Al-Qurtubi - An-Naba : 15
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّ لَا نَذِیْرٍ١٘ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب قَدْ جَآءَكُمْ : تحقیق تمہارے پاس آئے رَسُوْلُنَا : ہمارے رسول يُبَيِّنُ : وہ کھول کر بیان کرتے ہیں لَكُمْ : تمہارے لیے عَلٰي : پر (بعد) فَتْرَةٍ : سلسلہ ٹوٹ جانا مِّنَ : سے (کے) الرُّسُلِ : رسول (جمع) اَنْ : کہ کہیں تَقُوْلُوْا : تم کہو مَا جَآءَنَا : ہمارے پاس نہیں آیا مِنْ : کوئی بَشِيْرٍ : خوشخبری دینے والا وَّلَا : اور نہ نَذِيْرٍ : ڈرانے والا فَقَدْ جَآءَكُمْ : تحقیق تمہارے پاس آگئے بَشِيْرٌ : خوشخبری سنانے والے وَّنَذِيْرٌ : اور ڈرانے والے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
اے اہل کتاب (پیغمبروں کے آنے کا سلسلہ جو ایک عرصہ تک منقطع رہاتو) اب تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آگئے ہیں جو تم سے (ہمارے احکام) بیان کرتے ہیں تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی خوشخبری یا ڈر سنانے والا نہیں آیا۔ سو (اب) تمہارے پاس خوشخبری اور ڈر سنانیوالے آگئے ہیں اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
آیت نمبر : 19۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یاھل الکتب قد جآء کم رسولنا “۔ یعنی محمد ﷺ (2) (ایضا) (آیت) ” یبین لکم “ ان کی حجت کو ختم کرنے کے لیے تاکہ کل تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی رسول نہیں آیا (آیت) ” علی فترۃ من الرسل، فترۃ “۔ کا معنی ہے سکون، کہا جاتا ہے۔ فتری الشی، چیز سکون کرگئی، بعض علماء نے فرمایا (آیت) ” علی فترۃ “۔ انبیاء کے درمیان انقطاعی دور، یہ ابو علی اور اہل علم کی ایک جماعت سے مروی ہے، یہ رمانی نے حکایت کیا ہے، فرمایا : اس میں اصل، اس عمل کا انقطاع ہے جس پر پہلے تھا یہ عربوں کے اس قول سے ہے، فتر عن عملہ وفترتہ عنہ “۔ وہ اپنے عمل سے رک گیا اور میں نے اسے روک دیا، اسی سے ہے فترا الماء جب اس کی گرمی ختم ہوجائے اور ٹھنڈا ہوجائے۔ امراۃ فاترۃ الطرف “ جس کی نظرختم ہوجائے، فتور البدن کفتور الماء اور سبابہ اور انگوٹھے کا درمیانی حصہ جب تو ان کا کھلا کرے، معنی یہ ہے اس سے پہلے کی مدت رسولوں کے لیے گزر گئی، اس فترت کی مدت کی مقدار میں اختلاف ہے، محمد بن سعد نے کتاب ” الطبقات “ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : حضرت موسیٰ بن عمران بن مریم (علیہما السلام) کے درمیان سترہ سو سال کا عرصہ تھا اور ان کے درمیان فترہ نہ تھا ان کے درمیان بنی اسرائیل سے ہزار نبی مبعوث فرمائے اور یہ ان کے علاوہ تھے جو دوسری قوموں سے تھے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی مکرم ﷺ کے درمیان پانچ سو انہتر سال کی مدت تھی، اس کی ابتدا میں تین انبیاء مبعوث فرمائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” اذ ارسلنا الیھم اثنین فکذبوھما فعززنا بثالث “۔ (یسین : 14) اور تیسرے جن کے ساتھ دو کو قوت بخشی وہ شمعون تھے، یہ حواریین سے تھے اور فترہ جس میں اللہ تعالیٰ نے کوئی رسول مبعوث نہیں فرمایا وہ چار سو چونتیس سال کا عرصہ تھا (1) (الطبقات الکبری لابن سعد، جلد 1، صفحہ 53) کلبی نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد (علیہ السلام) کے درمیان پانچ سو انہتر سال کا عرصہ تھا، ان کے درمیان چار انبیاء تھے ایک بنی عبس سے عرب سے تھا وہ خالد بن سنان تھا، قشیری نے کہا : اس جیسا حکم ثابت نہیں ہوتا مگر سچی خبر کے ساتھ، قتادہ نے کہا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد ﷺ کے درمیان چھ سو سال کا عرصہ تھا، یہ مقاتل، ضحاک اور وہب بن منبہ کا قول ہے مگر وہب نے بیس سال کا اضافہ کیا ہے ضحاک سے یہ بھی مروی ہے کہ چار سو تیس سے کچھ زائد سال کا عرصہ تھا، ابن سعد نے عکرمہ سے ذکر کیا ہے فرمایا : حضرت آدم اور حضرت نوح کے درمیان دس صدیاں تھیں، تمام لوگ اسلام پر تھے، ابن سعد نے کہا : ہمیں محمد بن عمرو واقد اسلمی نے کئی راویوں سے روایت کرکے بتایا کہ انہوں نے کہا : حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان دس قرون کا وقفہ تھا اور ایک قرن کے سو سال ہوتے ہیں، حضرت نوح اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان دس قرون کا عرصہ تھا اور قرون کے سو سال ہوتے ہیں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بن عمران کے درمیان دس قرون تھے اور ایک قرن کے سو سال ہوتے ہیں، اس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت محمد ﷺ کے درمیان کئی صدیاں اور سال تھے۔ (آیت) ” ان تقولوا “ یعنی لئلا یا کراھیۃ ان تقولوا یہ محل نصب میں ہے، (آیت) ” ما جآء نا من بشیر “۔ یعنی ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا نہیں آیا۔ (آیت) ” ولا نذیر “ یعنی کوئی ڈرانے والا نہیں آیا اور (آیت) ” من بشیر “ اور (آیت) ” لا نذیر “ ، بھی جائز ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : حضرت معاذ بن جبل، حضرت سعد بن عبادہ، حضرت عقبہ بن وہب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے یہود سے کہا : اسے یہود کے گروہ ! اللہ سے ڈرو اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں اور تم آپ ﷺ کی بعث سے پہلے ہمارے لیے آپ کا ذکر کرتے تھے اور تم ان کا وصف بیان کرتے ہیں پس انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نہ کوئی کتاب نازل کی، نہ ان کے بعد کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بھیجا پس یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” واللہ علی کل شیء قدیر “۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جس کو رسول بنا کر بھیجنا چاہے پر قادر ہے، بعض علماء نے فرمایا : جس کی اس نے بشارت دی جس سے اس نے ڈرایا اس پر وہ قادر ہے
Top