Al-Qurtubi - Al-Maaida : 113
قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا وَ تَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَكُوْنَ عَلَیْهَا مِنَ الشّٰهِدِیْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا نُرِيْدُ : ہم چاہتے ہیں اَنْ : کہ نَّاْكُلَ : ہم کھائیں مِنْهَا : اس سے وَتَطْمَئِنَّ : اور مطمئن ہوں قُلُوْبُنَا : ہمارے دل وَنَعْلَمَ : اور ہم جان لیں اَنْ : کہ قَدْ صَدَقْتَنَا : تم نے ہم سے سچ کہا وَنَكُوْنَ : اور ہم رہیں عَلَيْهَا : اس پر مِنَ : سے الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
وہ بولے کہ ہماری خواہش ہے کہ تم اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل تسلّی پائیں۔ اور ہم جان لیں کہ تم نے ہم سے (سچ کہا ہے اور ہم اس (خوان کے نزول) پر گواہ رہیں۔
آیت نمبر 113 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) قالو انرید ان ناکل منھا۔ ان کی وجہ سے ناکل منصوب ہے۔ (آیت) وتطمئن قلوبنا ونعلم ان قد صدقتناونکون علیھا من الشھدین یہ تمام معطوف ہے انہوں نے اپنے سوال کا سبب بیان کیا جب انہیں سوال سے منع کیا گیا ناکل منھا میں دو وجہیں ہیں : (1) انہوں نے اپنی بھوک مٹانے کے لیے کھانے کا ارادہ کیا۔ یہ اس لیے تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب نکلتے تھے تو ان کے پیچھے پانچ ہزار یا اس سے زیادہ آدمی ہوتے تھے، بعض تو ان میں آپ کے اصحاب ہوتے تھے اور بعض دیکھتے تھے اور استہزاء کرتے تھے۔ ایک دن آپ ایک علاقہ کی طرف نکلے تو ایک جنگل میں پہنچ گئے جہاں ان کے لیے کھانے پینے کے لیے کچھ نہ تھا وہ بھوکے ہوگئے اور انہوں نے حواریوں سے کہا : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کرو تاکہ وہ دعا فرمائیں کہ ہم پر آسمان سے خوان نازل ہو۔ شمعون جو حواریوں کے سردار تھے وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور کہا کہ لوگ عرض کررہے ہیں آپ دعا فرمائیں ان پر آسمان سے خوان نازل ہو۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے شمعون سے کہا : ان کو کہو کہ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ شمعون نے یہ لوگوں کو کہا تو پھر انہوں نے کہا : تم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کرو کہ ہم اس سے کھانا چاہتے ہیں۔ (2) ناکل منھا تاکہ ہم اس کی برکت حاصل کریں ہمیں کھانے کی حاجت نہیں۔ ماوردی نے کہا : یہ بہتر ہے، کیونکہ اگر وہ کھانے کے محتاج ہوتے تو انہیں سوال کرنے سے منع نہ کیا جاتا۔ وتطمئن قلوبنا میں تین احتمال ہیں : (1) ہمارے دل مطمئن ہوجائیں کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی بناکر بھیجا ہے (2) ہم مطمئن ہوجائیں کہ اللہ نے ہمیں ہماری دعوت کے لیے چن لیا ہے (3) ہمارے دل مطمئن ہوجائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سوال کا قبول فرمالیا ہے۔ یہ تینوں احتمال ماوردی نے ذکر کیے ہیں۔ مہدوی نے کہا : ہمارے دل مطمین ہوجائیں کہ اس نے ہمارے روزے اور عمل کو قبول فرلیا ہے۔ ثعلبی نے کہا : ہم اس کی قدرت کا یقین کرلیں اور ہمارے دل مطمئن ہوجائیں۔ (آیت) ونعلم قد صدقتنا ہم جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں (آیت) ونکون علیھا من الشھدین اور ہم اللہ کی وحدانیت اور آپ کی رسالت ونبوت کے گواہی دینے والے ہوجائیں۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے جب ہم لوٹ کرجائیں تو جنہوں نے یہ نہیں دیکھا ہم تمہارے لیے ان کے پاس گواہ ہوجائیں۔
Top