کا کوئی بچہ ہو یا شریک ہو، قشیری نے اس قول کو پسند کیا ہے پہلا قول اضحاک کا ہے اس تعبیر کی صورت میں کلام کا کچھ حصہ اللہ تعالیٰ کی طرح راجع ہوگا جوہ ہے اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں بعض حصہ نبی کریم ﷺ کی طرف لوٹے گا وہ یعنی تم آپ کو رسالت اور نبوت کے لقب سے بلایا کرو نام اور رکنیت سے نہ بلایا کرو۔ کی دو صورتیں ہیں (1) تسبیح سے مراد اللہ تعالیٰ کی ہر قبیح امر سے پاکی بیان کرنا ہے یا اس سے مراد نماز کا فعل ہے جس میں تسبیح ہوا کرتی ہے صبح و شام : اس بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے، شاعر نے اس لفظ سے یہ معنی لیا ہے۔ میری زندگی کی قسم : تو ایسا گھر ہے جس کے مکینوں کی میں عزت کرتا ہوں اور شام کے وقت میں اس کے صحن میں بیٹھتا ہوں۔
Top