Al-Qurtubi - Al-Maaida : 103
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآئِبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ١ۙ وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
مَا جَعَلَ : نہیں بنایا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ : بحیرہ وَّلَا : اور نہ سَآئِبَةٍ : سائبہ وَّلَا : اور نہ وَصِيْلَةٍ : وصیلہ وَّلَا حَامٍ : اور نہ حام وَّلٰكِنَّ : اور لیکن الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا يَفْتَرُوْنَ : وہ بہتان باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹے وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : نہیں رکھتے عقل
خدا نے نہ تو بحیرہ کچھ چیز بنایا اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام بلکہ کافر خدا پر جھوٹ افتراء کرتے ہیں۔ اور یہ اکثر عقل نہیں رکھتے۔
آیت نمبر 103 اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ماجعل اللہ یہاں جعل بمعنی سمی (نام رکھنا) ہے جیسے ارشاد فرمایا : (آیت) انا جعلنہ قرآنا عربیا (الزخرف : 3) یعنی ہم نے اس کا نام قرآن عر بی رکھا۔ اس آیت میں معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نام نہیں رکھا نہ حکم بنایا ہے اور نہ اس کا شرعا مکلف بنایا ہے مگر اس نے اپنے علم سے فیصلہ کیا ہے اور اپنی قدرت و ارادہ سے مخلوق کو پیدا کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ خیر و شر، نفع وضرر، طاعت و معصیت میں سے ہر چیز کا خالق ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) من بحیرۃ ولاسائبۃ، من زائدہ ہے بحیرہ فعلیۃ کے وزن پر بمعنی مفعولہ ہے یہ نطحیۃ اور ذبیحہ کے وزن پر ہے۔ صحیح میں سعید بن مسیب سے مروی ہے بحیرہ وہ اونٹنی ہے جس کا دودھ بتوں کی وجہ سے استعمال نہیں کیا جاتا تھا اس اونٹنی کا کوئی بھی دودھ نہیں نکالتا تھا اور سائبہ وہ اونٹنی ہوتی ہے جس کو لوگ اپنے بتوں کے لیے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ بعض علماء نے فرمایا : البحیرہ سے مراد لغت میں وہ اونٹنی ہے جس کے کان کٹے ہوئے ہوں۔ کہا جاتا ہے : بحرت اذن الناقۃ یعنی میں نے اونٹنی کے کان کاٹ دیے (2) (احکام القرآن، لابن العربی، جلد 2 صفحہ 701) ۔ الناقہ بحیرہ ومبحورۃ۔ البحر (دریا) تخلیۃ (تنہائی) کی علامت تھا۔ ابن سیدہ نے کہا : کہا جاتا ہے بحیرہ وہ اونٹنی ہے جو بغیر چرواہے کے چھوڑی گئی ہو۔ پالتو اونٹنی کو بحیرہ کہا جاتا ہے۔ ابن اسحاق نے کہا : البحیرہ، یہ سائبہ کی بچی ہے اور سائبہ وہ اونٹنی ہے جو متواتر دس اونٹنیاں جنم دے درمیان میں مذکر بچہ نہ ہو نہ اس پر سواری کی جاتی تھی اور نہ اس کی اون کاٹی جاتی تھی اور نہ اس کا دودھ، سوائے مہمان کے کوئی پیتا تھا جو اس کے بعد بھی بچی جنم دیتی تو اس بچی کے کان کاٹے جاتے تھے اور اسے بھی ماں کے ساتھ چھوڑ دیا جاتا تھا اس پر نہ سواری کی جاتی تھی نہ اس کی اون کاٹی جاتی تھی اور اس کا دودھ سوائے مہمان کے کوئی نہیں پیتا تھا جیسا کہ اس کی ماں کے ساتھ کیا جاتا تھا یہ بحیرہ سائبہ کی بیٹی ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : جب اونٹنی پانچ بطنوں سے مادہ ہی جنم دیتی تو اس کے کان کاٹ دیئے جاتے اور حرام کردی جاتی تھی۔ محرمہ لایطعم الناس لحمھا ولانحن فی شی کذاک البحائر ابن عزیز نے کہا : بحیرہ وہ اونٹنی ہے جو پانچ بچے جنم دیتی ہے جب پانچواں مذکر ہوتا تو اسے ذبح کرتے اور اسے مرد اور عورتیں کھاتے اگر پانچواں بچہ مادہ ہوتا تو اس کے کان کاٹ دیتے اور اس کا گوشت اور دودھ عورتوں پر حرام ہوتا۔ عکرمہ نے کہا : جب وہ مرجاتی تو عورتوں کے لیے حلال ہوتی۔ اور سائبہ وہ اونٹ ہے جو نذر کی وجہ سے چھوڑا جاتا تھا جو انسان پر ہوتی تھی وہ اس طرح نذر مانتا تھا کہ اگر اللہ نے اس کو مرض سے صحت بخشی یا اسے گھرپہنچایا تو وہ ایسا کرے گا، وہ اونٹ نہ تو کسی چراگاہ سے روکا جاتا اور نہ کسی پانی سے اور نہ کوئی اس پر سوار ہوتا۔ ابو عبیدہ نے اس کے متعلق کہا ہے، شاعر نے کہا : وسائبۃ للہ تنمس تشکرا ان اللہ عافی عامرا او مجاشعا وہ کبھی اونٹنی کے علاوہ چیزوں کو بھی چھوڑ دیتے تھے، وہ جب غلام کو چھوڑتے تو اس پر ولاء نہ ہوتی تھی۔ بعض نے فرمایا : سائبۃ وہ اونٹنی ہے جو چھوڑی گئی ہے اس پر کوئی قید نہ ہو اور نہ اس کا چرواہاہو (1) (احکام القرآن، لابن العربی، جلد 2 صفحہ 701) ۔ فاعل بمعنی مفعول ہے جیسے (آیت) عیشۃ الراضیۃ (القارعہ) بمعنی مرضی ہے یہ سابت الخیۃ وانسابت سے مشتق ہے شاعر نے کہا۔ عقرتم ناقۃ کا نت لربی وسائبۃ فقوموا للعقاب رہی وصیلہ اور حام تو ابن وہب نے کہا : زمانہ جاہلیت کے لوگ بتوں کے لیے اونٹ اور بکریاں چھوڑ دیتے تھے۔ حام اونٹوں میں سے ہے نر جب اپنی ضربیں پوری کرلیتا ہے تو اس پر وہ موروں کے پر لگا دیتے تھے اور اسے چھوڑدیتے تھے۔ اور رہی وصیلہ یہ بکریوں میں سے ہے جب وہ ایک مادہ کے بعد دوسری مادہ کو جنم دیتی تو اسے چھوڑ دیتے تھے۔ ابن عزیز نے کہا : وصیلہ بکریوں میں ہے فرمایا : جب بکری سات بچے جنم دے دیتی تو وہ دیکھتے تھے اگر ساتواں بچہ مذکر ہوتا تو اسے ذبح کیا جاتا اور اس سے مرد اور عورتیں کھاتی تھیں اگر مونث ہوتا تو وہ بکریوں میں چھوڑی جاتی۔ اگر وہ مذکر اور مونث دونوں بچے اکٹھے جنم دے دیتی تو وہ کہتے : وصلت اخاھاوہ اپنی بھائی کے ساتھ مل گئی پس اسے اس کے مرتبہ کی وجہ سے ذبح نہ کیا جاتا تھا اس کا گوشت عورتوں پر حرام ہوتا تھا اور مادہ کا دودھ بھی عورتوں پر حرام ہوتا تھا مگر ان میں سے کوئی ایک مرجاتا تو اسے مرد اور عورتیں کھاتے تھے۔ حامی وہ نر ہے جس کی اولاد کی حفاظت کی گئی ہو۔ حماھا ابو قابوس فی عز ملکہ کما قد حمی اولاد اولادہ الفحل کہا جاتا ہے : جب اس کی پیٹھ سے دس بچے پیدا کیے گئے ہوں تو، تو کہتے ہیں : اس نے اپنی پیٹھ محفوظ کرلی پس اس پر نہ سواری کی جاتی تھی اور نہ ہی اسے گھاس اور پانی سے روکا جاتا تھا۔ ابن اسحاق نے کہا : وصیلہ وہ بکری ہے جو پانچ بطنوں سے متواتر دس بچیاں جنم دے اور ان کے درمیان مذکر نہ ہو۔ عربوں نے کہا : وصلت۔ اس کے بعد جو جنم دیتی وہ ان کے مردوں کے لیے ہوتا عورتوں کے لیے نہ ہوتا مگر ان میں سے کوئی مرجاتاتو اس کے کھانے میں مذکر اور مونث شریک ہوتے (1) (احکام القرآن، لابن العربی، جلد 2 صفحہ 702) مسئلہ نمبر 3۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو آگ میں اپنی انتڑیاں کھینچتے ہوئے دیکھایہ پہلا شخص تھا جس نے بتوں کے نام پر جانور چھوڑے تھے (2) (صحیح بخاری، جلد 2، 665 ) “ ایک روایت میں ہے ” عمر بن لحی بن قمعہ بن خندف جو بنی کعب سے تھا وہ اپنی انتڑیاں آگ میں کھینچ رہا تھا “۔ حضرت ابوہریرہ نے روایت کیا ہے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو اکثم بن الجون سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ” عمر بن لحی بن قمعہ بن خندف کو آگ میں اپنی انتڑیاں کھینچتے ہوئے دیکھا میں نے کوئی شخص نہیں دیکھا جو تجھ سے زیادہ اس کے مشابہ ہو اور کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جو اس سے زیادہ تیرے مشابہ ہو “۔ اکثم نے کہا : مجھے اندیشہ ہے یا رسول اللہ کہ اس کی مشابہت مجھے نقصان دے گی۔ آپ نے فرمایا :’ نہیں تو مومن ہے وہ کافر ہے یہ پہلا شخص تھا جس نے دین اسماعیل میں تبدیلی کی تھی اور بحیرہ کو بحیرو بنایاسائبۃ کو بتوں کے نام پر چھوڑا اور حامی کا حامی بنایا “۔ ایک روایت میں ہے ” میں نے ایک چھوٹا سا آدمی دیکھا جس کے بال کانوں کی لو تک تھے اپنے انتڑیاں آ گ میں کھینچ رہا تھا “۔ ابن القاسم کی روایت میں ہے امام مالک نے زید بن اسلم سے انہوں نے عطابن یسار سے انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : وہ دوزخیوں کو اپنے بدبو کی وجہ سے اذیت دیتا ہے، یہ حدیث مرسل ہے۔ ابن عربی نے ذکر کی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ پہلا شخص تھا جس نے یہ بدعت نکالی تھی وہ جنادہ بن عوف ہے اور صحیح میں کفایت ہے۔ ابن اسحاق نے روایت کیا ہے بتوں کے نصب کا سبب اور دین ابراہیمی میں تبدیلی کا سبب عمر بن لحی تھا جو مکہ سے شام کی طرف نکلاجب بلقاء کے علاقہ میں مآب کے مقام پر پہنچا اور وہاں اس وقت عمالیق تھے جو عملیق کی اولاد تھے۔ کہا جاتا ہے : عملاق بن لاوزبن سام بن نوح۔ اس نے انہیں دیکھا کہ وہ بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ عمرو نے انہیں کہا : یہ بت کیا ہیں جن کی میں تمہیں عبادت کرتے دیکھ رہا ہوں ؟ انہوں نے کہا : یہ وہ بت ہیں ہم ان کے ذریعے بارش طلب کرتے ہیں تو بارش ہوجاتی ہے اور ان کے ذریعے مدد طلب کرتے ہیں تو ہماری مدد کی جاتی ہے۔ اس نے انہیں کہا : تم ان میں سے ایک بت مجھے نہیں دے دیتے جسے میں عرب کی زمین کی طرف لے جائوں تاکہ وہ بھی اس کی عبادت کریں، تو انہوں نے سے ایک بت دے دیا جس کا نام ہبل تھا وہ اسے مکہ لے آیا اور اسے نصب کردیا لوگوں نے اس کی عبادت اور تعظیم شروع کردی جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کے مبعوث فرمایا تو ان پر یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ما جعل اللہ من بحیرۃ ولاسائبۃ ولاوصیلۃ ولاحام۔ اللہ تعالیٰ نے نہیں مقرر کیا بحیرہ اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام کو لیکن قریش خزاعہ اور مشرکین عرب میں سے جنہوں نے کفر کیا وہ تہمت لگاتے ہیں اللہ پر جھوٹی، وہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کی تحریم کا حکم دیا ہے، اور وہ کہتے ہیں : وہ ایسا اللہ کی اطاعت میں اور اپنے رب کی رضا کے لیے کرتے ہیں اور اللہ کی طاعت اس کے قول سے معلوم ہوتی ہے جب کہ ان کے پاس ان کے بارے میں اللہ کی طرف سے کوئی قول نہیں تھا۔ یہ وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان باندھتے تھے انہوں نے کہا : (آیت) مافی بطون ھذہ الانعام خالصۃ لذکورنا (الانعام : 139) یعنی ان جانوروں کے پیٹوں میں جو ہے یعنی بچے اور دودھ وہ خالص ہمارے مذکر افراد کے لیے ہے۔ (آیت) و محرم علی ازواجنا وان یکن میتۃ (الانعام : 139) اور ہماری عورتوں پر حرام ہے اگر وہ مردہ ہوگا یعنی اگر وہ مردہ بچہ جنم دے گی اس میں مرد اور عورتیں شریک ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) فھم فیہ شرکاء سیجزیھم وصفھم (الانعام : 139) یعنی اللہ تعالیٰ ان کے جھوٹ کی وجہ سے آخرت میں عذاب دے گا۔ (آیت) انہ حکیم علیم (الانعام) یعنی وہ تحریم و تحلیل جاننے والا ہے اور اس میں اس کی حکمت کار فرماہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر یہ نازل کیا : (آیت) قل ارء یتم ماانزل اللہ لکم من رزق فجعلتم منہ حراماوحلالاقل آللہ اذن لکم ام علی اللہ تفترون (یونس) آپ فرمایئے بھلابتائو تو جو رزق اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اتارا پس بنالیا تم نے اس سے بعض کو حرام اور بعض کو حلال پوچھیے کیا اللہ تعالیٰ نے (ایسا کرنے کی) تمہیں اجازت دی ہے یا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ رہے ہو ؟ اور یہ نازل فرمایا : (آیت) ثمنیۃ ازواج (الانعام : 143) اور یہ نازل فرمایا : (آیت) وانعام لایذکرون اسم اللہ علیھا افترآء علیہ (الانعام : 138) بعض مویشی ہیں کہ نہیں ذکر کرتے نام خدا ان (کی ذبح) پر (یہ سب محض) افتراء ہے اللہ پر۔ مسئلہ نمبر 4۔ امام ابوحنیفہ ؓ نے کسی چیز کو روکنے اور اوقاف لوٹانے کا تعلق اس سے قائم کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عربوں کی مذمت کی جو وہ جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑتے تھے اور ان کو روک لیتے تھے اور انہیں استعمال نہیں کرتے تھے (1) (احکام القرآن، لابن العربی، جلد 2 صفحہ 705) ۔ امام صاحب نے بحیرہ اور سائبہ پر قیاس کیا ہے جب کہ ان میں فرق واضح ہے اگر کوئی شخص اپنی زمین کا ارادہ کرتا ہے کہ یہ وقف ہوگی، اس کا پھل نہیں چنا جائے گا اور اس زمین کی کاشت نہیں کی جائے گی اور اس سے کسی قسم کا نفع نہیں اٹھایا جائے گا تو پھر اسے بحیرہ اور سائبہ سے تشبیہ دیناجائز ہوتا۔ علقمہ سے جس نے ان چیزوں سے متعلق سوال کیا اس کے جواب میں علقمہ نے کہا : تو جو اہل جاہلیت کے عمل کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ختم ہوچکا ہے۔ ابن زید نے بھی اسی طرح کہا۔ جمہور علماء احب اس اور اوقاف کے جواز کے قائل ہیں، سوائے امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام زفر کے۔ یہی قول شریح کا بھی ہے لیکن امام ابو یوسف نے امام صاحب کے قول سے رجوع کرلیا تھا جب انہیں ابن علیہ نے ابن عون عن نافع عن ابن عمر کے سلسلہ سے روایت سنائی کہ حضرت ابن عمر نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے خیبر کے حصہ کو صدقہ کرنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا : احبس الاصل وسبل الثمرۃ (2) (سنن دار قطنی، کتاب الاحب اس، جلد 4، صفحہ 193) اصل کو روک لے اور پھل صدقہ کردے۔ جنہوں نے احب اس (روکنا) کو جائز قرار دیا ہے اس حدیث سے انہوں نے دلیل پکڑی ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے یہ ابو عمر نے کہا ہے نیز یہ مسئلہ اجماع صحابہ سے ہے۔ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عائشہ ؓ، حضرت فاطمہ عمروبن العاص، حضرت ابن زبیر اور جابر ؔان سب نے وقف کیے تھے اور ان کے اوقاف مکہ، مدینہ میں معروف ومشہور تھے۔ روایت ہے کہ امام ابو یوسف نے امام مالک سے رشید کی موجود گی میں کہا کہ حبس جائز نہیں تو امام مالک نے اسے کہا : یہ احب اس رسول اللہ ﷺ کے احب اس (وقف) ہیں مثلا خیبر، فدک اور آپ کے صحابہ کے احب اس ہیں (1) (احکام القرآن، لابن العربی، جلد 2 صفحہ 704) ۔ اور امام ابوحنیفہ نے آیت سے جو حجت پکڑی ہے اس میں حجت نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ہے کہ انہوں نے اپنی عقول سے بغیر شرع کے تصرف کیا اور نہ ان کو انتفاع نہ کرنے کا مکلف بنایا گیا تھا اور نعمت کے زائل کرنے اور اس مصلحت کو زائل کرنے کا مکلف کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان اونٹوں میں اپنے بندوں کے لیے رکھی ہے اس وجہ سے یہ امور احب اس اور اوقاف سے جدا ہوگئے۔ اور امام ابوحنیفہ اور زفر نے اس روایت سے حجت پکڑی ہے جو عطا نے ابن مسیب سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے شریح سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنا گھر اپنی اولاد میں سے آخری لوگوں پر وقف کردیا تو انہوں نے : حبس (روکنا، وقف کرنا) اللہ کے فرائض سے نہیں۔ علماء نے کہا : خلفائے راشدین حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی ؔکے قاضی نے یہ فیصلہ کیا، نیز انہوں نے اس روایت سے دلیل پکڑی ہے جو ابن لہیعہ نے اپنے بھائی عیسیٰ سے انہوں نے عکرمہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو سورة النساء کے نازل ہونے کے بعد سنا کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں فرائض کو نازل کیا اور حبس سے منع فرمایا۔ طبری نے کہا : وہ صدقہ جو صدقہ کرنے والا اپنی زندگی میں کرتا ہے اس کی اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی زبان پر اجازت دی ہے اور ائمہ راشدین نے اس پر عمل کیا ہے۔ یہ اللہ کے فرائض سے روکنا نہیں ہے اور نہ شریح کے قول میں حجت ہے اور نہ کسی اور کے قول میں جو سنت اور صحابہ کے عمل کے مخالف ہو وہ صحابہ جو ساری مخلوق پر حجت ہیں۔ رہی حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث تو اس کو بن لہیعہ نے روایت کیا ہے اور ابن لہیعہ وہ شخص ہے جس کا آخری عمر میں عقل درست نہیں رہا تھا اور اس کا بھائی غیر معروف ہے اس میں حجت نہیں ہے۔ یہ ابن القصار کا قول ہے۔ اگریہ کہا جائے کہ یہ کیسے جائز ہوگا کہ زمین وقف کے ذریعے مالک کی ملکیت سے نکل جائے اور کسی کی ملکیت میں بھی نہ ہو ؟ امام طحاوی نے فرمایا : اس کا جواب یہ دیا جائے گا اس کا انکار نہیں کیا جاتا مثلا تو اور تیرا مخالف ایک زمین کو مسلمانوں کے لیے مسجد بنانے پر متفق ہوئے لوگوں اور مسجد کے درمیان رستہ کھلاچھوڑ دیا گیا وہ زمین اس طرح ملکیت سے نکل گئی اور کسی کی ملکیت میں داخل بھی نہیں ہوئی لیکن وہ اللہ کی طرف چلی گئی اسی طرح کنوین، پل وغیرہ کا حکم ہے پس جو تو اپنی حجت اپنے مخالف پر لازم کرے گا وہ تجھ پر لازم کرے گا۔ مسئلہ نمبر 5۔ حبس کو جائز قرار دینے والے علماء کا حبس کرنے والے کے تصرف کے بارے میں مختلف اقوال رکھتے ہیں۔ امام شافعی نے فرمایا : موقف پر اس کی ملکیت حرام ہے جس طرح غلام کی ملکیت اس پر حرام ہوجاتی ہے مگر اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے صدقہ کا والی بنا رہے اور اس کے قبضہ میں اس لیے ہوگا کہ وہ حق دار اور مستحقین میں تقسیم کرے اور صدقہ کرے، کیونکہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ہمیشہ اپنے صدقہ سے متصل رہے۔ جو کچھ پہنچا ہے۔ حتی کہ آپ کا وصال ہوگیا۔ فرمایا : اسی طرح حضرت علی اور حضرت فاطمہ ؓ اپنے صدقات سے متعلق رہے یہی قول امام ابو یوسف کا ہے۔ امام مالک نے فرمایا : جس نے زمین یاکھجور کا درخت یا گھر مساکین پر وقف کردیا تو وہ اس کے ساتھ رہے گا وہ اس کی نگرانی کرے گا اسے کرائے پر دیگا اور مساکین میں اس کی آمدن تقسیم کرے گا حتی کہ وہ مرگیا جب کہ حبس (وقف) اس کے قبضہ میں تھا تو وہ حبس نہیں ہوگا، جب تک کہ وہ غیر کو اجازت نہیں دے گا وہ میراث ہے۔ امام مالک کے نزدیک گھر، دیواریں، زمین وغیرہ کا حبس نافذ نہ ہوگا اور نہ ان کا حبس مکمل ہوگا حتی کہ کسی دوسرے کو اس کا متولی بنائے بخلاف گھوڑوں اور ہتھیاروں کے یہ امام مالک کے اصحاب کی ایک جماعت کا قول ہے اور یہی ابن ابی لیلی کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 6۔ واقف کے لیے وقف سے نفع اٹھانا جائز نہیں، کیونکہ اس نے وہ اللہ کے لیے نکالا اور اپنی ملکیت سے جدا کیا پس اس میں سے کچھ انتفاع اپنے صدقہ سے رجوع ہے اور واقف کے لیے انتفاع جائز ہے اگر وقف میں انتفاع کی شرط لگادی ہو یا وقف کرنے والامحتاج ہوجائے یا اس کے ورثاء محتاج ہوجائیں تو ان کے لیے وقف مال سے کھانا جائز ہے۔ ابن حبیب نے امام مالک سے روایت کیا فرمایا : جس نے اصل کو وقف کیا کہ اس کا غلہ مساکین پر خرچ ہوگا اگر وقف کرنے والے کی اولاد محتاج و فقیر ہوجائے گی تو انہیں اس مال سے دیا جائے گا خواہ وہ وقف کے دن غنی تھے یا فقراء تھے لیکن انہیں پوراغلہ نہیں دیا جائے گا اس خوف سے کہ کہیں وقف ختم نہ ہوجائے لیکن مساکین کے لیے اس میں سے حصہ باقی رہے گا تاکہ اس پر وقف کا اسم باقی رہے اور اولاد کے لیے تحریر لکھی جائے گی کہ انہیں مسکین ہونے کی بنا پر اسے دیا جائے گا مساکین کے علاوہ کے لیے حق نہ ہوگا۔ مسئلہ نمبر 7۔ سائبۃ کا آزاد کرنا جائز ہے، وہ یہ ہے کہ سردار اپنے غلام سے کہے : تو آزاد ہے۔ اور نیت آزاد کرنے کی کرے، ایک ہے : یا میں تجھے سائبہ آزاد کیا (1) (احکام القرآن، لابن العربی، جلد 2 صفحہ 706) امام مالک کے مذہب میں سے مشہور مالکی علماء کے نزدیک یہ ہے کہ اس کی دلاء مسلمانوں کی جماعت کے لیے ہوگی اور اس کا آزاد کرنا نافذ ہوگا۔ اسی طرح ابن القاسم، ابن عبد الحکم اور اشہب وغیرہم سے مروی ہے۔ ابن وہب نے بھی یہی کہا ہے : ابن وہب نے امام مالک سے روایت کیا ہے فرمایا : کوئی سائبہ آزادنہ کرے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ولا کی بیع اور اس کے ہبہ سے منع کیا ہے۔ ابن عبدالبر نے کہا : یہ ہر اس عالم کے نزدیک ہے جو ان کے مذہب کا قائل ہے۔ یہ سائبہ کے عتق کی کراہت پر محمول ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر سائبہ آزاد کرے گا تو نافذ ہوجائے گا اس میں حکم وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے۔ ابن وہب نے بھی اور ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا : میں سائبہ کے عتق کو ناپسند کرتا ہوں اور اس سے منع کرتا ہوں۔ اگر ایسا ہوگا تو نافذ ہوجائے گا اور وہ مسلمانوں کی میراث ہوگا اور اس کی دیت بھی ان پر ہوگی۔ اصبغ نے کہا : ابتداء سائبہ کا آزاد کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ امام مالک کے مشہور مذہب کی طرف گئے ہیں اس کے لیے قاضی اسماعیل نے حجت پکڑی ہے اور اس کی تقلید کی ہے، اس کی حجت میں یہ بھی ہے کہ عتق السائبہ مدینہ میں عام ہے اور کوئی عالم اس کا انکار نہیں کرتا اور حضرت عبد اللہ بن عمر اور ان کے علاوہ سلف نے سائبہ آزاد کیا۔ ابن شہاب، ربیعہ اور ابو الزناد سے مروی ہے یہی عمر بن عبد العزیز، ابوالعالیہ، عطا اور عمر و بن دینار وغیرہ کا قول ہے۔ میں کہتا ہوں : ابو لعالیہ ریاحی بصری تمیمی ؓ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو سائبۃ آزاد کیا گیا ان کی مالکن نے انہیں رضا الہی کے لیے بنی ریاح سے سائبہ آزاد کیا تھا اور اس عورت نے ان کو لے کر مسجد کے حلقوں کا طواف کیا۔ اس کا نام رفیع بن مہران تھا۔ ابن نافع نے کہا : آج اسلام میں سائبۃ نہیں ہے جس نے سائبۃ آزاد کیا اس کی ولاء اس کے لیے ہوگی یہی قول امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور ابن ماجثون کا ہے اور اسی کی طرف ابن عربی کا میلان ہے اور انہوں نے نبی مکرم ﷺ کے ارشاد :” جس نے سائبۃ آزاد کیا اس کی ولاء اس کے لیے ہوگی، اور ارشاد : ولاء اس کے لیے ہے جس نے آزاد کیا “ (1) (صحیح بخاری، کتاب الفرائض، جلد 2، صفحہ 999) ۔ سے استدلال کیا ہے پس غیر معتق کے لیے ولاء کی نفی فرمائی اور انہوں نے اللہ کے ارشاد : (آیت) ماجعل اللہ من بحیرۃ ولاسائبۃ سے حجت پکڑی ہے اور حدیث سے حجت پکڑی ہے ” اسلام میں سائبۃ نہیں ہے (2) (احکام القرآن، لابن العربی، جلد 2 صفحہ 706) “ اور ابو قیس نے ہزیل بن شرحبیل سے روایت کیا ہے فرمایا : ایک شخص نے حضرت عبد اللہ سے کہا : میں نے اپنا غلام سائبۃ آزاد کیا تھا آپ کا نظریہ اس بارے میں کیا ہے ؟ حضرت عبداللہ نے کہا : اہل اسلام سائبۃ نہیں کرتے سائبۃ زمانہ جاہلیت میں تھا، تو اس کا وارث ہے اور اس کا ولی نعمت ہے۔
Top