Al-Qurtubi - Al-Maaida : 33
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّمَا : یہی جَزٰٓؤُا : سزا الَّذِيْنَ : جو لوگ يُحَارِبُوْنَ : جنگ کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور يَسْعَوْنَ : سعی کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَسَادًا : فساد کرنے اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا : کہ وہ قتل کیے جائیں اَوْ : یا يُصَلَّبُوْٓا : وہ سولی دئیے جائیں اَوْ : یا تُقَطَّعَ : کاٹے جائیں اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَاَرْجُلُهُمْ : اور ان کے پاؤں مِّنْ : سے خِلَافٍ : ایکدوسرے کے مخالف سے اَوْ يُنْفَوْا : یا، ملک بدر کردئیے جائیں مِنَ الْاَرْضِ : ملک سے ذٰلِكَ : یہ لَهُمْ : ان کے لیے خِزْيٌ : رسوائی فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَلَهُمْ : اور ان کے لیے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کو دوڑتے پھریں انکی یہی سزا ہے کہ قتل کردیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں یا ملک سے نکال دیے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا (بھاری) عذاب (تیّار) ہے۔
آیت نمبر : 33 تا 34۔ اس آیت میں پندرہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اس آیت کے سبب نزول میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کا نظریہ یہ ہے کہ عرنیین کے بارے میں نازل ہوئی، ائمہ نے روایت کیا ہے اور یہ لفظ ابوداؤد کے ہیں، حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ عکل قبیلہ یا عرینۃ قبیلہ کے لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو انہیں مدینہ طیبہ کی ہوا راس نہ آئی رسول اللہ ﷺ نے انہیں اونٹوں کے پاس جانے کا حکم دیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے پیشاب اور انکے دودھ پئیں، وہ چلے گئے جب وہ ٹھیک ہوگئے تو انہوں نے نبی مکرم ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہانک کرلے گئے، نبی مکرم ﷺ کو ان کی خبر دن کے آغاز میں پہنچی آپ نے ان کے پیچھے آدمی بھیجے دن چڑھنے کے ساتھ ہی انہیں پکڑ کر لایا گیا، آپ ﷺ نے ان کے متعلق حکم دیا تو ان کے ہاتھ اور اور پاؤں کاٹے گئے اور ان کی آنکھوں میں لوہے کی سلاخیں ڈالی گئیں اور پتھریلے ٹیلے پر ڈالے گئے وہ پانی طلب کرتے رہے لیکن انہیں پانی نہ دیا گیا، ابو قلابہ نے کہا : یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے چوری کی، قتل کیا اور ایمان لانے کے بعد کفر کیا اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی (1) (سنن ابی داؤد کتاب الحدود، جلد 2 صفحہ 244) ایک روایت میں ہے ان کی آنکھوں میں کیل گرم کر کے لگانے کا حکم دیا تو ان کی آنکھوں میں گرم سلاخیں لگائی گئیں اور ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے گئے اور نہیں داغا نہ گیا (2) (سنن ابی داؤد کتاب الحدود، جلد 2 صفحہ 244) ایک روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیچھے پیروں کے نشان دیکھنے والے بھیجے، پس انہیں لایا، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ نازل کیا۔ (آیت) ” انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا “۔ الایۃ (3) (سنن ابی داؤد کتاب الحدود، جلد 2 صفحہ 244) ایک روایت میں ہے، حضرت انس ؓ نے فرمایا : میں نے ان میں سے ایک کو دیکھا جو پیاس کی وجہ سے زمین چاٹ رہا تھا حتی کہ وہ مر گئے، (4) (سنن ابی داؤد کتاب الحدود، جلد 2 صفحہ 244) بخاری میں ہے حضرت جریر بن عبداللہ ؓ نے اپنی حدیث میں فرمایا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے ایک گروہ میں بھیجا حتی کہ میں نے انہیں پالیا جب کہ وہ اپنے شہر کے قریب پہنچ چکے تھے ہم انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے، حضرت جریر ؓ نے کہا : وہ کہتے تھے پانی، رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے : آگ۔ اہل سیرت وتورایخ نے حکایت کیا ہے کہ انہوں نے چرواہے کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے تھے اور ان کی آنکھوں میں کانٹے چبھوئے تھے حتی کہ وہ مرگیا تھا، اسے مدینہ طیبہ میں مردہ داخل کیا گیا تھا، اس کا نما یسار تھا اور وہ نوبیا تھا، یہ مرتدین کا فعل چھ ہجری میں ہوا تھا، بعض روایات میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں قتل کرنے کے بعد آگ سے جلا دیا تھا (1) (تفسیر طبری، جلد 6، صفحہ 249) حضرت ابن عباس ؓ اور ضحاک سے مروی ہے کہ یہ اہل کتاب کی ایک قوم کے سبب نازل ہوئی ان کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان عہد تھا، انہوں نے عہد کو توڑا تھا اور ڈاکہ ڈالا تھا اور زمین میں فساد برپا کیا تھا (2) ۔ (تفسیر طبری، جلد 6، صفحہ 249) مصنف ابی داؤد میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے فرمایا : (آیت) ” انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیھم وارجلھم من خلاف اونفعوا من الارض، ذلک لھم خزیہ فی الدنیا ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم، الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم فاعلموا ان اللہ غفور رحیم “۔ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ان میں سے جو توبہ کرلے گا اس سے پہلے کہ اس پر قدارت حاصل ہوجائے، اس پر حد قائم کرنے سے مانع نہ ہوگا اس جرم کی وجہ سے جو اس نے کیا تھا، (3) (سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، جلد 2، صفحہ 245، 244) جن علماء نے فرمایا یہ آیت مشرکین کے بارے میں ہوئی ہو وہ عکرمہ ؓ اور حسن ؓ ہیں، یہ ضعیف ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ما قد سلف “۔ (الانفال : 38) اور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد الاسلام یھدم ما قبلہ “۔ (4) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 76) (مسلم) اس کا رد کرتا ہے، پہلا قول صحیح ہے، کیونکہ احادیث کی نصوص اس کے بارے میں ثابت ہیں امام مالک، امام شافعی، ابو ثور اور اصحاب الرائے نے کہا : یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی جو مسلمانوں میں سے نکلیں، ڈاکہ ڈالیں اور زمین میں فساد برپا کریں، ابن المنذر نے کہا : امام مالک (رح) کا قول صحیح ہے، ابو ثور (رح) نے اس قول کے لیے حجت قائم کرتے ہوئے کہا : اس آیت میں دلیل ہے کہ یہ مشرکوں کے علاوہ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی اور وہ یہ ارشاد ہے : (آیت) ” الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم “۔ علماء کا اجماع ہے کہ مشرکین جب ہمارے ہاتھوں میں آجائیں اور وہ اسلام قبول کرلیں تو ان کے خون حرام ہوں گے، پس یہ دلیل ہے کہ یہ آیت اہل اسلام کے بارے میں نازل ہوئی۔ طبری نے بعض اہل علم سے حکایت کیا ہے اس آیت نے نبی مکرم ﷺ کے عرنیین کے بارے میں فعل کو منسوخ کردیا، (5) (تفسیر طبری، جلد 6، صفحہ 251) پس حدود پر امر موقوف ہوگیا، محمد بن سیرین نے روایت کیا ہے فرمایا : یہ حدود کے نزول سے پہلے تھا، یعنی حضرت انس کی حدیث، ابو داؤد نے یہ ذکر کیا ہے ان میں سے ایک قوم نے کہا : جن میں لیث بن سعد بھی ہے رسول اللہ ﷺ نے عرینہ کے وفد کے ساتھ جو کیا تھا وہ منسوخ ہوگیا، کیونکہ مرتد کا مثلہ جائز نہیں، ابو الزناد نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے جب اونٹ چوری کرنے والوں کے ہاتھ کاٹے اور ان کی آنکھوں میں آگ سے گرم کرکے سلاخیں لگائی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پر عتاب فرمایا اس بارے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا او یصلبوا “ الایہ۔ اس کو ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الحدود جلد 2، صفحہ 244) ابو الزناد، نے کہا : جب مثلہ سے منع کیا گیا تو دوبارہ کبھی ایسا نہ کیا، ایک جماعت سے حکایت ہے کہ یہ آیت اس فعل کے لیے ناسخ نہیں، کیونکہ وہ مرتدین کے بارے واقع ہوا خصوصا صحیح مسلم میں اور کتاب النسائی وغیرہما میں ثابت ہے فرمایا : ان لوگوں کی آنکھوں میں سلاخیں پھیری تھیں، (2) (صحیح مسلم، کتاب القسامہ، جلد 2، صفحہ 58) کیونکہ یہ قصاص تھا، یہ آیت محارب مومن کے بارے میں ہے، میں کہتا ہوں : یہ عمدہ قول ہے، امام مالک (رح) و امام شافعی (رح) کے نظریہ کا بھی یہی معنی ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم “ یہ معلوم ہے کہ کفار کے احکام قدرت کے بعد توبہ کے ساتھ ان سے عقوبت کے زوال میں مختلف نہیں ہوتے جس طرح قدرت سے پہلے ساقط ہوتے ہیں اور مرتد نفس ردت کے ساتھ قتل کا مستحق ہوتا ہے، بغیر محاربت کے اسے نہ جلاوطن کیا جاتا ہے نہ اس کے ہاتھ پاؤں کاٹے جاتے ہیں اور نہ اس کا راستہ چھوڑا جاتا ہے بلکہ اسے قتل کیا جاتا ہے اگر اسلام قبول نہ کرے، اور اسے سولی پر بھی نہیں چڑھایا جاتا پس یہ دلیل ہے کہ آیت جس پر مشتمل ہے اس سے مراد مرتد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے حق میں فرمایا : (آیت) ” قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ما قد سلف “۔ (الانفال : 38) اور محاربین کے بارے میں فرمایا (آیت) ” الا الذین تابوا “ یہ واضھ ہے جو کچھ ہم نے باب کی ابتدا میں ثابت کیا ہے اس میں نہ کوئی اشکال ہے نہ لوم ہے اور نہ عتاب ہے کیونکہ وہ کتاب کا مقتضی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم “۔ (بقرہ : 194) پس انہوں نے مثلہ کیا تھا تو ان کا مثلہ کیا گیا مگر یہ احتمال ہے کہ عتاب اس وجہ سے ہو اگر صحیح ہے کہ قتل میں زیادتی ہوئی تھی اور وہ سلاخیں گرم کرکے انکی آنکھوں میں ڈالنا تھا اور انہیں پیاسا چھوڑ دینا تھا حتی کہ وہ مر گئے واللہ اعلم۔ طبری نے سدی سے حکایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے عرنیین کی آنکھوں میں سلاخیں نہیں ڈالیں تھیں، اس کا ارادہ فرمایا تھا، پس اس سے منع کے بارے میں یہ آیت نازل ہوگئی (3) (تفسیر طبری، جلد 6، صفحہ 252) یہ بالکل ضعیف ہے کیونکہ اخبار ثابت کرتی ہیں کہ سلاخیں انکی آنکھوں میں ڈالی گئی تھیں، بخاری میں ہے : سلاخیں گرم کی گئیں اور ان کی آنکھوں میں لگائی گئیں، (4) (صحیح بخاری، کتاب الحدود، جلد 2 صفحہ 1105) علماء کے درمیان اختلاف نہیں کہ اس آیت کا حکم اہل اسلام میں محاربین میں مرتب ہے اگرچہ مرتین یا یہود کے بارے میں نازل ہوئی تھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) ” انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ “۔ میں استعارہ اور مجاز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے نہ محاربہ کیا جاتا ہے اور نہ اس پر غلبہ پایا جاتا ہے، کیونکہ وہ صفات کمال کا حامل ہے اس کے لیے اضداد وانداد سے تنزیہ واجب ہے معنی یہ ہے کہ وہ اولیاء اللہ سے محاربہ کرتے ہیں اپنے اولیاء کو اپنی ذات سے تعبیر فرمایا ان کی ذات کی بڑائی بیان کرنے کے لیے، جس طرح الفقراء الضعفاء “۔ کو اپنی ذات سے تعبیر فرمایا : (آیت) ” من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا “۔ (بقرہ : 245) یہ فقراء پر مہربانی پر برانگیختہ کرنے کے لیے فرمایا اس کی مثال سنت میں ہے : استطعمتک فلم تطعمی (1) (صحیح مسلم، کتاب البر والصلہ جلد 2، صفحہ 316) میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا تھا، اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے، سورة بقرہ میں گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) علماء کا ان کے بارے میں اختلاف ہے جو محاربہ کے اسم کے مستحق ہیں، امام مالک (رح) نے کہا : ہمارے نزدیک محارب وہ ہے ہے جو لوگوں پر شہر میں یا جنگل میں حملہ کرے اور ان کے نفسوں اور ان کے اموال کی وجہ سے مختلف اقوال مروی ہیں انہوں نے ایک مرتبہ ایک مرتبہ مصر میں محاربہ کو ثابت کیا اور ایک مرتبہ نفی کی، ایک طائفہ نے کہا : اس کا حکم شہر یا گھروں میں، راستوں میں، دیہاتوں میں برابر ہے، اور ان کی حدود ایک ہیں، یہ امام شافعی (رح)، ابو ثور کا قول ہے، ابن المنذر نے کہا : اسی سے یہ ہے، کیونکہ تمام پر محاربۃ کا اسم واقع ہوتا ہے، کتاب عموم پر دلالت کرتی ہے، کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی قوم کو آیت سے بغیر حجت کے نکالے، ایک طائفہ نے کہا : شہر میں محاربہ نہ ہوگا، بلکہ شہر سے باہر ہوگا، یہ سفیان ثوری، اسحاق، نعمان کا قول ہے، دھوکہ دینے والا محارب کی طرح ہے دھوکہ دینے والا وہ ہے جو مال حاصل کرنے کے لیے کسی انسان کو قتل کرتا ہے۔ اگر ہتھیار کو نہ لہرایا لیکن اس پر اس کے گھر میں داخل ہوا یا سفر میں اس کو ملا اور اسے زہر کھلا دیا، اسے قتل کیا تو اس کو حدا قتل کیا جائے گا، نہ کی قصاصا قتل کیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (3) محارب کے حکم میں علماء کا اختلاف ہے، ایک جماعت نے کہا : اس کے فعل کے مقدار اس پر سزا ہوگئی، جس نے لوگوں کو ڈرایا اور مال لیا تو اس کے ہاتھ اور پاؤں برعکس کاٹے جائیں گے، اگر مال لیا اور قتل کیا تو اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے جائیں گے اور پھر اسے سولی پر لٹکایا جائے گا، جب قتل کرے اور مال نہ لوٹے تو اسے قتل کیا جائے گا اگر نہ مال لوٹا ہو اور نہ قتل کیا ہو تو اسے جلاوطن کیا جائے گا (2) (تفسیر طبری، جلد 6، صفحہ 258) یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ ابومجلز، نخعی، عطا خراسانی وغیرہم سے مروی ہے امام ابو یوسف نے کہا : جب مال بھی لوٹا ہوا اور قتل بھی کیا ہو تو اسے سولی پر لٹکایا جائے گا اور اسے سولی پر قتل کیا جائے گا (3) (احکام القرآن للجصاص، جلد 2، صفحہ 409) لیث نے کہا : نیزہ کے ساتھ سولی پر لٹکا ہوا قتل کیا جائے گا، امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : جب قتل کرے گا تو اسے قتل کیا جائے گا اور جب مال لے گا اور قتل نہیں کرے گا تو اس کے ہاتھ اور پاؤں برعکس کاٹے جائیں گے جب مال لے گا اور قتل بھی کرے گا تو سلطان کو اس میں اختیار ہوگا اگر چاہے تو اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دے اگر چاہے تو ہاتھ پاؤں نہ کاٹے اور اسے قتل کردے اور سولی پر لٹکا دے، (4) (احکام القرآن للجصاص، جلد 2، صفحہ 409) امام ابو یوسف (رح) نے کہا : ہر صورت میں قتل ہوگا، اسی طرح کا قول اوزاعی (رح) کا ہے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : جب مال لوٹے گا تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا اور اسے داغا جائے گا پھر بایاں پاؤں کاٹا جائے گا اور اسے داغا جائے گا اور اسے چھوڑ دیا جائے گا، کیونکہ یہ جنایت حرابۃ کی وجہ سے چوری پر زائد ہے، جب قتل کرے گا تو اسے قتل کیا جائے گا، جب مال لوٹے گا اور قتل کرے گا تو اسے قتل کیا جائے گا اور سولی پر لٹکایا جائے گا (5) (احکام القرآن للجصاص، جلد 2، صفحہ 409) امام شافعی (رح) سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : تین دن سولی پر لٹکایا جائے گا، فرمایا : اگر کوئی شخص آیا ڈرایا، دھمکایا اور دشمن کے لیے معاون تھا تو اسے قید کیا جائے گا، امام احمد نے فرمایا : اگر قتل کرے گا تو اسے قتل کیا جائے گا اگر مال لے گا تو اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے جائیں گے، جیسا کہ امام شافعی (رح) کا قول ہے، ایک قوم نے کہا : قتل سے پہلے سولی پر لٹکانا مناسب نہیں اس طرح تو اس کے اور اس کی نماز، کھانے، پینے کے درمیان حائل ہوا جائے گا، شافعی سے حکایت کیا گیا ہے کہ سولی پر لٹکا کر قتل کرنا ناپسند سمجھتا ہوں، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے مثلہ سے منع کیا تھا ابو ثور (رح) نے کہا : ظاہر آیت پر امام کو اختیار دیا گیا ہے اسی طرح مالک نے فرمایا اور یہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے اور یہ سعید بن مسیب، عمر بن عبدالعزیز، مجاہد ضحاک نخعی کا قول ہے تمام نے فرمایا : امام کو محاربین کے حکم میں اختیار ہے وہ ان پر ان احکام میں سے جو چاہے لگائے جو قتل اور سولی پر لٹکانے ہاتھ پاؤں کاٹنے اور جلاوطن کرنے میں واجب کیے ہیں، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : قرآن میں جہاں ” او “ آیا ہے اس میں اختیار ہے یہ قول ظاہر آیت کے زیادہ قریب ہے اور پہلے قول والے جنہوں نے کہا : ” او “ ترتیب کے لیے ہے اگرچہ ان کا اختلاف ہے، مگر تو ان کے اقوال کو پائے گا کہ وہ محارب پر دو حدوں کو جمع کرتے ہیں وہ کہتے ہیں : اسے قتل کیا جائے گا اور اسے سولی پر لٹکایا جائے گا، بعض نے کہا : اسے سولی پر لٹکایا جائے گا اور قتل کیا جائے گا، بعض نے کہا : اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے جائیں گے اور جلاوطن کیا جائے گا، اس طرح نہ آیت ہے اور نہ ” اوا “ کا معنی لغت میں اس طرح ہے، یہ نحاس کا قول ہے، پہلے قول والوں نے اس حدیث سے حجت پکڑی ہے جو طبری نے حضرت انس بن مالک (رح) سے روایت کی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جبریل سے محارب کا حکم پوچھا تو جبریل نے کہا : جو لوگوں کو ڈرائے، مال لوٹے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اس کے مال لوٹنے کی وجہ سے اور اس کا پاؤں کاٹا جائے گا اس کے ڈرانے کی وجہ سے اور جو قتل کرے اسے قتل کرو اور جو ان جرموں کو جمع کرے اسے سولی پر لٹکاؤ، ابن عطیہ نے کہا : صرف ڈرانے والے کے لیے جلاوطنی باقی ہے، (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 185 دارالکتب العلمیہ) اور ڈرانے والا قاتل کے حکم میں ہے لیکن اس کے باوجود اس میں استحسانا امام مالک (رح) ہلکا عذاب و عقاب دیکھتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اوینفوا من الارض “۔ اس کے معنی میں اختلاف ہے، سدی نے کہا : اسے گھوڑوں اور پیدل لوگوں کے ساتھ تلاش کیا جائے گا حتی کہ اسے لایا جائے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی حد قائم کی جائے گی یا وہ طلب کرنے والوں سے دارالسلام سے بھاگ کر نکل جائے، حضرت ابن عباس، حضرت انس بن مالک اور مالک بن انس حسن، سدی، ضحاک، قتادہ، سعید بن جبیر، ربیع بن انس اور زہری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مروی ہے، رمانی نے اپنی کتاب میں اس کو بیان کیا ہے، امام شافعی سے مروی ہے وہ وہ ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف نکالے جائیں گے اور انہیں تلاش کیا جائے گا تاکہ ان پر حدود قائم کی جائیں، یہ لیث بن سعد اور زہری کا بھی قول ہے، امام مالک (رح) نے یہ بھی کہا : اے شہر سے نکالا جائے گا جس میں اس نے ایسی حرکت کی اور دوسرے شہر کی طرف بھیجا جائے گا اس کو زانی کی طرح قید کیا جائے گا، امام مالک (رح) نے یہ بھی کہا اور کو فیوں نے کہا : ان کی نفی سے مراد انہیں قید کرنا ہے پس اسے دنیا میں وسعت سے، دنیا کی تنگی کی طرف جلا وطن کیا جائے گا۔ وہ اس طرح ہوجائے گا گویا جب وہ قید کیا گیا ہے تو زمین سے جلا وطن کیا گیا ہے مگر اپنی قرار گاہ سے، انہوں نے بعض قیدیوں کے ان اشعار سے حجت پکڑی ہے : خرجنا من الدنیا ونحن من اھلھا فلسنا من الاموات فیھا ولا الاحیا : اذا جاء نا السجان یوم لعاجۃ عجبنا وقلنا جاء ھذا من الدنیا : مکحول نے حکایت کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب پہلے شخص ہیں جنہوں نے جیلوں میں قید کیا، فرمایا : میں اسے قید رکھوں گا حتی کہ میں اس سے توبہ جان لوں اور میں انہیں ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف جلاوطن نہیں کروں گا کہ یہ انہیں اذیت دے گا (1) (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 248) ظاہر یہ ہے کہ الارض سے مراد ایسی زمین ہے جس میں مصیبت نازل ہوتی ہے پہلے زمانہ میں بھی لوگ اس زمین سے اجتناب کرتے تھے جس میں گناہ ہوتے تھے، اسی سے حدیث ہے ” جو شخص اپنے سینے کے ساتھ مقدس زمین کی طرف جھکا “۔ امام کے لیے مناسب ہے کہ اگر اس محارب کا خوف ہو کہ وہ دوبارہ ڈاکہ اور فساد کی طرف لوٹے گا تو وہ اسے اس شہر میں قید کر دے جس کی طرف جلا وطن کیا گیا ہے اگر یہ خوف نہیں ہے کہ وہ جنایت کی طرف لوٹے گا تو اسے چھوڑے دیا جائے گا، ابن عطیہ (رح) نے کہا : یہ امام مالک (رح) کا صریح مذہب ہے کہ اسے جلاوطن کیا جائے گا اور جہاں جلاوطن کیا جائے گا وہاں اسے قید کردیا جائے گا، یہ اغلب ہے اس کے بارے میں جس کا دوباہ ڈاکہ کرنے کا اندیشہ ہو، طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے اور یہ واضح ہے، کیونکہ جس زمین میں مصیبت نازل ہوئی ہے یہ آیت کی نص ہے اور خوف کی بناء پر اس کے بعد اسے قید کیا جائے گا اگر وہ توبہ کرلیے اور اس کی حالت بہتر سمجھی جائے تو چھوڑ دیا جائے گا (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 185 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (5) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” او ینفوا من الارض “۔ نفی کا معنی ہلاک کرنا ہے اس سے اثبات اور نفی ہے، نفی کا معنی ختم کرنے کے ساتھ ہلاک کرنا ہے، اسی سے النفایہ ہے جو ردی مال کے لیے بولا جاتا ہے اسی سے النفی اس پانی کو کہتے ہیں جو ڈول سے نکل جاتا ہے۔ راجز نے کہا : کان متنیہ من النفی مواقع الطیر علی الصفی : مسئلہ نمبر : (6) ابن خویز منداد نے کہا : محارب جو مال لے گا اس میں نصاب کا اعتبار نہیں ہوگا جس طرح چوری کرنے والے میں اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے، بعض علماء نے فرمایا اس نصاب میں (4؍1) دینار کی رعایت رکھی جائے گی، ابن عربی (رح) نے کہا : امام شافعی (رح) اور اصحاب الرائے نے فرمایا : ڈاکو کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر جب وہ اتنا مال لے جس پر چور کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں، امام مالک (رح) نے کہا : اس پر محارب کے حکم کے ساتھ حکم لگایا جائے گا، یہ صحیح قول ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کی زبان پر (4؍1) دینار کی چوری میں قطع ید مقرر فرمائی اور حرابۃ میں کوئی چیز متعین نہیں فرمائی بلکہ محارب کی جزا کا ذکر فرمایا پس یہ اس بات کا تقاضا ہے کہ ایک دانہ پر بھی محاربہ کی جزا مکمل ہے، یہ اصل پر اصل قیاس ہے اس میں اختلاف ہے۔ اعلی کا ادنی کے ساتھ قیاس اور ادنی کا اسفل کے ساتھ قیاس ہے اور یہ عکس القیاس ہے یہ کیسے صحیح ہے کہ محارب کو چور پر قیاس کیا جائے وہ چوری مال لیتا ہے اگر محسوس کرے کہ کوئی بیدار ہوگیا ہے تو بھاگ جاتا ہے حتی کہ اگر چور ہتھیار کے ساتھ کسی کے گھر میں داخل ہو اگر اسے منع کیا جائے یا شور مچایا جائے اور وہ اس پر لڑے تو وہ محارب ہے اس پر محارب کا حکم جاری ہوگا قاضی بن عربی نے کہا : میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے ایام میں تھا تو ایک شخص ایک چور کو پکڑ کرلے آیاوہ چھری کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تھا وہ گھر کے مالک کے دل پر چھری لے کر اسے روکے رہا جب کہ وہ سویا ہوا تھا اور اس کے ساتھی مال لوٹتے رہے، میں نے ان پر محاربین کا حکم لگایا، یہ اصل دین سے۔۔۔۔۔۔ کی بلندی کی طرف بڑھو، اور جاہلین کی پستی سے نکلو۔ (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2 صفحہ 601) میں کہتا ہوں : الیفع کا مطلب پہاڑ کی چوٹی ہے اس سے غلام یفعۃ ہے جب بچہ بلوغت کی طرف بلند ہو، الحضیض، وادی کی نچلی سطح کو کہتے ہیں اسی طرح اہل لغت نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حرابہ میں قتل کیا جائے گا جو قتل کرے گا اگرچہ مقتول قاتل کا ہم پلہ نہ بھی ہو، امام شافعی (رح) کے دو قول ہیں :۔ (1) مکافات کا اعتبار کیا جائے گا، کیونکہ اس نے قتل کیا ہے پس اس میں مکافات کا اعتبار ہوگا جس طرح قصاص ہے یہ ضعیف قول ہے، کیونکہ قول یہاں صرف قتل پر نہیں ہے وہ فساد وعام پر ہے لوگوں کو اس نے ڈرایا اور مال چھینا تھا۔ (2) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2 صفحہ 602) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” انما جزؤا الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان یقتلوا “ اللہ تعالیٰ نے محارب پر حدود قائم کرنے کا حکم دیا جب دو چیزیں جمع ہیں محاربۃ اور فساد فی الارض اور شریف وضیع، رفیع و دانی کا فرق نہیں۔ مسئلہ نمبر : (8) جب ڈاکو نکلیں اور قافلہ سے قتال کریں اور بعض ڈاکو قتل ہوجائیں اور بعض قتل نہ ہوں تو سب کو قتل کیا جائے گا امام شافعی (رح) نے فرمایا : اسے قتل کیا جائے گا جس نے قتل کیا، یہ بھی ضعیف ہے، کیونکہ جو جنگ میں حاضر ہوتے ہیں وہ مال غنیمت میں شریک ہوتے ہیں اگرچہ تمام جنگ کرتے نہیں ہیں، قتل پر جو معاون ہوتا ہے اس پر بھی اتفاق ہے اور وہ جاسوسی کرنے والا ہے تو محارب اولی اس جرم میں شامل ہوگا۔ (3) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2 صفحہ 602) مسئلہ نمبر : (9) جب محارب (ڈاکو) لوگوں کو ڈرائیں اور ڈاکہ ڈالیں تو انہیں دعوت اسلام دیئے بغیر امام کا انہیں قتل کرنا واجب ہے اور مسلمانوں پر ان کے قتل پر تعاون واجب ہے اور مسلمانوں سے ان کی اذیت روکنا واجب ہے، اگر وہ شکست کھاجائیں تو ان کا پیچھا نہیں کیا جائے گا مگر یہ کہ انہوں نے قتل کیا ہوا اور مال لوٹا ہو، اگر انہوں نے ایسا کیا ہوگا تو ان کو پکڑنے کے لیے اور جنایت کی حد قائم کرنے کے لیے ان کا پیچھا کیا جائے گا اور زخمیوں کا تعاقب نہیں کیا جائے گا مگر یہ کہ اس نے قتل کیا ہو، اگر داکو پکڑے گئے اور ان کے پاس مال تھا جو کسی خاص شخص کا تھا تو وہ مال اسے واپس کیا جائے گا مگر یہ کہ اس نے قتل کیا ہو، اگر ڈاکو پکڑے گئے اور ان کے پاس مال تھا جو کسی خاص شخص کا تھا تو وہ مال اسے واپس کیا جائے گا یا اس کے ورثاء کو دیا جائے گا، اگر اس کا مالک نہ ملے تو وہ بیت المال میں رکھا جائے اور جنہوں نے کسی کا مال تلف کیا ہوگا تو وہ اس کے ضامن ہوں گے اور ان کے لیے دیت نہ ہوگی جنہوں نے قتل کیا جب توبہ سے پہلے ان قدرت ہوجائے گی اگر وہ توبہ کریں گے اور توبہ کرتے ہوئے آئیں گے تو یہ صورت ہوگی۔ مسئلہ نمبر : (10) امام کو ان پر کوئی اختیار نہیں اور ان سے وہ حد ساقط ہوگی جو اللہ کے لیے ان پر تھی وہ آدمیوں کے حقوق کے بدلے پکڑے جائیں گے ان سے نفس اور زخم کا قصاص لیاجائے گا اور ان پر وہ ہوگا جو انہوں نے مال اور خون میں سے ضائع کیا ہوگا وہ مقتول کے اولیاء کے لیے ہوگا، ان کے لیے عفو اور ہبہ جائز ہوگا جس طرح محاربین کے علاوہ دوسرے مجرموں کے لیے ہوتا ہے یہ امام مالک (رح) امام شافعی (رح)، ابو ثور (رح) اور اصحاب الرائے کا مذہب ہے۔ جو مال ان کے پاس ہوگا وہ لے لیا جائے گا اور جس کو وہ ہلاک کرچکے ہوں گے اس کی قیمت کی ضمانت دیں گے، کیونکہ یہ غصب ہے اس کی ملکیت ان کے لیے جائز نہیں وہ مال مالکوں کو دیا جائے گا یا امام اپنے پاس رکھے گا حتی کہ وہ اس کا مالک جان لے، صحابہ اور تابعین کی ایک قوم نے کہا : مال طلب نہیں کیا جائے گا مگر وہ جو موجود ہوگا اور جو ہلاک ہوچکا ہوگا وہ طلب نہیں کیا جائے گا یہ طبری نے ولید بن مسلم کی روایت سے امام مالک سے روایت کیا ہے، حضرت علی ﷺ کے فعل سے یہی ظاہر ہے جو انہوں نے حارثہ بن بدر غدانی سے کیا تھا وہ محارب تھا پر اس نے پکڑے جانے سے پہلے تو بہ کرلی تھی تو آپ نے اس کے لیے اموال اور خون کے سقوط کی تحریر لکھی (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 186 دارالکتب العلمیہ) ابن خویز منداد نے کہا : محارب کے بارے میں امام مالک سے روایت مختلف ہے جب اس پر حد قائم کی جائے گی اور اس کے لیے مال نہ ہوگا تو کیا جو اس نے لیا تھا اس کا بطور دین پیچھا کیا جائے گا یا ساقط ہوجائے گا جیسے چور سے ساقط ہوجاتا ہے ؟ مسلمان اور ذمی اس میں برابر ہیں۔ مسئلہ نمبر : (11) اہل علم کا اجماع ہے کہ سلطان اس کا والی ہوتا ہے جس پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے، اگر محارب کسی شخص کا بھائی یا باپ ڈاکہ میں قتل کرتا ہے تو خون طلب کرنے والے کے لیے محاب (ڈاکو) کے امر سے کچھ نہیں ہے، ولی کے لے معاف کرنا جائز نہیں، امام اس پر حد قائم کرے گا، علماء نے اس کو اللہ کی حدود کے قائم مقام بنایا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ محاربین کے احکام تھے ہم نے بڑے بڑے احکام جمع کردیئے اور عجیب اقوال جو اس آیت کی تفسیر میں کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔ مسئلہ نمبر : (12) مجاہد نے کہا : اس آیت میں محاربہ سے مراد زنا اور چوری ہے اور یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اپنے نبی کی زبان پر بیان فرمایا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور زانی کو کوڑے لگائے جائیں گے اور اسے جلا وطن کیا جائے گا اگر وہ کنوارہ ہوگا، اور زانی کو رجم کیا جائے گا اگر وہ شادی شدہ مسلمان ہوگا، اور محارب کے احکام اس آیت میں اس کے مخالف ہیں مگر جو ہتھیار کے لہرانے کے ساتھ لوگوں کو ڈرانے کا ارادہ کرے تاکہ فروج پر غلبہ پائے یہ بہت بڑا ڈاکہ ہے اور مال لینے سے بھی زیادہ قبیح ہے۔ یہ (آیت) ” ویسمعون فی الارض فسادا “۔ کے معنی میں داخل ہے۔ مسئلہ نمبر : (13) ہمارے علماء نے فرمایا : چور سے اللہ کی قسم اٹھوائی جائے گی اگر وہ چوری سے باز آجائے گا تو اسے چھوڑ دیا جائے گا اگر وہ انکار کرے گا تو قتل کیا جائے گا، اگر تو نے چور کو قتل کردیا تو وہ برا مقتول ہے اور اس کا خون رائیگاں ہے۔ نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : یا رسول اللہ ﷺ بتائیے اگر میرے مال پر تجاوز کیا جائے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس سے اللہ کی قسم لے “۔ اس شخص نے کہا : اگر وہ مجھ سے انکار کریں ؟ فرمایا : ” اللہ کی قسم لے “ اس نے کہا : اگر وہ مجھ پر انکار کریں ؟ فرمایا ” اللہ کی قسم لے “۔ اس نے کہا : اگر وہ مجھ پر انکار کریں ؟ فرمایا ” تو اس سے لڑ اگر تو قتل ہوجائے گا تو جنت میں ہوگا اور اگر تو اسے قتل کرے گا تو وہ آگ میں ہوگا “۔ (1) بخاری ومسلم نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے لیکن اس میں قسم کا ذکر نہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے فرمایا : ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی : یا رسول اللہ : بتائیے اگر کوئی شخص میرا مال لینے کے ارادہ سے آئے ؟ فرمایا ” تو اسے اپنا مال نہ دے “۔ اس نے کہا : بتایئے اگر وہ مجھے قتل کر دے ؟ فرمایا : ” تو شہید ہے “۔ اس نے کہا : اگر میں اسے قتل کردوں ؟ فرمایا :” وہ دوزخ میں ہے “۔ ابن المنذر نے کہا : ہم نے اہل علم کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے وہ چوروں سے لڑنے اور ان سے اپنے نفسوں اور اپنے اموال کا دفاع کرنے کا نظریہ رکھتے تھے، یہ حضرت ابن عمر، حسن بصری، ابراہیم نخعی، قتادہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، اسحاق، نعمان رحمۃ اللہ علیہم کا مذہب ہے۔ عوام اہل علم کا بھی یہی قول ہے کہ ایک شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے نفس، اہل اور مال کے دفاع میں لڑے جب ظلم کا ارادہ کیا گیا ہو، یہ ان اخبار کی وجہ سے ہے جو نبی مکرم ﷺ سے مروی ہیں جن میں آپ ﷺ نے کسی وقت کو خاص نہیں فرمایا اور نہ کسی حال کو خاص فرمایا ہے، مگر سلطان اگر ظلم کرے تو بھی خروج نہ کرے، اہل حدیث کی جماعت کا اجماع ہے کہ اگر اپنے نفس اور مال کا دفاع ممکن نہ ہو مگر سلطان پر خروج کے ساتھ اور اس سے جنگ کے ساتھ تو سلطان سے نہ لڑے اور نہ اس پر خروج کرے، یہ ان اخبار کی وجہ سے ہے جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہیں جن میں ظلم وجور کے باوجود صبر کا حکم ہے اور ان سے نہ لڑنے اور ان سے خروج نہ کرنے کا حکم ہے جب تک وہ نماز قائم کریں، میں کہتا ہوں : ہمارے مذہب میں اختلاف ہے جب کوئی خفیف چیز طلب کی جائے جیسے کپڑا، کھانا وغیرہ تو کیا وہ انہیں دی جائے گی یا ان سے جنگ کی جائے گی ؟ یہ اختلاف ایک اصل پر مبنی ہے وہ یہ ہے کیا ان سے قتال کا حکم ہے، کیونکہ یہ برائی کو روکنا ہے یا ضرر کے دفع کرنے کے باب سے ہے ؟ اس بنا پر قتال سے پہلے ان کو دعوت دینے میں اختلاف ہے۔ مسئلہ نمبر : (14) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ذالک لھم خزی فی الدنیا “۔ محاربت کی شفاعت اور اس کے ضرر کے عظیم ہونے کی وجہ سے دنیا میں ان کے لیے رسوائی ہے، محاربت کا نقصان بہت بڑا ہے، کیونکہ اس میں لوگوں پر کسب کا راستہ مسدود کرتا ہے، کیونکہ اکثر لوگوں کی معیشت تجارت ہوتی ہے اور تجارت کا رکن اور ستون زمین میں سفر کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” واخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ “۔ (المزمل : 20) جب راستہ پر ڈرایا جائے گا تو لوگ سفر سے رک جائیں گے اور وہ گھروں کو الازم پکڑنے کے محتاج ہوں گے اور تجارت کا دروازہ بند ہوجائے گا اور اس کی معیشت رک جائے گی، اللہ تعالیٰ نے ڈاکوؤں پر سخت حدود کو مشروع فرمایا یہ دنیا میں رسوائی ہے تاکہ انہیں برے فعل سے روکا جائے اور تجارت کا باب کھولا جائے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے مباح فرمایا ہے جو تجارت کرنا چاہے اور آخرت میں محاربت پر عذاب عظیم کی وعید سنائی ہے یہ معصیت دوسری معصیتوں سے خارج اور مستثنی ہوگی۔ حضرت عبادہ ؓ کی حدیث کی وجہ سے جس میں نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : ” جس نے ان جرموں کا ارتکاب کیا پھر اسے دنیا میں اس کی سزا دی گئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے “۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب الحدود جلد 2، صفحہ 1004) یہ بھی احتمال ہے کی رسوائی اس کے لیے ہو جس کو سزا دی گئی اور آخرت کا عذاب اس کے لیے ہو جو دنیا میں سزا سے بچ گیا اور یہ گناہ دوسرے گناہوں کے قائم مقام ہو، اور مومن ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہے گا جیسا کہ گزر چکا ہے لیکن جتنا گناہ بڑا ہوگا سزا اتنی بڑی ہوگی پھر وہ شفاعت یا قبضہ کے ذریعہ وہ نکلے گا پھر یہ وعید، مشیت کے نفاذ کے ساتھ مشروط ہے جیسا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یغفر مادون ذلک لمن یشآء “۔ (النسائ : 48) خوف ان پر وعید کے حساب سے اور معصیت کی برائی کے اعتبار سے ان پر غالب ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (15) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم “۔ اللہ تعالیٰ نے ان توبہ کرنے والوں کی استثناء فرمائی جو قابو پائے جانے سے پہلے توبہ کرلیں اور ان سے اپنے حق کے سقوط کی خبر دی فرمایا : (آیت) ’ فاعلموا ان اللہ غفور رحیم “۔ رہا قصاص اور انسانوں کے حقوق تو وہ ساقط نہیں ہوتے، اور جو قدرت کے بعد توبہ کرلے آیت کا ظاہر اس بات کا مقتضی ہے کہ اس کو توبہ نفع نہ دے گی اور اس پر حدود قائم کی جائیں گی جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، امام شافعی (رح) کا ایک قول ہے کہ ہر حد توبہ سے ساقط ہوجاتی ہے۔ (2) (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 206) اس کا صحیح مذہب یہ ہے کہ جس کا تعلق انسانوں کے حقوق سے ہے خواہ وہ قصاص ہو یا کوئی اور ہو قدرت پائے جانے سے پہلے توبہ سے ساقط نہیں ہوتا۔ بعض علماء نے فرمایا : استثنا سے مراد مشرک ہے جب وہ قابو پائے جانے سے پہلے توبہ کرے اور ایمان لے آئے تو اس سے حدود ہوجائیں گی، یہ قول ضعیف ہے، کیونکہ وہ قدرت پائے جانے کے بعد ایمان لائے گا تو بالاجماع اسے قتل کیا جائے گا، بعض نے فرمایا : محاربین سے حد ساقط نہ ہوگی، ان پر قابو پائے جانے کے بعد، واللہ اعلم۔ کیونکہ وہ توبہ میں جھوٹ کے ساتھ اور اس میں تصنع کے ساتھ متہم ہیں جب امام کا ہاتھ انہیں پکڑ لے گا یا اس لیے جب ان پر قابو پایا گیا تو وہ ایسے مقام پر ہوگئے کہ انہیں سزا دی جائے اور ان کی توبہ قبول نہ کی جائے جیسا کہ پہلی امتوں میں جو عذاب کے ساتھ متلبس تھا یا وہ غرغرہ کی حالت تک پہنچ گیا ہے پھر اس نے توبہ کی ہے جب قابو پائے جانے سے پہلے توبہ کرلیں تو ان پر کوئی تہمت نہیں ہے یہ اسے نفع بخش ہے جیسا کہ اس کا بیان سورة یونس میں آئے گا، رہے شرابی، زانی اور چور جب وہ توبہ کی لیں اور اصلاح کرلیں اور ان سے توبہ معروف ہوجائے پھر انہیں امام کی طرف لے جایا جائے تو امام کے لیے اسے حد لگانا مناسب نہیں، اگر انہیں امام کے پاس لے جایا جائے پھر وہ کہیں : ہم نے توبہ کی تو وہ نہیں چھوڑے جائیں گے وہ اس حالت میں محاربین کی طرح ہیں جب ان پر غلبہ پایا گیا، واللہ اعلم۔
Top