Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والے
لَا تَسْئَلُوْا
: نہ پوچھو
عَنْ
: سے۔ متعلق
اَشْيَآءَ
: چیزیں
اِنْ تُبْدَ
: جو ظاہر کی جائیں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
تَسُؤْكُمْ
: تمہیں بری لگیں
وَاِنْ
: اور اگر
تَسْئَلُوْا
: تم پوچھوگے
عَنْهَا
: ان کے متعلق
حِيْنَ
: جب
يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ
: نازل کیا جارہا ہے قرآن
تُبْدَ لَكُمْ
: ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے
عَفَا اللّٰهُ
: اللہ نے درگزر کی
عَنْهَا
: اس سے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
حَلِيْمٌ
: بردبار
مومنو ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (ان کی حقیقتں) تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اور اگر قرآن نازل ہونے کے زمانے میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (اب تو) خدا نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور خدا بخشنے والا بردبار ہے۔
آیت نمبر ا
0
ا تا
102
ان آیات میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ بخاری اور مسلم وغیرہما نے روایت کیا ہے۔ یہ بخاری کے الفاظ کا ترجمہ ہے۔ حضرت انس سے مروی ہے ایک شخص نے پوچھا : اے اللہ کے نبی ! میرا باپ کون ہے ؟ فرمایا :” تیرا باپ فلاں ہے (
1
) (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، جلد
2
، صفحہ
665
) تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) یایھا الذین امنوا لاتسئلو عن اشیاء ان تبد لکم تسوء کم۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” اللہ کی قسم ! تم مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہیں پوچھو گے مگر میں تمہیں اس کے متعلق بتائوں گا جب تک کہ میں اس جگہ میں ہوں (
2
) (صحیح مسلم، جلد
2
، صفحہ
263
) “ ایک شخص اٹھا اور پوچھا : یارسول اللہ ! میں کہاں داخل ہوں گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :” آگ میں “ حضرت عبداللہ بن حذافہ اٹھے پوچھا : یارسول اللہ ! میرا باپ کون ہے ؟ فرمایا ؟ ” تیرا باپ حذافہ ہے “ آگے پوری حدیث ذکر کی۔ ابن عبد البر نے کہا : حضرت عبد اللہ بن حذافہ پہلے اسلام لے آئے تھے انہوں نے حبشہ کی زمین کی طرف ہجرت کی تھی اور بدر میں شریک ہوئے تھے اور ان میں مزاح کی صفت تھی ان کو رسول اللہ ﷺ نے اپنا خط دے کر کسری کی طرف بھیجا تھا جب انہوں نے کہا : یارسول اللہ ! ﷺ میرا باپ کون ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” تیرا باپ حذافہ ہے “ ان کی والدہ نے انہیں کہا : میں نے تجھ سے زیادہ نافرمان بیٹا نہیں سنا تو امن میں تھا کہ تیری ماں نے زمانہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح گناہ کیا ہوتا اور تو اسے لوگوں کے سامنے رسوا کرتا۔ حضرت عبد اللہ نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر آپ مجھے کالے غلام کے ساتھ لاحق کردیتے تو میں اس کے ساتھ لاحق ہوجاتا۔ ترمذی اور دارقطنی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : جب یہ آیت نازل ہوئی (آیت) وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا (آل عمران :
97
) لوگوں نے کہا : یارسول اللہ ! کیا ہر سال میں حج فرض ہے ؟ آپ ﷺ خاموش ہوگئے لوگوں نے پھر کہا : کیا ہر سال میں حج فرض ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :” نہیں، اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہوجاتا (
1
) “ (جامع ترمذی، کتاب الحج، جلد
1
، صفحہ
00
ا) ۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) یایھا الذین امنوا لاتسئلو عن اشیاء ان تبد لکم تسوء کم الایہ۔ یہ لفظ دارقطنی کے ہیں امام بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : یہ حسن ہے مگر مرسل ہے ابو البختری نے حضرت علی سے ملاقات نہیں کی اور اس کا نام سعید ہے۔ اس حدیث کو دارقطنی نے ابو عیاض عب ابی ہریرہ کے سلسلہ سے بھی روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اے لوگو ! تم پر حج پر فرض کیا گیا ہے “ ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا : یارسول اللہ ! ہر سال فرض ہے ؟ آپ ﷺ نے اس سے اعراض فرمایا، اس نے پھر سوال لوٹایا اور کہا : یارسول اللہ ! ہر سال میں حج فرض ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : قائل کون ہے ؟ انہوں نے کہا : فلاں۔ فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہوجاتا، اگر واجب ہوجاتاتوتم اس کی طاقت نہ رکھتے اگر تم اس کی طاقت نہ رکھتے تو تم کفر کرتے “ (
2
) (سنن دار قطنی، کتاب الحج، جلد
2
، صفحہ
282
) ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) یایھا الذین امنوا لاتسئلو عن اشیاء ان تبد لکم تسوء کم الایہ۔ حسن بصری نے اس آیت میں فرمایا : لوگوں نے نبی مکرم ﷺ سے امور جاہلیت کے متعلق پوچھاجن کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا تھا سوال کی کوئی وجہ نہیں تھی ان چیزوں کے متعلق جن کو اللہ نے معاف کردیا تھا۔ مجاہد نے حضرت عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت اس قوم کے متعلق نازل ہوئی جنہوں نے بحیرہ، سائبۃ، وصیلۃ، حام کے بارے میں پوچھا (
3
) (احکام القرآن لابن العربی جلد
2
، صفحہ
698
) یہ سعید بن جبیر کا قول ہے اور فرمایا : کیا تم نے دیکھا نہیں کہ بعد میں فرمایا : (آیت) ماجعل اللہ من بحیرۃ ولاسائبۃ ولاوصیلۃ ولاحام۔ میں کہتا ہوں : صحیح اور مسند میں کفایت ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ یہ آیت تمام کے جواب میں نازل ہوئی ہو سوال قریب قریب تھے۔ اشیاء کا وزن افعال ہے اور یہ غیر منصرف ہے، کیونکہ یہ حمراء کے مشابہ ہے۔ یہ کسائی کا قول ہے۔ بعض نے فرمایا : اس کا وزن افعلاء ہے جیسے تیرا قول ہے ھین واھونائ۔ فراء اور اخفش سے مروی ہے اور اس کی تصغیر میں اشیاء کہا جاتا ہے۔ مازنی نے کہا : اس کی تصغیر شہیات بنانا واجب ہے جس طرح اصدقاء کی تصغیر بنائی جاتی ہے اور مونث میں صدیقات اور مذکر میں صدیقون ہے۔ مسئلہ نمبر
2
۔ ابن اعون نے کہا : میں نے نافع سے (آیت) لاتسئلو عن اشیاء الخ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : ہمیشہ کچھ مسائل ناپسند کیے جاتے تھے۔ مسلم نے حضرت مغیرہ بن شعبہ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے تم پر مائوں کی نافرمانی کرنا، بچیوں کو زندہ درگور کرنا، حقوق ادا نہ کرنا اور منہیات کا ارتکاب کرنا حرام کیا ہے اور تمہارے لیے تین چیزوں کو ناپسند کیا ہے قیل وقال، کثرت سے سوال اور مال کا ضائع کرنا “ (
4
) (صحیح مسلم، کتاب الاقضیہ، جلد
2
، صفحہ
75
) ۔ بہت سے علماء کا قول ہے کہ کثرت سے سوال سے مراد خواہ مخواہ فقہی مسائل کثرت سے پوچھنا ہے، غلط سوال کرنا اور مسائل میں تشقیق پیدا کرنا ہے اور جو احکام نازل نہیں ہوئے ان کا موجب بننا ہے۔ سلف صالحین اس صورت کو ناپسند فرماتے تھے اور کو تکلیف (احکام کے نزول کا موجب بننا) سے شمار کرتے تھے اور وہ کہتے تھے : جب مسئلہ درپیش ہوگا تو اس مسئلہ کی توفیق دی جائے گی۔ امام مالک نے کہا : میں نے اس شہر کے اہل کو پایا ان کے پاس کتاب وسنت کے علاوہ علم نہ تھا جب کوئی مسئلہ پیش آتا تو امیر موجود علماء کو جمع کرتا اور جس پر علماء متفق ہوجاتے اسے نافذ کردیتا تم کثرت سے سوال کرتے ہو حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے مسائل کو ناپسند فرمایا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : کثرت سوال سے مراد لوگوں سے اصرار کے ساتھ اور کثرت کے لیے لوگوں سے اموال اور حوائج کا کثرت سے سوال کرنا ہے۔ یہ بھی امام مالک کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : کثرت مسائل سے مراد لوگوں کے خواہ مخواہ بلاضرورت احوال پوچھنایہاں تک کہ وہ لوگوں کی پوشیدہ باتوں کا ظاہر کرے اور ان کی برائیوں پر اطلاع کا موجب ہوں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی مثل ہے : (آیت) ولاتجسسو اولایغتب بعضکم بعضا (الحجرات :
12
) ابن خویز منداد نے کہا : اسی وجہ سے ہمارے بعض اصحاب نے کہا : جب کسی کو کھاناپیش کیا جائے تو وہ یہ نہ پوچھے کہ یہ کہاں سے آیا ہے یا اس کو کوئی چیز پیش کی جائے جس کو وہ خریدے تو وہ یہ نہ پوچھے کہ یہ کہاں سے آئی ہے ؟ مسلمانوں کے امور کو سلامتی اور صحت پر محمول کرے۔ میں کہتا ہوں : حدیث کو عموم پر محمول کیا جائے تو وہ ان تمام وجوہ کو شامل ہے۔ مسئلہ نمبر
3
۔ ابن عربی نے کہا : ایک غافل قوم نے پیش آنے والے مسائل کے متعلق سوالات کی تحریم کا اعتقاد رکھا ہے حتی کہ انہوں نے اس آیت کے ساتھ تعلق جوڑا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ یہ آیت صریح ہے کہ وہ سوال جس سے منع کیا گیا ہے وہ ہے جس کے جواب میں کوئی تکلیف واقع ہو اور وقت کے مسائل کے جواب میں کوئی تکلیف واقع نہیں ہوتی پس یہ آپس میں جدا ہیں (
1
) (احکام القرآن لابن العربی جلد
2
، صفحہ
700
) ۔ میں کہتا ہوں : ابن عربی کا یہ قول کہ ” ایک غافل قوم نے اعتقاد رکھا ہے “ اس میں قبح ہے۔ بہتر یہ تھا کہ یوں کہتے ” ایک قوم کا نظریہ پیش آنے والے مسائل کی تحریم کا ہے کیونکہ یہ اس کی عادت پر جاری ہوا ہے “ ہم نے کہا : بہتر یہ تھا، کیونکہ سلف صالحین کی قوم اس کو ناپسند کرتی تھی۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ اس شخص پر لعنت کرتے تھے جو ایسا مسئلہ پوچھتا جو پیش نہیں آیا ہوتا تھا۔ یہ دارمی نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے اور زہری سے ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا : ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت زید بن ثابت انصاری کہتے تھے جب ان سے کسی امر کے متعلق پوچھا جاتا تھا کیا مسئلہ درپیش ہے ؟ اگر لوگ کہتے : ہاں۔ تو اس کا حل بیان فرماتے جو اس کے متعلق جانتے تھے۔ اگر لوگ کہتے کہ یہ مسئلہ درپیش تو نہیں ہے، تو فرماتے : اس کو چھوڑو حتی کہ یہ پیش آجائے۔ حضرت عمار بن یاسر سے سند کے ساتھ مروی ہے کہ ان سے کسی مسئلہ کے متعلق پوچھا جاتاتو وہ کہتے : یہ مسئلہ بھی پیش ہے ؟ وہ کہتے : نہیں، تو آپ فرماتے : ہمیں چھوڑو حتی کہ وہ مسئلہ پیش ہوجائے، اس وقت تمہارے لیے اس کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ دارمی نے کہا ہمیں عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ نے بیان کیا انہوں نے کہا ہمیں ابن فضیل نے بیان کیا انہوں نے عطا سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ عنہنے فرمایا : میں نے اصحاب رسول سے بہتر قوم نہیں دیکھی انہوں نے صرف تیرہ مسائل پوچھے تھے حتی کہ آپ کا وصال ہوگیا وہ تمام سوالات قرآن میں ہیں ان میں سے یہ ہیں۔ (آیت) یسئلونک عن الشھر الحرام (البقرہ :
217
) (آیت) ویسئلونک عن المحیض (البقرہ :
222
) صحابہ کرام صرف وہ پوچھتے تھے جو انہیں نفع دیتا تھا۔ مسئلہ نمبر
4
۔ ابن عبد البر نے کہا : آج کے سوال سے یہ کوئی خوف نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے کوئی تحریم اور تحلیل نازل ہوگی جو سمجھنے کے لیے علم میں رغبت کی وجہ سے اور اپنی ذات سے جہالت کی نفی کی وجہ سے اس معنی کو حاصل کرنے کے لیے دین میں اس پر وقوف واجب ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جہالت کا علاج سوال ہے۔ جس نے عناد کی بنا پر بغیر سکیھے اور سمجھنے کی نیت کے سوال کیا تو وہ ایسا شخص ہے جس کا نہ قلیل سوال حلال ہے نہ کثیر حلال ہے۔ ابن عربی نے کہا : عالم کے لیے مناسب ہے کہ وہ ان چیزوں میں مشغول ہوں وسیع دلائل، نظر کے راستوں کی وضاحت کرنا، اجتہاد کے مقدمات کو حاصل کرنا، استمداد پر معین آلہ کو شمار کرنا۔ جب کوئی مسئلہ پیش ہوگا وہ حل ہوجائے گا اور اس کا ادراک ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ صواب کا راستہ کھول دے گا (
1
) (احکام القرآن لابن العربی جلد
2
، صفحہ
700
) ۔ مسئلہ نمبر
5
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) وان تسئلو عنھا حین ینزل القرآن تبدلکم اس میں غموض اور پوشیدگی ہے، کیونکہ آیت کی ابتدا میں سوال سے نہی وارد ہوئی پھر فرمایا : (آیت) وان تسئلو عنھا حین ینزل القرآن تبدلکم یعنی پھر ان کے لیے سوال کو مباح کیا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے اگر تم ان کے علاوہ مسائل پوچھو گے جن میں حاجت ہوگی۔ پس مضاف حذف کیا گیا ہے اور اس کو غیر حذف پر محمول کرنا درست نہیں۔ جرجانی نے کہا : عنھا کی ضمیر دوسری اشیاء کی طرف لوٹ رہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ولقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین (المومنون) یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) پھر فرمایا : (آیت) ثم جعلنہ نطفۃ (المومنون :
13
) یعنی ابن آدم کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو نطفۃ فی قرار مکین نہیں بنایا تھا لیکن جب انسان کا ذکر کیا گیا تو وہ حضرت آدم ہے جو اپنی مثل انسان پر دلیل ہے یہ قرینہ حال کے ساتھ تھا معنی یہ ہے کہ اگر تم اشیاء کے متعلق سوال پوچھو گے جب تحلیل یا تحریم یا حکم نازل کیا جائے گا یا تمہیں تفسیر کی حاجت ہوگی جب تم سوال کروگے تو اس وقت تمہارے لیے حکم ظاہر کردیا جائے گا اس نوع نے سوال کا مباح کردیا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مطلقہ، اور وہ عورت جس کا خاوند فوت ہوجائے اور حاملہ عورت کی عدت بیان فرمائی اور ان عورتوں کی عدت کا ذکر نہیں ہوا جو حیض والی نہیں تھیں اور حاملہ بھی نہیں تھیں لوگوں نے ان کے متعلق پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) والئی یئسن من المحیض (طلاق :
4
) پس سوال سے نہی اس صورت میں ہے جب سوال کی حاجت نہ ہو مگر جب حاجت ہو تو پھر سوال کرنا منع نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر
6
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) عفا اللہ عنھا اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ کو معاف کردیا جو ان سے پہلے ہوچکا۔ بعض علماء نے فرمایا : یعنی اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء کے متعلق سوال کرنے کو معاف کردیا جو انہوں نے امور جاہلیت سے اور جو ان جیسے تھے، کے متعلق پوچھا تھا۔ بعض نے فرمایا : العفو بمعنی ترک ہے یعنی اس نے ترک فرمادیا اور جس کے متعلق حلت اور حرمت کا حکم معروف نہیں ہے وہ معاف ہے پس تم ان کے متعلق بحث نہ کرو شاید تمہارے لیے اس کا ظاہر ہوجائے تو وہ تمہیں تکلیف دے۔ عبید بن عمیر فرمایا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے حلال فرمایا اور حرام فرمایا جس کو اس نے حلال فرمایا اس کو حلال سمجھو اور جس کو حرام فرمایا اس سے اجتناب کرو اور ان کے درمیان کچھ چیزوں کو چھوڑ دیا نہ انہیں حلال فرمایا اور نہ حرام فرمایا پس یہ اللہ کی طرف سے معاف ہیں پھر یہ آیت پڑھی۔ دارقطنی نے ابو ثعلبہ خشنی سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر فرمائے ہیں پس تم انہیں ضائع نہ کرو اور بعض چیزوں کو حرام کیا ہے پس تم ان کی پروردی نہ کرو اور بعض حدود مقرر فرمائی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں سے دانستہ سکوت فرمایا ہے ان سے بحث نہ کرو “ (
1
) (سنن دارقطنی، کتاب الصید والذبائح، حدیث نمبر
104
، صفحہ
298
) ۔ اس تقدیر کی بنا پر کلام میں تقدیم وتاخیر ہے یعنی ان چیزوں کے متعلق مت پوچھو جن کو اللہ نے معاف فرمایا ہے اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تمہیں تکلیف ہو یعنی خود ہی اس نے ان کا ذکر نہیں کیا پس ان میں کوئی حکم ثابت نہیں کیا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہے بلکہ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ سے درگزر فرمایا ہے جو گزرچکا اگرچہ نبی مکرم ﷺ نے اسے ناپسند فرمایا تھا پس تم آئندہ ایسے مسائل نہ پوچھنا، پس عنھا کی ضمیر کا مرجع مسئلہ ہے یا سوالات ہیں جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
7
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) قد سالھا قوم من قبلکم ثم اصبحوا بھا کافرین اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ہم سے پہلے ایک قوم تھی کہ انہوں نے اس کی مثل آیات کا سوال کیا جب انہیں وہ عطا کی گئیں اور ان پر احکامات فرض کیے گئے تو انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے نہیں ہیں جیسے حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے اونٹنی کا سوال کیا تھا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب نے مائدہ (دستر خوان) کا سوال کیا تھا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس سے ڈرایا ہے جس میں پہلی قومیں مبتلا ہوئی تھیں۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
8
۔ اگر کوئی کہنے والا کہے کہ جو تم نے سوال کی کراہیت اور اس کے متعلق نہی کا ذکر کیا ہے اس کے معارض یہ ارشاد ہے (آیت) فسئلو اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (النحل) پس دریافت کرلو اہل علم سے اگر تم خود نہیں جانتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جس کا حکم دیا ہے وہ اس کے متعلق ہے جس کا وجوب ثابت ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا ان پر واجب ہے اور جس کے متعلق نہی وارد ہے وہ وہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے بندوں کو مکلف نہیں کیا ہے اور اس کا اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
9
۔ مسلم نے حضرت عامر بن سعد سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” مسلمانوں میں بڑا مجرم وہ ہے جو کسی ایسی چیز کے متعلق سوال کرے جو مسلمانوں پر حرام نہ کی گئی ہو پھر اس کے سوال کی وجہ سے ان پر حرام کردی گئی ہو “ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، جلد
2
، صفحہ
262
) ۔ قشیری ابو نصر نے کہا : اگر عجلانی زنا کے متعلق سوال نہ کرتے تو لعان ثابت نہ ہوتا۔ ابوا لفرج جوزی نے کہا : یہ اس پر محمول ہے جو کسی چیز کے متعلق عبث سوال کرتا ہے پس اس کے برے ارادہ کی وجہ سے اس چیز کی تحریم کے ساتھ سزا دی گئی اور تحریم عام ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر
10
۔ ہمارے علماء نے فرمایا : اس حدیث کے ساتھ قدریہ کا کوئی تعلق نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کے سبب اور علت کی وجہ سے کوئی کام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بلند ہے بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے بلکہ سبب اور داعی اس کے افعال میں سے ایک فعل ہے لیکن قضا وقدر پہلے طے کرچکی ہے کہ جس چیز کے متعلق سوال کیا گیا اس کو حرام کردیا جائے گا جب اس کے بارے سوال واقع ہوگا نہ یہ کہ سوال تحریم کا موجب اور اس کی علت ہے اس کی مثالیں بہت ہیں (آیت) لایسئل عما یفعل وھم یسئلون (الانبیائ) نہیں پرسش کی جاسکتی اس کام کے متعلق جو وہ کرتا ہے اور ان (تمام سے) باز پرس ہوگی۔
Top