Al-Qurtubi - Al-Maaida : 118
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ١ۚ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
اِنْ : اگر تُعَذِّبْهُمْ : تو انہیں عذاب دے فَاِنَّهُمْ : تو بیشک وہ عِبَادُكَ : تیرے بندے وَاِنْ : اور اگر تَغْفِرْ : تو بخشدے لَهُمْ : ان کو فَاِنَّكَ : تو بیشک تو اَنْتَ : تو الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اگر تو انکو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں۔ اور اگر بخش دے تو (تیری مہربانی ہے) بیشک تو غالب (اور) حکمت والا ہے۔
آیت نمبر 118 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ان تعذبھم فانھم عبادک یہ بھی شرط اور جواب شرط ہیں اور (آیت) وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم یہ بھی شرط اور جواب شرط ہیں۔ نسائی نے حضرت ابو ذر سے روایت کیا ہے فرمایا نبی مکرم ﷺ ایک آیت کو ساری رات قیام میں پڑھتے رہے حتی کے صبح ہوگئی (آیت) ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم (2) (مسند احمد حدیث نمبر 21387) ، اس آیت کی تفسیر میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لیے مہربانی اور لطف طلب کرنے کے لیے کہا : جس طرح ایک سردار اپنے غلام کے لیے رحمت طلب کرتا ہے، اسی وجہ سے فانھم عصوک نہیں کہا۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ کے امر کو تسلیم کرنے کے اعتبار سے کہا اور عذاب سے پناہ طلب کرنے کے لیے کہا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کافر کو نہیں بخشے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : ان تعذبھم میں ھم ضمیر کا مرجع وہ لوگ ہیں جو کفر پر مرگئے تھے اور ان تغفرلھم میں ھم ضمیر کا مرجع وہ لوگ ہیں جنہوں نے موت سے پہلے توبہ کرلی تھی۔ یہ بہتر قول ہے۔ رہا ان کا قول جنہوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نہیں جانتے تھے کہ کافر کی بخشش نہیں ہوتی یہ ایساقول ہے کہ کتاب اللہ پر جرأت کی گئی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اخبار منسوخ نہیں ہوتی ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معلوم تھا کہ انہوں نے گناہوں کا ارتکاب کیا ہے اور آپ کے بعد انہوں نے ایسے اعمال کیے ہیں جن کا آپ نے حکم نہیں دیا تھا مگر وہ دین کے عمود (ستون) پر تھے، پس عرض کی : وان تغفرلھم یعنی اگر تو میرے بعد کے گناہ معاف کرے اور کہا (آیت) فانک انت العزیز الحکیم یہ نہیں کہا : (آیت) فانک انت الغفورالرحیم۔ کیونکہ واقعہ تسلیم امر کا تقاضا کرتا ہے اور حکم اس کی طرف تفویض کرنے کا تقاضا کرتا ہے اگر آپ (آیت) فانک انت الغفورالرحیم کہتے تو یہ وہم ہوتا کہ آپ نے ان کے لیے مغفرت کی دعا کی ہے جو شرک پر مرے ہیں اور یہ محال ہے، تقدیر اس طرح ہے کہ اگر تو انہیں باقی رکھے کفر پر حتی کہ یہ مرجائیں اور تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں توحید کی ہدایت دے اور اپنی اطاعت کی توفیق دے پھر تو انہیں بخش دے تو تو ایسا غالب ہے کہ کوئی چیز تجھے تیرے ارادے سے روک نہیں سکتی۔ الحکیم جو تو کرتا ہے اس میں حکمت ہوتی ہے تو جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ ایک جماعت نے (آیت) فانک انت الغفورالرحیم پڑھا ہے۔ یہ قرآن میں سے نہیں ہے۔ یہ قاضی عیاض نے شفا میں ذکر کیا ہے۔ ابوبکر انباری نے کہا : قرآن پر اس نے طعن کیا جس نے کہا : (آیت) فانک انت العزیز الحکیم کا ارشاد (آیت) وان تغفرلھم کے مناسب نہیں، کیونکہ مغفرت کے مناسب (آیت) فانک انت الغفورالرحیم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ احتمال نہیں رکھتا مگر جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا جب اس کی طرف اس کو نقل کیا جائے جس کی طرف اس نے نقل کیا تو معنی میں ضعف ہوگیا، کیونکہ الغفورالرحیم منفرد شرط ثانی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے شرط اول کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا اور وہ اس پر ہے جو اللہ نے نازل کیا۔ اس کی قراءت پر مسلمانوں کا اجماع ہے یہ دونوں شرطوں سے متصل ہے کیونکہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تو انہیں عذاب دے تو تو سب پر غالب اور حکمت والا ہے۔ اگر تو انہیں بخش دے تو تو سب پر غالب اور حکمت والا ہے (یعنی) دونوں امور تعذیب اور غفران میں تو غالب اور حکمت والا ہے۔ اپنے عموم کی وجہ سے یہاں عزیز و حکیم ہی بہتر ہے، کیونکہ یہ دونوں شرطوں کو جامع ہے جب کہ الغفور الرحیم یہاں درست نہیں کیونکہ یہ عموم کا احتمال نہیں رکھتا جس عموم کا احتمال (آیت) العزیز الحکیم رکھتا ہے اور پوری آیت میں جو اللہ تعالیٰ کی تعظیم، اس کا عدل اور اس کی ثناء اور مذکورہ دو شرطیں موجود ہیں اس کے اعتبار سے عزیز و حکیم ہی اولی ہے بنسبت ان اسماء کے جو بعض کلام کے مطابق ہوں اور بعض کے نہ ہوں۔ مسلم نے حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ کے طریق سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے حضرت ابراہیم کا یہ قول تلاوت کیا (آیت) رب انھن اضللن کثیرا من الناس فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفوررحیم (ابراہیم) اے میرے پروردگار ! ان بتوں نے تو گمراہ کردیا بہت سے لوگوں کو پس جو کوئی میرے پیچھے چلا تو وہ میرا ہوگا اور جس نے نافرمانی کی (تو اس کا معاملہ تیرے سپرد ہے) بیشک تو غفور رحیم ہے۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول ذکر کیا : (آیت) ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم پھر اپنے ہاتھ اٹھائے اور عرض کی : اللھم امتی اے اللہ ! میری امت کو بخش دے، پھر رونے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے جبریل ! محمد کے پاس جا اور تیرا رب بہتر جانتا ہے اور اس سے پوچھ کہ تجھے کون سی چیز رلارہی ہے ؟ جبریل امین آپ ﷺ کے پاس آئے اور یہی سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے بتایا جو انہوں نے کہا۔۔۔۔۔ اللہ بہتر جانتا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے جبریل ! میرے محبوب محمد ﷺ کے پاس جا اور اسے خوشخبری دے کہ ہم تجھے تیری امت کے معاملے میں خوش کریں گے اور تجھے پریشان نہیں کریں گے۔ بعض علماء نے فرمایا : آیت میں تقدیم و تاخیر ہے۔ اس کا معنی ہے اگر تو انہیں عذاب دے تو تو غالب، حکمت والا ہے اور اگر تو انہیں بخش دے تو وہ تیرے بندے ہیں۔ کلام کی اپنے نسق پر توجیہ اولی ہے جیسا کہ ہم نے بیان کی ہے۔ وباللہ التوفیق
Top