Al-Qurtubi - Al-Maaida : 106
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةُ الْمَوْتِ١ؕ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِیْ بِهٖ ثَمَنًا وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى١ۙ وَ لَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ١ۙ اللّٰهِ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے شَهَادَةُ : گواہی بَيْنِكُمْ : تمہارے درمیان اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تم میں سے کسی کو الْمَوْتُ : موت حِيْنَ : وقت الْوَصِيَّةِ : وصیت اثْنٰنِ : دو ذَوَا عَدْلٍ : انصاف والے (معتبر) مِّنْكُمْ : تم سے اَوْ : یا اٰخَرٰنِ : اور دو مِنْ : سے غَيْرِكُمْ : تمہارے سوا اِنْ : اگر اَنْتُمْ : تم ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ : سفر کر رہے ہو زمین میں فَاَصَابَتْكُمْ : پھر تمہیں پہنچے مُّصِيْبَةُ : مصیبت الْمَوْتِ : موت تَحْبِسُوْنَهُمَا : ان دونوں کو روک لو مِنْۢ بَعْدِ : بعد الصَّلٰوةِ : نماز فَيُقْسِمٰنِ : دونوں قسم کھائیں بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنِ : اگر ارْتَبْتُمْ : تمہیں شک ہو لَا نَشْتَرِيْ : ہم مول نہیں لیتے بِهٖ : اس کے عوض ثَمَنًا : کوئی قیمت وَّلَوْ كَانَ : خواہ ہوں ذَا قُرْبٰى : رشتہ دار وَلَا نَكْتُمُ : اور ہم نہیں چھپاتے شَهَادَةَ : گواہی اللّٰهِ : اللہ اِنَّآ : بیشک ہم اِذًا : اس وقت لَّمِنَ : سے الْاٰثِمِيْنَ : گنہ گاروں
مومنو جب تم میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت (تم مسلمانوں میں) سے دو مرد عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر مسلمان نہ ملیں اور جب تم سفر کر رہے ہو اور اس وقت تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو شخصوں کو گواہ کرلو اگر تم کو ان گواہوں کی نسبت کچھ شک ہو تو ان کو عصر کی نماز کے بعد کھڑا کرو اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں کہ ہم شہادت کا کچھ بھی عوض نہ لیں گے گوہ ہمارا رشتہ دار ہی ہو اور نہ ہم اللہ کی شہادت کو چھپائیں گے اور اگر ایسا کرینگے تو گناہ گار ہونگے
آیت نمبر 106 تا 108 اس میں ستائیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ مکی نے کہا : یہ تین آیات اہل معانی کے نزدیک قرآن میں اعراب، معنی اور حکم کے اعتبار سے مشکل ہیں۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ اس کا کلام ہے جس کے لیے اس کی تفسیر میں اطمینان واقع نہیں ہوا یہ ان کی کتاب میں واضح ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 250 ) ۔ میں کہتا ہوں : مکی نے جو ذکر کیا ہے ابو جعفر نحاس نے بھی اس سے پہلے یہ ذکر کیا ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ آیات تمیم داری اور عدی بن بداء کے سبب نازل ہوئیں۔ بخاری، دارقطنی وغیرہمانے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : تمیم داری اور عدی بن بداء مکہ کی طرف جاتے تھے تو ان کے ساتھ بنی سہم کا ایک نوجوان بھی نکلا، وہ ایسے علاقہ میں فوت ہوا جہاں کوئی مسلمان نہیں تھا اس نے تمیم اور عدی کو وصیت کی اور اپنا ترکہ اپنے اہل کی طرف ان کے ہاتھ بھیج دیا ان دونوں نے چاندی کے جام کو اپنے پاس رکھ لیا جس پر سونے کے نقش ونگار تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں سے قسم طلب کی کہ تم نے نہ چھپایا اور نہ تمہیں اطلاع ہے پھر وہ پیالہ مکہ میں پایا گیا انہوں نے کہا : یہ ہم نے عدی اور تمیم سے خریدا ہے۔ سہمی کے ورثاء میں سے دو آدمی آئے انہوں نے قسم اٹھائی کہ یہ پیالہ سہمی کا ہے اور ہماری گواہی ان کی گواہی سے زیادہ ٹھیک ہے اور ہم نے حد سے تجاوز نہیں کیا۔ فرمایا : پھر انہوں نے پیالہ لے لیا اس میں یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ دارقطنی کے الفاظ ہیں، ترمذی نے تمیم داری سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے : (آیت) یایھا الذین امنوا شھادہ بینکم۔ اس آیت سے میرے اور عدی بن بداء کے علاوہ لوگ بری ہیں۔ یہ دونوں نصرانی تھے اسلام سے پہلے شام کی طرف جاتے تھے پھر وہ تجارت کی غرض سے شام آئے، ان کے پاس بنی سہم کا ایک آدمی تجارت کی غرض سے آیا جس کا نام بدیل بن ابی مریم تھا۔ اس کے پاس چاندی کا پیالہ تھا اس کے ذریعے بادشاہ کا ارادہ کرتا تھا وہ اس کی تجارت کا بڑاحصہ تھا۔ وہ مریض ہوگیا تو انہیں اس نے وصیت کی اور انہیں حکم دیا کہ میرا مال میرے گھر والوں کو پہنچادینا، تمیم نے کہا : جب وہ مر گیا تو ہم نے وہ پیالہ لے لیا اور ہم نے وہ پیالہ ہزار درہم کے عوض بیچ دیا پھر ہم نے انہیں تقسیم کیا، جب ہم ان کے گھر والوں کے پاس آئے تو ہم نے وہ سب کچھ ان کے حوالے کیا جو ہمارے پاس تھا، انہوں نے پیالہ سامان میں نہ پایا پس انہوں نے ہم سے اس پیالہ کے متعلق سوال کیا۔ ہم نے کہا : اس کے علاوہ اس نے کچھ نہیں چھوڑا اور اس کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں دیا۔ تمیم نے کہا : پھر جب میں رسول اللہ ﷺ کی مدینہ آمد کے بعد مسلمان ہوا تو میں نے اسے گناہ سمجھا پھر میں اس کے گھر والوں کے پاس آیا اور انہیں سب کچھ بتایا اور میں نے انہیں پانچ سو درہم ادا کردیئے اور میں نے انہیں بتایا کہ اس کی مثل رقم میرے ساتھی کے پاس ہے۔ پس وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا۔ آپ ﷺ نے ان سے دلیل مانگی تو انہوں نے دلیل نہ پائی۔ آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ عدی سے اس کے ساتھ قسم طلب کریں جو ان کے دین داروں پر عظیم ہے۔ پس عدی نے قسم اٹھا دی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : یایھا الذین امنو اشھادۃ بینکم اذا حضر احدکم الموت حین الوصیۃ اثنن ذواعدل منکم او اخران من غیرکم ان انتم ضربتم فی الارض فاصابتکم مصیبۃ الموت تحبسونھما من بعد الصلوۃ فیقسمن باللہ ان ارتبتم لانشتری بہ ثمنا ولوکان ذاقربی ولانکتم شھادہ اللہ انا اذالمن الاثمین فان عثر علی انھما استحقا اثمافاخران یقومان مقامھما من الذین استحق علیھم الاولین فیقسمن باللہ لشھادتنا احق من شھادتھماوما اعتدینا انااذالمن الظلمین ذلک ادنی ان یاتوا بالشھادۃ علی وجھھا او یخافوا ان ترد ایمان بعد ایمانھم۔ عمر وبن العاص اور ان میں سے ایک اور آدمی اٹھا اور قسم اٹھائی پس عدی بن بد اء کے ہاتھوں سے پانچ سودرہم چھین لیے گئے۔ ابو عیسیٰ نے کہا : یہ حدیث غریب ہے اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ واقدی نے ذکر کیا ہے کہ یہ تین آیات تمیم اور اس کے ساتھی عدی کے بارے میں نازل ہوئیں یہ دونوں نصرانی تھے اور ان کے کاروبار کی جگہ مکہ تھی، جب نبی مکرم ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو ابن ابی مریم مولی عمروبن العاص مدینہ طیبہ آیا وہ شام میں تجارت کا ارادہ رکھتا تھا اس کے ساتھ تمیم اور اس کا ساتھی عدی نکلا۔ الحدیث۔ نقاش نے ذکر کیا ہے فرمایا : یہ بدیل بن ابی مریم مولی العاص بن وائل سہمی کے بارے میں نازل ہوئی وہ سمندر میں نجاشی کی طرف سفر کرتے ہوئے نکلا۔ اس کے ساتھ دونصرانی تھے ایک کو تمیم کہا جاتا تھا وہ لخم سے تھا اور عدی بن بداء۔ بدیل فوت ہوا تو وہ کشتی میں تھے اسے دریا میں پھینکا گیا تھا اس نے وصیت لکھی تھی اور اسے سامان میں رکھ دیا تھا اس نے کہا : میرا یہ سامان میرے گھر پہنچادینا، جب بدیل فوت ہوگیا تو ان دونوں نے سامان پر قبضہ کرلیا اور اس مال میں سے جو انہیں پسند آیا وہ خود لے لیا اور جو مال انہوں نے لیا تھا اس میں چاندی کا ایک برتن بھی تھا اس میں تین سو مثقال تھا اور وہ سونے کے ساتھ منقش تھا مکمل حدیث ذکر کی۔ اس کو سنید نے ذکر کیا فرمایا : جب شام میں آئے تو بدیل مریض ہوگیا وہ مسلمان تھا۔ الحدیث۔ مسئلہ نمبر 2۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) شھادۃ بینکم، شھد کا لفظ کتاب اللہ میں کئی معانی کے لیے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے : (آیت) واستشھدواشھیدین من رجالکم (بقرہ : 282) بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے احصروا (شمار کرو) شھد بمعنی قضی یعنی اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا : یہ ابو عبیدہ کا قول ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو (آل عمران : 18) اور شھد بمعنی اقر بھی آیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) والملائکۃ یشھدون فرشتے اقرار کرتے ہیں اسی طرح شھد بمعنی حکم بھی آیا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) شھد شاھد من اھلھا (یوسف : 26) اسی سے شھد بمعنی حلف (قسم اٹھانا) ہے جیسا کہ لعان میں ہے۔ شھد بمعنی وصی بھی آیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) یایھا الذین امنوا شھادۃ بینکم۔ بعض علماء نے فرمایا : یہاں اس کا معنی وصیت کے لیے حاضرہونا ہے کہا جاتا ہے : شھت وصیۃ فلان یعنی میں فلاں کی وصیت کے وقت حاضر تھا۔ طبری کا خیال ہے کہ شھادۃ بمعنی قسم ہے پس معنی ہوگا جو تمہارے درمیان جھگڑا ہے اس کی دو آدمی قسم اٹھائیں اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ یہ اس شھادت کے علاوہ جو مشہود لہ (جس کے لیے گواہی دی گئی ہو) کے لیے دی جاتی ہے کہ وہ اللہ کے لیے حکم معلوم نہیں ہے جس میں گواہ پر قسم واجب ہے۔ اس قول کو قفال نے اختیار کیا ہے اور یمین (قسم) کو شہادت کہا گیا ہے، کیونکہ اس کے ساتھ حکم ثابت ہوتا ہے جس طرح شہادت کے ساتھ حکم ثابت ہوتا ہے، ابن عطیہ نے یہ اختیار کیا ہے کہ یہاں شہادت اسی شہادت کے معنی میں جس کی حفاظت کی جاتی ہے اور ادا کی جاتی ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 252 ) ، اور انہوں نے حضور اور یمین کے معنی میں ہونے کو ضعیف قرار دیا ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بینکم۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی مابینکم۔ ماکو حذف کیا گیا ہے اور شہادت کو ظرف کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ اسم حقیقت میں استعمال ہوا ہے نحویوں کے نزدیک اس کو وسعت کی بنا پر مفعول کہا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : ویوماشھدناہ سلیما وعامرا شاعر کی مراد شھدنا فیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) مکر الیل والنھار (سبا : 33) یعنی مکرکم فیھما۔ شاعر نے کہا : نصافح من لاقیت لی ذا عداوۃ صفاحا وعنی بین عینیک منزوی مراد ما بین عینیک ہے پس ماکو حذف کیا گیا۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ھذا فراق بینی وبینک (الکہف : 78) یعنی مابینی وبینک۔ مسئلہ نمبر 4 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اذا حضر اس کا معنی ہے جب موت قریب ہو ورنہ جب موت آجاتی ہے تو میت گواہی نہیں دیتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرح ہے : (آیت) فاذا قراءت القرآن فاستعذ باللہ (النحل : 98) اسی طرح ارشاد ہے : (آیت) اذا طلقتم النساء فطلقوھن (طلاق : 1) اس کی مثل بہت سی آیات ہیں۔ اذا میں عامل مصدر ہے جو شہادۃ ہے۔ مسئلہ نمبر 5۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) حین الوصیۃ اثنن حین ظرف زمان ہے اور اس میں عامل حضر ہے اور اثنان اپنے اطلاق کے ساتھ دو شخصوں کا تقاضا کرتا ہے اور رجلین کا احتمال رکھتا ہے مگر اس کے بعد کہا : ذواعدل تو واضح کردیا کہ مراد دو آدمی ہیں کیونکہ یہ لفظ مذکر کا تقاضا کرتا ہے جیسا کہ ذواتا مونث کا تقاضا کرتا ہے۔ اثنان کو رفع مبتدا کی خبر کی حیثیت سے ہے اور وہ شہادۃ ہے ابو علی نے کہا : شہادۃ کو رفع مبتدا کی حیثیت سے ہے اور خبر اثنان ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے شھادۃ بینکم فی وصایاکم شھادۃ اثنین مضاف کو حذف کیا گیا اور مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام رکھا گیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) وازوجہ امھتھم (الاحزاب : 6) یعنی مثل امھاتھم اور اثنان کو رفع شہادہ کی وجہ سے دینا بھی جائز ہے تقدیر عبارت اس طرح ہوگی :۔ وفیما انزل علیکم او لیکن منکم ان یشھد اثنان لیقم الشھادۃ اثنان۔ مسئلہ نمبر 6۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ذوا عدل منکم، ذوا عدل صفت ہے اثنن کی او منکم دوسری صفت ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 252 ) ۔ اور اواخران من غیرکم اس کا مطلب ہے یا تمہارے علاوہ دوسروں کی گواہی۔ من غیرکم، اخران کی صفت ہے۔ اس آیت میں یہ فصل مشکل ہے۔ اس میں تحقیق یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ اس میں علماء کے تین اقوال ہیں : (1) منکم میں ضمیر مسلمانوں کے لیے ہے اور او اخران من غیرکم کفار کے لیے ہے اس بنا پر اہل کتاب کی گواہی مسلمانوں پر سفر میں جائز ہوگی جب وصیت ہو۔ یہ سیاق آیت کے زیادہ مناسب ہے۔ نیز احادیث سے یہ بھی ثابت ہے یہ ان تین صحابہ کا قول ہے جنہوں نے نزول قرآن کو دیکھا یعنی حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت عبدا للہ قیس (سنن ابی دائود، کتاب الاقضیہ، باب الشھادۃ اھل الذمۃ وفی الوصیۃ فی السفر، حدیث نمبر 3128، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور حضرت عبداللہ بن عباس۔ آیت کا معنی اول سے آخر تک اس قول کی بنا پر یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ موصی (وصیت کرنے والا) پر شہادت میں اس کا حکم، جب آجائے موت یہ ہے کہ دو عادل آدمیوں کی شہادت ہو اگر وہ سفر میں ہو۔ الضرب فی الارض کا یہی معنی ہے اور اس کے ساتھ مومنین میں سے کوئی نہ ہو تو دو گواہ بنا لے ان کفار میں سے جو موجود ہیں جب وہ آئیں اور عصر کی نماز کے بعد حلفا اس کی وصیت پر گواہی دیں کہ انہوں نے جھوٹ نہیں بولا اور نہ انہوں نے وصیت کو بدلا ہے اور جو انہوں نے گواہی دی ہے صحیح ہے انہوں نے اس میں گواہی کو چھپایا نہیں ہے اور ان کی شہادت کے مطابق فیصلہ کردیا گیا پھر اس کے بعد پتہ چلا کہ انہوں نے جھوٹ بولا یا خیانت کی اور اس جیسی چیز کی جو گناہ ہے سفر میں موصی کے اولیاء میں سے دو آدمی قسم اٹھائیں اس کی جو ان پہلے گواہوں پر ثابت ہو وہ ادا کریں۔ یہ حضرت ابو موسیٰ اشعری، سعید بن مسیب، یحییٰ بن یعمر، سعید بن جبیر، ابو مجلز، ابراہیم، شریح، عبیدہ سلمانی، ابن سیرین، مجاید، قتادہ، سدی، حضرت ابن عباس ؓ عنہوغیرہم کے مذہب پر آیت کا معنی ہے فقہاء میں سفیان ژوری نے یہ کہا ہے۔ ابو عبید القاسم بن سلام کا میلان بھی اسی طرف ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں نے یہ کہا ہے۔ امام احمد بن حنبل نے اس کو اختیار کیا ہے۔ فرمایا : اہل ذمہ کی مسلمانوں پر سفر میں گواہی جائز ہے جب کہ مسلمان نہ ہوں (1) (احکام القرآن لابن العر بی، جلد 2، صفحہ 723 ) ۔ یہ تمام علماء کہتے ہیں کہ منکم سے مراد مومنین ہیں اور من غیرکم سے مراد کفار ہیں۔ بعض نے فرمایا : یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب صرف مدینہ میں مومن تھے اور مومنین اہل کتاب کی معیت میں بت پرستوں کی صحبت میں اور مختلف کفار کے ساتھ تجارتی سفر کرتے تھے یہ حضرت ابو موسیٰ اور شریح وغیرہما کے مذہب پر محکم آیت ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 251 ) ۔ (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) اواخران من غیرکم۔ منسوخ ہے یہ زید بن اسلم، نخعی، امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ وغیرہم فقہاء کا قول ہے مگر امام ابوحنیفہ ان کی مخالفت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا : کفار کی ایک دوسرے پر گواہی جائز ہے اور مسلمان پر کفار کی گواہی جائز نہیں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ممن ترضون من الشھدائ (بقرہ : 282) اور (آیت) واشھدو اذوی عدل منکم (الطلاق : 2) سے حجت پکڑی ہے۔ ان علماء کا خیال ہے کہ آیت دین آخر میں نازل ہوئی اور اس میں ہے (آیت) ممن ترضون من الشھداء اس کی ناسخ ہے اور اس وقت اسلام صرف مدینہ میں تھا پس اہل کتاب کی شہادت جائز تھی آج زمین پر مسلمان پھیل چکے ہیں اور کفار کی شہادت ساقط ہوچکی ہے اور مسلمان کا اجماع ہے کہ فساق کی شہادت جائز نہیں اور کفار فساق ہیں پس ان کی شہادت جائز نہیں۔ میں کہتا ہوں : جو تم نے ذکر کیا ہے وہ صحیح ہے لیکن ہم بھی اس کے مطابق کہتے ہیں اور یہ اہل ذمہ کی شہادت مسلمانوں کے اوپر وصیت میں سفر کی حالت میں خاص ضرورت کے لیے جائز ہے جہاں مسلمان موجود نہ ہوں لیکن مسلمان موجود ہوں تو پھر جائز نہیں اور جو تم نے نسخ کا دعوی کیا ہے جو قرآن کے نزول کے وقت موجود تھے ان میں سے کسی سے یہ مروی نہیں ہے۔ پہلا قول صحابہ میں تین کا ہے اور یہ اس کے علاوہ میں نہیں ہے اور صحابہ کی مخالفت کرنا اور دوسرے کی طرف جانا اس کو اہل علم اچھا نہیں سجھتے اور اس کو یہ بات بھی تقویت دیتی ہے کہ سورة مائدہ نزول کے اعتبار سے قرآن کی آخری سورتوں میں سے ہے حتی کہ حضرت ابن عباس ؓ اور حسن وغیرہمانے کہا : اس میں منسوخ نہیں ہے۔ اور جو ان علمائے نے نسخ کا دعوی کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ نسخ کے لیے ناسخ کا اثبات ہونا اس کا صحیح نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک واقعہ میں ہے جو وصیت کے واقعہ کے علاوہ ہے اس میں حاجت اور ضرورت کا عنصر ہے اور ضروریات کے وقت حکم کا اختلاف ممتنع نہیں نیز کبھی کافر مسلمان کے نزدیک ثقہ (معتمد) ہوتا ہے اور ضرورت کے وقت اسے پسند کرتا ہے، پس انہوں نے کہا : اس میں ناسخ نہیں ہے۔ (3) آیت میں نسخ نہیں ہے یہ زہری، حسن اور عکرمہ کا قول ہے اور منکم کا معنی ہے تمہارے قرابتداروں سے اور رشتہ داروں سے کیونکہ وہ زیادہ حفظ اور ضبط والے ہوتے ہیں اور نسیان سے دور ہوتے ہیں اور (آیت) اواخران من غیرکم کا معنی ہے جو قریبی اور خاندان کے نہیں ہیں۔ نحاس نے کہا : یہ عربی میں گہری نظر رکھنے پر مبنی ہے آخر کا معنی عربی میں پہلے کی جنس سے ہوتا ہے تو کہتا ہے : مررت بکریم وکریم آخر پس آخر کا قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ پہلے کی جنس سے ہے۔ اہل عرب کے نزدیک مررت بکریم وخمیس آخر اور مررت برجل وحمار آخر کہنا جائز نہیں اس بنیاد پر معنی (آیت) اواخران من غیرکم کا معنی ہوگا دوعادل آدمی اور کفار عادل نہیں ہوتے اس بنا پر اس کا قول صحیح ہوگا جس نے من غیرکم کا معنی، مسلمان میں سے تمہارے خاندان کے علاوہ، کیا ہے یہ لغت کی جہت سے عمدہ معنی ہے اس امام مالک اور ان کے ہمنوا علماء کے لیے حجت پکڑی گئی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک من غیرکم کا معنی ہے جو تمہارے قبیلے سے نہ ہوں، اس بنا پر کہ اس قول کا آیت کے آغاز میں (آیت) یایھا الذین امنوا سے مقابلہ کیا گیا ہے پس مومنین کی جماعت خطاب کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر 7۔ امام ابوحنیفہ نے اس آیت سے ذمی کفار کی آپس میں شہادت کے جواز پر استدلال کیا ہے فرمایا : (آیت) اواخران من غیرکم کا معنی ہے جو تمہارے دین والوں کے علاوہ ہیں پس یہ ان کی ایک دوسرے پر شہادت کی جواز کی دلیل ہے، انہیں کہا جائے گا : تم اس آیت کے مقتضی کے مطابق نہیں کہتے : کیونکہ یہ آیت اہل ذمہ کی مسلمانوں پر شہادت کی قبولیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور تم یہ نہیں کہتے ہو پس تمہار اس کے ساتھ حجت پکڑنا درست نہیں۔ اگر کہا جائے کہ یہ آیت طریق النطق کے اعتبار سے اہل ذمہ کی مسلمانوں پر شہادت کی قبولیت کے جواز پر دلالت کرتی ہے اور طریق تنبیہ کے اعتبار سے اہل ذمہ کی آپس میں شہادت کی قبولیت پر دلالت کرتی ہے، یہ اس طرح کہ جب ان کی گواہی مسلمانوں پر قبول ہے تو ان کی آپس میں گواہی کی قبولیت بدرجہ اولی ہوگی پھر مسلمان پر ان کی شہادت کے قبول نہ ہونے پر دلیل دلالت کرتی ہے پس ان کی آپس میں گواہی پر قبولیت ثابت و باقی ہوگی، یہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ اہل ذمہ کی اہل ذمہ پر گواہی کی قبولیت، مسلمانوں پر ان کی گواہی کی قبولیت کی فرع ہے جب مسلمانوں پر ان کی شہادت باطل ہوئی جو اصل ہے تو اہل ذمہ پر بھی ان کی شہادت باطل ہوگی جو فرع ہے۔ مسئلہ نمبر 8۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ان انتم ضربتم فی الارض۔ یعنی تم سفر پر ہو۔ اس کلام میں حذف ہے تقدیر عبارت یہ ہے (آیت) ان انتم ضربتم فی الارض فاصابتکم مصیبۃ الموت۔ یعنی اگر تم زمین میں سفر پر ہو اور تمہیں موت کی مصیبت پہنچے تو تم اپنے گمان میں دوعادل آدمیوں کو وصیت کرو اور تم اپنا مال ان کے حوالے کردو پھر تم مرجائو اور وہ تمہارے ورثاء کی طرف ترکہ لے جائیں پھر انہیں دونوں کے معاملہ میں شک ہو اور وہ ان پر خیانت کا دعوی کریں تو حکم یہ ہے کہ تم انہیں نماز کے بعد روک لو، یعنی ان دونوں سے توثیق کرلو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے موت کو مصیبت کا نام دیا ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : موت اگرچہ مصیبت عظمی اور مصیبت کبری ہے لیکن اس سے بڑی مصیبت موت سے غفلت ہے اور اس کے ذکر سے اعراض ہے اور اس میں فکر کا ترک ہے اور اس کے لیے عمل کا ترک ہے اگرچہ عبرت کی نگاہ رکھنے والے کے لیے اس میں عبرت ہے اور فکر کرنے والے کے لیے مقام فکر ہے۔ نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :” اگر جانور موت کو جانتے جتنا کہ تم جانتے ہو تو تم ان میں سے کوئی موٹا جانور نہ کھاتے “۔ روایت ہے کہ ایک اعرابی ایک اونٹ پر سفر کررہا تھا تو اس کا اونٹ گرا اور مرگیا، وہ اعرابی اونٹ سے اترا اور اونٹ کے اردگرد چکر لگانے لگا اور اس میں متفکر ہوا اور کہنے لگا : تجھے کیا ہوا ہے کہ تو کھڑا نہیں ہوتا ہے ؟ تجھے کیا ہوا ہے کہ تو اٹھتا نہیں ہے ؟ یہ تیرے اعضاء تو مکمل ہیں اور اعضاء سلامت ہیں، تجھے کیا ہوا ہے ؟ کون تجھے اٹھائے ہوے تھا اور کون تجھے کھڑا کیے ہوئے تھا اور کس نے تجھے گرا دیا اور کس نے تجھے حرکت سے روک دیا ؟ پھر اس کے متعلق سوچتے ہوئے اور اس کے معاملہ میں تعجب کرتے ہوئے اسے چھوڑ گیا۔ مسئلہ نمبر 9۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) تحبسونھما۔ ابو علی نے کہا : یہ آخران کی صفت ہے۔ موصوف اور صفت کے درمیان ان انتم معترضہ ہے۔ یہ آیت اس شخص کو قید کرنے کی دلیل ہے جس پر حق ہو۔ حقوق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جن کا جلدی طلب کرنا ممکن ہوتا ہے اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو صرف تاخیر سے پورے کرنا ممکن ہوتے ہیں اگر اسے چھوڑ دیا جائے جس پر حق ہے اور وہ غائب ہوجائے اور چھپ جائے تو حق باطل ہوجائے گا اور مال ضائع ہوجائے گا پس اس سے توثیق لیناضروری ہے یا تو حق کے بدلے کوئی مال لیاجائے جسے رہن کہا جاتا ہے یا مطالبہ اور ذمہ میں قائم مقام کوئی شخص لیا جاتا ہے اور وہ کفیل ہے یہ پہلے سے کم مرتبہ ہے، کیونکہ جائز ہوتا ہے کہ وہ بھی غائب ہوجائے اور اس کا وجود متعذر ہو جس طرح پہلے شخص کا وجود متعذر تھا لیکن یہ اکثر کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اگر یہ تمام مشکل ہوں اور کوئی صورت باقی نہ رہے گی تو اسے قید کرنے کا ساتھ توثق ہے حتی کہ اس سے حق کی ادائیگی کرلی جائے یا اس کا تنگ دست ہونا واضح ہوجائے۔ مسئلہ نمبر 10۔ اگر حق بدنی ہو تو بدل قبول نہیں کیا جائے گا جسے حدود اور قصاص میں اس کا جلدی پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا اس میں قید کرنے کے ساتھ ہی وثوق ممکن ہوتا ہے اس حکمت کے پیش نظر ہی قید خانہ کا نظام شروع کیا گیا ہے۔ ابو دائود، ترمذی وغیرہمانے بہز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے ایک شخص کو تہمت کے سبب قید کیا تھا۔ ابو دائود نے عمرو بن شرید عن ابیہ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے فرمایا :” مال دار کا حق کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا اس کی عزت اور اس کی سزا کو حلال کردیتا ہے “ (1) (صحیح بخاری، کتاب الاستقراض، جلد 1، صفحہ 323، ایضا، سنن ابی دائود، کتاب الاقضیہ، حدیث نمبر 3144، ضیاء القرآن، پبلی کیشنز) ۔ ابن المبارک نے کہا : اس کی عزت کو حلال کرتا ہے اس پر سختی کی جاتی ہے۔ اور عقوبت سے مراد یہ ہے کہ اسے قید کیا جاتا ہے۔ خطابی نے کہا : حبس (قید کرنا) کی دو قسمیں ہیں : حبس عقوبت اور حبس استظہار پس عقوبت صرف واجب میں ہوتی ہے اور جو تہمت میں ہوتی ہے وہ اس لیے ہوتی ہے جو کچھ پیچھے ہے وہ ظاہر ہوجائے۔ روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو تہمت میں دن کا کچھ وقت قید کیا پھر اسے چھو ڑدیا۔ معمر نے ایوب سے انہوں نے ابن سیرین سے روایت کیا ہے فرمایا شریح کسی کے حق کے لیے کسی کے خلاف فیصلہ کرتے تھے تو اس مجلس سے اٹھنے تک مسجد میں اسے قید کردیتے تھے، اگر وہ حق ادا کردیتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا ورنہ اسے قید خانہ میں لے جانے کا حکم دیا جاتا۔ مسئلہ نمبر 11۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) من بعد الصلوۃ اس سے مراد نماز عصر ہے۔ یہ اکثر علماء کا قول ہے، کیونکہ اہل ادیان اس وقت کی تعظیم کرتے ہیں اور اس وقت میں جھوٹ بولنے اور جھوٹی قسم اٹھانے سے اجتناب کرتے ہیں۔ حسن نے کہا : اس سے مراد صلوۃ ظہر ہے۔ بعض نے فرمایا : کوئی بھی نماز ہو۔ بعض نے فرمایا : ان کی نماز کے بعد، کیونکہ وہ دونوں کافر تھے۔ یہ طبری کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : نماز کی شرط لگانے کا فائدہ وقت کی تعظیم کرنا ہے اور اسے ڈرانا ہے، کیونکہ اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ صحیح میں ہے جس نے عصر کے بعد جھوٹی قسم اٹھائی وہ اللہ سے ملاقات کرے گا جبکہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوگا۔ مسئلہ نمبر 12۔ یہ آیت قسموں میں سختی کرنے میں اصل ہے اور سختی چار چیزوں کے ساتھ ہوتی ہے : (1) زمانہ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے (2) م کان جیسے مسجد اور منبر۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اس کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں نبی مکرم ﷺ کے منبر کے پاس کسی سے قسم طلب کرنا واجب نہیں اور نہ رکن اور مقام کے درمیان، نہ تھوڑی اشیاء میں نہ زیادہ اشیاء میں اسی قول کی طرف بخاری کا رجحان ہے، کیونکہ باب باندھا ہے ” مدعی علیہ قسم اٹھائے جہاں اس پر قسم واجب ہو اسے کسی دوسری جگہ کی طرف پھیر انہیں جائے گا “۔ امام مالک اور امام شافعی نے کہا : قسامت کی قسموں میں سے مکہ کی طرف لے جایا جائے گا جو اس کے متعلقہ لوگوں سے ہوگا اور رکن اور مقام کے درمیان قسم لی جائے گی اور جو مدینہ طیبہ سے متعلقہ لوگوں سے ہوگا اسے مدینہ طیبہ لے جایاجائے گا اور منبر کے پاس قسم لی جائے گی۔ (3) حالت، مطرف، ابن الماجثون اور ابعض اصحاب شافعی نے روایت کیا ہے وہ قبلہ کی طرف منہ کرکے قسم اٹھائے گا، کیونکہ یہ روکنے میں زیادہ بلیغ ہے۔ ابن کنانہ نے کہا : وہ بیٹھ کر قسم اٹھائے گا۔ ابن عربی نے کہا : میرے نزدیک وہ اسی حالت میں قسم اٹھائے جس حالت میں اس پر حکم لگایا گیا ہے اگر وہ کھڑا ہو تو کھڑا ہو کر اٹھائے بیٹھا ہو تو بیٹھ کر اٹھائے، کیونکہ کھڑے ہونے یابیٹھنے کے متعلق کوئی اثر اور نظر ثابت نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : بعض علماء نے علقمہ بن وائل عن ابیہ کی حدیث میں فانطلق لیحلف سے کھڑے ہو کر قسم اٹھانے کا مسئلہ متنبط کیا ہے۔ واللہ اعلم یہ حدیث مسلم نے روایت کی ہے (4) لفظ کے ساتھ تغلیظ۔ علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ اللہ کی قسم سے زائد کچھ نہ کہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) فیقسمن باللہ اور ارشاد ہے (آیت) قل ای وربی (یونس : 53) اور فرمایا : (آیت) وت اللہ لاکیدن اصنانمکم (الانبیاء : 57) اور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : من کان حالفا فلیحلف باللہ اولیصمت (1) (صحیح بخاری، کتاب الشہادات، جلد 1، صفحہ 368) جو قسم اٹھائے وہ اللہ کی قسم اٹھائے یا خاموش رہے اور آدمی کا قول : واللہ لازید علیھن (اللہ کی قسم میں ان پر زیادتی نہیں کروں گا) اور امام مالک نے کہا : وہ اس طرح قسم اٹھائے باللہ الذی لا الہ الا ھو میرے پاس فلاں کا حق نہیں ہے اور جو اس نے مجھ پر دعوی کیا ہے وہ باطل ہے اور امام مالک کی حجت ابو دائود کی روایت ہے جو اس سند سے مروی ہے حدثنامسدد قال حدثناابو الاحوص قال حدثناعطابن السائب عن ابی یحییٰ عن ابن عباس ؓ عنہنبی مکرم ﷺ نے فرمایا : یعنی قسم اٹھانے والے شخص کو فرمایا ” تو اس طرح قسم اٹھا باللہ الذی لا الہ الا ھوتیرے پاس اس کے لیے کوئی چیز نہیں (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 726 ) “ یعنی مدعی کے لیے۔ ابو دائود نے کہا : ابو یحییٰ کا نام زیاد ہے جو کوفی ہے ثقہ اور ثبت ہے۔ کو فیوں نے کہا : صرف باللہ کے ساتھ قسم اٹھائے۔ ، اگر قاضی اسے مہتم کرے تو اس پر قسم کو مغلظ کردے وہ اس طرح قسم اٹھائے۔ باللہ الذی لا الہ الاھو عالم الغیب والشھادۃ الرحمن الرحیم الذی یعلم من السر مایعلم من العلانیۃ الذی یعلم خائنۃ الاعین وام تخفی الصدور۔ اصحاب شافعی نے قرآن کے ساتھ قسم کو مغلظ کیا ہے۔ ابن عربی نے کہا : قرآن کے ساتھ تغلیظ بدعت ہے صحابہ میں سے کسی نے یہ نہیں کہا ہے (2) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 726) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 725 ) ۔ امام شافعی نے فرمایا : انہوں نے صنعاء کے قاضی ابن مازن کو دیکھا وہ قرآن کے ساتھ قسم اٹھواتا تھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس کا حکم دیتا تھا اور یہ انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے جب کہ وہ صحیح نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : المھذب کتاب میں ہے اکثر قرآن اور جو کچھ اس میں ہے اس کی قسم اٹھائے تو امام شافعی نے مطرف سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن زبیر قرآن پر قسم لیتے تھے فرمایا : میں نے مطرف کو صنعاء میں دیکھا وہ قرآن پر قسم لیتے تھے۔ امام شافعی نے فرمایا : یہ عمدہ ہے۔ ابن المنذر نے کہا ؛ علماء کا اجماع ہے کہ حاکم کے لیے طلاق، عتاق اور مصحف کی قسم لینا مناسب نہیں۔ میں کہتا ہوں : ایمان میں گزرچکا ہے۔ حضرت قتادہ قرآن کی قسم لیتے تھے احمد اور اسحاق نے کہا یہ مکروہ نہیں ہے ان دونوں سے یہ ابن المنذر نے حکایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 13۔ امام مالک اور امام شافعی کا اختلاف ہے کہ کتنے حق کے ضیاع پر قسم لی جائے گی ؟ امام مالک نے فرمایا : کم از کم تین دراہم ہوں، انہوں نے قطع ید پر قیاس کیا ہے۔ ہر وہ مال جس میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور جس کے لیے عضو کی حرمت ساقط ہوجاتی ہے وہ عظیم ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : قسم اس مال کے لیے اٹھائی جائے جو کم از کم بیس دینار ہو انہوں نے زکوۃ پر قیاس کیا ہے۔ اسی طرح ہر مسجد کے منبر کے پاس قسم اٹھوانے کا یہی حکم ہے۔ مسئلہ نمبر 14۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) فیقسمن باللہ، فیقسمن میں فاعاطفہ ہے جملہ کا جملہ پر عطف ہے یا جزا کا جواب ہے، کیونکہ تحبسونھما کا معنی ہے احبسوھما یعنی انہیں قسم کے لیے روک لو پس یہ جواب امر ہے جس پر کلام دلیل ہے گویا فرمایا : اذا احبستموھما اقسماجب تم انہیں روکو تو وہ قسمیں اٹھائیں۔ ذوالرمہ نے کہا : و انسان عینی یحسر الماء مرۃ فیبدوا و تارات یجم وفیغرق اس کی تقدیر ہے اذا حسربدا۔ مسئلہ نمبر 15۔ علماء کا اختلاف ہے کہ فیقسمن سے کیا مراد ہے۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد وصی ہے جب ان کے قول پر شک کیا گیا ہو۔ بعض نے فرمایا : گواہ ہیں جب وہ عادل نہ ہوں اور حاکم ان کے قول پر شک کرے تو ان سے قسمیں اٹھوائے۔ ابن عربی نے اس قول کو باطل قرار دیتے ہوئے کہا جو میں نے سنا ہے۔۔۔۔۔ یہ بدعت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن ابنی لیلی سے مروی ہے کہ وہ دو گواہوں کے ساتھ طالب سے بھی قسم لے کہ جس کے متعلق ان دونوں نے گواہی دی وہ حق ہے اور اس کے لیے حق کا فیصلہ کیا جائے گا۔ میرے نزدیک اس کی تاویل یہ ہے کہ جب حاکم کو قبضہ پر شک ہو تو وہ قسم اٹھائے کہ ابھی حق باقی ہے وگرنہ کسی دوسری صورت میں اس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا یہ مدعی کے بارے میں ہے، پس گواہ کو کیسے روکا جائے گا یا اس سے حلف لیاجائے گا ؟ یہ ایسی چیز ہے جو قابل التفات نہیں (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 725 ) میں کہتا ہوں : طبری کے قول سے گزرچکا ہے کہ اللہ کا حکم معلوم نہ ہو تو اس صورت میں گواہ پر قسم واجب ہوگی۔ بعض نے کہا : گواہ قسم اٹھائیں کیونکہ وہ مدعی علیہما ہیں اس حیثیت سے کہ ورثاء نے دعوی کیا ہے کہ ان دونوں نے مال میں خیانت کی ہے۔ مسئلہ نمبر 16۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ان ارتبتم شرط ہے گواہوں کے قسم اٹھانے کی طرف توجہ نہ کی جائے گی مگر شک کی صورت میں اور جب شک واقع نہ ہو اور اختلاف واقع نہ ہو تو قسم نہیں ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : حضرت ابو موسیٰ کے حکم سے ذمیوں سے قسم اٹھوانے کے بارے میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی شہادت قسم کے ساتھ مکمل ہوتی ہے اور وصیت اہل کے لیے نافذ ہوتی ہے۔ ابو دائود نے شعبی سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص پر دقوقاء شہر میں موت کا وقت قریب آیا۔ اور اس نے کوئی مسلمان نہیں پایاجس کو وہ اپنی وصیت پر گواہ بنائے پس اس نے اہل کتاب سے دوآدمیوں کے گواہ بنایا پس وہ دونوں کوفہ آئے اور اشعری کے پاس آئے، پس انہوں نے انہیں یہ واقعہ بتایا اور وہ اس کا ترکہ اور اس کی وصیت لے آئے۔ اشعری نے کہا : یہ ایسا امر ہے جو رسول اللہ ﷺ کے عہد میں تھا اس کے بعد پھر نہیں ہوا۔ پھر اشعری نے عصر کے بعد ان الفاظ میں قسم اٹھوائی باللہ ماخاناولا کذبا ولابدلا ولا کتما ولا غیرا وانھالوصیتہ الرجل وترکتہ اللہ کی قسم نہ انہوں نے خیانت کی نہ جھوٹ بولا، نہ کچھ بدلا، نہ چھپایا، نہ تبدیلی کی اور یہ اس شخص کی وصیت اور اس کا ترکہ ہے۔ اشعری نے ان کی شہادت کو قائم رکھا۔ (2) (سنن ابی دائود، کتاب الاقضیہ، باب الشھادۃ اھل الذمۃ وفی الوصیۃ فی السفر، حدیث نمبر 3128، ضیاء القرآن پبلی کیشنز ) ابن عطیہ نے کہا : یہ شک اس کے نزدیک ہے جو آیت کو منسوخ نہیں دیکھتا خیانت میں یہ حکم مرتب ہوتا ہے اور تہمت کی صورت میں بعض لوگوں کی طرف یہ میلان کررہے جن کے لیے وصیت کی گئی ہے اس کے نزدیک ایسی صورت میں قسم واقع ہوتی ہے اور جن کے نزدیک آیت منسوخ ہے ان کے نزدیک قسم نہیں اٹھوائی جاتی مگر خیانت یا کسی اعتبار سے تعدی اور زیادتی کا شک ہو، پس ان کے نزدیک قسم اٹھوانا منکر پر دعوی کے مطابق ہے نہ کہ شہادت کے لیے تکمیل ہے۔ ابن عربی نے کہا : شک اور تہمت کی قسم کی دو قسمیں ہیں : (1) وہ دعوی کرنے اور حق کے ثبوت کے بعد اس میں شک واقع ہوتا ہے، اس صورت میں قسم کے وجوب میں کوئی اختلاف نہیں (2) حقوق اور حدود میں مطلق تہمت۔ اس کی تفصیل ہے جس کا بیان کتب فروع میں ہے یہاں دعوی متحقق ہوگیا اور قوی ہوگیا جیسے کہ روایات میں ذکر کیا گیا ہے (3) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 725 ) ۔ مسئلہ نمبر 17۔ ان ارتبتم شرط ہے اس کا تعلق تحبسونھما کے ساتھ ہے نہ کہ فیقسمن کے ساتھ ہے، کیونکہ یہ حبس، قسم کا سبب ہے۔ مسئلہ نمبر 18۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) لانشتری بہ ثمناولوکان ذا قربی یعنی وہ دونوں اپنی قسم میں کہیں کہ ہم اپنی قسم کے ساتھ کوئی عوض خریدنا نہیں چاہتے جس کو ہم اس کے بدلے لیں جو اس نے ہمیں وصیت کی تھی اور ہم کسی کو وہ مال دینا نہیں چاہتے اگرچہ وہ جس کے لیے ہم تقسیم کررہے ہیں وہ ہمارا قریبی رشتہ دار بھی ہو قول کا اضمار کثیر ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) والملئکۃ یدخلون علیھم من کل باب سلام علیکم (الرعد : 23) یعنی وہ کہیں گے : سلام علیکم یہاں الاشتراء بمعنی بیع نہیں بلکہ تحصیل (حاصل کرنا) کے معنی میں ہے۔ مسئلہ نمبر 19۔ لانشتری میں لام، فیقسمن کا جواب ہے، کیونکہ اقسم بھی اس کے ساتھ متصل ہوتا ہے جس کے ساتھ قسم متصل ہوتی ہے اور وہ لا، ما جو نفی کا معنی دیتے ہیں اور ان اور لام ایجاب کا معنی دیتے ہیں۔ بہ میں ضمیر اسم جلالت کی طرف لوٹ رہی ہے یہ قریب ترین ذکر ہے معنی یہ ہے کہ ہم اس کے عوض کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملنے والے حصہ کو نہیں بیچتے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ شہادت کی طرف راجع ہو اور قول کے معنی پر وہ ذکر کی گئی ہو جیسے نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : واتق دعوۃ المظلوم فانہ لیس بینھماوبین اللہ حجاب (1) (صحیح بخاری، کتاب الظالم والقصاص، جلد 1، صفحہ 331) مظلوم کی بدعا سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجاب نہیں ہے۔ ضمیر کا مرجع دعوۃ ہے جس کا معنی دعا ہے یہ سورة النساء میں گزرچکا ہے۔ مسئلہ نمبر 20۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثمناکوفیوں نے کہا : ؓ اس کا معنی ہے ذاثمن ایسا مال جو قیمت والا ہے پس مضاف کو حذف کیا گیا ہے مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام رکھا گیا ہے اور ہمارے نزدیک اور بہت سے علماء کے نزدیک ثمن کبھی مراد ہوتی ہے اور کبھی سامان مراد ہوتا ہے۔ ثمن ہمارے نزدیک خریدی گئی چیز ہے جس طرح ثمن والی چیز خریدی جاتی ہے، پس ثمن اور ثمن چیز دونوں مبیع ہوتی ہیں بیع سامان، نقدی پر یا دونوں عرض (سامان) پر یا دونوں نقدی پر گھومتی رہتی ہے اس اصل پر مسئلہ پیدا ہوتا ہے جب مشتری مفلس قرار دیا جائے اور بائع اپنا سامان پائے تو کیا وہ اس کا زیادہ مستحق ہوگا ؟ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : وہ اس کا زیادہ مستحق نہیں اور انہوں نے اس اصل پر بنیاد رکھی ہے۔ اور ان کے شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمد فرماتے ہیں : دوسرے قرض خواہوں کے ساتھ برابر کا شریک ہوگا۔ امام مالک نے فرمایا : افلاس کی صورت میں وہ زیاہ حق دا رہے موت کی صورت میں نہیں۔ امام شافعی نے فرمایا : افلاس اور موت دونوں صورتوں میں اس کا مالک زیادہ مستحق ہے۔ امام ابوحنیفہ نے اس دلیل سے حجت پکڑی ہے جو ہم نے ذکر کی ہے اور اس اصل کلی سے کہ مفلس اور میت کے ذمہ میں اور جوان کے ہاتھوں میں ہے وہ قرض کو پورا کرنے کا محل ہے پس تمام قرض خواہ اپنے اپنے مال کی مقدار کے مطابق اس میں برابر کے شریک ہوں گے اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ سامان بعینہ موجود ہو یا نہ وہ، کیونکہ وہ بائع کی ملکیت سے مال نکل گیا ہے اور اس کی قیمت واجب ہوگئی ہے۔ اس پر اجماع ہے، پس ان کے لیے اس مال کی قیمت ہوگی یا جو اس میں سے موجود ہوگا۔ امام مالک اور امام شافعی نے اس قاعدہ کو ان اخبار کے ساتھ خاص کیا ہے جو اس باب میں مروی ہیں جنہیں ابودائود وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ (1) (سنن ابی دائود، کتاب ابواب الاجارہ، باب فی الرجل یفلس فلیجد الرجل الخ، حدیث نمبر 3056۔ 3055، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر 21۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ولانکتم شھادۃ اللہ یعنی جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں شہادت میں سے علم عطا فرمایا ہے۔ اس میں سے سات قراءتیں ہیں، جو ان کو جاننے کا ارادہ کرے تو وہ ” التحصیل “ وغیرہ کتب میں پالے گا۔ مسئلہ نمبر 22۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) فان عثر علی انھما استحقا اثما حضرت عمر نے فرمایا : اس سورت میں جو احکام ہیں ان میں مشکل تریں آیت ہے۔ زجاج نے کہا : اور قرآن میں ترکیب کے اعتبار سے مشکل ترین یہ ارشاد ہے : (آیت) من الذین استحقا علیھم الاولین۔ عثر علی کذا۔ یعنی وہ اس پر مطلع ہوا، کہا جاتا ہے : عثرت منہ علی خیانۃ یعنی میں مطلع ہوا۔ ا عثرت غیری علیہ، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) وکذالک اعثرنا علیھم (الکہف : 21 ) کیونکہ وہ انہیں طلب کرتے تھے ان پر ان کی جگہ مخفی ہوگئی تھی اور العثور کا اصل معنی کسی شی پر گرنا اور واقع ہونا ہے اسی سے عربوں کا قول ہے : عثرالرجل یعثر عثورا جب اس کی انگلی کسی چیز کے ساتھ لگے اور اس کے ساتھ ٹکرا جائے۔ عثرت اصبح فلان بکذا جب اس کی انگلی کسی چیز کو لگے اور اس پر واقع ہو۔ عثر الفرس عثارا۔ اعشی نے کہا : بذات لوث عفرناۃ اذا عثرت فالتعس ادنی لھا من ان اقول لعا العثیر اڑنے والا غبار، کیونکہ وہ چہرے پر گرتا ہے۔ العثیر مخفی اثر، کیونکہ وہ پوشیدگی سے اس پر واقع ہوتا ہے۔ انھما میں ضمیر ان وصیوں کی طرف لوٹ رہی ہے جو اثنان کے ارشاد میں ذکر کیے گئے ہیں یہ سعید بن جبیر سے مروی ہے بعض علماء نے فرمایا : ضمیر کا مرجع گواہ ہیں۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے استحقا یعنی استوجبا مستحق ہوا، اثما۔ خیانت کرکے انہوں نے وہ لیا جو ان کے لیے نہیں تھا۔ جھوٹی قسم کے ساتھ باطل گواہی کے ساتھ۔ ابو علی نے کہا : اثم اس چیز کا نام ہوتا ہے جو بغیر حق کے ظلما لی جاتی ہے، کیونکہ اس کے بدلے میں اس کا لینا اثم ہے اس کو اثم کہا جاتا ہے جیسا کہ اس چیز کو اثم کہا جاتا ہے جو بغیر حق کے ظلما لی جاتی ہے سیبویہ نے کہا : مظلمۃ وہ ہے جو تجھ سے لی جاتی ہے، اسی طرح جو چیز لی جاتی ہے اسے مصدر کا نام دیا جاتا ہے اور وہ الجام ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 254، دارالکتب العلمیہ بیروت ) مسئلہ نمبر 23۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) فاخران یقومان مقامھما یعنی قسموں یا گواہی میں دو ان کی جگہ کھڑے ہوں اور فرمایا : فاخران اس کے مطابق کہ ورثاء دو تھے اور فاخران کو رفع مضمر فعل کے ساتھ دیا گیا ہے اور یقومان صفت ہے اور مقامھما مصدر ہے اس کی تقدیر یوں ہے مقاما مثل مقامھا پھر صفت کو موصوف کی جگہ رکھا گیا ہے اور مضاف الیہ کی جگہ رکھا گیا۔ مسئلہ نمبر 24۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) من الذین استحقا علیھم الاولین، ابن السری نے کہا : اس کا معنی ہے جن کو وصیت کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ نحاس نے کہا : یہ سب سے بہتر ہے، کیونکہ ایک حرف کو دوسرے حرف کا بدل نہیں بنایا جاتا۔ ابن عربی نے اس کو اختیار کیا ہے تفسیر بھی اسی کے مطابق ہے، کیونکہ اہل تفسیر کے نزدیک اس کا معنی ہے : من الذین استحقت علیھم الوصیۃ جب پر وصیت کرنے کا حق رکھا گیا تھا اور الاولین، فاخران سے بدل ہے۔ یہ ابنالسری کا قول ہے۔ نحاس نے اس کو اختیار کیا ہے یہ نکرہ سے معرفہ بدل بن رہا ہے اور نکرہ سے معرفہ کو بدل بنانا جائز ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : جب نکرہ پہلے ذکر کیا گیا ہو پھر اس کا ذکر دوبارہ کیا جائے تو وہ معرفہ بن جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) کمشکوۃ فیھا مصباح (النور ؓ : 35) پھر فرمایا : (آیت) المصباح فی زجاجۃ (النور : 35) پھر فرمایا : الزجاجۃ۔ بعض علماء نے فرمایا : الاولین اس ضمیر سے بدل ہے جو یقومن میں ہے گویا فرمایا : فیقوم الاولین یا مبتدا محذوف کی خبر ہے تقدیر عبارت اس طرح ہوگی فاخران یقومان مقامھما الاولین۔ ابن عیسیٰ نے کہا : الاولیان، مضاف کے حذف پر استحق کا مفعول ہے یعنی استحق فیھم وبسببھم اثم الاولین، پس فعلیھم بمعنی فیھم ہے جیسے علی ملک سلیمان۔ یعنی فی ملک سلیمان۔ شاعر نے کہا : متی ماتنکروھا تعرفوھا علی اقطارھا علق نفیث اس شعر میں بھی علی بمعنی فی استعمال ہوا ہے یعنی فی اقطارھا۔ یحیی بن وثاب، اعمش اور ہمزہ نے الاولین پڑھا ہے۔ اول کی جمع اس بناپر کہ یہ الذین سے بدل ہے یا علیھم کی ضمیر سے بدل ہے حفص نے استحق تا اور حا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے اور اس کا فاعل الاولین ہے اور مفعول محذوف ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے : من الذین استحق علیھم الاولینن بالمیت وصیتہ التی اوصی بھا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کی تقدیر یہ ہے استحق علیھم الاولین رد الایمان یعنی ان پر قریبی دو شیخ قسموں کو لوٹانے کے حقدار ہیں۔ حسن سے اولان مروی ہے۔ ابن سیرین سے الاولین مروی ہے۔ نحاس نے کہا : دونوں قراءتیں غلط ہیں مثنی میں مثنان نہیں کہا جاتا مگر حسن سے الاولان مروی ہے۔ مسئلہ نمبر 25۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) فیقسمن باللہ یعنی وہ دو قسمیں اٹھائیں جو گواہوں کے قائم مقام ہوں۔ یہ کہیں کہ جو ہمارے ساتھی نے وصیت میں کہا وہ حق ہے اور وہ مال جس کی اس نے تمہیں وصیت کی وہ اس سے زیادہ جو تم نے ہمیں دیا ہے اور یہ برتن ہمارے اس ساتھی کے سامان سے ہے۔ جس کو وہ لے کر گیا تھا اور اس نے اس کو اپنی وصیت میں لکھا ہے اور تم دونوں نے خیانت کی ہے، پھر یہ ارشاد فرمایا : (آیت) لشھادتنا احق من شھادتھما یعنی ہماری قسمیں تمہاری قسموں سے زیادہ ٹھیک ہے۔ پس صحیح ہے کہ شہادت کبھی یمین (قسم) کے معنی میں ہوتی ہے اسی سے اللہ تعالیٰ کا راشاد ہے : (آیت) فشھادۃ احدھم اربع شھادات (النور : 6) معمر نے ایوب سے انہوں نے ابن سیرین سے انہوں نے عبیدہ سے روایت کیا ہے فرمایا : میت کے اولیا میں سے دو آدمی کھڑے ہوئے اور انہوں نے قسمیں اٹھائیں۔ لشھادتنا احق یہ مبتداخبر ہے اور وما اعتدینا یعنی ہم نے اپنی قسموں میں حق سے تجاوز نہیں کیا (آیت) انا اذلمن الظالمین یعنی پھر تو ہم نے باطل پر قسمیں اٹھائیں اور ہم نے وہ لیا جو ہمارا نہیں تھا۔ مسئلہ نمبر 26۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ذالک ادنی یہ مبتدا خبر ہے ان محل نصب میں ہے۔ یاتوا، ان کی وجہ سے منصوب ہے۔ اویخافوا اس پر معطوف ہے۔ ان ترد، یخافوا کی وجہ سے محل نصب میں ہے۔ (آیت) ایمان بعد ایمانھم بعض علماء نے فرمایا یاتوا اور فخافو کی ضمائر موصی الیھما (جن کو وصیت کی گئی) کی طرف راجع ہیں، یہ آیت کے سیاق کے زیادہ مناسب ہے۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد ہیں یعنی یہ لائق ہے کہ لوگ خیانت سے بچیں اور وہ رسوائی کے خوف سے سچی سچی گواہی دیں کہیں ایسا نہ کہ مدعی پر قسم لوٹائی جائے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 27۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) واتقوا اللہ واسمعوا یہ امر کے صیغے ہیں اسی وجہ سے نون حذف کی گئی ہے یعنی جو تمہیں کہا جاتا ہے اسے قبول کرتے ہوئے سنو اور اللہ کے امر کی اس پر اتباع کرتے ہوئے سنو۔ (آیت) واللہ لایھدی القوم الفسقین فسق یفسق ویفسق بولا جاتا ہے جب کوئی اطاعت سے معصیت کی طرف نکل جائے۔ یہ پہلے گزرچکا ہے واللہ اعلم
Top