Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
مومنو ! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے
اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے حق میں نازل ہوء اس کا سبب وہ ہے جسے قتادہ سے روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ولید بن عقبہ کو بنی مطلق کے صدقات وصول کرنے والا بنا کر بھیجا جب بنی مطقطق نے اسے دیکھا تو استقبال کے لئے آگے بڑھے تو یہ ان سے خوفزدہ ہوگیا ایک روایت میں ہے یہ اس کینہ کی وجہ سے تھا جو ان کے اور بنی مصطلق کے درمیان تھا۔ وہ نبی کریم ﷺ کی طرف لوٹ آیا اس نے نبی کریم ﷺ کو خبر دی کہ وہ مرتد ہوگئے ہیں نبی کریم ﷺ نے حضرت خالد بن ولید کو بھیجا اور انہیں حکم دیا : کہ ”‘ وہ چھان بین کے حملہ میں جلدی نہ کرے ‘ حضرت خالد چلے جہاں تک کہ رات کے وقت ان کے پاس پہنچے آپ نے ان کی طرف اپنے جاسوس بھیجے جب جاسوس واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ لوگ اسلام کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ ہیں انہوں نے ان کی آواز سنی اور انہیں نماز پڑھتے ہوئے دکھایا جب انہوں نے صبح کی تو حضرت خالد ان کے پاس آئے اور جاسوسوں نے جو کچھ ذکر کیا تھا وہ سب کچھ صحیح پایا حضرت خالد نبی کریم ﷺ کی طرف لوٹ آئے اور سب کچھ بتایا تو یہ آیت نازل ہوئی، نبی کریم ﷺ کہا کرتے تھے۔ ” آہستہ روی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور تیزی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے “ (1) ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسے بنی مصطلق کی طرف بھیجا جبکہ وہ اسلام قبول کرچکے تھے جب انہوں نے اس کے بارے میں سنا تو وہ اس کے استقبال کے لئے سواریوں پر نکلے وہ ان سے خوفزدہ ہوگیا اور رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹ آیا اس نے بتایا کہ لوگوں نے اس کے قتل کا پروگرام بنایا ہے اور اپنے صدقات سے دینے سے انکار کعردیا ہے رسول اللہ ﷺ نے ان پر حملہ کا ارادہ کیا اسی اثناء میں ان کا وفد رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا عرض کی : یا رسول اللہ : ﷺ ہم نے آپ کے قاصد کے بارے میں سنا ہم نکلے تاکہ اس کی تعظیم بجا لائیں اور ہمارے ذمہ جو صدقات ہیں وہ اسے ادا کریں تو وہ واپس چلا گیا اور ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اسے قتل کرنے کے لئے نکلے ہیں اللہ کی قسم : ہم اس کے لئے نکلے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا تو ولید کو جھوٹا نام دیا گیا۔ ابن زید، مقاتل، اور سہل بن عبداللہ نے کہا : فاسق سے مراد کذاب ہے۔ ابو الحسن وراق نے کہا : جو اعلانیہ گناہ کرتا ہو، ابن طاہر نے کہا : جو اللہ تعالیٰ سے حیا نہ کرتا ہو۔ حمزہ اور کسائی نے پڑھا۔ یہ ثبت سے مشتق ہے باقی قراء نے پڑھا ہے۔ جو تبین سے مشتق ہے ان محل نصب میں ہے کیونکہ حرف جار حذف ہے یعنی خطا کے ساتھ یعنی جلدی کرنے اور آہستہ روی اخیار نہ کرنے پر تم شرمند ہوئے مسئلہ نمبر 2:۔ اس آیت میں دلیل ہے کہ جب روای عادل ہو تو ایک راوی کی خبر قبول ہوگی کین کہ فاسق کی خبر پر چھان بین کا حکم ہے جس کا فسق ثابت ہوا اس کا قول بالا جماع باطل ہوگا کیونکہ خبر امانت ہے اور فسق ایسا قرینہ ہے جو اسے باطل کردیتا ہے اجماع نے اس میں اسے مستنثی کیا ہے جو دعوی اور انکار سے متعلق ہو اور غیر پر حق ثابت کرتا ہو جیسے کوئی کہتا ہے اس کا قول قبول کیا جائے گا جب کوئی یہ کہے فلاں نے یہ امر نافذ کیا ہے کہ تیرے لئے ہدیہ ہے تو اسے قبول کیا جائے گا اسی طرح اس کی مثل میں کافر کی خبر قبول کی جائے گی جہاں تک اس کا بات کا تعلق ہے کہ کسی غیر میں کسی نئی چیز کو لازم کیا جائے گا تو امام شافعی اور دوسرے علماء کی رائے ہے وہ نکاح میں ولی نہیں ہوگا امام ابوحنیفہ اور امام مالک نے کہا : وہ ولی ہوگا کیونکہ اس کا جو کچھ ہے اس کا ولی ہے تو اس کے وضع کا بھی ولی ہوگا جس طرح عادل ہوتا ہے اگرچہ وہ دین کے معاملہ میں فاسق ہے مگر اس کی غیرت وافر ہے اسی کے ساتھ وہ اپنے حرم کی حفاظت کرتا ہے وہ مال خرچ کرتا ہے اور حرمت کی حفاظت کرتا ہے جب مال کا ولی ہے تو نکاح کا بدرجہ اولی ولی ہوگا۔ مسئلہ نمبر 3: ابن عربی نے کہا : تعجب کی بات یہ ہے (1) کہ امام شافعی اور ان کی مثل لوگ فاسق کی امامت جائز قرار دیتے ہیں جو آدمی مال کے حسبہ (معمولی مال) پر امانت دار نہیں بنایا جاسکتا وہ دین کے قنطار (بڑا خزانہ) پر امانت دار کیسے بنایا جاسکتا ہے یہ اس کے لئے ہے کہ آپ کے نزدیک اصول یہ ہے کہ والی جو لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں جب ان کے دین فاسد ہوجائیں اور ان کے پیچھے نماز کا ترک کرنا ممکن نہ ہو ان کو ہٹانے کی طاقت بھی نہ ہو تو ان کے ساتھ اور ان پیچھے نماز پڑھی جائے گی جس طرح عثمان نے کہا : لوگ جو عمل کرتے ہیں نماز ان میں سے بہترین ہے جب وہ اچھا عمل کریں تو تو بھی اچھا عکمل کریں اور جب وہ برا عمل کریں تو ان کی برائی سے اجتناب کر۔ پھر لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جب کوئی آدمی ان کے ساتھ پاک صاف ہو کر نماز پڑھتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے لئے نماز کا اعادہ کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اسے اپنی نماز بنا لیتے ہیں نماز کے اعادہ کے جو وب کے بارے میں کہتا ہو کسی کے لئے مناسب نہیں کہ آئمہ میں سے جس سے وہ راضی نہ ہو اس کے ساتھ نماز پڑھنے کو ترک کر دے بلکہ وہ خاموشی سے نماز کا اعادہ کرے کسی اور کسی کے سامنے اس کا ذکر نہ کرے مسئلہ نمبر 5:۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس کا کسی غیر کا قاصد ہونا کہ وہ کسی قول کو پہنچائے یا کسی شے کو پہنچائے یا اسے آگاہ کرے جب وہ بھیجنے والے او جس کی طرف بھیجا گیا ہے اس کے حق سے باہر نہ رکھے اگر اس کے ساتھ کسی اور کا حق متعلق ہو تو اس کا قول قبول نہ کیا جائے گا (2) یہ اس ضرورت کی وجہ سے جائز ہے جو اس کا سبب بنتی ہے اگر لوگوں کے درمیان صرف عادل آدمی ہی ان امور کی سرانجام دیں تو کوئی امر حاصل ہی نہ ہو سکے کیونکہ وہ اس صف سے خالی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر 6: اس میں آدمی کے قول کا فاسد ظاہر ہوجاتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ تمام مسلمان عادل ہیں یہاں تک کہ ان کا جرم ثابت ہوجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قبول کرنے سے قبل چھان بین کا حکم دیا ہے حکم کے نافذ کرنے کے بعد چھان بین کرنے کا کوئی مطلب نہیں اگر حاکم چھان بین سے پہلے فیصلے کردے تو اس نے محکوم علیہ پر جہالت کے ساتھ معاملہ کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 7: اگر وہ ظن غالب کی بناء پر فیصلہ کرے تو یہ جہالت پر عمل نہ ہوگا جس طرح دو عادل گواہوں کی بناء پر فیصلہ کیا جاتا ہے اور مجتہد کے قول کو قبول کیا جاتا ہے جہالت پر عمل اس وقت ہوگا جب اس آدمی کا قول قبول کیا جائے گا جب اس کا قول قبول کرنے سے ظن غالب حاصل نہ ہو۔ اس مسئلہ کو قشیری نے اور اس سے قبل کے مسئلہ کو مہدوی نے ذکر کیا ہے۔
Top