Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 13
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا١ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ : بیشک ہم نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ ذَكَرٍ : ایک مرد سے وَّاُنْثٰى : اور ایک عورت وَجَعَلْنٰكُمْ : اور بنایا تمہیں شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ : ذاتیں اور قبیلے لِتَعَارَفُوْا ۭ : تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو اِنَّ اَكْرَمَكُمْ : بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک اَتْقٰىكُمْ ۭ : تم میں سب سے بڑا پرہیزگار اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا خَبِيْرٌ : باخبر
لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے
اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: یا ایھا الناس انا خلقنکم من ذکر و انثی۔ مراد حضرت آدم اور حضرت حواء ہے۔ یہ آیت ابی ہند کے بارے میں نازل ہوئی، ابو داؤد نے اسے مرسل میں ذکر کیا ہے۔ عمرو بن عثمان اور کثیر بن عبید، بقیہ بن ولید وہ زہری سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے بنی بیاضہ کو حکم دیا کہ وہ ابو ہند کی شاندی اپنی کسی عورت سے کردیں انہوں نے رسول اللہ سے عرض کیا ہم اپنی بیٹیوں کی شادیاں اپنے غلاموں سے کریں تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ زہری نے کہا : یہ آیت خاص کر ابو ہند کے بارے میں نازل ہوئی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے حق میں نازل ہوئی۔ جو انہوں نے اس آدمی کے بارے میں کہا تھا جس نے جگہ نہ دی : اے فلاں کے بیٹے۔ نبی کریم نے پوچھا : فلانہ کا ذکر کرنے والا کون تھا ؟ ثابت نے عرض کی : یا رسول اللہ میں۔ نبی کریم نے ارشاد فمرایا : قوم کے چہرے دیکھو۔ اس نے لوگوں کی طرف دیکھا فرمایا : تو نے کیا دیکھا ؟ اس نے عرض کی : میں نے سفید، سیاہ اور سرخ رنگ کے چہرے دیکھے ہیں، فرمایا : تو ان سے تقوی کے بغیر فضیلت حاصل نہیں کرسکتا، تو یہ آیت نازل ہوئی : یا ایھا الذین امنوا اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس۔ (المجادلہ :11) حضرت ابن عباس نے کہا : جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو نبی کریم نے حضرت بلال کو حکم دیا یہاں تک کہ وہ بیت اللہ شریف کی چھت پر چڑھے اور آذان دی تو عتاب بن ابی العیص نے کہا : اس اللہ تعالیٰ کے لیے تمام تر حمدیں ہیں جس نے میرے والد کی روح کو قبض کرلیا یہاں تک کہ اس نے یہ دن نہ دیکھا۔ حارث بن ہشام نے کہا : محمد کو اس کالے کوے کے سوا کوئی مئوذن نہ ملا تھا۔ سہیل بن عمرو نے کہا : اللہ تعالیٰ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے تبدیل کردیتا ہے۔ ابوسفیان نے کہا : میں تو کچھ نہیں کہتا میں تو ڈرتا ہوں اللہ تعالیٰ اسے سب کچھ بتا دے گا۔ جبریل امین حاضر ہوئے اور انہوں نے جو کہا تھا وہ بتا دیا۔ رسول اللہ نے انہیں بلایا انہوں نے جو کہا تھا اس کے بارے میں پوچھا سب نے اس کا اقرار کرلیا اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا : انہیں نسبوں پر فخر کرنے، مال کی کثرت میں مقابلہ کرنے اور قراء کو ذلیل کرنے سے جھڑکا کیونکہ دار و مدار تقویٰ پر ہے یعنی سب حضرت آدم اور حضرت حواء کی اولاد میں سے ہیں بیشک فضیلت تقویٰ کی بنا پر ہے۔ ترمذی میں حضرت ابن عمر سے مروی ہے (1) ہ نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں خطبہ دیا فرمایا :” اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت اور آباء پر فخر کرنے کا سلسلہ ختم کردیا ہے ‘ لوگ دو قسم کے ہیں (1) ایسا آدمی جو نیک، متقی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں محترم ہے (2) دوسرا فاجر، شقی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں کمزور۔ لوگ حضرت آدمی (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اور (آیت) پڑھی اسے عبداللہ بن جعفر جو علی بن مدینی کے والد ہیں سے نقل کیا وہ ضعیف ہے اسے یحییٰ بن معین اور دوسرے علماء نے ضعیف قرار دیا ہے طبری نے اسے کتاب آداب انلفوس میں نقل کیا ہے۔ یعقوب بن ابراہیم، اسماعیل سے وہ سعید جریری سے وہ ابو نضرہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہا : مجھے اس نے بتایا جو اس وقت حاضر تھا جب رسول باللہ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر ایام تشریق کے درمیانی دن خطبہ ارشاد فرمایا تھا : ” اے لوگو ! خبردار تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے۔ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں اور سرخ کو سیاہ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کی بنا پر۔ کیا میں نے تمہیں پیغام دیا ہے ؟ “ صحابہ نے عرض کی : جی ہاں۔ فرمایا :” حاضر غائب کو پہنچا د۔ “ اس بارے میں مالک اشعری سے روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہارے حسب کو دیکھتا ہے وہ تمہارے نسب کو نہیں دیکھتا وہ تمہارے جسموں کو نہیں دیکھتا تمہارے دلوں دیکھتا ہے جس کا صالح دل ہو اللہ تعالیٰ اس پر شفقت فرماتا ہے تم حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہو اور تم میں سے سب سے محبوب وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ تمقی ہے۔ “ (2) الناس من جھۃ التمثیل اکفائ ابرھم آدم والام حواء لوگ ڈھانچے کے اعتبار سے برابر ہیں ان کے باپ حضرت آدم اور ماں حواء ہیں۔ نفس کنفس و اور اح مشاکلۃ و اعظم خلقت فیھم واعضاء نفس نفس کی طرح ہے اور روحیں ایک جیسی ہیں ان میں ہڈیاں اور اعضاء بنائے گئے ہیں۔ فان یکن لھم من اصلھم حسب یفاخرون بہ فالطین والماء اگر ان کی اصل میں کوئی ذی شان چیز ہے جس پر وہ فخر کرسکتے ہیں تو وہ مٹی اور پانی ہے۔ ما الفضل الا لاھل العلم انھم علی الھدی لمن استھدی ادلاء فضیلت اہل علم کے لئے ہے جو ہدایت حاصلک رنا چاہئے ان کے لئے یہ ہدایت پر راہنما ہیں۔ وقدرکل امری ما کان یحسنہ وللرجال علی الافعال سیماء ہر انسان کی اتنی قدر و منلزت ہے جس قدر وہ اچھا کام کرتا ہے اور افعال پر لوگوں کے نشانات ہوتے ہیں۔ وضد کل امری ماکان یجھلہ والجھاھلون لاھل العلم اعداء انسان کی دشمن وہ چیز ہے جس سے وہ جاہل وہتا ہے اور جاہل اہل علم کے دشمن ہوتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 2۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وضاحت کی ہے کہ اس نے مخلوقات کو مذکر اور مونث سے پیدا کیا۔ سورة النساء کے آغاز میں یہی ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان دونوں کے بغیر پیدا کردیتا جس طرح اس نے حضرت آدم کو پیدا کیا یا مذکر کے بغیر پیدا کرتا جس طرح اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کیا ہے یا مونث کے بغیر پیدا کرتا جس طرح حضرت حواء کو پیدا کیا یعنی دو جہتوں میں سے ایک جہت موجود تھی یہ قدرت میں جائز ہے وجود اس کے مطابق نہیں۔ یہ خبر آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت حواء کو حضرت آدم کی ایک پسلی سے پیدا کیا : یہ ابن عربی کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ اللہ تعالیٰ نے مذکر اور مونث میں انساب، اصہار، قبائل اور شعوب (چھوٹے قبائل) بنئاے (1) اور ان سے ان کی پہچان کو ظاہر کیا اور ان کے ذریعے ان میں تعلق جوڑا اس حکمت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقدر کی اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں خوب آگاہ ہے ہر ایک ان کے نسب کو جامع کوئی آدمی اس نسب کی نفی کرتا ہے تو تہمت لگانے کی وج سے وہ حد کا مستحق ہوتا ہے جس طرح اس کی جماعت اور اس کے حسب سے نفی کرے۔ وہ عربی کو کہتا ہے : اے عجمی ! اور عجمی کو کہتا ہے : اے عربی ! وغیرہ جس سے حقیقت میں نفی واقع ہو۔ مسئلہ نمبر 4۔ متقدمین علماء اس طرف گئے ہیں کہ جنین صرف مرد کے پانی سے ہوتا ہے اور ماں کے رحم میں پرورش پاتا رہتا ہے اور اس خون سے مدد لیتا ہے جو اس میں ہوتا ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے : الم نخلقکم من مآء مھین۔ فجعلنہ فی قرار مکین۔ (المرسلات) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ثم جعل نسلہ من سللۃ من مآء مھین۔ (الجسدہ) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : الم یک لطغۃ من منی یمنی۔ (القیامتہ : 53) یہ آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ پیدائش ایک پانی سے ہے جبکہ صحیح یہ ہے کہ پیدائش مرد اور عروت کے پانی سے ہوتی ہے وہ اس آیت سے ثابت ہے کیونکہ یہ ایسی نص ہے جو تاویل کا اجتماع نہیں رکھتی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : خلق من مآء دافق۔ یخرج من بین الصلب والثرآئب۔ (الطارق) اس سے مراد مردوں کی پشتیں اور عورت کی سینے کی ہڈیاں ہیں جس کی وضاحت بعد میں آئی گی۔ جس چیز سے انہوں نے استدلال کیا ہے وہ اس سے زیادہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ماء، سلالہ اور نطفہ سے پیدا کیا ہے اسے والدین میں سے کسی کی طرف منسوب نہیں کیا اس نے اس چیز پر دلالت کی کہ ماء (پانی) اور سلالہ (نکلنے والی چیز) دونوں کا ہے اور نطفہ بھی دونوں کا ہے کیونکہ جو ہم نے ذکر کیا ہے وہ اسی پر دلیل ہے۔ عورت سے مادہ منویہ خارج ہوتا ہے جس طرح مرد سے مادہ منویہ خارج ہوتا ہے اسی وجہ سے مشابہت ہوتی ہے جس کی وضاحت سورة شوریٰ میں گذر چکی ہے۔ حضتر نوح (علیہ السلام) کے قصہ میں کہا، فالتقی المآء علی امرقدقدر۔ (القمر) مراد آسمان کا پانی اور زمین کا پانی ہے کیونکہ ملنا دو پانیوں سے ہی ہو سکتا ہے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا : ثم جعل نسلہ من سللۃ من مآء مھین۔ (السجدۃ) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ الم نخلقکم من مآء مھین۔ (المرسلات) مسئلہ نمبر 5۔ وجعلنکم شعو بازو قبآئل لتعارفوا شعوب سے مراد قبائل کے رءوس (رأس کی جمع) ہیں جس طرح ربیعہ، مضر، اوس، خزرج اس کا واحد شعب ہے انہیں یہ نام دیا گیا ہے کیونکہ وہ بکھرتے ہیں اور جمع ہوتے ہیں جس طرح درخت کی ٹہنیاں ہیں۔ شعب اضداد میں سے ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : شعبتہ میں نے اسے جمع کیا اسی سے مشعب کا لفظ ہے برما، کیونکہ اس کے ساتھ جمع کیا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا : فکاب علی حر العبین ومشق بمدریۃ کا نہ ذلق مشعب شعر میں مشعب کا معنی برما ہے۔ وشعبتہ جب تو اسے جدا کرے، اسی وجہ سے موت کو شعوب کا نام دیا گیا ہے کیونکہ وہ جدا کرنے والی ہوتی ہے۔ جہاں تک الشعب کا تعلق ہے تو پہاڑ میں جو راستہ ہوتا ہے اسے شعب کہتے ہیں اس کی جمع شعاب آتی ہے۔ جوہری نے کہ، الشعب سے مراد جس سے عرب اور عجم کے قبائل جدا ہوتے ہیں اس کی جمع شعرب ہے الشعوبیۃ ایسا فرقہ جو عربوں کو عجمیوں پر کوئی فضیلت نہیں دیتا جہاں تک اس لفظ کا تعلق ہے جو حدیث میں ہے ان رجلاً میں الشعوب اسلم۔ مراد عجمی ہے یعنی عجمیوں میں سے ایک آدمی اسلام لایا۔ شغب سے مراد عظیم قبیلہ ہے، وہ ابو القبائل ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں یعنی وہ انہیں جمع کرتا ہے اور انہیں اپنے ساتھ ملاتا ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : الشعوب سے مراد جمہور ہے جس طرح مضر (1) قبائل سے افخاذ ہیں چھوٹا قبیلہ۔ مجاہد نے کہا، الشعوب جو نسب میں دور ہیں قبائل اس سے چھوٹے ہوتے ہیں (2) ان سے یہ بھی مروی ہے کہ شعوب سے مراد قریبی نسب ہے۔ قتادہ کا قول ہے : مہدوی نے پہلا قول اس سے نقل کیا ہے، دوسرا قول ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ شاعر نے کہا : رأیت سعودا من شعوب کثیرۃ فلم ارسعداً مثل سعد بن مالک میں نے کثیر قبائل سے سعد دیکھے اور ان میں سے سعد بن مالک جیسا کوئی سعد نہیں دیکھا۔ ایک اور نے کہا : قبائل میں شعوب لیس فیھم کریم قد یعد ولا نجیب کئی قبائل ایسے ہیں جن میں کریم اور نجیب نہیں جسے شمار کیا جاسکے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : شعوب سے مراد یمن کے عرب ہیں۔ جو قحطاین ہیں اور قبائل سے مراد ربیعہ، مضر اور عدنانی ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : شعوبیہ سے مراد عجم کے قبائل ہیں اور قبائل سے مراد عرب ہیں۔ حضرت ابن عباس نے ایک روایت میں کا کہ شعب سے مراد موالی اور قبائل سے مراد عرب ہیں۔ قشیری نے کہا، اس تعبیر کی بنا پر شعوب وہ ہوں گے جن کی اصل معرف ………سے تعلق رکھتے ہوں۔ ماوردی نے کہا، یہ احتمال موجود ہے کہ شعوب سے مراد وہ ہو جو اطرفا اور گھاٹیوں کی طرف منسوب ہو اور قبائل انہیں کہیں جو نسب میں شریک ہوں۔ شاعر نے کہا : تفرقوا شعبا فکل جزیرۃ فیھا امیر المومنین ومتبر وہ گھاٹیوں میں بکھر گئے تو ہر جزیرہ میں امیر المومنین اور منبر تھا۔ ابوعبید نے ابن کلبی سے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں : شعب یہ قبیلہ سے بڑا ہوتا ہے، قبیلہ کے بعد فصلیہ، فصلیہ کے بعد عمارہ، عمارہ کے بعد بطن اور بطن کے بعد فخذ ہوتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، شعب پھر قبیلہ پھر عمارہ پھر بطن پھر فخذ پھر فصلیہ اور پھر عشیرہ ہوتا ہے۔ ایک ادیب نے یوں منظم کیا ہے، کہا : اقصد الشعب فھو اکثر حی عدداً فی الحواء ثم القبیلۃ ثم تتلوھا العمارۃ ثم اک بطن والفخذ بعد ھا والفصیلۃ ثم من بعدھا العشیرۃ لکن ھی فی جنب ماذکرناہ قلیلۃ اور ایک شاعر نے کہا : قبیلۃ قبلھا شعب وبعدھما عمارۃ ثم بطن تلوہ فخذ ولیس یووی الفتیء الا فصیلۃ ولا سداد لسھم مالد قذذ قبیلہ سے پہلے شعب ہے اور اس کے بعد عمارہ ہے اس کے بعد بطن ہے اس کے پیچھے فخذ ہے نوجوان کو پناہ فصیلہ دیتا ہے، جس تیر کے پر نہ ہوں وہ سیدھا نہیں جاتا۔ مسئلہ نمبر 6۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقکم سوروہ زحرف میں یہ بحث و انہ لذکر لک ولقومک کے تحت گذر چکی ہے۔ اس آیت میں یہ چیز موجود ہے جو تیری اس امر پر راہنمائی کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ہاں فتویٰ کی ہی رعایت کی جاتلی ہے حسب اور سنب کی رعایت نہیں کی جاتی۔ اسے ان پڑھا گیا ہے گویا کہا گیا : وہ انساب اول فخر کرتے ہیں ؟ ایک قول یہ کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں تم میں سے سب سے معزز تم میں سب سے متقی ہیں تم میں ہونے والے معزز نہیں۔ ترمذی میں حضرت سمرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” حسب مال ہے اور کرم تقویٰ ہے (1) “ کہا : یہ حدیث غریب صحیح ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف ہی راجع ہے نبی کریم ﷺ سے یہ نص آئی ہے۔ ……یکون اکرم الناس فلیتق اللہ جو یہ پسند کرے کہ وہ لوگوں میں سے زیادہ محترم ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔ ھوی سے مراد ہے امر و نہی میں اللہ تعالیٰ کی حدود کی رعایت کرنا اور اس چیز سے متصف ہونا جس سے متصف ہونے کا حکم دیا اور اس سے …جس سے تجھے منع کیا۔ یہ بحث کئی مواقع پر گذر چکی ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے ایک روایت مروی ہے۔ …نے ارشاد فرمایا : ان اللہ تعالیٰ یقول یوم القیمۃ انی جعلت نسباً وجعلتم نسبا فجعلت اکرمکم ……تقولوا فلان بن فلان وانا الیوم ارفع نسبی واضع انسابکم ابن المتقون (2) قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : میں نے نسب کو بلند کروں گا اور تمہارے نسبوں کو پست کروں گا متقی کہاں ہیں ؟ متقی کہاں ہیں ؟۔ طربی نے حضرت ابوہریرہ کی حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” قیامت کے روز میرے اولیاء متقین ہوں گے اگرچہ کوئی نسب میرے نسب کے زیادہ قریبی ہو لوگ اعمال لائیں گے اور تم دنیا لائو کے گجو تم اپنی گردنوں پر اٹھائے ہوئے ہو گے تم کہو گے : اے محمد چ میں اس طرح اس طرح کروں گا “ اور اپنی دونوں جانب اعراض کیا۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو کی حدیث ہے کہ میں نے راز داری کے عالم میں نہیں بلکہ بلند آواز سے آپ کو کہتے ہوئے سنا : ان آل ابی لیسوالی باولیاء انما ولی اللہ و صالح المومنین (3) میرے والد کی آل میرے اولیاء نہیں بیشک میرا ولی اللہ اور نیک مومن ہیں۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا : من اکرم الناس لوگوں میں سے سب سے معزز کون ہے فرمایا :’ دیوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔ “ عرض کی ہم نے اس بارے میں آپ سے نہیں پوچھا فرمایا :” اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے معزز ان میں سے متقی ہیں “ عرض کی : ہم یہ بھی آپ سے نہیں پوچھ رہے فرمایا :” تم عرب کے معاون کے بارے میں پوچھتے ہو ؟ ان میں سے دور جاہلیت میں جو بہترین تھے وہ دور اسلام میں بہتر ہیں جب وہ دین سمجھ جائیں۔ “ علماء نے یہ اشعارپ ڑھے : مایصنع العبد بعز الغنی والعز کل العز للمتقی من عرف اللہ فلم تغنہ معرفۃ اللہ فذاک الشقی بندہ مال و دولت کی عزت کو کیا کرے گا عزت تو سب کی سب متقی کے لئے ہے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اسے کوئی فائدہ نہ دے تو وہ بدبخت ہے۔ مسئلہ نمبر 7۔ طبری نے یہ ذکر کیا ہے کہ عمر بن محمد، عبید بن اسحاق، عطار سے وہ مندل بن علی سے وہ ثور بن یزید سے وہ سالم بن ابی جعد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک انصاری نے ایک عورت سے شادی کی تو اس عورت پر اس کے حسب میں طعن کیا گیا اس آدی نے کہا : میں نے اس کے حسب کی وجہ سے اس سے شادی نہیں کی میں نے اس سے شادی اس کے دین اور خلق کی وجہ سے کی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” تجھے یہ چیز کوئی تکلیف نہیں دیتی کہ وہ حاجب بن زرارہ کی آل میں سے نہ ہو “ پھر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اللہ تعالیٰ اسلام لے آیا ہے اس کے ذریعے اس نے خسیسہ کو بلند کردیا، ناقصہ کو مکمل کردیا ہے اس کے ذریعے ملامت کو دور کردیا مسلمان پر کوئی ملامت نہیں ملامت تو جاہلیت کی علامت ہے۔ “ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : انی لارجوان اکون اخشاکم و اعلمکم بما اتقی (1) میں امید کرتا ہوں کہ میں تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں اور جس چیز سے میں بچتا ہوں اس کے بارے میں تم سے زیادہ آگاہ ہوں۔ اسیو جہ سے آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ معزز تھے۔ ابن عربی نے کہا، یہی وہ چیز ہے جسے امام مالک نے نکاح میں کفو کے طور پر معتبر جانا ہے۔ عبداللہ نے امام مالک سے روایت نقل کی ہے کہ غلام عربی عورت سے شادی کرسکتا ہے اور اس آیت سے استدلال کیا۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی نے کہا، حسب اور مال کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ صحیح میں حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت مروی ہے کہ حضرت ابوحنیفہ بن عتبہ بن ربیعہ جو ان صحابہ میں سے تھے جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے نے حضرت سالم کو اپنا متنبی بنایا اور اس کی شادی اپنی بھتیجی یعنی ہند بنت ولید جو ان کے بھائی ولید بن عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی تھی سے کردی یہ ایک انصاری عورت کے غلام تھے حضرت ضباء بنت زبیر یہ ضحرت مقداد بن اسود کے عقد میں تھیں۔ میں کہتا ہوں : حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی بہن حضرت بلال کے عقد میں تھیں۔ حضرت زینب بنت حجش حضرت زید بن حارثہ کے عقد میں تھیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غلاموں کا عقد نکاح عربی عورت سے جائز ہے دین میں کفو کا اعتبار کیا جائے گا اس پر دلیل وہ روایت ہے جو سہل بن سعد سے صحیح بخاری میں مروی ہے (2) کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک آدمی گذرا پوچھا :” تم اس کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ “ صحابہ نے عرض کی : یہ اس لاقء ہے کہ اگر دعوت نکاح دی تو اس کے ساتھ نکاح کیا جائے، اگر سفارش کرے تو مانی جائے، اگر بات کرے تو اس کی بات سنی جائے پھر آپ ﷺ خاموش ہوگئے تو آپ کے پاس سے مسلمان فقراء میں سے ایک آدی گذرا پوچھا :” ت م اس کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ “ صحابہ نے عرض کی : یہ اس لائق ہے اگر دعوت نکاح دے تو اس کے ساتھ نکاح نہ کیا جائے، اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ مانی جائے، اگر بات کرے تو اس کی بات نہ سنی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” یہ آدی دوسرے کی بنسبت زمین بھر کے لوگوں سے بہتر ہے۔ “ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” عورت سے نکاح اس کے مال، جمال اور دین کی وجہ سے کیا جاتا ہے (3) “ ایک روایت میں ہے اس کے حسب کی وجہ سے کیا جاتا ہے تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں تو دیندار کو لازم پکڑ۔ حضرت سلمان فاسری نے حضرت ابوبکر صدیق کو ان کی بٹی کے لئے دعوت نکاح دی تو انہوں نے اسے قبول کرلیا۔ حضرت عمر کو ان کی بیٹی کے لئے دعوت نکاح دی تو آپ نے توجہ نہ کی پھر حضرت عمر نے حضرت سلمان فارسی سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کی بیٹی سے نکاح کرلیں تو حضرت سلمان فاسری نے ایسا نہ کیا۔ حضرت بلال نے بکیر کی بیٹی کو دعوت نکاح بھتیجی تو اس کے بھائیوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ حضرت بلال نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں نے بنی بکیر سے کیا پایا ہے میں نے انہیں ان کی بہن کے بارے میں دعوت نکاح دی تو انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور مجھے اذیت دی۔ رسول اللہ ﷺ حضرت بلال کی وجہ سے ناراض ہوگئے۔ بنی بکیر کو یہ خبر پہنچی وہ اپنی بہن کے پاس آئے انہوں نے کہا : ہمیں تیری وجہ سے کس مصیبت کا سامنا کرنا پڑا ہے ؟ ان کی بہن نے کہا : اس کا معاملہ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ہے تو بھائیوں نے بہن کی شادی حضرت بلال سے کردی۔ نبی کریم ﷺ کی حجامت جب ابوہند نے کی تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” ابو ہند کی شادی کر دو ، ان کی شادی کردو “ یہ بنو بیاضہ کا غلام تھا۔ (1) دارق طنی میں زہری کی حدیث عروہ سے وہ وہ حضر عائشہ صدیقہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی بیاضہ کا غلام ابوہ ند حجام تھا اس نے نبی کریم ﷺ کی حجامت کی تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جسے یہ بات خوش کرے کہ اسے دیکھے کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو نقش کردیا ہے تو وہ ابو ہند کو دیکھے۔ “ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اس کا نکاح کر دو ، اس کا نکاح کر دو “ (2) ۔ قشیری ابو نصر نے کہا : نکاح کرتے وقت کفو میں نسب کا اعتبار کیا اجتا ہے جبکہ نکاح شجر نبوت کے ساتھ اتصال ہے یا علماء کے ساتھ جو انبیاء کے وارث ہیں یا جو زہد اور الحیت میں قابل قدر ہیں متقی مومن فاجر اعلی نسب والے سے بہتر ہے۔ اگر دونوں متقی ہیں تو اس وقت اعلیٰ نسب والے کو مقدم کیا جائے گا جس طرح نماز کی امامت کے لئے نوجوان کو بوڑھے پر مقدم کیا جاتا ہے جب تقوی میں برابر ہوں۔
Top