Al-Qurtubi - Al-Maaida : 117
مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِیْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْ١ۚ وَ كُنْتُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْهِمْ١ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ
مَا قُلْتُ : میں نے نہیں کہا لَهُمْ : انہیں اِلَّا : مگر مَآ اَمَرْتَنِيْ : جو تونے مجھے حکم دیا بِهٖٓ : اس کا اَنِ : کہ اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ رَبِّىۡ : میرا رب وَرَبَّكُمْ : اور تمہارا رب وَكُنْتُ : اور میں تھا عَلَيْهِمْ : ان پر شَهِيْدًا : خبردار مَّا دُمْتُ : جب تک میں رہا فِيْهِمْ : ان میں فَلَمَّا : پھر جب تَوَفَّيْتَنِيْ : تونے مجھے اٹھا لیا كُنْتَ : تو تھا اَنْتَ : تو الرَّقِيْبَ : نگران عَلَيْهِمْ : ان پر واَنْتَ : اور تو عَلٰي : پر۔ سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے شَهِيْدٌ : باخبر
میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا وہ یہ کہ تم خدا کی عبادت اور جو میرے تمہارا سب کا پروردگار ہے۔ اور جب تک میں ان میں رہا ان (کے حالات) کی خبر رکھتا رہا۔ جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا تو تو ان کا نگران تھا۔ اور تو ہر چیز سے خبردار ہے۔
آیت نمبر 117 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ماقلت لھم الا ما امرنی بہ یعنی میں نے دنیا میں انہیں توحید کا حکم دیا۔ (آیت) ان اعبدوا اللہ ان کا اعراب میں کوئی محل نہیں ہے یہ ان مفسرہ ہے جیسے (آیت) وانطلق الملامنھم ان امشوا (ص : 6) میں، ان مفسرہ ہے اور اس کا محل نصب میں ہونا بھی جائز ہے ماذکرت لھم الا عبادۃ اللہ یعنی میں نے ان کو نہیں یاددلایامگر اللہ کی عبادت۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ محل جر میں ہو یعنی بان اعبدوا اللہ۔ نون کو ضمہ دینا اولی ہے، کیونکہ وہ کسرہ کے بعد ضمہ کو عرب ثقیل سمجھتے ہیں اور التقاء ساکنین کی اصل پر کسرہ بھی جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) وکنت علیھم شھیدا جو میں نے انہیں حکم دیا اس کی حفاظت کرنے والا تھا۔ (آیت) مادمت فیھم، مامحل نصب میں ہے یعنی وقت دوامی فیھم، (آیت) فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم بعض علماء نے فرمایا : یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھانے سے پہلے موت دی تھی لیکن صحیح نہیں ہے، کیونکہ اخبارو احادیث ان کے اٹھائے جانے پر متفق ہیں اور وہ آسمان میں زندہ ہیں وہ قرب قیامت میں آسمان سے اتریں گے، دجال کا قتل کریں گے اس کا بیان آگے آئے گا۔ اس کا معنی ہے جب تو نے مجھے آسمان کی طرف اٹھالیا۔ حسن نے کہا : وفات کا لفظ قرآن میں تین معانی میں استعمال ہوا ہے : (1) موت کے لیے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) اللہ یتوفی الانفس حین موتھا (الزمر : 42) یعنی ان کی عمر کے عرصہ کے ختم ہوتے کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں موت دیتا ہے (2) نیند۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) وھو الذی یتوفکم بالیل (الانعام : 60) یعنی وہ تمہیں رات کے وقت سلاتا ہے (3) اٹھالینا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) یعیسی انی متوفیک (آل عمران : 55) اے عیسیٰ میں تجھے اٹھانے والا ہوں۔ (آیت) کنت انت اس میں انت تاکید کے لیے ہے اور الرقیب، کنت کی خبر ہے اس کا معنی ہے ان پر نگران تھا، ان کو جاننے والا تھا اور ان کے افعال کا مشاہدہ کرنے والا تھا اس کی اصل المراقبۃ ہے یعنی تاڑنا، نگرانی کرنا۔ اسی سے مرقبہ ہے کیونکہ وہ رقیب میں بلند جگہ پر ہوتی ہے۔ (آیت) وانت علی کل شیء شہید یعنی میری بات اور ان کی بات کا مشاہدہ کرنے والا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے تو نافرمان اور اطاعت شعار کا مشاہدہ کرنے والا ہے۔ مسلم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : ہمارے درمیان رسول اللہ ﷺ نصیحت کے لیے خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے فرمایا :” اے لوگو ! تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ننگے پائوں، برہنہ بدن اور غیر مختون جمع کیے جائو گے جس طرح ہم نے ابتدا میں مخلوق کو پیدا کیا تھا ہم اسی طرح اسے لوٹائیں گے یہ ہم پر وعدہ ہے، بیشک ہم ایسا کرنے والے ہیں، خبر دار نبی مکرم ﷺ ! سب سے پہلے جس کو لباس پہنا یا جائے گا وہ ابراہیم (علیہ السلام) ہوں گے، خبردار ! میری امت کے کچھ لوگوں کو لایاجائے گا پھر انہیں دوزخ کی طرف لے جایا جائے گا، میں کہوں گا : یارب ! یہ میرے ساتھی ہیں، ارشاد ہوگا : آپ نہیں جانتے جو کچھ انہوں نے آپ کے بعد اپنی طرف سے دین میں اختراع کیا، پھر میں اسی طرح کہوں گا جس طرح صالح بندے (عیسی علیہ السلام) نے کہا تھا : (آیت) وکنت علیھم شھیدا مادمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم وانت علی کل شی شھید ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم فرمایا مجھے کہا جائے گا یہ مرتد ہوگئے تھے جب سے آپ ان سے جدا ہوئے “ (1) (مسند احمد حدیث نمبر 2096) ۔
Top