Al-Qurtubi - Al-Maaida : 115
قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مُنَزِّلُهَا عَلَیْكُمْ١ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّیْۤ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُهٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ اِنِّىْ : بیشک میں مُنَزِّلُهَا : وہ اتاروں گا عَلَيْكُمْ : تم پر فَمَنْ : پھر جو يَّكْفُرْ : ناشکری کریگا بَعْدُ : بعد مِنْكُمْ : تم سے فَاِنِّىْٓ : تو میں اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا : اسے عذاب دوں گا ایسا عذاب لَّآ : نہ اُعَذِّبُهٗٓ : عذاب دوں گا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
خدا نے فرمایا میں تم پر ضرور خوان نازل فرماؤں گا لیکن جو اس کے بعد تم میں سے کفر کرے گا اسے ایسا عذاب دوں گا کہ اہل عالم میں کسی کو ایسا عذاب نہ دوں گا۔
آیت نمبر 115 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) قال اللہ انی منزلھا علیکم یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سوال کا اس کے ساتھ جواب دیا جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا سوال حواریوں کے لیے جواب تھا، یہ اس چیز کو ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دسترخوان کو نازل اور اس کا وعدہ حق ہے پس ایک قوم نے مائدہ کے نزول کے بعد انکار کیا اور کفر کیا پس انہیں بندروں اور خنزیروں میں مسخ کردیا گیا : حضرت ابن عمرنے کہا : قیامت کے روز سب سے سخت عذاب منافقوں کو ہوگا اور اصحاب مائدہ اور آل فرعون میں سے جنہوں نے کفر کیا تھا (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 262) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) فمن یکفر بعد منکم فانی اعذبہ عذابا لا اعذبہ احدا من العلمین علماء کا مائدہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا وہ نازل ہوا تھا یا نہیں پس جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ وہ نازل ہوا تھا اور یہی نظریہ حق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) انی منزلھا علیکم مجاہد نے کہا : وہ نازل نہیں ہوا تھا یہ ایک مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لیے بیان فرمائی ہے اور لوگوں کو منع فرمایا کہ انبیاء سے نشانیوں کا سوال کریں۔ بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ان کا سوال قبول کرنے کا وعدہ فرمایا جب انہیں فرمایا (آیت) فمن یکفر بعد منکم پھر جو تم میں سے اس کے بعد کفر کرے گا۔ تو اسے عذاب دوں گا۔۔۔۔۔۔ الخ۔ تو وہ اپنے مطالبہ سے مستعفی ہوگئے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کیا اور کہا : ہم یہ نہیں چاہتے۔ یہ حسن کا قول ہے۔ یہ قول اور اس سے پہلے والا قول غلط ہے، صحیح یہ ہے کہ مائدہ نازل ہوا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہنے کہا : حضرت عیسیٰ بن مریم نے بنی اسرائیل کو کہا : تم تیس دن روزے رکھو پھر اللہ تعالیٰ سے جو چاہو سوال کرو وہ تمہیں عطا فرمائے گا، پس نہوں نے تیس روزے رکھے اور کہا : اے عیسیٰ ! اگر ہم کسی کے لیے کام کرتے ہیں پھر اپنے کام کو ختم کرتے ہیں تو وہ ہمیں کھانا کھلاتا ہے اور ہم نے روزے رکھے ہم بھوکے رہے ہیں پس تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو وہ ہم پر آسمان سے مائدہ نازل کرے۔ ملائکہ وہ دستر خوان لے آئے اس پر سات روٹیاں تھیں سات مچھلیاں تھیں پس انہوں نے لوگوں کے سامنے وہ دستر خوان رکھ دیا پس لوگوں کے آخری آدمی نے بھی اسی طرح کھایا جس طرح پہلے آدمی نے کھایا تھا۔ ابو عبداللہ محمد بن علی ترمذی حکیم نے ” نوادرالاصول “ میں ذکر کیا ہے ہمیں عمر بن ابی عمر نے بتایا فرمایا ہمیں عمار بن ہاروں ثقفی نے بتایا انہوں نے ذکر یا بن حکیم حنظلی سے روایت کیا انہوں نے علی بن زید بن جدعان سے انہوں نے ابو عثمان نہدی سے انہوں نے حضرت سلمان فارسی سے روایت کیا فرمایا : جب حواریوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے مائدہ کا سوال کیا تو وہ کھڑے ہوئے اپنے اون والے کپڑے اتار دیے اور کھدر والے کپڑے پہن لیے وہ سیاہ موٹے دھاگے سے سربال تھا اور سیاہ لحاف تھا۔ آپ اٹھے اور قدم سے قدم ملایا اور ایڑی کے ساتھ ایڑی کو ملایا اور انگوٹھے کو انگوٹھے کے ساتھ ملایا اور اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا، پھر اپنے سر کو جھکایا اللہ تعالیٰ کے لیے خشوع کیا پھر رونے لگے حتی کے آنسو ان کی داڑھی پر جاری ہوئے اور آنسوئوں کے قطرے ان کے سینے پر گرنے لگے، پھر عرض کی : اے اللہ ہمارے پروردگار ! ہم پر دسترخوان نازل فرما آسمان سے وہ ہمارے پہلے اور پچھلوں لیے عید ہو اور تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں عطا فرما اور تو روزی دینے والوں میں سے بہتر ہے۔ پس زرد گول دسترخوان نازل ہوا وہ دوعماموں کے درمیان تھا ایک عمامہ اوپر تھا اور ایک عمامہ نیچے تھا اور لوگ اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اے اللہ ! اسے رحمت بنادے اور اسے آزمائش نہ بناالہی ! میں تجھ سے عجائب کا سوال کرتا ہوں پس تو عطا کرتا ہے پس دسترخوان عیسیٰ (علیہ السلام) کے سانے اترا اور وہ رومال سے ڈھانپا ہوا تھا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سجدے میں گرگئے اور حواری بھی آپ کے ساتھ سجدہ میں گر گئے وہ اسکی ایسی عمدہ خوشبو محسوس کررہے تھے جو انہیں اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : جو تم میں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار ہے اور اللہ تعالیٰ پر جرأت کرنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ پر زیادہ اعتماد کرنے والا ہے وہ اس دستر خوان سے کپڑا ہٹائے تاکہ ہم اس سے کھائیں اور ہم اس پر اللہ کا ذکر کریں اور اس پر اللہ کی حمد کریں۔ حواریوں نے کہا : اے روح اللہ ! آپ اس کے زیادہ لائق ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اٹھے اچھی طرح وضو کیا پھر نماز پڑھی اور لمبی دعا مانگی پھر دسترخوان پر بیٹھے اور اس سے کپڑاہٹا یا اس دسترخوان پر بھونی ہوئی مچھلی تھی جس میں کوئی کانٹا نہیں تھا اس سے گھی بہہ رہا تھا کر اث (بدبودار سبزی) کے علاوہ اس کے ارد گرد تمام سبزیاں رکھی گئی تھیں اور اس کے سر کے پاس نمک اور سرکہ تھا اور دم کی جانب پانچ روٹیاں تھیں ایک روٹی پر پانچ انار تھے ایک روٹی پر کھجوریں تھیں اور ایک روٹی پر زیتون تھا۔ ثعلبی نے کہا : ایک روٹی پر زیتون تھا دوسری پر شہد تھا تیسری پر انڈے تھے اور چوتھی پر پنیر تھا اور پانچویں پر خشک گوشت تھا، یہود کو یہ خبر پہنچی توغم اور پریشانی میں آئے وہ اس کی طرف تعجب سے دیکھ رہے تھے۔ شمعون نے کہا : جو حواریوں کا سردار تھا، اے روح اللہ ! یہ دنیا کا کھانا ہے یا جنت کا کھانا ہے ؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ؓ اس کے بعد تم نے ایسی نشانیوں کا سوال کیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں عذاب دیا جائے، شمعون نے کہا : ؓ عنہبنی اسرائیل کے خدا کی قسم ! میں نے اس سے کوئی برا ارادہ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے کہا : اے روح اللہ ! اگر اس نشانی کے ساتھ ایک اور نشانی بھی ہوتی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ؓ عنہاے مچھلی تو اللہ کے اذن سے زندہ ہوجا، پس وہ مچھلی تازہ مچھلی کی طرح حرکت کرنے لگی اس کی آنکھیں چمکنے لگیں، حواری گھبراگئے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : کیا وجہ ہے کہ تم کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہوں جب وہ تمہیں دی جاتی ہے تو تم ناپسند کرتے ہو مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ تمہیں عذاب دیا جائے ؟ فرمایا : یہ دسترخوان آسمان سے نازل ہوا اور اس پر نہ دنیا کا کھانا تھا اور نہ جنت کا کھانا تھا لیکن یہ ایک ایسی چیز تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت بالغہ سے پیدا کیا تھا۔ اس نے فرمایا : ہوجا تو وہ ہوگئی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اے مچھلی تو اسی طرح ہوجا جس طرح تو پہلے تھی، تو وہ پہلے کی طرح بھونی ہوئی ہوگئی۔ حواریوں نے کہا : اے روح اللہ ! آپ ہی پہلے اس سے کھائیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : معاذاللہ ! اس سے وہ کھائے جس نے طلب کیا اور جس نے سوال کیا حواریوں نے اس سے کھانے سے انکار کردیا اس خوف سے کہیں یہ فتنہ اور سزا نہ ہو، جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دیکھا تو اس پر فقراء، مساکین، مریضوں، اپاہج، جزام والے، چلنے سے عاجز، نابینے اور زرد پانی والوں کو بلایا اور فرمایا : اپنے رب کے رزق اور اپنے نبی کی دعا سے کھائو اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرو، اور فرمایا : تمہارے لیے خوشگور ہوگا اور تمہارے علاوہ لوگوں پر عذاب ہوگا۔ پس انہوں نے کھایا حتی کہ وہ سات ہزار تین سوافراد تھے وہ نکلے تو ڈکار مار رہے تھے اور ہر مریض ٹھیک ہوچکا تھا جس نے اس سے کھایا تھا اور ہر فقیر جس نے اس سے کھایا تھا وہ موت تک کھانے سے مستغنی ہوگیا تھا جب لوگوں نے یہ خیرات وبرکات دیکھی تو اس کھانے پر رش کرکے آگئے چھوٹا، بڑا، بوڑھا، نوجوان، غنی، فقیر سب آگئے اور اس سے کھانے لگے، وہ ایک دوسرے پر ناراض ہوئے۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ صورت دیکھی تو ان کے درمیان باری مقرر کردی، ایک دن وہ کھانا نازل ہوتا اور ایک دن نازل نہ ہوتا، جیسا کہ ثمود کی اونٹنی تھی ایک دن گھاس کھاتی تھی اور ایک دن پانی پیتی تھی پس وہ دستر خوان چالیس دن نازل ہوا وہ چاشت کے وقت نازل ہوتا تھا اور اسی طرح رہتا حتی کہ سایہ ڈھل جاتا۔ ثعلبی نے کہا : وہ دستر خوان قائم رہتا اس سے کھایا جاتا حتی کہ جب سورج ڈھل جاتا تو وہ اوپر اڑ جاتا پس لوگ اس سے کھاتے پھر وہ آسمان کی طرف لوٹ جاتا اور لوگ اس کے سایہ کو دیکھتے رہتے حتی کہ وہ ان سے چھپ جاتا جب چالیس دن مکمل ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی۔ اے عیسیٰ ! میرے اس دسترخوان کو صرف فقراء کے لیے خاص کردے اغنیاء کے لیے یہ نہیں ہے، تو اغنیاء اس بارے میں شک کرنے لگے اور وہ فقراء کی طرف لوٹے اور لوگوں کو شک میں ڈالا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے عیسیٰ ! میں اپنی شرط کے ساتھ پکڑنے والا ہوں پس صبح اس میں سے تینتیس خنزیر بن چکے تھے وہ غلاظت کھاتے تھے اور کوڑا تلاش کرتے تھے، پاکیزہ کھانا کھانے اور نرم بستروں پر سونے کے بعد یہ حالت ہوگئی۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو روتے ہوئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جمع ہوئے۔ خنزیر آئے اور اپنے گھٹنوں پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سانے بیٹھ گئے وہ رونے لگے اور ان کے آنسو بہنے لگے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انہیں پہچان گئے اور یہ کہا : کیا تو فلاں فلاں نہیں ہے ؟ وہ اپنے سر سے اشارہ کرتا لیکن کلام نہ کرسکتا تھا، وہ سات دن اسی طرح ٹھہرے رہے۔ بعض علماء نے فرمایا : چار دن ٹھہرے رہے پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ان کی روحیں قبض کرلے صبح ہوئی تو معلوم نہ ہوا کہ وہ کہاں چلے گئے انہیں زمین نگل گئی یا انہیں کیا ہوا ؟ میں کہتا ہوں : اس حدیث میں کلام ہے۔ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابو عبدالرحمن سلمی سے مروی ہے کہ مائدہ کا کھانا روٹی اور مچھلی تھی۔ ابن عطیہ نے کہا : وہ مچھلی میں ہر کھانے کی خوشبو پاتے تھے۔ یہ ثعلبی نے ذکر کیا ہے۔ حضرت عمار بن یاسر اور قتادہ نے کہا : مائدہ آسمان سے نازل ہوتا تھا اور اس پر جنت کے پھلوں میں سے پھل ہوتے تھے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 261 ) ۔ وہب بن منبہ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے جو کی روٹیاں اور مچھلیاں نازل فرمائیں۔ اور ترمذی نے ابواب التفسیر میں حضرت عمار بن یاسر سے روایت کیا ہے فرمایا :” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آسمان سے مائدہ نازل ہوا اس میں روٹی اور گوشت تھا انہیں حکم دیا گیا تھا کہ خیانت نہ کرو اور نہ کل کے لیے ذخیرہ کرو، پس انہوں نے خیانت کی اور ذخیرہ کیا اور کل کے لیے رکھ لیا تو وہ بندروں اور خنزیروں میں مسخ کردیے گئے “ (2) (جامع ترمذی، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 132) ابو عیسیٰ نے کہا : یہ حدیث ہے جو ابو عاصم اور کئی دوسرے لوگوں نے سعید بن ابی عروبۃ عن قتادہ عن خلاص عن عمار بن یاسر کے سلسلہ سے موقوف روایت کی ہے ہم اسے مرفوع نہیں جانتے مگر حسن بن قزعہ کی حدیث سے ہمیں حمید بن مسعدہ نے بتایا فرمایا ہمیں سفیان بن حبیب نے سعید بن ابی عروبہ سے اسی طرح رویت کرکے بتایا اور انہوں نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا۔ یہ حسن بن قزعہ کی حدیث سے اصح ہے ہم مرفوع حدیث کے لیے کوئی اصل نہیں جانتے۔ سعید بن جبیر نے کہا : دستر خوان پر ہر چیز اتاری گئی تھی سوائے گوشت اور روٹی کے۔ عطا نے کہا : اس پر ہر چیز نازل ہوئی سوائے مچھلی اور گوشت کے کعب نے کہا : دستر خوان الٹا آسمان سے اتار گیا تھا فرشتے اسے آسمان اور زمین کے درمیان اڑاتے رہے اور اس پر گوشت کے سوا ہر چیز تھی۔ میں کہتا ہوں : یہ تینوں اقوال ترمذی کی حدیث کے مخالف ہیں اور وہ حدیث ان سے اولی ہے، کیونکہ اگر وہ مرفوع صحیح نہیں ہے تو صحابی کبیر سے موقوف صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ یہ قطعی بات ہے کہ دسترخوان نازل ہوا اور اس پر کھانا تھا اور اس کی تعیین کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ابو نعیم نے کعب سے روایت کیا ہے کہ دسترخوان دو مرتبہ نازل ہوا تھا بنی اسرائیل کے بعض عبادت گزار بندوں کے لیے۔ کعب نے کہا : بنی اسرائیل کے تین عبادت گزار جمع ہوئے وہ تینوں ایک صحرا میں جمع ہوئے اور ان میں سے ہر ایک کے پاس اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم تھا، ایک نے کہا : تم مجھ سے سوال کرو میں اللہ تعالیٰ سے تمہارے لیے دعا کروں گا تم جو چاہو گے۔ انہوں نے کہا : ہم تجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ تو اللہ تعالیٰ سے دعا کر کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے اسی جگہ ایک بڑا کھلا چشمہ ظاہر کردے اور سبز و شاداب باغات ہوں، اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو بڑا چشمہ اور سبزوشاداب باغ ظاہر ہوگیا، پھر ایک نے کہا : تم مجھ سے جو چاہو مانگو میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا، انہوں نے کہا : ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرکے وہ ہمیں جنت کے پھلوں میں سے کچھ کھلائے۔ اس نے دعا کی تو ان پر کھجور اتری انہوں نے اس سے کھایا وہ واپس نہ گئی مگر وہ اس کا ایک رنگ کھاچکے تھے پھر وہ اٹھا لی گئی۔ ایک نے کہا : تم مجھ سے سوال کرو میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا جو تم چاہو، انہوں نے کہا : ہم تجھے سے سوال کرتے ہیں کہ تو دعامانگ کہ اللہ ہم پر دسترخوان نازل کرے جو اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کیا تھا پس اس نے دعا کی تو دستر خوان نازل ہوا انہوں نے اپنی ضرورت اس سے پوری کی پھر وہ اٹھا لیا گیا، پھر پوری خبر ذکر کی۔ مسئلہ : سلمان مذکور کی حدیث میں دسترخوان کا بیان ہے وہ دستر خوان تھا ٹانگوں والا میز نہیں تھا۔ سفرۃ (دسترخوان) نبی مکرم ﷺ کا دستر خوان تھا اور عرب کے دسترخوان تھے ابو عبداللہ ترمذی حکیم نے روایت کیا ہے ہمیں محمد بن بشار نے بتایا فرمایا ہمیں معاذ بن ہشام نے بتایا فرمایا مجھے میرے ماں باپ نے بتایا انہوں نے یونس سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے حضرت انس سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کبھی ٹیبل (میز) اور پیالہ میں اور باریک نرم روٹی نہیں کھائی (1) (جامع ترمذی، کتاب الطعمہ، جلد 2، صفحہ 1 ) ۔ قتادہ نے فرمایا : میں نے حضرت انس ؓ سے کہا : پھر کس پر روٹی کھاتے تھے۔ فرمایا : دسترخوانوں پر۔ محمد بن بشار نے کہا : یہ یونس ابو الفرات الاسکاف ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ حدیث صحیح ثابت ہے اس کے رجال پر بخاری اور مسلم کا اتفاق ہے، اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے فرمایا ہمیں محمد بن بشار نے بیان کیا فرمایا ہمیں معاذبن ہشام نے بتایا پھر یہ حدیث ذکر کی اور اس میں فرمایا : یہ حسن غریب ہے۔ ترمذی ابو عبداللہ نے کہا : خوان وہ نئی چیز ہے جو عجمیوں نے شروع کی ہے اور عرب تو مشقت کرنے والے تھے اور وہ سفر پرکھاتے تھے سفر کا مفرد سفرۃ ہے یہ دسترخوان چمڑے سے بنائے جاتے تھے۔ ان دستر خوانوں کے لٹکا نے کے لیے دھاگے تھے وہ بند ہوتے تھے اور کھلتے تھے۔ کھلنے کی وجہ سے انہیں دستر خوان کہا جاتا تھا، کیونکہ جب کھلتے تھے تو جو کچھ ان میں ہوتا تھا ظاہر ہوجاتا تھا۔ اسی وجہ سے اسے سفرہ کہا جاتا ہے۔ سفر کو سفر اس لیے کہا جاتا ہے کہ آدمی خود اپنے گھر سے باہر ظاہر ہوجاتا ہے سکرجۃ وہ پیالہ جو مائع چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سالن مختلف قسم کے کھانوں سے تیار ہوتا ہے اور عربوں کے لیے کھانے کے لیے مختلف چیزیں نہ تھیں ان کا کھانا ثرید ہوتا تھا جس پر گوشت کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” گوشت کو دانتوں سے نوچ کر کھایا کرو۔ کیونکہ یہ لذیذ اور عمدہ ہوتا ہے (2) (جامع ترمذی، باب ماجاء انہ قال انھسوالحم نھسا، حدیث نمبر 1758، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اگر کہا جائے کہ مائدہ کا ذکر احادیث میں ہے۔ ان احادیث میں ایک حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث ہے فرمایا : لوکان الضب حراما ما اکل علی مائدۃ النبی اگر گوہ حرام ہوتی تو نبی مکرم ﷺ کے دستر خوان پر نہ کھائی جاتی۔ اس کو مسلم وغیرہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تصلی الملائکۃ علی الرجل مادامت مائدتہ موضوعۃ فرشتے اس شخص کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک اس کا دستر خوان بچھا رہتا ہے۔ اس حدیث کو ثقات نے روایت کیا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ مائدہ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کپڑے اور رومال کی طرح بچھائی اور پھیلائی جاتی ہے، اس کا حق ہی ہے کہ یہ مادۃ ہو یعنی دال مشدد کے ساتھ ہو عربوں نے ایک دال کو یا بنادیا اور مائدہ کہا گیا۔ اور فعل اس کے ساتھ واقع ہوتا ہے۔ مناسب یہ ہے کہ یہ ممدوۃ ہوتا لیکن لغت میں فاعل کے وزن پر استعمال ہوتا ہے جیسے عرب کہتے ہیں : سرکاتم یہ مکتوم کے معنی میں ہے عیشۃ راضیۃ، مرضیۃ کے معنی میں ہے۔ اسی طرح لغت میں مفعول فاعل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، مثلا رجل مشوم یہ شائم کے معنی میں ہے۔ حجاب مستور یہ ساتر کے معنی میں ہے۔ خوان وہ چیز چوپائیوں کے ذریعے زمین سے بلند ہو۔ مائدہ ہر وہ چیز جو پھیلائی اور بچھائی گئی ہو۔ السفرۃ جو اس کو ظاہر کردے جو اس کے اندر ہو، اسی وجہ سے سفرہ دھاگوں کے ساتھ باندھا ہوتا ہے۔ حسن سے مروی ہے فرمایا : میز پر کھانا ملوک (بادشاہوں) کا فعل ہے رومال پر کھانا عجمیوں کا فعل ہے اور سفرہ پر کھانا عربوں کا فعل ہے۔ یہ سنت ہے۔ واللہ اعلم
Top