Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Maaida : 20
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
مُوْسٰى
: موسیٰ
لِقَوْمِهٖ
: اپنی قوم کو
يٰقَوْمِ
: اے میری قوم
اذْكُرُوْا
: تم یاد کرو
نِعْمَةَ اللّٰهِ
: اللہ کی نعمت
عَلَيْكُمْ
: اپنے اوپر
اِذْ
: جب
جَعَلَ
: اس نے پیدا کیے
فِيْكُمْ
: تم میں
اَنْۢبِيَآءَ
: نبی (جمع)
وَجَعَلَكُمْ
: اور تمہیں بنایا
مُّلُوْكًا
: بادشاہ
وَّاٰتٰىكُمْ
: اور تمہیں دیا
مَّا
: جو
لَمْ يُؤْتِ
: نہیں دیا
اَحَدًا
: کسی کو
مِّنَ
: سے
الْعٰلَمِيْنَ
: جہانوں میں
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو تم پر خدا نے جو احسان کئے ہیں ان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں پیغمبر پیدا کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا۔ اور تم کو اتنا کچھ عنایت کیا کہ اہل عالم میں سے کسی کو نہیں دیا۔
آیت نمبر :
20
تا
26
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واذ قال موسیٰ لقومہ یقوم اذکروا نعمۃ اللہ علیکم “۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان ہے کہ ان کے اسلاف نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر سرکشی کی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی، اسی طرح انہوں نے حضرت محمد ﷺ کے اوپر سرکشی کی، یہ آپ ﷺ کو تسلی دینا ہے، یعنی اے ایمان والو ! اللہ کی نعمت کو یاد کرو، جو تم پر ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کو یاد کرو، حضرت عبداللہ بن کثیر (رح) سے مروی ہے کہ انہوں نے یا قوم اذکروا “۔ (میم کے ضمہ کے ساتھ) پڑھا ہے اسی طرح جو اس کے مشابہ ہیں تقدیر یا ایھا القوم ہے۔ (آیت) ” اذ جعل فیکم انبیآء “ انبیاء غیر منصرف ہے کیونکہ اس میں الف تانیث ہے۔ (آیت) ” وجعلکم ملوکا “۔ یعنی تم پہلے فرعون کے غلام اور ان کے ہاں مجبور تھے اس کے بعد اب تم اپنے معاملہ کے مالک ہو اس معاملہ میں تم پر کوئی غالب نہیں ہے، اس نے تمہیں غرق سے نجات دی، پس وہ اس وجہ سے بادشاہ ہیں۔ سدی (رح) حسن (رح) وغیرہ نے اسی طرح تفسیر کی ہے۔ سدی (رح) نے کہا : ان میں سے ہر ایک اپنے نفس، اہل اور مال کا مالک ہوا۔ (
1
) (زادالمسیر، جلد
2
، صفحہ
190
) قتادہ ؓ نے کہا : (آیت) ” وجعلکم ملوکا “۔ فرمایا ہم بیان کرتے تھے کہ بنی آدم میں سے یہ پہلے تھے جن سے خدمت لی گئی تھی، (
2
) تفسیر طبری، جلد
6
، صفحہ
202
) ابن عطیہ (رح) نے کہا : یہ ضیعف ہے، کیونکہ قبطی لوگ بنی اسرائیل سے خدمت لیتے تھے، بنی آدم کے امر کا ظاہر یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے مسخر تھے جب سے ان کی نسل بڑھی اور ان کی تعداد زیادہ ہوگئی، تملیک کے معنی میں علماء کا اختلاف ہے (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
173
دارالکتب العلمیہ) بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے اس نے تمہیں منازل والا بنایا تم پر بغیر اجازت کے کوئی داخل نہیں ہوتا یہ مفہوم اہل علم کی ایک جماعت سے مروی ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : جب کوئی شخص کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل نہیں ہوتا تو وہ اس گھر کا مالک ہے، حسن اور زید بن اسلم سے بھی یہ مروی ہے کہ جس کا گھر، بیوی اور خادم ہو وہ مالک ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کا قول ہے جیسا کہ علم میں ابو عبدالرحمن حنبلی (رح) سے مروی ہے فرمایا : میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کو سنا جب کہ ان سے ایک شخص نے پوچھا۔ اس نے کہا کیا ہم فقراء مہاجرین میں سے نہ تھے ؟ حضرت عبداللہ نے اسے کہا : کیا تیری بیوی ہے، جس کے پاس تو رات گزارتا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں۔ فرمایا : کیا تیرے لیے کوئی منزل ہے جس میں تو رہتا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں۔ حضرت عبداللہ نے کہا : انت من الاغنیاء تو غنی لوگوں میں سے ہے، اس نے کہا : میرا خادم بھی ہے، حضرت عبداللہ ؓ نے کہا تو ملوک میں سے ہے، ابن عربی (رح) نے کہا : اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب آدمی پر کفارہ واجب ہوتا ہے اور وہ گھر اور خادم کا مالک ہوتا ہے تو ان دونوں چیزوں کو کفارہ میں بیچا جائے گا اس کے لیے روزہ رکھنا جائز نہیں، کیونکہ وہ رقبہ (غلام) پر قادر ہے اور ملوک روزہ کے ساتھ کفار ادا نہیں کرسکتے اور غلام آزاد کرنے سے عاجز تصور نہیں ہوتے۔ (
4
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
588
) حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد ؓ نے کہا : ان کو من وسلوی کے ساتھ ملوک بنایا اور پتھر سے پانی نکالنے اور بادل سے سایہ کرنے کے ساتھ انہیں ملوک بنایا۔ (
5
) (زادالمسیر، جلد
2
، صفحہ
190
) یعنی وہ ملوک کی طرح مخدوم تھے، حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ خادم اور منزل کے ساتھ ملوک بنایا، مجاہد، عکرمہ اور حکم بن عیینۃ رحمۃ اللہ علیہم کا یہی قول ہے اور انہوں نے زوج کا اضافہ کیا ہے، اسی طرح زید بن اسلم نے فرمایا : مگر انہوں نے کہا نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ جس کا گھر ہو یا فرمایا منزل ہو وہ اس کی طرف پناہ لیتا ہو، بیوی ہو، خادم ہو۔ (
6
) (تفسیر ماوردی، جلد
2
، صفحہ
25
) جو اس کی خدمت کرتا ہو تو وہ مالک ہے، یہ نحاس نے ذکر کیا ہے، کہا جاتا ہے، جو غیر سے مستغنی ہو وہ مالک ہے یہ اس طرح ہے جس طرح نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : من اصبح امنافی سربہ معافی فی بدنہ ولہ قوت یومہ فکانما حیزت لہ الدنیا بخذا فیرھا (
1
) (جامع ترمذی، کتاب الزہد، جلد
2
، صفحہ
58
، ایضا ابن ماجہ، حدیث نمبر
4130
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واتکم ‘ یعنی اس نے تمہیں عطا کیا (آیت) ” مالم یؤت احد من العلمین “۔ جمہور مفسرین کے قول میں یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے اپنی قوم کو خطاب ہے، یہی کلام کی وجہ سے، مجاہد (رح) نے کہا : ایتاء سے مراد من وسلوی، پتھر سے پانی نکالنا اور بادلوں سے سایہ کرنا ہے، بعض علماء نے فرمایا : ان میں انبیاء کی کثرت تھی، اور وہ آیات جو انکے پاس آئیں وہ مراد ہیں، بعض نے فرمایا : کھوٹ اور غش سے پاک دل مراد ہے، بعض نے فرمایا : غنائم کا حلال کرنا اور ان سے نفع اٹھانا مراد ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ قول مردود ہے، کیونکہ مال غنیمت کسی امت کے لیے حلال نہیں تھا، سوائے اس امت محمد یہ کے جیسا کہ صحیح میں ثابت ہے اس کا بیان انشاء اللہ آگے آئے گا، یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے کلام ہے انکے نفوس کو مطمئن کرنے کے لیے تاکہ قوت حاصل کریں اور جبارین کی زمین میں داخل ہونے کے امر کو مضبوطی سے پکڑی اور اس شخص کی طرح ان کا نفوذ ہو جس کو اللہ تعالیٰ عزت دیتا ہے اور اس کی شان کو بلند کرتا ہے۔ (آیت) ” من العلمین “ یعنی تمہارے زمانہ کے لوگ۔ حسن سے مروی ہے، ابن جبیر، اور ابو مالک نے کہا : یہ خطاب حضرت محمد ﷺ کی امت کو ہے (
2
) (زاد المسیر جلد
2
، صفحہ
191
) یہ ظاہر کلام سے عدول ہے جو مستحسن نہیں ہے، اخبار متفق ہیں کہ دمشق جبارین کا مکان تھا، (آیت) ” المقدسۃ “ اس کا معنی مطھرۃ ہے، مجاہد نے کہا : اس کا معنی مبارکہ ہے۔ البرکۃ قحط اور بھوک سے پاک کرنا ہے، قتادہ نے کا ہ : یہ شام کا ملک ہے، مجاہد (رح) نے کہا : طور اور اس کے اردگرد کا علاقہ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ ، سدی (رح) اور ابن زید (رح) نے کہا : یہ اریحاء ہے، زجاج نے کہا : دمشق، فلسطین اور اردن کا بعض علاقہ ہے۔ (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
174
دارالکتب العلمیہ) قتادہ ؓ کا قول ان تمام کا جامع ہے۔ (آیت) ” التی کتب اللہ لکم “ یعنی تم پر اس میں داخل ہونا فرض کیا ہے اور تمہارے اس میں داخل ہونے کا وعدہ کیا ہے، تمہارے لیے اس میں ٹھہرنے کا وعدہ کیا ہے، جب بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو انہیں اہل اریحاء سے جہاد کرنے کا حکم ملا جو فلسطین کے شہروں میں سے ہے تو انہوں نے کہا : ہمیں تو ان شہروں کا علم ہی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے امر کے ساتھ بارہ نقیب (سردار) بھیجے ہر قبیلہ سے ایک شخص تھا وہ اخبار کو تلاش کرتے تھے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے، پس انہوں نے عمالقہ میں جبارین کو دیکھا وہ بڑے خوفناک جسموں والے تھے حتی کہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ بعض نے ان نقباء کو دیکھا تو انہیں اپنی آستین میں لے لیا جب کہ ایک پھل بھی ساتھ تھا جو اس نے اپنے باغ سے توڑا تھا وہ ان نقباء کو لے کر آیا اور اپنے بادشاہ کے سامنے بکھیر دیا اور کہا : یہ لوگ ہم سے لڑنے کا ارادہ کرتے ہیں، بادشاہ نے انہیں کہا : تم اپنے ساتھی کی طرف لوٹ جاؤ اور انہیں ہماری خبر بتاؤ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، بعض نے کہا : جب وہ لوٹ کر گئے تو انہوں نے اس علاقہ کے انگوروں میں سے ایک گچھا لیا، بعض علماء نے کہا : اسے ایک شخص نے اٹھایا، بعض نے کہا : اسے بارہ نقباء نے اٹھایا۔ میں کہتا ہوں : یہ اشبہ ہے کہا جاتا ہے : جب وہ جبارین تک پہنچے تو انہوں نے انہیں دیکھا ان میں سے دو آدمی انکے ایک آدمی کی آستین میں داخل ہوتے ان کے انگوروں کا گچھا نہ اٹھایا جاتا مگر پانچ آدمی لکڑی میں اٹھاتے تھے اور انار کا دانہ جب وہ اند سے خالی کیا جاتا تو پانچ یا چار آدمی داخل ہوتے، (علامہ آلوسی نے کہا : یہ سب خرافات ہیں) میں کہتا ہوں : اس میں اور پہلے قول میں تعارض نہیں، کیونکہ وہ جابر جس نے انہیں آستین میں لیا تھا، کہا جاتا ہے، : گود میں لیا تھا، وہ عوج بن عناق تھا وہ سب سے دراز قامت تھا اور بڑے جسم والا تھا جیسا کہ آگے ذکر آئے گا، تمام لوگوں کا طول ساڑھے چھ ہاتھ تھا، کلبی نے کہا : ان میں سے ہر ایک کا طول اسی ہاتھ تھا جب ان نقباء نے خبر پھیلا دی سوائے یوشع اور کالب بن یوقنا کے تو بنی اسرائیل، جہاد سے رک گئے انہیں چالیس سال تیہ میں عذاب دیا گیا یہاں تک کہ نافرمان مر گئے اور ان کی اولاد بڑھی پھر انہوں نے جبارین سے قتال کیا اور وہ ان پر غالب آگئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا ترتدوا علی ادبارکم “۔ یعنی تم میری اطاعت سے نہ لوٹو اور جو میں نے تمہیں جبارین سے قتال کرنے کا حکم دیا ہے اس سے نہ لوٹو۔ بعض علماء نے فرمایا : اللہ کی طاعت سے معصیت کی طرف نہ لوٹو، معنی ایک ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” قالو یموسی ان فیھا قوما جبارین “۔ یعنی بڑے بڑے جسموں والے، لمبے لمبے قد والے ہیں یہ پہلے گزر چکا ہے، کہا جاتا ہے : نخلۃ جبارۃ یعنی طویل کھجور، الجبار جو عظمت والا ہو، فقر اور ذلت سے محفوظ ہو، زجاج نے کہا : آدمیوں میں جبار اسے کہتے ہیں جو سرکش ہو جو لوگوں پر اپنے ارادہ کے مطابق جبر کرتا ہو، اس بنا پر اس کی اصل الاجبار سے ہوگی جس کا معنی مجبور کرنا ہے، کیونکہ وہ اپنے ارادہ کے مطابق دوسروں کو مجبور کرتا ہے، اجبرہ اس نے اسے مجبور کیا بعض نے فرمایا : یہ جبر العظم سے مشتق ہے پس اس بنا پر جبار کی اصل اپنے امر کی اصلاح کرنے والا ہوگا پھر ہر اس شخص کے لیے استعمال ہونے لگا جو اپنے لیے نفع حاصل کرتا ہے خواہ حق کے ساھ ہو یا باطل کے ساتھ ہو، بعض نے فرمایا : جبر العظم بھی اکراہ کے معنی کی طرف راجع ہے، فراء نے کہا : میں نے فعال، افعل سے نہیں سنا مگر دو حرفوں سے جبار، من اجبر دراک من ادرک، پھر کہا گیا یہ بقایا عاد سے تھے، بعض نے فرمایا : یہ عیصوابن اسحاق کی اولاد سے تھے اور یہ روم سے تھی اور ان کے ساتھ عوج اعنق تھا، اس کا قد تین ہزار تین سو تینتیس ہاتھ تھا، یہ حضرت ابن عمر کا قول ہے، وہ اپنی کھونٹی سے بادل میں سوراخ کرتا تھا اور اس سے پانی پیتا تھا اور وہ سمندر کی تہ سے مچھلی پکڑتا تھا اور سورج کے قریب کرکے اسے بھون لیتا تھا اور پھر کھاتا تھا، طوفان نوح آیا تو وہ اس کے گھٹنے سے اوپر نہ ہوا تھا، اس کی عمر تین ہزار چھ سو سال تھی، اس نے جب اتنی بڑی چٹان اکھیڑی جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لشکر کی مقدار تھی تاکہ وہ ان پر مارے تو اللہ تعالیٰ نے ایک پرندہ بھیجا جس نے اس چٹان کو کاٹ دیا وہ چٹان اس کی گردن پر گری اور اسے گرا دیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آئے جب کہ ان کا قد دس ہاتھ تھا اس کا عصا دس ہاتھ تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دس ہاتھ اور بلند ہوئے مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) عوج کے ٹخنے تک پہنچے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا اسے لگا تو وہ مقتول ہوگیا، بعض نے کہا : آپ کا عصا اس کے ٹخنے کے نیچے والی رگ پر لگا تو وہ گرگیا اور مرگیا اور وہ مصر کے دریا نیل پر گرا ایک سال لوگوں نے اسے بطور پل استعمال کیا، اس مفہوم کو مختلف الفاظ کے ساتھ محمد بن اسحاق، طبری، اور مکی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے ذکر کیا ہے کلبی نے کہا : عوج، ہاروت وماروت کی اولاد سے تھا جب انہوں نے عورت سے برائی کی تھی اور وہ عورت حاملہ ہوگئی تھی، (ا) (یہ قول علم کلام کی تحقیقات کے خلاف ہے، مترجم) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وانا لن ندخلھا “۔ یعنی ایلیاء کا شہر اور کہا جاتا ہے : اریحاء (آیت) ” حتی یخرجوا منھا “۔ حتی کہ وہ شہر بغیر قتال کے ہمارے حوالے کردیں، بعض علماء نے فرمایا : یہ انہوں نے جبارین کے خوف کی وجہ سے کہا تھا اور انہوں نے نافرمانی کا قصد نہیں کیا تھا، کیونکہ انہوں نے کہا تھا ؛ (آیت) ” فان یخرجوا منھا فانا دخلون “۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” قال رجلن من الذین یخافون “۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ نے کہا : یہ یوشع اور کالب بن یوقنا تھے (
1
) (زادالمسیر، جلد
2
، صفحہ
193
) ابن قانیا بھی کہا جاتا تھا یہ دونوں بارہ نقیبوں میں سے تھے، (آیت) ” یخافون “۔ یعنی وہ جبارین سے ڈرتے تھے، قتادہ نے کہا : وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تھے، ضحاک نے کہا : وہ دونوں افراد جبارین کے شہر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دین پر تھے (
2
) (تفسیر طبری، جلد
6
، صفحہ
214
) اس بنا پر (آیت) ” یخافون کا معنی ہوگا وہ عمالقہ سے ڈرتے تھے طبعی حیثیت سے تاکہ وہ ان کے ایمان پر مطلع نہ ہوجائیں اور وہ انہیں فتنہ میں مبتلا کریں لیکن وہ اللہ پر یقین رکھتے تھے، بعض علماء نے فرمایا : وہ بنی اسرائیل کے ضعف اور ان کی بزدلی کا خوف رکھتے تھے، مجاہد اور ابن جبیر، نے ” یخافون “ یا کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے یہ اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے نہ تھے۔ (آیت) ” انعم اللہ علیھما “۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اسلام یا یقین اور صلاح کا انعام فرمایا۔ (آیت) ” ادخلوا علیھم الباب فاذا دخلتموہ فانکم غلبون “۔ ان دونوں نے بنی اسرائیل کو یہ کہا کہ ان کے جسموں کی بڑائی تمہیں خوف میں نہ ڈالے، ان کے دل تمہاری وجہ سے رعب سے بھرے ہوئے ہیں، ان کے اجسام بڑے ہیں اور دل کمزور ہیں وہ جان چکے تھے کہ جب وہ اس دروازہ سے داخل ہوں گے تو غلبہ انہیں ہوگا، یہ بھی احتمال ہے کہ ان دونوں نے یہ اللہ کے وعدہ پر یقین کی بنا پر کہا تھا پھر ان دونوں نے کہا : (آیت) ” وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مؤمنین “۔ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کی تصدیق کرنے والے ہو کہ وہ تمہاری مدد کرے گا، پھر پہلے قول کی بنا پر کہا گیا کہ جب ان دونوں نے یہ کہا تو بنو اسرائیل نے ان دونوں کو رجم کرنے کا ارادہ کیا، انہوں نے کہا : ہم تمہاری تصدیق کریں اور ہم دس افراد کا قول چھوڑ دیں، پھر انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : (آیت) ” انا لن ندخلھا ابدا ما داموا فیھا “۔ یہ قتال سے خالص عناد ہے اور نصرت سے مایوسی ہے، پھر وہ رب تبارک وتعالیٰ کی صفت سے جاہل تھے، انہوں نے کہا : (آیت) ” فاذھب انت وربک “۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا آنے جانے کے ساتھ وصف بیان کیا، اللہ تعالیٰ اس سے بلند وبالا ہے یہ دلیل ہے کہ وہ مشبہۃ تھے، یہ حسن کے قول کا معنی ہے، کیونکہ انہوں نے کہا : یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کا انکار ہے، اس کلام کے معنی میں یہ ظاہر ہے، بعض علماء نے کہا : یعنی تیرے رب کا تیری مدد کرنا، ہماری مدد کرنے سے زیادہ احق ہے اور اس کا تیرے ساتھ قتال کرنا، اگر تو اس کا رسول ہے۔ ہمارے قتال سے اولی ہے، یہ ان کی طرف سے کفر تھا، کیونکہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت میں شک کیا، بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے کہ تو جا اور قتل کر اور تیرا رب تیری مدد کرے، بعض نے کہا : انہوں نے رب سے مراد حضرت ہارون (علیہ السلام) لیے تھے، وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بڑے تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کی اطاعت کرتے تھے، بہرحال انہوں نے اپنے قول سے فسق کا ارتکاب کیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فلا تاس علی القوم الفسقین “۔ یعنی ان پر غمگین نہ ہوں۔ (آیت) ” انا ھھنا قعدون “۔ ہم یہاں رہیں گے اور ہم قتال نہیں کریں گے، قاعدین حال کی بنا پر جائز ہے، کیونکہ کلام اس سے پہلے مکمل ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” قال رب انی لا املک الا نفسی واخی “۔ کیونکہ وہ انکی اطاعت کرتے تھے، بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے میں صرف اپنے نفس کا مالک ہوں، پھر کلام کی ابتدا فرمائی اور فرمایا : (آیت) ” واخی “ یعنی میرا بھائی (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
176
دارالکتب العلمیہ) صرف اپنے نفس کا مالک ہے۔ (آیت) ” اخی “ پہلے قول کی بنا پر نفسی پر عطف کی بنا پر محل نصب میں ہے اور دوسرے قول کی بنا پر محل رفع میں ہے۔ اگر تو چاہے تو ان کے اسم پر عطف کرے اور وہ یا ضمیر ہے یعنی میں اور میرا بھائی ہم صرف اپنے نفسوں کے مالک ہیں اگر تو چاہے تو املک میں جو ضمیر مضمر ہے اس پر عطف کرے گویا فرمایا : لا املک انا واخی الا انفسنا ‘۔ میں اور میرا بھائی صرف اپنے نفسوں کے مالک ہیں۔ (آیت) ” فافرق بیننا وبین القوم الفسقین “۔ کہا جاتا ہے : کہا جاتا ہے : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے اور اس قوم کے درمیان جدائی کا سوال کیوں کیا ؟ اس کے کئی جوابات ہیں۔ (
1
) کیونکہ وہ حق سے بہت دور تھے اور انہوں نے جو عصیاں کا ارتکاب کیا تھا اس کی وجہ سے وہ صواب سے بہت دور چلے گئے تھے، اسی وجہ سے وہ تیہ میں ڈالے گئے۔ (
2
) تمیز طلب کرنے کے لیے یعنی ہمیں ان کی جماعت سے علیحدہ کردے اور ہمیں انکے ساتھ عقاب میں لاحق نہ کر، بعض نیف رمایا : اس کا معنی ہے ہمارے درمیان اور انکے درمیان فیصلہ فرما، یا ہمیں اپنی عصمت کے ساتھ اس نافرمانی سے محفوظ کرلے جس میں تو نے انہیں مبتلا کیا ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فیھا یفرق کل امر حکیم “۔ (الدخان) (آیت) ” یفرق “ بمعنی یقضی ہے، اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی کیا جب انہیں تیہ میں مار ڈالا، بعض علماء نے فرمایا : اس نے آخرت میں یہ فیصلہ کرنے کا ارادہ فرمایا : یعنی ہمیں جنت میں کردے اور ہمیں ان کے ساتھ آگ میں نہ ڈال فرق جو احوال میں مباعدہ (ووری) پر دلالت کرتا ہے اس پر شاہد شاعر کا قول ہے : یا رب فافرق بینہ وبینی اشد ما فرقت بین اثنین : ابن عیینہ نے عمو بن دینار سے انہوں نے عبید بن عمیر سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فافرق را کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” قال فانھا محرمۃ علیھم اربعین سنۃ یتیھون فی الارض “۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی اور انہیں تیہ میں چالیس سال سزا دی، التیہ کا اصل معنی لغت میں حیرت ہے، تاہ یتبہ تیھا وتوھا حیران ہونا، توھتہ یا اور واؤ کے ساتھ ہے اور یا زیادہ ہے، الارض التیھاء ایسی زمین جس میں ہدایت و راستہ نہ ملے، ارض تیہ وتیھاء اس سے شاعر کا قول ہے : تیہ اتاویہ علی السقاط : ایک اور شاعر نے کہا : بیتھاء قفر والمطی کا نھا قطا الحزن قد کا نت فراخا بیوضھا : بنی اسرائیل تھوڑے سے فراسخ چلتے تھے، بعض نے فرمایا : چھ فراسخ کی مقدار چلتے تھے، دن اور رات میں، صبح وہیں ہوتے تھے جہاں شام کو ہوتے تھے اور وہ شام کو وہاں ہوتے جہاں وہ صبح کو ہوتے تھے اور چلتے رہتے تھے انہیں قرار نہیں تھا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہما السلام) ان کے ساتھ تھے یا نہیں ؟ بعض نے فرمایا ہو وہ ساتھ نہیں تھے، کیونکہ تیہ سزا تھی اور تیہ کے ساتھ بچھڑنے کے ایام کی تعداد کے برابر تھے، ہر دن کے مقابلہ میں ایک سال رکھا گیا فرمایا : (آیت) ” فافرق بیننا وبین القوم الفسقین “۔ بعض نے فرمایا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) ان کے ساتھ تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر معاملہ آسان کردیا تھا، جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آگ کو ٹھنڈا اور سلامتی والا کردیا تھا، اور محرمۃ کا معنی ہے انہیں اس میں داخل ہونے سے روکا گیا تھا جیسے کہا جاتا ہے ،: حرم اللہ وجھک علی النار۔ اللہ تعالیٰ تیرے چہرے کو آگ سے محفوظ کرے، حرمت علیک دخول الدار “ ، تجھ پر گھر میں داخلہ ممنوع ہے۔ یہ تحریم منع ہے نہ تحریم شرع یہ اکثر اہل تفسیر سے مروی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : جالت لتصرعنی فقلت لھا اقصری انی امرء صرعی علیک حرام : یعنی میں شہسوار ہوں مجھے پچھاڑنا ممکن نہیں۔ ابو علی نے کہا : یہ بھی جائز ہے کہ یہ تحریم تعبد ہو، کہا جاتا ہے ،: یہ عقلاء کی ایک جماعت کے بارے میں کہنا کیسے جائز ہے کہ وہ چند فرسخ چلیں اور وہ اس سے نکلنے کی راہ نہ پائیں ؟ اس کا جواب ابو علی نے یہ دیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس زمین کو پھیر دیتا ہو جس پر وہ تھے جب وہ ہوتے ہوں اور انہیں وہ اس جگہ کی طرف لوٹا دیتا ہو جس سے انہوں نے آغاز کیا ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بطور معجزہ اشتباہ اور خروج سے مانع اسباب پیدا کردیئے ہوں۔ اربعین، التیہ کے لیے ظرف زمان ہے، یہ حسن ؓ اور قتادہ ؓ کا قول ہے اور انہیں نے کہا : ان میں سے کوئی وہاں اس عرصہ میں داخل نہ ہوا، اس صورت میں علیھم پر وقف ہوگا، ربیع بن انس وغیرہ نے کہا : کہ (آیت) ” اربعین سنۃ “۔ تحریم کی ظرف ہے۔ (
1
) (زاد المسیر، جلد
2
، صفحہ
195
) اس بنا پر اربعین سنۃ پر وقف ہوگا پہلی صورت میں معنی ہوگا کہ ان کی اولاد وہاں داخل ہوئی، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے اور ان میں سے کوئی نہ بچا مگر یوشع اور کالب، یوشع ان کی اولاد کے ساتھ اس شہر کی طرف نکالا اور اس شہر کو فتح کیا دوسری صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ چالیس سال بعد جوان میں سے باقی تھے وہ اس شہر میں داخل ہوئے، حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہما السلام) تیہ میں ہی فوت ہوگئے تھے (
2
) (تفسیر طبری، جلد
6
، صفحہ
220
) دوسرے علماء نے کہا : اللہ تعالیٰ نے یوشع کو نبوت بخشی اور انہیں جبارین سے قتال کرنے کا حکم دیا اس پر سورج کو روک دیا گیا تھا حتی کہ وہ شہر میں داخل ہوئے اس میں وہ جلایا گیا جس کے پاس مال غنیمت پایا گیا تھا پہلے لوگ جب مال غنیمت حاصل کرتے تو آسمان سے ایک سفید آگ نازل ہوتی اور وہ مال غنیمت کو کھاجاتی یہ اس کی قبولیت کی دلیل ہوتی تھی اگر جس مال غنیمت میں خیانت ہوتی تھی تو آگ اس مال کو نہ کھاتی تھی، درندے اور وحشی آتے تھے اور وہ اسے کھاتے تھے پس آگ نازل ہوئی اور اس نے مال غنیمت کو نہ کھایا، یوشع نے کہا : تم میں خیانت ہے، ہر قبیلہ میری بیعت کرے پس ہر قبیلہ نے اس کی بیعت کی، ان میں سے ایک شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چمٹ گیا، آپ نے فرمایا : تیرے پاس خیانت کا مال ہے اس نے گائے کے سر کی مقدار سونا نکالا پھر آگ نازل ہوئی اور مال غنیمت کو کھاگئی وہ آگ چاندی کی مثل سفید ہوتی تھی اس کی آواز ہوتی تھی جیسے درخت کی آواز ہوتی ہے اور پرندے کے پروں کی آواز ہوتی ہے اور علماء بیان کرتے ہیں کہ اس ہوا نے اس خیانت کرنے والے اور اس کے مال کو جلا دیا اب اسے غور عاجز کہا جاتا ہے وہ غال (خیانت کرنے والے) کے نام سے پہچانا گیا، اس کا نام عاجز تھا۔ میں کہتا ہوں : اس سے ہم سے پہلے خیانت کرنے والے کی سزا مستفاد ہوتی ہے، ہماری ملت میں مال غنیمت کا حکم گزر چکا ہے، صحیح حدیث جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے اس میں اس نبی کا اسم اور مال غنیمت کا بیان نہیں ہے، حدیث میں ہے غزابی من الانبیاء ایک نبی نے جنگ لڑی۔ اس حدیث کو مسلم نے تخریج کیا ہے اس میں ہے فرمایا : ” انہوں نے حملہ کیا پس وہ اس شہر کے قریب عصر کی نماز کے وقت پہنچے یا اس کے قریب وقت تھا، اس نبی نے سورج کو فرمایا : تو بھی حکم کا پابند ہے اور میں بھی پابند ہوں اے اللہ ! تھوڑا اسے مجھ پر روک لے پس سورج اس پر روک لیا گیا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عطا فرمائی، فرمایا : انہوں نے مال غنیمت جمع کیا تو آگ اسے کھانے کے لیے نہ آئی اور آگ نے اسے کھانے سے انکار کردیا اس نبی نے فرمایا تم میں خیانت ہے ہر قبیلہ سے ایک شخص میری بیعت کرے، انہوں نے بیعت کی، فرمایا : دو یا تین آدمیوں کا ہاتھ چمٹ گیا، یوشع نے فرمایا : ” تم میں خیانت ہے “ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الجہاد السیر جلد
2
، صفحہ
85
) پہلے کی طرح ذکر کیا، ہمارے علماء نے فرمایا : اہل اریحاء کے ساتھ جنگ کے وقت سورج کو روکنے اور جمعہ کے دن پچھلے ٹائم فتح کے قریب ہونے، فتح سے پہلے سورج کے قروب ہونے حضرت یوشع (علیہ السلام) کے ڈرنے میں حکمت یہ تھی کہ اگر ان پر سورج نہ روکا گیا تو ہفتہ کی وجہ سے ان پر جنگ حرام ہوجائے گی، ان کے دشمن کو انکی خبر ہوجائے گی پس انہوں نے ان میں تلوار چلائی اور انہوں جڑ سے اکھیڑ دیا، یہ حضرت یوشع (علیہ السلام) کی نبوت کی علامت تھی، اس کے بعد کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر سے ان کی نبوت ثابت ہوچکی تھی، واللہ اعلم۔ حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہم سے پہلے کسی امت کے لیے مال غیمت حلال نہیں تھا “۔ (
2
) (صحیح مسلم، کتاب الجہاد السیر جلد
2
، صفحہ
85
) اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ضعف اور عجز کو دیکھا پھر ہمارے لیے اسے حلال کردیا، یہ اس شخص کے قول کا رد ہے۔ جو (آیت) ” واتکم مالم یؤت احدا من العلمین “۔ کی تاویل میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد مال غنیمت کو حلال کرنا اور ان سے نفع اٹھانا ہے۔ ان علماء سے جنہوں نے کہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تیہ میں فوت ہوئے تھے ان میں عمرو بن میمون اودی ہے، اس نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کا بھی زائد ذکر کیا ہے دونوں حضرات تیہ میں کسی غار کی طرف نکلے، حضرت ہارون (علیہ السلام) کا وصال ہوگیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں دفن کردیا اور پھر بنی اسرائیل کی طرف لوٹ آئے، انہوں نے کہا : حضرت ہارون (علیہ السلام) کا کیا ہوا ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : وہ فوت ہوگئے ہیں، بنی اسرائیل نے کہا : تم نے جھوٹ بولا ہے، لیکن تو نے قتل کیا ہے، کیونکہ ہم اس سے محبت کرتے تھے، وہ بنی اسرائیل میں محبوب تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی کہ لوگوں کو حضرت ہارون (علیہ السلام) کی قبر کی طرف لے چلو، میں انہیں اٹھاؤں گا حتی کہ وہ خود انہیں بتائیں گے کہ وہ فوت ہوچکے ہیں اور تو نے اسے قتل نہیں کیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہیں حضرت ہارون (علیہ السلام) کی قبر کی طرف لے گئے پھر ندا دی : اے ہارون ! وہ قبر سے نکل آئے جب کہ اپنے سر کو جھاڑ رہے تھے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا میں تمہارا قاتل ہوں ؟ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے کہا : نہیں، لیکن میں فوت ہوگیا ہوں : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اپنی آرام گاہ کی طرف لوٹ جا، تو وہ واپس چلے گئے حسن نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تیہ میں وصال نہیں فرمایا تھا، ان کے علاوہ علماء نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اریحاء فتح کیا تھا اور یوشع لشکر کے مقدمہ پر تھے پس انہوں نے وہاں کے۔۔۔۔ لوگوں سے قتال کیا، پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ساتھ اریحاء میں داخل ہوئے اور وہاں ٹھہرے رہے جتنا کہ اللہ نے ان کا ٹھہرنا چاہا، پھر اللہ تعالیٰ نے انکی روح قبض فرمالی ان کی قبر کو کوئی نہیں جانتا، ثعلبی نے کہا : یہ قول اصح ہے۔ میں کہتا ہوں : مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : ملک الموت کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف بھیجا گیا جب عزائیل (علیہ السلام) آئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ دی ملک الموت اپنے رب کی بارگاہ میں لوٹ آئے اور عرض کی : تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے جو موت کا ارادہ نہیں کرتا، فرمایا اللہ تعالیٰ نے مالک الموت کو آنکھ لوٹا دی اور فرمایا : ان کی طرف دوبارہ جاؤ انہیں کہو کہ بیل کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ رکھو ان کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے ہر بال کے بال کے بدلے ایک سال عمر ہوگی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اے میرے پروردگار ! پھر کیا ہوگا ؟ فرمایا پھر موت ہوگی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : پھر ابھی موت دے دے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ نے سوال کیا کہ وہ اسے بیت المقدس کے پتھر پھینکنے کی مقدار قریب کر دے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اگر میں وہاں ہوتا تو میں تمہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر راستہ کی جانب سرخ ٹیلے کے نیچے دکھاتا “۔ (
1
) (صحیح مسلم کتاب الفضائل، جلد
2
، صفحہ
267
) ہمارے نبی مکرم ﷺ کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبول معلوم تھی آپ نے اس کی جگہ بیان فرمائی اور آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا جیسا کہ حدیث الاسرا میں ہے مگر یہ احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قبر کو آپ کے علاوہ مخلوق سے مخفی رکھا ہو اور لوگوں کے لیے اس کو مشہور نہ کیا ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی عبادت شروع ہوجائے، طریق (راستہ) سے مراد بیت المقدس کا راستہ ہے اور طریق کے لفظ کی جگہ جانب الطور کے الفاظ ہیں، علماء نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ملک الموت کو طمانچہ مارنے اور ان کی آنکھ پھوڑنے کی تاویل میں اختلاف کیا ہے ایک قول یہ ہے کہ آنکھ خیالی ہے حقیقی نہیں، یہ باطل ہے، کیونکہ یہ نظریہ اس طرف لے جاتا ہے کہ انبیاء کرام جو ملائکہ کی صورتیں دیکھتے ہیں ان کی حقیقت نہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ معنوی آنکھ تھی، حجت کے ساتھ اس کو پھوڑا، یہ مجاز ہے حقیقت نہیں، تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ملک الموت کو نہیں پہچانا، انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو بغیر اجازت کے انکے گھر میں داخل ہوا ہے وہ ان کی جان کا ارادہ کرتا ہے پس آپ نے اپنے نفس کا دفاع کیا اور اسے طمانچہ مارا اور اس کی آنکھ پھوڑ دی ہر ممکن کے ساتھ ایسی صورت مدافعت واجب ہے، یہ بہتر قول ہے کیونکہ آنکھ اور طمانچہ میں حقیقت ہے، یہ قول امام ابوبکر بن خزیمہ (رح) نے کہا : مگر ان پر اعتراض کیا گیا اس قول کی بنا پر جو حدیث میں ہے، وہ یہ ہے کہ ملک الموت جب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر گئے تو کہا یا رب تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے جو موت کو نہیں چاہتا (
1
) (صحیح مسلم کتاب الفضائل، جلد
2
، صفحہ
267
) اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں نہ پہچانا ہوتا تو ملک الموت کا قول سچا نہ ہوگا، اس طرح دوسری روایت میں ہے عزرائیل (علیہ السلام) نے کہا تھا اپنے رب کے حکم کا جواب دو یہ دلیل ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ملک الموت کو پہچانا تھا۔ واللہ اعلم۔ تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بہت جلد غصہ میں آنے والے تھے، جب وہ غصہ میں ہوتے تھے تو ان کی ٹوپی سے دھواں نکلتا تھا اور ان کے بدن کے بال کھڑے ہوجاتے تھے، سرعت غضب کی وجہ سے انہوں نے ملک الموت کو طمانچہ مارا ابن عربی نے کہا : یہ اس طرح ہے جس طرح تو نے ملاحظہ کیا، کیونکہ انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں اس سے کہ ابتداء ان سے حالت رضا اور غصب میں اس کی مثل واقع ہو ،۔ چوتھا قول یہ ہے : اور یہ ان تمام اقوال سے صحیح ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ملک الموت کو پہچانا تھا کہ وہ ان کی روح قبض کرنے کے لیے آئے ہیں لیکن وہ پختہ کام کرنے والے کی طرح آئے تھے کہ بغیر تخییر کے انہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی روح قبض کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس وہ بات تھی جس پر ہمارے نبی مکرم ﷺ نے نص قائم فرمائی ہے کہ ” اللہ تعالیٰ کسی نبی کی روح قبض نہیں فرماتا حتی کہ اسے اختیار ہے۔ (
2
) (صحیح بخاری کتاب المغازی، جلد
2
، صفحہ
638
، معنا) جب عزرائیل (علیہ السلام) اس طریقہ سے ہٹ کر آئے جسیحضرت موسیٰ (علیہ السلام) جانتے تھے تو انہوں نے قوت نفس اور اپنے جذبہ کی وجہ سے جلد کی اور ادب سکھایا اور اسے طمانچہ مارا اور آنکھ پھوڑ دی، یہ ملک الموت کی آزمائش تھی کیونکہ انہوں نے صراحۃ اختیار کا ذکر نہیں کیا تھا اور اس کی صحت پر دلیل یہ ہے کہ جب ملک الموت دوبارہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے تو انہیں زندگی اور موت کے درمیان اختیار دیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے موت کو اختیار کیا اور حکم الہی کو تسلیم کیا، اللہ تعالیٰ اپنے غیب کے ساتھ احکم واعلم ہے، یہ قول اصح ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بارے میں کہا گیا ہے، مفسرین نے اس کے بارے میں قصص واخبار لکھی ہیں جن کی صحت کے بارے میں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، صحیح میں ان کا ذکر نہیں ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عمر ایک سو بیس سال تھی، روایت کیا جاتا ہے کہ حضرت یوشع (علیہ السلام) کو ان کے وصال کے بعد خواب میں دیکھا اور ان سے پوچھا : آپ نے موت کو کیسا پایا ؟ انہوں نے کہا : ایسی بکری کی طرح جس کی کھال اتاری گئی جب کہ وہ زندہ ہو، یہ معنی صحیح ہے آپ ﷺ نے صحیح حدیث میں فرمایا :” موت کے لیے سختیاں ہیں (
3
) (ایضا، جلد
2
، صفحہ
640
) جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ” التذکرہ “ میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فلاتاس علی القوم الفسقین “۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ الاسی کا معنی حزن وملال ہے آسی یا سی اسی یعنی غمگین ہونا۔ شاعر نے کہا : یقولون لاتھلک اسی و تحمل : لوگ کہتے ہیں غمگین ہو کر ہلاک نہ ہو اور برداشت کر۔
Top