Al-Qurtubi - Al-Maaida : 109
یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ
يَوْمَ : دن يَجْمَعُ : جمع کرے گا اللّٰهُ : اللہ الرُّسُلَ : رسول (جمع) فَيَقُوْلُ : پھر کہے گا مَاذَآ : کیا اُجِبْتُمْ : تمہیں جواب ملا قَالُوْا : وہ کہیں گے لَا عِلْمَ : نہیں خبر لَنَا : ہمیں اِنَّكَ : بیشک تو اَنْتَ : تو عَلَّامُ : جاننے والا الْغُيُوْبِ : چھپی باتیں
(وہ دن یاد رکھنے کے لائق ہے) جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا تھا ؟ وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ تو ہی غیب کی باتوں سے واقف ہے۔
آیت نمبر 109 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) یوم یجمع اللہ الرسل۔ کہا جاتا ہے کہ اس آیت کا ماقبل سے کیسے تعلق ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ زجر کے اعتبار سے اتصال ہے جو انہوں نے وصیت وغیرہ میں حقیقت کے خلاف ظاہر کیا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس پر جزا دینے والا عالم ہے۔ یوم ظرف زمان ہے اس میں عامل اسمعوا ہے یعنی اس دن کی خبر سنو۔ بعض علماء نے فرمایا : تقدیر اس طرح ہے : واتقوا یوم یجمع اللہ الرسل ڈرو اس دن سے اللہ تعالیٰ جس میں رسولوں کو جمع فرمائے گا۔ یہ زجاج سے مروی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : تقدیر یہ ہے اذکروا اواحذرو یوم القیامۃ حین یجمع اللہ الرسل معنی قریب قریب ہے اور مراد ڈرانا اور دھمکی دینا ہے۔ (آیت) فیقول ماذا جبتم تمہاری امتوں نے تمہیں کیا جواب دیا ہے اور تمہاری قوم نے تمہیں کیا جواب دیا جب تم نے انہیں میری توحید کی طرف بلایا۔ قالوا تو وہ کہیں گے لاعلم لنا علماء مفسرین کا لاعلم لنا کی مراد میں اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : جو ہماری امتوں نے جواب دیا اس کے باطن کا ہمیں علم نہیں ہے، کیونکہ ہو یہ ہے جس پر جزا واقع ہوتی ہے، یہی نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے ہمیں کوئی علم نہیں مگر جو تو نے ہمیں علم عطا فرمایا، پس اس کلام میں حذف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد سے اس کے خلاف مروی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کا معنی ہے ہمیں کوئی علم نہیں مگر وہ علم جس کو تو ہم سے زیادہ جانتا ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 257۔ دارالکتب العلمیہ بیروت) ۔ بعض علماء فرماتے ہیں : وہ ڈرتے ہوں گے اور جواب دینے سے گھبراتے ہوں گے، پھر عقول جو جواب ان کی طرف لوٹائیں گی اس کے بعد وہ جواب دیں گے اور کہیں گے ہمیں کوئی علم نہیں ہے۔ یہ حسن، مجاہد اور سدی کا قول ہے۔ نحاس نے کہا : یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ رسولوں کو کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ میں کہتا ہوں : یہ قیامت کے اکثر مقام پر ہوگا، حدیث میں ہے ” جب جہنم کو لایا جائے گا وہ زور سے آواز نکالے گی کوئی نبی اور صدیق نہیں ہوگا مگر وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ جائے گا “ (2) (حلیۃ الاولیاء ابو نعیم، جلد 5، صفحہ 371) ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جبریل نے مجھے قیامت کے دن کا خوف دلایا حتی کہ اس نے مجھے رلادیا۔ میں نے کہا ؓ ؓ : اے جبریل ! کیا مجھے اگلے اور پچھلے گناہوں سے محفوظ نہیں کیا گیا ؟ “ جبریل نے مجھے کہا : اے محمد ! ﷺ تم اس دن کی ہولناکی کو دیکھو گے جو تمہیں مغفرت کا مژدہ بھلادے گی۔ میں کہتا ہوں : اگر سوال جہنم کے چیخنے کے وقت کا ہوگا۔۔۔۔۔ جیسا کہ بعض نے کہا ہے۔۔۔۔۔۔ تو مجاہد اور حسن کا قول صحیح ہے واللہ اعلم۔ نحاس نے کہا : اس میں صحیح یہ ہے کہ معنی یہ ہے کہ تمہیں سرا اور اعلانیا کیا جواب دیا گیا تاکہ یہ کفار کے لیے تابیخ ہوجائے۔ وہ کہیں گے : ہمیں کوئی علم نہیں، پس یہ تکذیب ہوگی اس کے لیے جس نے مسیح (علیہ السلام) کو الی بنایا۔ ابن جریج نے کہا : ماذا اجبتم کا معنی ہے انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا ؟ تو وہ کہیں گے : ہمیں کوئی علم نہیں، تو تمام غیوب کو جا ننے والا ہے۔ ابوعبید نے کہا : یہ نبی مکرم ﷺ کی حدیث کے مشابہ ہے، فرمایا : مجھ پر ایک قوم حوض پر پیش ہوگی، وہ پیچھے کھینچ لیے جائیں گے میں کہوں گا : میرے امتی ہیں، کہا جائے گا : تم نہیں جانتے جو انہوں نے تمہارے بعد بدعتیں نکالیں۔ ابو بکر، حمزہ اور کسائی نے الغیوب کی غین کو کسرہ دیا ہے اور باقی قراء نے ضمہ دیا ہے۔ ماوردی نے کہا : اگر کہا جائے اللہ تعالیٰ ان سے سوال کیوں کرے گا حالانکہ وہ ان سے زیادہ جانتا ہے ؟ اس کے دو جواب ہیں : (1) اللہ تعالیٰ ان سے سوال کرے گا تاکہ انبیاء کرام جان لیں کہ ان کے بعد ان کی امتوں نے جو کفر، نفاق اور جھوٹ بولا (2) اس نے ارادہ فرمایا کہ ایسے لوگوں کو گواہوں کے سامنے رسوا کرتے تاکہ یہ بھی ان کے لیے عقوبت کی نوع بن جائے۔
Top