Al-Qurtubi - Al-Maaida : 100
قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : کہدیجئے لَّا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْخَبِيْثُ : ناپاک وَالطَّيِّبُ : اور پاک وَلَوْ : خواہ اَعْجَبَكَ : تمہیں اچھی لگے كَثْرَةُ : کثرت الْخَبِيْثِ : ناپاک فَاتَّقُوا : سو ڈرو اللّٰهَ : اللہ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
کہہ دو کہ ناپاک چیزیں اور پاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں گو ناپاک چیزوں کی کثرت تمہیں خوش ہی لگے۔ تو عقل والو خدا سے ڈرتے رہو تاکہ رستگاری حاصل کرو
آیت نمبر 100 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) قل لایستوی الخبیث والطیب اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ حسن نے کہا : الخبیث اور الطیب سے مراد حلال اور حرام ہے۔ سدی نے کہا : مومن و کافر ہیں۔ بعض نے کہا : مطیع اور عاصی ہیں۔ بعض نے کہا : ردی اور جید ہے۔ یہ بطور مثال ہے صحیح یہ ہے کہ لفظ ان تمام امور کو شامل ہے مکاسب، اعمال، لوگ، علوم ومعارف وغیرہ سب متصور ہوسکتے ہیں اس میں سے خبیث فائدہ نہیں دیتا اور نہ اس کا انجام اچھا ہوتا ہے اگرچہ زیادہ بھی ہو اور پاکیزہ تھوڑا بھی نفع بخش ہوتا ہے اور انجام کے اعتبار سے عمدہ ہوتا ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 244 ) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) والبلد الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ والذی خبث لایخرج الا نکدا (الاعراف : 58) اور جو سرزمین عمدہ زرخیز ہے (کثرت سے) نکلتی ہے اس کی پیداوار اپنے رب کے حکم سے اور جو خراب ہے نہیں نکلتی اس سے (پیداوار) مگر قلیل گھٹیا۔ اس آیت کی مثال یہ ارشاد بھی ہے : (آیت) ام نجعل الذین امنوا وعملوا الصلحت کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کالفجار (ص) کیا ہم بنادیں گے انہیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان لوگوں کی مانند جو فسادبرپا کرتے ہیں زمین میں یا ہم بنادیں گے پرہیزگاروں کو فجار کی طرح۔ اور اللہ تعالیٰ ارشاد ہے : (آیت) ام حسب الذین اجترحوا السیات ان نجعلھم کا الذین امنو اوعملوا الصلحت (الجاثیہ : 21) کیا خیال کر رکھا ہے ان لوگوں نے جو ارتکاب کرتے ہیں برائیوں کا کہ ہم بنادیں گے انہیں ان لوگوں کی مانند جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ خبیث، طیب کے مساوی نہیں ہوتا نہ مقدار میں، نہ خرچ کرنے میں، نہ مکان میں، نہ ذہاب میں۔ پاکیزہ دائیں جہت سے لیتا ہے خبیث بائیں جہت سے لیتا ہے، پاکیزہ جنت میں ہے، خبیث دوزخ میں ہے۔ یہ بالکل واضح ہے اور برابری کی حقیقت ایک جہت میں ہمیشہ رہنا ہے اس کی مثل استقامت (سیدھا ہونا) ہے اور اس کی ضد اعوجاج (ٹیڑھا ہونا) ہے جب معاملہ اس طرح ہے تو یہ مسئلہ بنتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ بعض علماء نے فرمایا : بیع فاسد فسخ کی جائے گی اور بازار کے حوالہ سے قائم نہیں رکھی جائے گی اور نہ بدن کے تغیر سے قائم رکھی جائے گی، کیونکہ اس کے قائم رکھنے میں بیع صحیح کے ساتھ برابر ہوجائے گی، بلکہ اسے ہمیشہ فسخ کیا جائے گا اور مشتری کو ثمن واپس کی جائے گی اگر وہ قابض ہوچکا ہو اگر اس (بائع) کے ہاتھ میں تلف ہوگئی تو وہ اس کا ضامن ہوگا، کیونکہ وہ امانت پر قابض نہیں ہوا تھا بلکہ شبہ عقد کی وجہ سے قابض ہوا تھا۔ بعض علماء نے فرمایا : بیع کو فسخ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ بیع جب فسخ کی جائے گی اور اس کے فوت ہونے کے بعد رد کی جائے گی تو بائع پر اس میں ضرر اور غبن ہوگا اور وہ سامان جو سوروپے کے برابر تھا وہ جب بائع کا لوٹائی جائے گی تو وہ بیس روپے کے برابر ہوگا اور مال میں عقوبت نہیں ہے۔ پہلاقول اصح ہے، کیونکہ آیت عام ہے اور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے وہ رد ہے “ (1) (صحیح بخاری، کتاب البیوع، جلد 1 صفحہ 287) میں کہتا ہوں : جب مسائل فقہ میں عدم استواء میں اس معنی کو تلاش کیا جائے گا تو وہ کثرت سے ملیں گے اس میں سے غاصب کا مسئلہ بھی ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ جس نے مغصوبہ جگہ پر مکان بنایا، درخت لگایا تو اس عمارت اور درخت کو کاٹنا لازم ہے، کیونکہ وہ خبیث ہے اور اسے لوٹایاجائے گا، جب کہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے : اس کو نہیں اکھیڑا جائے گا اور اس زمین کے مالک سے قیمت لے لے گا اس کو رسول اللہ ﷺ کا قول لیس لعرق ظالم حق (2) (صحیح بخاری، کتاب الحرث والمزارعۃ، جلد 1، صفحہ 314) ظالم کے لیے کوئی حق نہیں ہے۔ رد کرتا ہے۔ ہشام نے کہا : العرق الظالم سے مراد وہ ہے جو دوسرے کی زمین میں درخت لگاتا ہے تاکہ اس کا مستحق ہوجائے۔ امام مالک نے کہا العرق الظالم سے مراد وہ شخص ہے جو بغیر حق کے کوئی چیز لیتا ہے یا کنواں کھودتا ہے یا درخت لگاتا ہے۔ امام مالک نے فرمایا : جو زمین غصب کرے پھر اسے کاشت کرے یا کرائے یا گھر غصب کرے اس میں رہائش رکھے یا اسے کرائے پر دے پھر اس کا مالک اس کا مستحق ہوجائے تو رہائش رکھنے کا کرایہ غاصب پر ہوگا اور غاصب نے دوسرے سے جو کرایہ لیا تھا وہ بھی واپس کرنا ہوگا اور جب کوئی شخص اس گھر میں نہ رہے یا زمین کو کاشت نہ کرے اور اسے معطل کردے تو امام ملک کا مشہور مذہب یہ ہے کہ اس پر کچھ نہیں ہے اور ان سے یہ بھی مروی ہے کہ اس پر کرایہ ہے۔ وقار نے اس کو اختیار کیا ہے، یہی امام شافعی کا مذہب ہے، کیونکہ نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے :” ظالم کے لیے کوئی حق نہیں ہے “۔ ابو دائود نے ابو زبیر سے روایت کیا ہے کہ دوآدمی جھگڑا لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ایک نے دوسرے کی زمین میں کھجور کے درخت لگائے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ زمین والے کے حق میں کیا اور کھجوروں والے کو کہا کہ وہ اپنی کھجوریں نکال لے فرمایا : میں نے دیکھا کہ ان کھجوروں کی جڑوں کو کلہاڑی کے ساتھ مارا گیا حتی کہ وہ نکالیں گئیں جب کہ وہ مکمل کھجوریں تھیں۔ یہ نص ہے۔ ابن حبیب نے کہا : اس میں حکم یہ ہے کہ زمین والے کا ظالم پر اختیار ہے اگر چاہے تو اکھیڑ ہوئے درختوں کی قیمت دے کر انہیں روک لے اگر چاہے تو انہیں اکھیڑدے اور اکھیڑنے کی اجرت غاصب پر ہوگی۔ دار قطنی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جس نے کسی قوم کے گھروں میں ان کی اجازت سے گھربنایاتو اسے گھر کی قیمت دی جائے گی اور جس نے ان کی اجازت کے بغیر گھر بنایاتو اس کے لیے گھر توڑنا ہوگا “ (1) (دارقطنی، باب المراۃ تقتل اذا ارتدت، جلد 4، صفحہ 243 ) ۔ ہمارے علماء نے فرمایا : اس کے لیے قیمت ہوگی، کیونکہ اس نے ایسی جگہ پر مکان بنایا جس کی منفعت کا وہ مالک تھا یہ اس طرح ہے کہ جس نے کسی شبہ کی وجہ سے مکان بنایا یا درخت لگائے تو اس کے لیے حق ہے اگر مال کا ملک چاہے تو اسے اس کی قیمت دے دے جس حالت پر وہ قائم ہے اگر وہ انکار کرے تو جس نے عمارت بنائی یا درخت لگائے اسے کہا جائے گا : اسے خالی زمین کی قیمت دے دے۔ اور اگر وہ انکار کرے تو دونوں شریک ہوں گے۔ ابن الماجثون نے کہا : اس کے اشتراک کی تفسیر یہ ہے کہ خالی زمین کی قیمت لگائی جائے گی پھر اس عمارت کی قیمت لگائی جائے گی عمارت کے ساتھ والی قیمت خالی زمین کی قیمت سے بڑھ جائے گی تو کام کرنے والا اس زمین کے مالک کے ساتھ شریک ہوگا اگر وہ پسند کریں تو تقسم کرلیں یاوی سے روکے رکھیں۔ ابن الجہم نے کہا : جب زمین کا مالک عمارت کی قیمت دے گا اور اپنی زمین لے گا تو اس کے لیے گزشتہ سالوں کا کرایہ ہوگا۔ ابن القاسم وغیرہ سے مروی ہے جب کوئی شخص کسی کی زمین میں اس کی اجازت سے مکان بنائے تو پھر اس کے لیے اس کا نکالنا واجب ہوجائے تو وہ اسے اپنی کھڑی ہوئی عمارت کی قیمت دے گا۔ پہلا قول اصح ہے، کیونکہ نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے ” اس کے لیے قیمت ہے “ اور اس پر اکثر فقہاء کا مذہب ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ولواعجبک کثرۃ الخبیث بعض علماء نے فرمایا : یہ خطاب نبی مکرم ﷺ کو ہے اور مراد امت ہے کیونکہ نبی مکرم ﷺ خبیث پر تعجب نہیں کرتے بعض نے فرمایا مراد نبی مکرم ﷺ کی ذات ہے اور آپ کا اعجاب یہ ہے کہ آپ نے جو کفار کی کثرت اور مال حرام کی کثرت کا اور مومنین کی قلت اور حلال مال کی قلت کا مشاہدہ کیا تو تعجب کیا۔ (آیت) فاتقوا اللہ یاولی الالباب لعلکم تفلحون اس کا معنی پہلے گزرچکا ہے۔
Top