Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ
: اور چور مرد
وَالسَّارِقَةُ
: اور چور عورت
فَاقْطَعُوْٓا
: کاٹ دو
اَيْدِيَهُمَا
: ان دونوں کے ہاتھ
جَزَآءً
: سزا
بِمَا كَسَبَا
: اس کی جو انہوں نے کیا
نَكَالًا
: عبرت
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ ان کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے۔ اور خدا زبردست اور صاحب حکمت ہے۔
آیت نمبر :
38
تا
39
۔ اس آیت میں ستائیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما “۔ جب اللہ تعالیٰ نے زمین میں کوشش اور فساد کے ذریعے اموال لینے کا ذکر کیا تو چور کے حکم کا ذکر بغیر حراب (جنگ) کے کیا جیسا کہ اس کا بیان باب کے درمیان آئے گا، اللہ تعالیٰ نے مراد چور کا ذکر عورت چور کے ذکر سے پہلے کیا جب کہ زانیہ کا ذکر زانی سے پہلی کیا اس کا بیان آخر میں آئے گا، زمانہ جاہلیت میں چور کا ہاتھ کاٹا گیا زمانہ جاہلیت میں جس نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا وہ ولید بن مغیرہ تھا، اللہ تعالیٰ نے اسلام میں بھی چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا مردوں میں سے اسلام میں رسول اللہ ﷺ نے جس چور کے ہاتھ پہلے کاٹنے کا حکم دیا وہ خیار بن عدی بن نوفل بن عبد المناف تھا اور عورتوں میں سے مرۃ بنت سفیان بن عبدالاسد تھی جو بنی مخزوم سے تھی، حضرت ابوبکر ؓ نے یمنی شخص کا ہاتھ کاٹا جس نے ہار چوری کیا تھا، حضرت عمر ؓ نے ابن سمرہ کا ہاتھ کاٹا جو عبدالرحمن بن سمرہ کا بھائی تھا، اس میں اختلاف نہیں آیت کا ظاہر ہر چور میں عام ہے، حالانکہ یہ اس طرح نہیں ہے، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر دینار کی چوتھائی میں یا اس سے زائد میں “ (
1
) (سنن دارقطنی، کتاب الحدود والقصاص، جلد
3
، صفحہ
189
) آپ ﷺ نے بیان فرمادیا کہ (آیت) ” السارق والسارقۃ “ سے مراد بعض چور ہیں پس چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر دینار کی چوتھائی میں یا دینار کی چوتھائی کی قیمت میں، یہ حضرت عمر بن خطاب، ؓ حضرت عثمان بن عفان ؓ اور حضرت علی ؓ کا قول ہے، حضرت عمر بن عبدالعزیز، لیث امام شافعی (رح)، ابو ثور (رح) کا بھی یہی قول ہے، امام مالک (رح) نے فرمایا : دینار کی چوتھائی یا تین دراہم کی چوری میں ہاتھا کاٹا جائے گا اگر دو درہم چوری کیے جو دینار کی چوتھائی کی برابر ہیں تو ان میں اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، سامان میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر یہ کہ وہ تین دراہم کو پہنچ جائے خواہ ان کی مالیت کم ہو یا زیادہ ہو (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
188
دارالکتب العلمیہ) امام مالک (رح) نے سونا، چاندی میں سے ہر ایک کو اصل بنایا ہے اور سامان کی قیمت دراہم سے لگائی ہے یہ ان کا مشہور قول ہے، امام احمد (رح) اور اسحاق (رح) نے کہا : اگر سونا چوری کیا تو دینار کی چوتھائی کا اعتبار ہوگا اگر سونے، چاندی کے علاوہ کوئی چیز چوری کی تو اس کی قیمت دینار کا چوتھائی یا تین دراہم کے برابر ہوگی تو حکم ثابت ہوگا، یہ امام مالک کا دوسرا قول ہے، پہلے قول کی حجت حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث ہے کہ ایک شخص نے ڈھال چوری کی اسے نبی مکرم ﷺ کے پاس لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ڈھال کی قیمت لگانے کا حکم دیا اس کی قیمت تین دراہم سے لگائی گئی۔ (
3
) (سنن دارقطنی، کتاب الحدود والقصاص، جلد
3
، صفحہ
190
) امام شافعی (رح) نے حضرت عائشہ (رح) کی حدیث کو چوتھائی دینار میں اصل بنایا اور سامان کی قیمت کو بھی اس کی طرف لوٹایا نہ کہ تین دراہم کی طرف سونے کے مہنگے اور سستے ہونے کی وجہ سے ابن عمر کی حدیث کو چھوڑ دیا، کیونکہ اس ڈھال میں صحابہ کا اختلاف دیکھا جس میں رسول اللہ ﷺ نجے ہاتھ کاٹا تھا حضرت ابن عمر کہتے ہیں : تین دراہم کی تھی (
1
) (ایضا، جلد
3
صفحہ
191
،
190
) حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : دس دراہم کی تھی۔ (
2
) (ایضا) حضرت انس ؓ کہتے ہیں : پانچ دراہم کی تھی (
3
) (ایضا) اور حضرت عائشہ ؓ کی حدیث دینار کی چوتھائی میں صحیح ثابت ہے اس میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی میں کوئی اختلاف نہیں ہے مگر بعض نے اسے موقوف بنایا ہے اور جو علماء آپ کے قول پر اس کے حفظ وعدالت کی وجہ سے عمل کو واجب سمجھتے ہیں وہ اس کو مرفوع کہتے ہیں۔ یہ ابو عمر وغیرہ کا قول ہے اس بنا پر اگر چوری شدہ مال کی قیمت دینار کی چوتھائی کو پہنچ جائے گی تو چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ یہ اسحاق کا قول ہے، ان دو اصلوں پر توقف کر اور یہ دونوں اس باب میں ستون ہیں اور جو کچھ اس کے بارے میں کہا گیا ہے اس میں سے یہ اصح ہے، امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے صاحبین اور ثوری (رح) نے کہا : چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر دس دراہم (
4
) (احکام القرآن للجصاص، جلد
2
، صفحہ
416
) میں کیلا یا دینار سونا میں یا وزن کے اعتبار سے جو اس کی مقدار کو پہنچ جائے گی اور ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا حتی کہ وہ آدمی کی ملک سے مال کو نکال لے اور ان کی حجت حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث ہے فرمایا : وہ ڈھال جس میں نبی مکرم ﷺ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا (
5
) (سنن دارقطنی، کتاب الحدود، جلد
3
، صفحہ
191
) اس کی قیمت دس دراہم تھی، اس حدیث کو عمرو بن شعیب (رح) نے اپنے باپ سے انہوں نے ان کے دادا سے روایت کیا ہے فرمایا : اس وقت ڈھال کی قیمت دس دراہم تھی۔ ان دونوں احادیث (
6
) (ایضا جلد،
3
، صفحہ
190
) کو دارقطنی وغیرہ نے تخریج کیا ہے، اس مسئلہ میں چوتھا قول بھی ہے اسے دارقطنی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر پانچ دراہم میں (
7
) (ایضا، جلد
3
، صفحہ
186
) یہ سلیمان بن یسار، ابن ابی لیلی اور ابن شبرمہ رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے حضرت انس بن مالک (رح) نے کہا : حضرت ابوبکر ؓ نے ایک ڈھال میں ہاتھ کاٹا جس کی قیمت پانچ دراہم تھی، پانچواں قول یہ ہے کہ ہاتھ چار دراہم یا اس سے زائد میں کاٹا جائے گا، یہ حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے۔ چھٹا قول یہ ہے کہ ایک درہم اور اس سے اوپر میں ہاتھ کاٹا جائے گا، یہ عثمان البتی کا قول ہے، طبری نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے ایک درہم میں ہاتھ کاٹا، ساتواں قول یہ ہے کہ آیت کے ظاہر کے مطابق ہر اس چیز کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا جس کی قیمت ہوگی یہ خوارج کا قول ہے، حسن بصری (رح) سے مروی ہے یہ ان سے مروی تین روایات میں سے ایک ہے، دوسری روایت اس طرح عمر سے مروی ہے، تیسری وہ ہے جس کو قتادہ نے حسن بصری سے روایت کیا ہے فرمایا : ہم نے قطع ید کا تذکرہ کیا کہ زیاد کے عہد میں کتنے مال پر ہوگا ہمارے رائے دو درہموں پر متفق ہوئی، یہ اقوال ایک دوسرے کے مقابل ہیں صحیح وہ ہے جو ہم نے تمہارے لیے ذکر کیا ہے، اگر کہا جائے کہ بخاری اور مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس چور پر لعنت کی ہے جو انڈہ چوری کرتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور جو رسی چوری کرتا ہے اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، یہ ظاہر آیت کے موافق ہے کہ قلیل وکثیر کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا (
1
) ، (صحیح بخاری، کتاب الحدود، جلد
2
، صفحہ
1004
) اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تحذیر کے طور پر فرمایا کثیر کی جگہ قلیل ذکر کیا جس طرح ترغیب کے لیے کثیر کی جگہ قلیل کا ذکر فرمایا۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جس نے اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنائی اگرچہ وہ کو نج کے گھونسلے کی مثل ہو، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا “ (
2
) (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصلوۃ جلد
1
، صفحہ
275
) بعض علماء نے فرمایا : یہ وجہ آخر سے مجاز ہے، یہ اس طرح ہے کہ جب تھوڑی چیز کی چوری کی وجہ سے تکلیف دیا گیا تو اس نے زیادہ چیز چوری کی تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، خوبصورت قول اعمش کا ہے، بخاری نے اس کو حدیث کے آخر میں تفسیر کے طور ذکر فرمایا : وہ لوہے کا انڈا خیال کرتے ہیں اور رسی سے مراد وہ ہے جو درہم کے مساوی ہو، میں کہتا ہوں : یہ کشتی کی رسی کی طرح اور اس کے مشابہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) جمہور علماء کا اتقاق ہے کہ قطع ید اس پر ہوگی جو محفوظ جگہ سے اس چیز کو نکالے گا جس میں قطع ید ہے، حسن بن ابی الحسن نے فرمایا : جب کپڑے ایک گھر میں جمع کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
188
دارالکتب العلمیہ) حسن بن ابی الحسن نے ایک دوسرے قول میں دوسرے اہل علم کے قول کی مثل کہا ہے۔ پس صحیح اتفاق ہوگیا۔ الحمد للہ۔ مسئلہ نمبر : (
3
) حرز سے مراد وہ جگہ ہے جو لوگوں کے اموال کی حفاظت کے لیے عادۃ بنائی جاتی ہے، یہ ہر چیز میں حالت کے مطابق مختلف ہوتی ہے، اس کا بیان آے گا، ابن المنذر نے کہا : اس باب میں کوئی خبر ثابت نہیں جس میں اہل علم کی کلام نہ ہو، یہ اہل علم کے اجماع کی طرح ہے، حسن اور اہل ظاہر سے حکایت کیا گیا ہے کہ وہ حرز کی شرط نہیں لگاتے۔ مؤطا میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہنے حضرت عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی حسین المکی سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” درختوں پر لٹکے ہوئے پھلوں میں اور پہاڑ کے ذریعے محفوظ کی گئی چیز کی چوری میں قطع ید نہیں پس جب کھلیان میں اسے رکھے تو قطع ید اس میں ہے جو ڈھال کی قیمت کو پہنچے “ (
4
) موطا امام مالک کتاب السرقۃ صفحہ
689
) ابو عمر نے کہا : یہ حدیث وہ ہے جس کا معنی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کے ہم معنی ہے، یہ عبداللہ تمام محدثین کے نزدیک ثقہ ہے، امام احمد اس کی تعریف کرتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے درخت پر لٹکے ہوئے پھلوں کے بارے پوچھا گیا تو فرمایا : ” جو ضرورت میں اس میں سے کچھ توڑے جب کہ وہ اپنا تھیلا نہ بھرے تو اس پر کوئی چیز نہیں ہے اور جو وہاں سے پھل توڑ کرلے گیا اس پر قطع ید ہے اور جس نے اس کے علاوہ کوئی چوری کی اس پر اس کی مثل چٹی ہے اور سزا ہے ‘ (
5
) (سنن نسائی کتاب قطع سارق، جلد
2
صفحہ
259
) ایک روایت میں عقوبت کی جگہ ” جلدات نکال “ کے الفاظ ہیں عطا نے فرمایا : کوڑے منسوخ کیے گئے اور اس کی جگہ قطع ید کو رکھا گیا، ابو عمر نے کہا : دو مثل چٹی کا قول منسوخ ہے، میں کسی فقیہ کو نہیں جانتا جس نے ایسا کہا ہو، مگر جو حضرت عمر ؓ سے حاطب بن ابی بلتعہ کے آٹے کے بارے میں مروی ہے جس کو امام مالک (رح) نے تخریج کیا ہے۔ ایک روایت امام احمد بن حنبل سے مروی ہے چٹی جس پر لوگوں کا نظریہ ہے وہ بالمثل کے ساتھ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم “۔ (بقرہ :
194
) تو جو تم پر زیادتی کرے تو اس پر زیادتی کرلو (لیکن) اسی قدر جتنی زیادتی اس نے تم پر کی ہو۔ ابو داؤد نے حضرت صفوان بن امیہ سے روایت کیا ہے فرمایا : میں مسجد میں ایک چادر پر سویا ہوا تھا اس کی قیمت تیس درہم تھی، ایک شخص آیا اس نے آہستہ سے وہ اٹھالی، وہ شخص پکڑا گیا، اسے نبی مکرم ﷺ کے لایا گیا آپ ﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، صفوان نے کہا : میں آیا اور عرض کی : حضور ! آپ تیس دراہم کی وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹیں گے، میں اسے وہ بیچتا ہوں اور اس کی قیمت ادھار کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ تو نے میرے پاس مقدمہ آنے سے پہلے کیوں نہ کیا تھا۔ (
1
) (سنن ابی داؤد، کتاب الحدود جلد
2
، صفحہ
247
، ایضا حدیث نمبر
3819
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ؟ نظر کی جہت سے اموال تمام مخلوق کے انتفاع کے لیے تیار کیے گئے ہیں پھر حکمت اولیت جس میں اختصاص کے ساتھ فیصلہ کیا گیا ہے وہ شرعا ملکیت ہے اور اطماع اس کے متعلق باقی ہیں اور انجام اس پر گھومتے ہیں مرؤت اور دیانت تھوڑے لوگوں کو روکتی ہے، حفاظت اور حرز بہت سے لوگوں کو روکتی ہے جب مالک اپنی چیز کی حفاظت کرتا ہے تو اس میں حفاظت وحرز جو انسان کے لیے غایت الامکان ہے وہ جمع ہوجاتی ہیں، جب ان دونوں کو توڑا جاتا ہے تو جرم بڑا ہوتا ہے اور عقوبت بھی بڑی ہوتی ہے، جب ایک حفاظت توڑی جاتی ہے اور وہ ملک ہے تو ضمانت اور ادب سکھانا واجب ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) جب ایک جماعت حرز (حفاظت کی جگہ) سے نصاب کے نکالنے پر شریک ہوجائے پھر بعض اس کے نکالنے پر قادر ہوں گے یا نہیں مگر ان کے معاون ہوں گے جب پہلی صورت ہو تو اس میں ہمارے علماء کے دو قول ہیں، ایک میں ہاتھ کاٹا جائے گا، دوسرے میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، یہی قول امام ابوحنیفہ (رح) اور شافعی (رح) کا ہے فرمایا : یہ دونوں مجتہد فرماتے ہیں مشترک لوگوں کا چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر جب ہر ایک کے حصہ میں نصاب آئے، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر دینار کی چوتھائی میں یا اس میں سے زائد “۔ (
2
) (سنن دارقطنی، جلد
3
، صفحہ
189
) میں ان میں سے ہر ایک نے نصاب چوری نہیں کی پس ان پر قطع ید نہ ہوگی اور ایک روایت میں ہاتھ کاٹنے کی وجہ یہ ہے کہ جنایت میں اشتراک اس کی سزا کو ساقط نہیں کرتا جس طرح قتل میں اشتراک سزا کو ساقط نہیں کرتا، ابن عربی (رح) نے کہا : ان کے درمیان کتنا ہی قریب ہے کہ ہم خونوں کی حفاظت کے لیے ایک کے بدلے جماعت کو قتل کرتے ہیں تاکہ خون ریزی پر معاون نہ ہوجائیں اسی طرح اموال میں ہے خصوصا ہم نے امام شافعی (رح) کی مدد کی کہ جماعت جب قطع ید میں شریک ہو تو تمام کے ہاتھ کاٹے جائیں گے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اور اگر دوسری صورت ہو وہ یہ ہے کہ اس کا نکالنا تعاون کے بغیر ممکن ہی نہ ہو تو بالاتفاق تمام کے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔ یہ ابن عربی نے ذکر کیا ہے (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
611
) مسئلہ نمبر : (
5
) اگر چوری بہت سے لوگ شریک ہوں مثلا ایک نقب لگائے دوسرا مال باہر نکالے اگر وہ دونوں معاون ہیں تو دونوں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اگر ان میں سے کوئی اپنے فعل میں منفرد ہو دونوں میں اتفاق نہ ہو (مثلا) دوسرا آئے اور مال نکالے تو کسی پر بھی قطع ید نہ ہوگی، اگر نقب میں دونوں معاون ہوں اور ایک مال نکالنے میں منفرد ہو تو قطع ید نکالنے والے پر ہوگی، امام شافعی (رح) نے فرمایا : قطع ید نہیں ہے، کیونکہ اس نے نقب لگائی ہے اور چوری نہیں کی دوسرے نے ایسی حرز سے چوری کی ہے جس کی حرمت ختم ہوچکی تھی، امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : اگر نقب میں شریک ہوا اور داخل ہوا اور مال اٹھایا تو ہاتھ کاٹا جائے گا نقب میں اشتراک میں الہ اٹھانا شرط نہیں بلکہ مارنے میں تعاقب ہے جس سے شرکت حاصل ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) اگر دونوں میں سے ایک داخل ہو اور حرز کے دروازے تک مال باہر نکالا پھر دوسرے نے ہاتھ داخل کیا اور مال لے لیا تو اس پر قطع ید ہوگی، اور پہلے کو سزا دی جائے گی، اشہب نے کہا : دونوں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے، اگر اس نے حرز سے باہر سامان کو رکھا تو قطع ید اس پر ہوگی نہ کہ اٹھانے والے پر اور اگر نقب کے درمیان میں رکھا اور دوسرے نے وہ اٹھا لیا اور دونوں کے ہاتھ نقب میں اکھٹے تھے دونوں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) قبر اور مسجد حرز ہیں کفن چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ یہ اکثر علماء کا نظریہ ہے، امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : اس پر قطع ید نہیں کیونکہ اس نے غیر حرز سے مال چوری کیا ہے جو تلف کی جگہ پر تھا اس کا کوئی مالک نہیں تھا، کیونکہ میت مالک نہیں ہوتا اور ایسا شخص نہیں ہوتا جو اسے چوری سے منع کرتا، کیونکہ وہاں کوئی رہنے والا نہیں۔ چوری وہاں تصور ہوتی ہے جہاں آنکھوں سے بچا جائے اور لوگوں سے بچا جائے، چوری کی نفی پر ماوراء النہر کے علماء نے تائید کی ہے، جمہور علماء نے کہا : وہ چور ہے، کیونکہ وہ رات کا لباس پہنتا ہے، اور لوگوں سے چھپتا ہے اور ایسے وقت کا قصد کرتا ہے جس میں اسے کوئی دیکھنے والا نہیں اور نہ اس پر کوئی گزرنے والا ہے یہ اس شخص کی مانند ہے جس میں اسے کوئی دیکھنے والا نہیں اور نہ اس پر کوئی گزرنے والا ہے، یہ اس شخص کی مانند ہے جو ایسے وقت میں چوری کرتا ہے جب لوگ عید کے لیے نکلے ہوئے ہیں اور شہر لوگوں سے خالی ہے، رہا ان کو قول کہ قبر حرز نہیں ہے یہ باطل ہے، کیونکہ ہر چیز کا حرز اس کے حسب حال پر ہوتا ہے، رہا ان کا قول کہ میت مالک نہی ہوتا یہ بھی باطل ہے، کیونکہ میت کو برہنہ چھوڑنا جائز نہیں یہ حاجت تقاضا کرتی ہے کی قبر حرز ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر اس قول سے تنبیہ فرمائی : (آیت) ” الم نجعل الارض کفاتا، احیآء وامواتا “۔ (المرسلات) تاکہ وہ زندگی میں اس زمین میں سکونت اختیار کرے اور مردہ حالت میں اس میں دفن کیا جائے، رہا ان کا قول کہ وہ تلف کی جگہ پر ہے تو وہ چیز جس کو زندہ بھی پہنتا ہے وہ بھی تلف کی جگہ ہوتا ہے اور پہننے کے ساتھ پرانا ہونے کے مقام پر ہوتا ہے۔ (
2
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
611
) مگر ایک امر دوسرے سے جلدی ہوتا ہے ابو داؤد نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے بلایا اور فرمایا : ” تو اس وقت کیسا ہوگا، جب لوگوں پر موت آئے گی اور موت اتنی زیادہ ہوگی کہ بندے کے لیے قبر کی جگہ خریدی جائے گی “ میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ” تجھے صبر لازم ہے “ (
1
) (سنن ابی داؤد کتاب الفتن، جلد
2
، صفحہ
229
) حماد نے اسی وجہ سے جنہوں نے کہا کہ قبر سے چوری کرنے والا کا ہاتھ کاٹا جائے گا، کیونکہ وہ میت کے پاس میت کے گھر میں داخل ہوا ہے۔ رہی مسجد تو جس نے مسجد کی چٹائی چوری کی اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اس کو عیسیٰ نے ابن القاسم (رح) سے روایت کیا ہے کہ اگرچہ مسجد کا دروازہ نہ بھی ہو، انہوں نے اس کو محرز خیال کیا ہے اگر دروازے سے چوری کرے تو بھی ہاتھ کاٹا جائے گا، ابن القاسم (رح) سے بھی مروی ہے کہ اگر دن کے وقت چٹایاں چوری کیں تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگر اس نے رات کو دیوار پھلانگی تو ہاتھ کاٹا جائے گا، سحنون (رح) سے مروی ہے : اگر اس کی چٹائیاں ایک دوسرے پر سلی ہوئی ہیں تو ہاتھ کاٹا جائے گا ورنہ نہیں کاٹا جائے گا، اصبغ نے کہا : مسجد کی چٹائیاں چوری کرنے اور اس کی قندیلیں اور اس کے پتھر چوری کرنے میں ہاتھ کاٹا جائے گا جیسا کہ اگر اس کا دروازہ چوری کیا یا چھت سے لکڑی چوری کی یا وہ لکڑی چوری کی جو مکان کی لکڑیوں کو اٹھاتی ہے تو ہاتھ کاٹاجائے گا، اشہب نے کتاب محمد میں کہا : مسجد کی چٹائیاں قندیلیں اور پتھر چوری کرنے سے قطع ید نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
8
) علماء کا اختلاف ہے قطع ید کے ساتھ چٹی ہوگی یا نہیں ؟ امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : قطع ید اور چٹی کو کس کے لیے جمع نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما جزآء بما کسبا نکالا من اللہ “۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جرمانے کا ذکر کیا (
2
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
612
) امام شافعی (رح) نے فرمایا : خواہ خوشحال ہو، خواہ تنگ دست ہوا سے چوری کیے ہوئے مال کی قیمت دینی ہوگی اور وہ اس پر قرض ہوگی جب خوشحال ہوگا تو ادا کرے گا، یا امام احمد اور اسحاق کا قول ہے، رہے ہمارے علماء امام مالک (رح) اور ان کے اصحاب تو انہوں نے فرمایا : اگر مال قائم ہے تو وہ لوٹا دے گا، اور اگر مال تلف ہوچکا ہے تو پھر اگر خوشحال ہے تو قیمت دے گا اگر تنگ دست ہے تو قرض کی حیثیت سے اس کا پیچھا نہیں کیا جائے گا اور اس پر کچھ واجب نہ ہوگا، امام مالک (رح) نے زہری سے اس کی مثل روایت کیا ہے۔ شیخ ابو اسحاق نے فرمایا : بعض علماء نے فرمایا : قطع ید کے ساتھ دین کی حیثیت سے اس کا پیچھا کیا جائے گا خواہ وہ خوشحال ہوگا یا تنگ دست ہوگا، فرمایا : یہ بہت سے علماء مدینہ کا قول ہے اور اس کی صحت پر اس طرح استدلال کیا گیا ہے کہ یہ دو حق ہیں جو دو مستحقوں کے لیے ہیں ایک دوسرے کو ساقط نہیں کرے گا جیسے دیت اور کفارہ ہیں پھر فرمایا : میں بھی یہی کہتا ہوں، قاضی ابوالحسن نے نبی مکرم ﷺ کے قول سے استدلال کیا ہے : ” جب چور پر حد قائم کی جائے گی تو اس پر ضمانت نہ ہوگی (
3
) (سنن نسائی، کتاب الحدود، جلد
2
، صفحہ
262
) اس نے اسے اپنی کتاب میں اپنی سند میں ذکر کیا ہے، بعض علماء نے فرمایا : چٹی کے ساتھ پیچھا کرنا بھی عقوبت ہے اور قطع ید بھی عقوبت ہے اور دو عقوبتیں جمع نہیں ہوتیں، قاضی عبدالوہاب نے اس پر اعتماد کیا ہے صحیح قول امام شافعی (رح) اور ان کے موافقین کا ہے امام شافعی (رح) نے فرمایا : چور اس مال کی چٹی دے گا جو اس نے چوری کیا خواہ وہ خوشحال ہو یا تنگ دست ہو خواہ اس کا ہاتھ کاٹا گیا ہو یا نہ کا تھا گیا ہو۔ (
1
) (زادالمسیر، جلد
2
، صفحہ
208
) اسی طرح جب ڈاکہ ڈالا تو اس کا بھی یہی حکم ہے، فرمایا : اللہ تعالیٰ کی جو حد ہے وہ بندوں کے تلف شدہ مال کو ساقط نہیں کرتی اور رہی وہ حدیث جس سے ہمارے علماء نے استدلال کیا ہے :” جب وہ تنگ دست ہو “ اس میں کو فیوں کی حجت ہے اور یہی طبری کا قول ہے اس میں کوئی دلیل نہیں ہے، اس کو نسائی اور دارقطنی نے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رح) سے روایت کیا ہے، ابو عمر ؓ نے فرمایا : یہ حدیث قوی نہیں اور اس کے ساتھ حجت قائم نہیں ہوتی، ابن عربی (رح) نے کہا : یہ حدیث باطل ہے، طبری نے کہا : قیاس یہ ہے کہ اس پر ہلاک شدہ مال کی چٹی ہو، لیکن ہم نے اس میں اثر کی وجہ سے اس کو ترک کردیا، ابو عمر ؓ نے کہا : ضعیف اثر کی وجہ سے قیاس کا ترک کرنا جائز نہیں، کیونکہ ضعیف کسی حکم کو ثابت نہیں کرتا۔ مسئلہ نمبر : (
9
) اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ چور سے چور، چوری کرلے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا یہ نہیں ؟ ہمارے علماء نے فرمایا : اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، اور امام شافعی (رح) نے فرمایا : اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، کیونکہ اس نے غیر مالک سے اور غیر حرز سے مال چوری کیا ہے، ہمارے علماء نے فرمایا : مالک کی حرمت اس مال پر باقی ہے اس سے اس کی حرمت ختم نہیں ہوئی اور چور کا ہاتھ (ملکیت) نہ ہونے کی طرح ہے جس طرح غاصب ہوتا ہے اگر اس سے مال مغصوب چوری کیا گیا تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، اگر یہ کہا جائے کہ اس کا حرز حرز نہ ہونے کی طرح بناؤ ؟ ہم کہیں گے : حرز قائم ہے اور ملکیت قائم ہے اس میں ملکیت باطل نہ ہوگی، تاکہ وہ ہمیں کہیں کہ حرز باطل کرو، (
2
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
613
) مسئلہ نمبر : (
10
) اگر مسروقہ مال میں ہاتھ کاٹے جانے کے بعد پھر اگر وہی مال چوری کرے تو اس میں علماء کا اختلاف ہے ؟ اکثر علماء کہتے ہیں : اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں : ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا (
3
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
613
) قرآن کا عموم اس پر ہاتھ کاٹنے کو ثابت کرتا ہے، یہ امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کو رد کرتا ہے، امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا قطع ید سے پہلے چور خریدنے یا ہبہ کے ساتھ مسروق مال کا مالک بن جائے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) ” والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما “۔ جب قطع بطور حق اللہ واجب ہے تو اسے کوئی چیز ساقط نہیں کرے گی۔ مسئلہ نمبر (
11
) جمہور علماء نے (آیت) ” والسارق “ کو رفع کے ساتھ پڑھا ہے سیبویہ نے کہا : اس کا معنی ہے جو تم پر چور مرد اور چور عورت کے متعلق فرض کیا گیا ہے، بعض نے فرمایا : ان میں رفع مبتدا کے اعتبار سے ہے۔ اور خبر (آیت) ” فاقطعوا ایدیھما “۔ ہے اس میں معین کا قصد نہیں ہے اگر معین کا قصد ہوتا تو نصب واجب ہوتا، تو کہتا ہے : زید اضربہ بلکہ یہ تیرے اس قول کی طرح ہے۔ من سرق فاقطع یدہ، جو چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دو ، زجاج نے کہا : یہ قول مختار ہے، السارق نصب کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے تقدیر یہ ہے : اقطعوا السارق والسارقۃ “۔ یہ سیبویہ کا مختار ہے، کیونکہ امر کے ساتھ فعل اولی ہے، سیبویہ نے کہا : کلام عرب میں وجہ نصب ہے جیسے تو کہتا ہے : زید اضربہ، لیکن عام لوگ رفع ہی پڑھتے ہیں سیبویہ نے (آیت) ” السارق “ کی نوع کو معین شخص بنایا، حضرت ابن مسعود ؓ نے پڑھا : والسارقون والسارقات فاقطعوا ایمانھم “۔ جماعت کی قرات کو یہ قول تقویت دیتا ہے، السرق والسرقۃ را میں کسرہ کے ساتھ مسروق چیز کا نام ہے اور سرق یسرق کا مصدر کے فتح کے ساتھ ہے، یہ جوہری کا قول ہے۔ اس لفظ کی اصل آنکھوں سے خفیہ کسی چیز کو لینا ہے، اسی سے استرق السمع ہے سارقہ النظر ہے، ابن عرفہ نے کہا : عربوں کے نزدیک سارق وہ ہے جو چھپ کر حرز کی طرف جائے اس سے وہ چیز اٹھا لے جو اس کی اپنی نہیں ہے، اگر ظاہرا لے تو اسے مختلس مستلب منتھب محترس کہتے ہیں اور جو کسی کے ہاتھ میں ہو اور نہ دے تو غاصب ہے۔ میں کہتا ہوں : رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ ” برا ترین چور وہ ہے جو اپنی نماز کی چوری کرتا ہے “ صحابہ نے پوچھا نماز کی کیسے چوری کرتا ہے ؟ فرمایا : ” وہ رکوع و سجود مکمل نہیں کرتا “ (
1
) (موطا امام مالک، کتاب الصلوۃ، صفحہ
153
) اس کو موطا وغیرہ نے نقل کیا ہے، اس کو سارق (چور) کہا ہے اگرچہ یہ سارق نہیں ہے تو یہ اشتقاق کی حیثیت سے ہے، کیونکہ اس میں غالب طور پر آنکھوں سے چوری نہیں کرتا۔ مسئلہ نمبر : (
12
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، فاقطعوا “۔ القطع کا معنی ہے علیحدہ کرنا اور زائل کرنا ہے اور قطع ثابت نہ ہوگا، مگر ان تمام اوصاف کے جمع ہونے کے ساتھ جو چور میں، چوری شدہ چیز میں اور چوری کی جگہ میں اور چوری کی جگہ کی صفت میں معتبر ہیں، چور میں پانچ اوصاف معتبر ہیں، بالغ ہونا، عاقل ہونا، چوری کی گئی چیز کا مالک نہ ہونا اور اس کو اس پر ولایت نہ ہو، غلام کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگر وہ اپنی مالک کا مال چوری کرے، اسی طرح مالک کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگر وہ غلام کا مال لے لے ان میں کسی حال میں قطع ید نہیں ہے، کیونکہ غلام اور اس کا مال مالک کے لیے ہے اور غلام کا مال لینے سے ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، کیونکہ اس نے اپنا مال لیا ہے اور غلام کے قطع ید کا سقوط اجماع صحابہ سے ہے اور خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب ؓ کے قول سے ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا تھا : تمہارے غلام نے تمہارا مال چوری کیا ہے، دارقطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” بھاگنے والے غلام پر قطع ید نہیں جب وہ چوری کرے اور نہ ذمی پر قطع ید ہے “ (
2
) (سنن دارقطنی جلد
3
، صفحہ
86
) فرمایا : اس حدیث کو فہد بن سلیمان کے علاوہ کسی نے مرفوع نہیں بیان کیا، صواب یہ ہے کہ یہ موقوف ہے، ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب غلام چوری کرے تو اس کو بیچ دو اگرچہ بیس درہم میں ہو “۔ (
3
) (سنن ابن ماجہ، کتاب الحدود صفحہ
189
) یہ حدیث ابوبکر بن ابی شبیہ ؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا : ہمیں اسامہ نے بیان کیا، انہوں نے ابو عوانۃ سے روایت کیا انہوں نے عمر بن ابی سلمہ سے روایت کیا، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا، ابن ماجہ نے کہا : ہمیں جبارہ بن مغلس نے بیان کیا، انہوں نے ہمیں حجاج بن تمیم نے بیان کیا، انہوں نے میمون بن مہران سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک خمس کے غلام نے خمس سے چوری کی، مقدمہ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اس کا ہاتھ نہ کاٹا، اور فرمایا : مال اللہ سرق بعض ہ بعضا، (
4
) (سنن ابن ماجہ، کتاب الحدود، صفحہ
189
) اللہ کا مال ہے بعض نے بعض کی چوری کی، جبارہ بن مغلس متروک ہے ابو زرعہ رازی نے کہا : بچے اور مجنون پر قطع ید نہیں، ذمی مجاہد اور حربی پر واجب ہے جب وہ امان کے ساتھ داخل ہو۔ اور چوری شدہ چیز میں چار اوصاف معتبر ہیں : نصاب اس پر گفتگو گزر چکی ہے وہ چیز کسی کی ملکیت ہو اور اس کا بیچنا جائز ہو اگر اس کا بیچنا جائز نہ ہو اور اس سے آدمی مال دار نہ ہوتا ہو جیسے شراب، خنزیر ان میں بالاتفاق قطع ید نہیں ہے، مگر امام مالک اور ابن القاسم کے نزدیک چھوٹا آزاد آدمی چوری کیا گیا تو اس میں قطع ید ہوگی، بعض نے فرمایا : اس پر قطع ید نہ ہوگی، یہی قول امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کا ہے۔ کیونکہ وہ مال نہیں ہے، ہمارے علماء نے فرمایا : وہ تو بڑا مال ہے چور کا ہاتھ مال کی وجہ سے نہیں کا ٹا جاتا بلکہ نفوس کے ساتھ اس کے تعلق کی وجہ سے کاٹا جاتا ہے اور آزاد کے ساتھ نفوس کا تعلق، غلام سے زیادہ ہوتا ہے اگر وہ ان چیزوں سے ہو جن کا مالک ہونا جائز ہے اور اس کا بیچنا جائز نہ ہو جیسے کتا جس کے رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اور قربانی کا گوشت اس میں ابن القاسم اور اشہب میں اختلاف ہے۔ ابن القاسم نے کہا : کتا چوری کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، اشہب نے کہا : یہ اس کتے کے بارے میں ہے جس کا رکھنا منع ہے، رہا جس کے رکھنے کی اجازت ہے اس کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا، فرمایا : جس نے قربانی کا گوشت چوری کیا یا اس کی کھال چوری کی اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، جب کہ اس کی قیمت تین دراہم ہو ابن حبیب نے کہا : اصبغ نے کہا : اگر ذبح سے پہلے قربانی چوری کی تو ہاتھ کاٹا جائے گا، اگر ذبح کے بعد چوری کی تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، اگر وہ ایک ایسی چیز ہو جس کی اصل کا بنانا اور اس کا بیچنا جائز ہو اس کے ساتھ ایسا معاملہ کیا گیا جس کا استعمال جائز نہیں جیسے طنبور اور مزمار، کنگ وغیرہ آلات لہو تو اس میں دیکھا جائے گا اگر اس کی صورت کے فساد اور اس کی منفعت کے چلے جانے کے بعد چار دینار قیمت باقی رہتی ہے یا اس سے زائد باقی رہتی ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا یہی حکم سونے اور چاندی کے برتنوں کا ہے جن کا استعمال جائز نہیں اور ان کے توڑنے کا حکم دیا جاتا ہے ان میں جو سونا چاندی ہے اس کی قیمت لگائی جائے گی نہ کہ ان کی صنعت کی، اسی طرح سونے اور چاندی کی صلیب اور ناپاک تیل کا حکم ہے اگر اس کی قیمت نجاست پر نصاب کو پہنچے تو اس میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ تیسرا وصف یہ ہے کہ اس میں چور کی ملکیت نہ ہو، مثلا جو اپنی رہن شدہ چیز کو چوری کرے یا جو اس نے اجرت پر طلب کی ہے اس کو چوری کرلیا، اور نہ اس میں شبہ ملک ہو، ہمارے علماء کا شبہ ملک کی رعاعت میں اختلاف ہے جیسے کوئی شخص مال غنیمت سے چوری کرے یا بیت المال سے چوری کرے، کیونکہ اس میں اس کا حصہ ہے، حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ ان کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے خمس سے ایک خود چوری کیا تھا تو آپ نے اس پر قطع ید کا فیصلہ نہ فرمایا۔ فرمایا اس میں اس کا حصہ ہے، یہی مذہب ہے جماعت علماء کا بیت المال کے بارے میں، بعض علماء نے فرمایا : اس پر قطع ید ہے انہوں نے آیت سرقہ کے لفظ کے عموم کا اعتبار کیا ہے چوری شدہ چیز ایسی ہو جس کا چوری کرنا صحیح ہو جیسے چھوٹا غلام، بڑا عجمی، کیونکہ جس کا چوری کرنا صحیح نہیں جیسے فصیح غلام تو اس میں قطع ید نہیں ہے۔ وہ جگہ جہاں سے چوری کی گئی ہو اس میں ایک وصف معتبر ہے اور وہ حرز ہو اس چوری شدہ چیز کی مثل کے لیے، اس میں بہرحال قول یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کے لیے مکان معروف ہو وہ مکان اس کے لیے حرز ہے، ہر وہ چیز جس کے ساتھ محافظ ہے تو اس کا محافظ اس کا حرز ہے، گھر مکانات دکانیں اس چیز کے لیے حرز ہیں جو ان میں ہے خواہ ان کے مالک حاضر ہوں یا نہ ہوں، اسی طرح بیت المال، مسلمانوں کی جماعت کے لے حرز ہے چور اس میں کسی چیز کا مستحق نہیں ہوتا اگرچہ وہ چوری سے پہلے ان لوگوں سے ہے جس کو امام کے لیے دینا جائز ہے، ہر مسلمان کا حق عطیہ سے متعین ہوتا ہے کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ امام کے لیے تمام مال کو مصالح کی وجوہ میں سے ایک وجہ میں خرچ کرنا جائز ہے اور اسے لوگوں میں تقسیم کرنا ضروری قوم کو دے، اس تقدیر میں کہ یہ چور ان لوگوں میں سے ہے جن کا اس میں کوئی حق نہیں ہے، اسی طرح مال غنیمت بھی دو حیثیتوں سے نہیں ہوتا، تقسیم کے ساتھ متعین ہوتا ہے وہ وہ ہے جو ہم نے بیت المال کے بارے میں ذکر کیا یا صرف لینے سے متعین ہوجاتا ہے جو جنگ میں حاضر ہوتا ہے پس اس میں رعایت رکھی جائے گی جو اس نے چوری کی اگر اس نے اپنے حق سے زیادہ چوری کی تو ہاتھ کاٹا جائے گا ورنہ نہیں۔ مسئلہ نمبر : (
14
) جانوروں کی پیٹھیں اس مال کے حرز ہیں جو ان پر لادا گیا ہے اور دکانوں کے صحن اس چیز کے لیے حرز ہیں جو ان میں رکھی گئی ہیں بیچنے کی جگہ میں اگرچہ وہاں دکان نہ بھی ہو، خواہ اس کے پاس اس کا مالک ہو یا نہ ہو، رات کو چوری کی گئی ہو یا دن کو، اسی طرح بازار میں بکریوں کے ٹھہرنے کی جگہ خواہ وہ باندھی ہوئی ہو یا باندھی ہوئی نہ ہو اور جانور اپنے باڑوں میں محفوظ ہوتے ہیں خواہ ان کے مالک پاس ہوں یا نہ ہوں۔ اگر سواری مسجد کے دروازے یا بازار میں ہو تو وہ محرزنہ ہوگی مگر یہ کہ اس کے ساتھ محافظ ہوں، جس نے اپنے صحن میں سواری کو باندھا یا جانوروں کے لیے کوئی باڑا بنایا تو وہ ان کے لیے حرز ہوگا اور کشتی میں جو کچھ ہے کشتی اس کے لیے حرز ہے خواہ چل رہی ہو یا باندھی ہوئی ہو اگر کشتی چوری کی گئی تو اس کا حکم جانور والا ہے اگر وہ کھلی ہو تو وہ محرزۃ (محفوظ) نہیں ہے اگر اس کے مالک نے اسے کسی جگہ باندھا ہو اور اس کو اس میں ٹھہرایا ہو اور اسے باندھا ہو تو وہ محفوظ ہے، اسی طرح اگر اس کے ساتھ کوئی ہے تو وہ کشتی جہاں بھی ہے محفوظ ہے جیسے جانور مسجد کے دروازے پر ہو اور اس کے ساتھ محافظ ہو مگر یہ کہ وہ کشتی اپنے سفر میں کسی جگہ اتاریں اور پھر اسے باندھ دیں تو وہ جگہ اسکے لیے حرز ہوگی اس کے ساتھ ملک ہو یا نہ ہو۔ مسئلہ نمبر : (
15
) اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایک گھر میں رہنے والے لوگ جیسے ہوٹل جس میں ہر شخص علیحدہ اپنے کمرے میں رہتا ہے، تو جو ان میں سے کسی کے کمرے سے چوری کرے گا جب وہ مال لیکر گھر کے صحن میں آجائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اگرچہ وہ اسے لے کر اپنے کمرے میں داخل نہیں ہوا ہے اور نہ اس کے ساتھ ہوٹل سے باہر نکلا ہے، اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ جو ہوٹل کے صحن سے کوئی چیز چوری کرے گا تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگرچہ وہ اپنے کمرے میں لے گیا ہو یا اسے ہوٹا سے باہر لے گیا ہو، کیونکہ ہوٹل کا صحن تمام کے لیے بیع وشرا کے لیے مباح ہے مگر یہ کہ سواری اپنے مربط میں ہو یا جو اس کے مشابہ مال محفوظ جگہ پر ہو تو اس کے چوری کرنے پر سزا ہوگی۔ مسئلہ نمبر : (
16
) والدین بیٹے کا مال چوری کرلیں تو ان کا ہاتھ نہیں کاٹاجائے گا، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے “ (
1
) (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، صفحہ
167
) اور بیٹا والدین کا مال چوری کرے گا تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، کیونکہ اس کے لیے اس میں کوئی شبہ نہیں، بعض علماء نے فرمایا : اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، یہ قول ابن وہب اور اشہب کا ہے، کیونکہ بیٹا عادۃ باپ کے مال میں بڑھتا ہے کیا آپ نے ملاحظہ نہیں کیا کہ غلام کا ہاتھ آقا کے مال کی وجہ سے نہیں کاٹا جاتا پس باپ کے مال کو چوری کرنے سے بیٹے کا ہاتھ نہ کاٹنا اولی ہے اور دادا کے چوری کرنے میں اختلاف ہے، امام مالک (رح) اور ابن القاسم (رح) نے کہا : اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، اشہب نے کہا : کاٹا جائے گا، امام مالک (رح) کا قول اصح ہے، کیونکہ وہ بھی باپ ہے۔ امام مالک نے فرمایا : میرے نزدیک محبوب یہ ہے کہ باپ اور ماں کی طرف سے نانا، دادا کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگرچہ ان کا نفقہ واجب نہیں ہوتا، ابن القاسم اور اشہب نے کہا : ان کے علاوہ رشتہ داروں کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : ذوی المحارم مثلا پھوپھی، خالہ، بہن وغیرہم میں سے کسی پر قطع ید نہیں ہے، ثوری کا بھی یہی قول ہے، امام مالک (رح)، امام شافعی ِرحمۃ اللہ علیہ امام احمد (رح) اور اسحاق (رح) نے کہا : ان میں سے جو چوری کرے گا اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، ابو ثور نے کہا : ہر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا جس نے اتنی مقدار چوری کی جس کی وجہ سے ہاتھ کاٹا جاتا ہے مگر یہ کہ وہ کسی چیز پر جمع ہوجائیں تو اجماع کی وجہ سے چھوڑ دیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (
17
) قرآن چوری کرنے والے میں اختلاف ہے، امام شافعی (رح) امام ابو یوسف (رح) اور ابو ثور (رح) نے کہا : اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا جب اس کی قیمت اتنی ہو کہ جس میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے، ابن القاسم نے بھی یہی کہا ہے نعمان نے کہا : اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا جو قرآن چوری کرے گا (
2
) (اختلاف ائمۃ العلماء جلد
2
، صفحہ
278
) ابن المنذر (رح) نے کہا : قرآن چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹا جائے گا، اور جیب کترے کے بارے میں اختلاف ہے جو جیب سے پیسے جیب کو کاٹ کر نکال لیتا ہے، ایک جماعت نے کہا : اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا جس نے جیب کے اندر سے یا باہر سے کاٹا، یہ امام مالک (رح)، اوزاعی (رح)، ابو ثور (رح)، اور یعقوب (رح)، کا قول ہے، امام ابوحنیفہ (رح) امام محمد بن حسن (رح) اور اسحاق (رح)، نے فرمایا : اگر دراہم آسیں (جیب) کے ظاہر میں تھے پھر چور نے اس آستین کو کاٹ کر انہیں چوری کرلیا تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اگر آستین کے اندر دراہم تھے اس نے ہاتھ اندر داخل کر کے چوری کیے تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (
18
) سفر میں قطع ید کے بارے میں اختلاف ہے اور دار الحرب میں حدود قائم کرنے میں اختلاف ہے، امام مالک (رح) لیث بن سعد (رح) نے کہا : درالحرب میں بھی حدود قائم کی جائیں گی، دارالحرب اور دارالاسلام میں کوئی فرق نہیں، اوزاعی نے کہا : جو لشکر کا امیر ہے اگرچہ وہ کسی شہر کا امیر نہیں ہے وہ قطع ید کے علاوہ حدود کو اپنے لشکر میں قائم کرے گا، امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : جب لشکر دارالحرب میں جنگ لڑ رہا ہو اور ان کا کوئی امیر ہو تو وہ اپنے لشکر میں حدود کو قائم نہیں کرے گا مگر یہ کہ مصر شام یا عراق یا اس کے مشابہ کسی مملکت کا امام ہو تو وہ لشکر میں حدود قائم کرے گا، اوزاعی اور اس کے ہم نظریہ علماء نے حضرت جنادہ بن ابی امیہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے فرمایا : ہم بسر بن ارطاۃ کے ساتھ سمندر میں تھے ایک چور کو لایا گیا جس کو مصدر کہا جاتا تھا اس نے بختی اونٹنی چوری کی تھی، اس نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : ” جنگ میں ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے (
1
) (جامع ترمذی، کتاب الحدود، جلد
1
، صفحہ
175
) اگر یہ حدیث نہ ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹتا، اس بسر کے بارے میں کہا جاتا ہے، نبی مکرم ﷺ کے زمانہ میں پیدا ہوا تھا اس کی حضرت علی ؓ اور ان کے اصحاب کے متعلق بری اخبار ہیں، یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت عبداللہ بن عباس کے دو بچے ذبح کیے تھے ان کی والدہ کی عقل ضائع ہوگئی تھی اور وہ بےچاری گھومتی رہتی تھی، حضرت علی ؓ نے اس کے خلاف بد دعا کی اللہ اس کی عمر زیادہ کرے اور اس کی عقل ضائع ہوجائے، تو اسی طرح ہوا، یحییٰ بن معین، نے کہا : بسر بن ارطاۃ برا شخص تھا جس نے قطع ید کا کہا ہے انہوں نے قرآن کے عموم سے استدلال کیا ہے اور وہ صحیح ہے انشاء اللہ تعالیٰ اور جنہوں نے دار الحرب میں قطع ید سے منع کیا ہے ان کی بہترین حجت یہ ہے کہ اس کا شرک سے لاحق ہونے کا اندیشہ ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (
19
) جب ہاتھ پاؤں کاٹا جائے گا تو کہاں تک کاٹا جائے گا ؟ اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ ہاتھ کلائی تک اور پاؤں مفصل (جوڑ) تک کاٹا جائے گا، کاٹنے کے بعد پنڈلی کو داغ دیا جائے گا (
2
) (اختلاف ائمۃ العلماء جلد
2
صفحہ
283
) بعض نے فرمایا : کہنی تک کاٹا جائے گا۔ کیونکہ ہاتھ کا اسم اس کو شامل ہے، حضرت علی ؓ نے فرمایا : پاؤں قدم کے نصف سے کاٹا جائے گا اور ایڑی کو چھوڑ دیا جائے گا یہی امام احمد (رح) اور ابو ثور کا قول ہے۔ ابن المنذر (رح) نے کہا : ہم نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک شخص کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا پھر فرمایا : ” اس کو داغ دو “ (
3
) (المستدرک علی الصحیحین، کتاب الحدود جلد
4
، صفحہ
422
) اس کی سند میں کلام ہے امام شافعی (رح) ابو ثور (رح) وغیرہماکے نزدیک داغنا مستحب ہے، یہ احسن ہے اور زخم ٹھیک ہونے زیادہ قریب ہے اور تلف سے بعید ہے۔ مسئلہ نمبر : (
20
) اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ پہلے دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا پھر دوبارہ اگر چوری کرے تو اختلاف ہے امام مالک (رح)، اہل مدینہ، امام شافعی (رح) اور ابو ثور، وغیرہم نے کہا : بایاں پاؤں کاٹا جائے گا، پھر اگر تیسری مرتبہ چوری کرے گا تو بایاں ہاتھ کاٹا جائے گا پھر چوتھی مرتبہ چوری کرے گا تو دایاں پاؤں کاٹا جائے گا پھر اگر پانچویں مرتبہ چوری کرے گا تو اسے تعزیر لگائی جائے گی اور قید کردیا جائے گا، ابو مصعب ؓ نے کہا : چوتھی مرتبہ کے بعد قتل کیا جائے گا انہوں نے نسائی کی حدیث سے حجت پکڑی ہے جو انہوں نے حضرت حارث بن حاطب سے روایت کی ہے رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چور لایا گیا آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس کو قتل کردو “ ، لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ ! اس نے چوری کی تو اس کا پاؤں کاٹا گیا پھر اس نے حضرت ابوبکر کے عہد میں چوری کی حتی کہ اس کے تمام ہاتھ پاؤں کاٹے گئے پھر اس نے پانچویں مرتبہ چوری کی تو حضرت ابوبکر ؓ نے کہا : رسول اللہ ﷺ اس کو زیادہ جانتے تھے جب آپ نے کہا تھا کہ اسے قتل کردو، پھر اسے قریش کے جوانوں کی طرف بھیجا تاکہ وہ اسے قتل کردیں، ان میں حضرت عبداللہ بن زبیر بھی تھے وہ امارت کو پسند کرتے تھے، انہوں نے کہا : تم مجھے اپنے اوپر امیر بناؤ تو لوگوں نے انہیں امیر بنا دیا، پس جب حضرت عبداللہ ؓ نے مارا تو لوگوں نے بھی اسے مارا حتی کہ انہوں نے اسے قتل کردیا (
1
) (سنن نسائی، کتاب قطع السارق، جلد
2
، صفحہ
261
) اور حضرت جابر کی حدیث سے حجت پکڑی کہ نبی کریم ﷺ نے پانچویں مرتبہ چوری کرنے والے کے لیے حکم دیا فرمایا :” اے قتل کردوں “۔ حضرت جابر نے کہا : ہم اسے لے کر چلے اور ہم نے اسے قتل کردیا پھر ہم نے اسے گھسیٹا اور اسے کنویں میں پھینک دیا اور ہم نے اس پر پتھر پھینکے۔ (
2
) (سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، جلد
2
، صفحہ
249
) ابو داؤد نے اسے روایت کیا ہے اور نسائی نے اسے نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ حدیث منکر ہے، ایک راوی قوی نہیں ہے اور میں اس باب میں کوئی صحیح حدیث نہیں جانتا، ابن المنذر نے کہا : حضرت ابوبکر ؓ اور عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے ہاتھ کے بعد ہاتھ اور پاؤں کے پاؤں کاٹا، بعض نے فرمایا : دوسری مرتبہ بایاں پاؤں کاٹا جائے گا پھر اس کے بعد قطع نہیں ہے پھر اگر چوری کرے گا تو تعزیر دی جائے گی اور قید کیا جائے گا، یہ حضرت علی ؓ سے مروی ہے، اور زہری، حماد بن ابی سلیمان اور امام احمد بن حنبل کا یہی قول ہے۔ (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
189
دارالکتب العلمیہ) ازہری نے کہا : ہمیں سنت نہیں پہنچی مگر ہاتھ اور پاؤں کا کانٹا، عطا نے کہا : خاص دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا اور پھر کوئی عضو نہیں کاٹا جائے گا، یہ ابن عربی نے ذکر کیا ہے، فرمایا : رہا عطا کا قول صحابہ کرام نے اس سے پہلے اس کے خلاف کیا ہے۔ (
4
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
صفحہ
1616
) مسئلہ نمبر : (
21
) اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ حاکم چور کا دایاں ہاتھ کاٹنے کا حکم دے اور اس کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے، قتادہ نے کہا : اس پر حد قائم کی جائے گی اور اس پر زیادتی نہیں کی جائے گی، امام مالکرحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے جب کاٹنے والا غلطی کرے اور اس کا بایاں ہاتھ کاٹ دے اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علیہم بھی استحسانا یہی کہتے ہیں، ابو ثور (رح) نے کہا : کاٹنے والے پر دیت ہے کیونکہ اس نے خطا کی، اس کا دیایاں ہاتھ کاٹا جاتا لیکن اجماع کی وجہ سے پھر اس کا دایاں ہاتھ کاٹنا ممنوع ہے۔ ابن المنذر نے کہا : چور کا بایاں ہاتھ کاٹنا دو معنوں میں سے ایک سے خالی نہ ہوگا یا تو کاٹنے والا جان بوجھ کر بایاں ہاتھ کاٹ دے گا اس صورت میں اس پر قصاص ہوگا یا خطاء کا ٹے گا تو اس کی دیت کاٹنے والے کی عاقلہ (خاندان) پر ہوگی اور چور کا دایاں ہاتھ کاٹنا واجب ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے ثابت کیا ہے اس کو کسی زیادتی کرنے والے کی زیادتی اور کسی خطا کرنے والے کی خطا کی وجہ سے زائل کرنا درست نہیں، ثوری (رح) نے کہا : جس سے دائیں ہاتھ میں قصاص لینا تھا اسی نے بایاں ہاتھ آگے کردیا، اور اسے کاٹ دیا گیا، فرمایا : اس کا دایاں ہاتھ بھی کاٹا جائے گا، ابن المنذر (رح) نے کہا : یہ صحیح ہے، ایک طائفہ نے کہا : جب وہ ٹھیک ہوتا تو اس کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا یہ اس لیے ہے کہ اس نے خود اپنا بایاں ہاتھ تلف کیا ہے اور کاٹنے والے پر اصحاب الرائے کے قول میں کوئی چیز واجب نہیں۔ امام شافعی (رح) نے قول کے قیاس میں قاطع پر کوئی چیز نہیں اس کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا جب وہ ٹھیک ہوگا، قتادہ اور شعبی نے کہا : کاٹنے والے پر کوئی چیز نہیں اور چور کا جو ہاتھ کاٹا گیا ہے وہ کافی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
22
) چور کا ہاتھ کاٹ کر اس کے گلے میں لٹکانے کے متعلق پوچھا : کیا یہ سنت سے ہے ؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک چور لایا گیا اس کا ایک ہاتھ کاٹا گیا، پھر آپ ﷺ نے اس کا ہاتھ گلے میں لٹکانے کا حکم دیا، اس حدیث (
1
) (جامع ترمذی، کتاب الحدود، جلد
2
، صفحہ
175
) کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے، ابو داؤد اور نسائی نے بھی تخریج کی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
23
) جب چوری کی حد ثابت ہوئی پھر چور نے کسی کو قتل کردیا، امام مالک (رح) نے فرمایا : قتل کیا جائے گا اور قطع ید اس میں داخل ہوگا، امام شافعی (رح) نے فرمایا : ہاتھ کاٹا جائے گا اور قتل کیا جائے گا، کیونکہ کہ دونوں دو مستحقوں کے حق ہیں ان میں سے ہر ایک کے لیے حق کو پورا کرنا واجب ہے، یہ صحیح ہے انشاء اللہ تعالیٰ یہ ابن عربی کا اختیار ہے۔ (
2
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
618
) مسئلہ نمبر : (
24
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ایدیھما “ فرمایا یدیھما نہیں فرمایا۔ اس میں علماء لغت نے کلام کیا ہے، ابن عربی نے کہا : فقہاء نے ان پر حسن ظن کرتے ہوئے ان کی متابعت کی ہے، خلیل بن احمد اور فراء نے کہا : ہر چیز جو انسان کی تخلیق سے پائی جاتی ہے جب تثنیہ کی طرف مضاف کی جاتی ہے تو جمع ذکر کی جاتی ہے تو کہتا ہے ،: ھشمت رؤوسھما، اشبعت بطونھما، قرآن کریم میں ہے : (آیت) ” ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما “۔ (التحریم :
4
) اسی وجہ سے یہاں فرمایا : (آیت) ” فاقطعوا ایدیھما “۔ یدیھما نہیں فرمایا، یعنی اس کا دایاں ہاتھ کاٹو، لغت میں فاقطعوا ایدیھما جائز ہے، یہ اصل ہے شاعر نے دونوں لغتوں کو جمع کیا ہے : مھمین قذفین مرتین ظھراھما مثل ظھورالترسین : بعض علماء نے فرمایا : یہ ایسا کیا گیا : کیونکہ مشکل نہیں، سیبویہ نے کہا : جب منفرد ہو تو کبھی جمع ذکر کیا جاتا ہے جب اس سے مراد تثنیہ ہو، عربوں سے حکایت ہے وضعارحالھما اس سے مراد رحلی راحلیتھما ہے، ابن عربی (رح) نے کہا : یہ اس بنا پر ہے۔ کہ صرف دایاں ہاتھ ہی کاٹا جائے گا، لیکن حقیقۃ ایسا نہیں بلکہ ہاتھ اور پاؤں کاٹے جائیں گے۔ ایدیھما “۔ کا قول چار کی طرف لوٹے گا یہ تثنیہ میں جمع ہے یہ دونوں تثنیہ ہیں۔ اس کی فصاحت پر کلام آگے آئے گی، اگر فاقطعوا ایدیھم “ تو کوئی وجہ ہوتی کیونکہ ” السارق اور السارقۃ کے خاص دو شخص مراد نہیں بلکہ اسم جنس مراد ہے جو لاتعداد کو شامل ہے۔ (
3
) (ایضا، جلد
2
، صفحہ
616
) مسئلہ نمبر : (
25
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” جزآء بما کسبا “۔ یہ مفعول لاجلہ ہے، اگر تو چاہے تو مصدر بنا دے اسی طرح نکالا من اللہ “۔ ہے کہا جاتا ہے : نکلت بہ، جب تو اس کو وہ سزا دے جو اس فعل پر واجب ہوتی ہے۔ (آیت) ” واللہ عزیز “ اس پر غلبہ پایا جاسکتا ہے۔ (آیت) ” حکیم “۔ اس کے ہر فعل میں حکمت ہے۔ مسئلہ نمبر : (
26
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فمن تاب من بعد ظلمہ واصلح “ یہ شرط اور جواب شرط “۔ (آیت) ” فان اللہ یتوب علیہ “ ہے اور (آیت) ” من بعد ظلمہ “ کا معنی ہے چوری کے بعد اللہ تعالیٰ توبہ کی صورت میں اس سے تجاوز فرمائے گا، قطع ید توبہ سے ساقط نہ ہوگی، عطا اور ایک جماعت نے کہا : چوری پر قدرت پائے جانے سے پہلے چور توبہ کرے تو توبہ سے قطع ید ساقط ہوجائے گی یہ بعض شوافع نے کہا اور اس کو امام شافعی (رح) کی طرف منسوب کیا ہے اور (آیت) ” الا الذین تابوا میں قبل ان تقدروا علیھم “۔ کے ساتھ اس کا تعلق جوڑا ہے، یہ وجوب سے استثناء ہے پس تمام حدود کو اس پر محمول کرنا واجب ہے، ہمارے علماء نے کہا : یہی ہماری دلیل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محارب کی حد کا ذکر کیا تو فرمایا : (آیت) ” الا الذین تابوا میں قبل ان تقدروا علیھم “۔ اور اس پر چور کی حد کو معطوف کیا اور فرمایا (آیت) ” فمن تاب من بعد ظلمہ واصلح فان اللہ یتوب علیہ “۔ اگر یہ حکم میں محارب کی طرح ہوتا تو ان کے درمیان حکم مختلف نہ ہوتا (
1
) (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
614
) ابن عربی نے کہا : اے معشر شافعیہ، سبحان اللہ ! کہا داقائق فقہیہ اور حکم شرعیہ جن کو تم مسائل کے غوامض سے استنباط کرتے ہو، ؟ کیا تم نے ملاحظہ نہیں کیا کہ محارب کود رائے ہوتا ہے اپنے ہتھیار کے ساتھ تجاوز کرتا ہے جس کو روندنے کے لیے امام گھوڑے اور اونٹ دوڑانے کا محتاج ہوتا ہے، اسے اس حالت پر اتارتے ہوئے توبہ کے ساتھ اس کی جزا کیسے ساقط کرے گا، جس طرح کافر کے تمام گناہ معاف کیے جاتے ہیں اسے اسلام کی الفت دلانے کے لیے، رہا چور اور زانی وہ دونوں مسلمانوں کے قبضہ میں ہوتے ہیں امام کے حکم کے تحت ہوتے ہیں، کون ہے وہ جوان سے وہ حکم ساقط کرے جو ان پر ثابت ہوچکا ہے۔ ؟ یہ کہنا کیسے جائز ہے کہ محارب پر قیاس کیا جائے گا حالانکہ ان کے درمیان حکمت اور حالت جداجدا ہے۔ اے محققین کے گروہ تم جیسے لوگوں کے لیے یہ مناسب نہیں جب ثابت ہوگیا کہ حد توبہ کے ساتھ ساقط ہوجاتی ہے تو توبہ مقبول ہے اور قطع ید اس کا کفارہ ہے۔ (آیت) ” واصلح “ یعنی جیسے چوری سے توبہ کی اسی طرح ہر گناہ سے توبہ کرے، بعض نے فرمایا (آیت) ” واصلح “ کا مطلب ہے اس نے معصیت کو کلیۃ ترک کردیا اور جس نے زنا کے ساتھ چوری کو ترک کیا اور نصرانیت کے ساتھ یہودیت کو ترک کیا تو یہ توبہ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کی نسبت ہو تو اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ بندے کو توبہ کی توفیق دیتا ہے، بعض نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
27
) کہا جاتا ہے : اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” السارقۃ سے پہلے اس آیت میں (آیت) ” السارق “ کا ذکر فرمایا اور آیت زنا میں زانیۃ کا لفظ زانی سے پہلے ذکر کیا اس میں کیا حکمت ہے ؟ جوابا یہ کہا جائے گا جب مال کی محبت مردوں پر زیادہ غالب ہوتی ہے اور لطف اندوز ہونے کی شہوت عورتوں پر غالب ہوتی ہے اسی وجہ سے دونوں جگہ اس انداز میں ذکر کیا۔ یہ ایک وجہ ہے عورت میں جس کا بیان سورة النور میں آئے گا کہ زانی سے پہلے اس کا ذکر کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے چوری کی حد قطع ید فرمائی تاکہ مال کو شامل ہو اور زنا کی حد ذکر کا قطع کرنا نہیں فرمایا حالانکہ برائی اس کے ساتھ ہوتی ہے، اس کی تین وجوہ ہیں (
1
) چور کے لیے اس کی مثل ہاتھ موجود ہے جو کاٹا گیا ہے اگر ایک کاٹا گیا ہے تو دوسرا اس کا بدل موجود ہے جب کہ زانی کے لیے اس کی مثل ذکر نہیں ہے جب وہ کاٹا جائے گا تو اس کا بدل نہیں ہے۔ (
2
) حد محدود وغیرہ کو روکنے کے لیے ہوتی ہے چوری میں ہاتھ کاٹنا ظاہر ہے اور زنا میں ذکر کاٹنا باطن ہے، (
3
) ذکر کے کاٹنے میں نسل کا ابطال ہے اور قطع ید میں نسل کا ابطال نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
Top