Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Maaida : 58
وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّ لَعِبًا١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ
وَاِذَا
: اور جب
نَادَيْتُمْ
: تم پکارتے ہو
اِلَى
: طرف (لیے)
الصَّلٰوةِ
: نماز
اتَّخَذُوْهَا
: وہ اسے ٹھہراتے ہیں
هُزُوًا
: ایک مذاق
وَّلَعِبًا
: اور کھیل
ذٰلِكَ
: یہ
بِاَنَّهُمْ
: اس لیے کہ وہ
قَوْمٌ
: لوگ
لَّا يَعْقِلُوْنَ
: عقل نہیں رکھتے ہیں (بےعقل)
اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اسے بھی ہنسی اور کھیل بناتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ سمجھ نہیں رکھتے۔
آیت نمبر :
58
۔ اس میں بارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) الکلبی نے کہا : جب موذن اذان دیتا اور مسلمان نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یہود کہتے : وہ کھڑے ہوئے کبھی کھڑے نہ ہوں، وہ ہنستے تھے جب مسلمان رکوع اور سجدہ کرتے تھے وہ اذان کے بارے میں کہتے : انہوں نے یہ بدعت نکالی ہے ہم نے گزشتہ قوموں میں ایسی چیز نہیں سنی، یہ تیرے لیے قافہ کے چیخنے کی طرح چیخنا کہاں سے آیا ہے یہ کتنی قبیح آواز ہے اور یہ معاملہ کتنا برا ہے۔ (
2
) (تفسیر بغوی، جلد
2
، صفحہ
48
) بعض علماء نے کہا : جب موذن نماز کے لیے اذان دیتا تھا تو وہ آپس میں ہنستے تھے اور بطور استہزا اشارے کرتے تھے اور مسلمانوں کو بیوقوف اور جاہل قرار دیتے تھے اور لوگوں کو اس سے نفرت دلاتے تھے اور نماز کی طرف بلانے والے سے دور کرتے تھے، بعض علماء نے فرمایا : وہ نماز کی طرف دعوت دینے والے کو نماز کے ساتھ استہزا اور مذاق کرنے والے کی طرح دیکھتے تھے، کیونکہ وہ نماز کی قدر ومنزلت سے ناواقف تھے پس یہ آیت نازل ہوئی اور یہ ارشاد ہوا : (آیت) ” ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحا “۔ (حم السجدہ :
33
) النداء کا معنی بلند آواز سے پکارنا ہیں اس کو ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے الدعاء الرغاء ناداہ، مناداۃ ونداء اس کا معنی ہے اس نے اسے آواز دی، تنادوا یعنی ایک دوسرے کو پکارا تنادوا کا معنی ہے وہ مجلس میں بیٹھے، ناداہ اس نے اسے مجلس میں بٹھایا، قرآن میں اذان کا ذکر صرف اسی جگہ ہے لیکن سورة جمعہ میں بطور اختصاص ذکر کیا گیا ہے۔ (
1
) مسئلہ نمبر : (
2
) علماء نے فرمایا : ہجرت سے پہلے مکہ میں اذان نہیں تھی، وہ اس طرح آواز دیتے تھے ” الصلوۃ جامعۃ “۔ جب نبی مکرم ﷺ نے ہجرت کی اور قبلہ، کعبہ، کی طرف پھیرا گیا تو اذان کا حکم دیا گیا، اور ” الصلوۃ جامعۃ۔ کی صدا کسی ایسے امر کے لیے باقی رہی جو پیش آجاتا، نبی مکرم ﷺ کو اذان کے امرنے پریشان کیا حتی کہ حضرت عبداللہ بن زید اور حضرت عمر بن خطاب ؓ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو خواب میں اذان دکھائی گئی، نبی مکرم ﷺ نے معراج کی رات آسمان میں اذان سنی تھی (
2
) (طبرانی، الاوسط، حدیث نمبر
9243
) حضرت عبداللہ بن زید خزرجی انصاری اور حضرت عمر بن خطاب ؓ کے خواب مشہور ہیں۔ حضرت عبداللہ بن زید نے نبی مکرم ﷺ کو اس کے متعلق رات کو ہی بتا دیا تھا اور حضرت عمر ؓ نے خواب دیکھنے کے بعد کہا : جب صبح ہوگئی تو آپ کو بتاؤں گا، نبی مکرم ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان دی جس طرح آج اذان دی جاتی ہے۔ حضرت بلال ؓ نے صبح کی اذان میں یہ زیادتی کی ” الصلوۃ خیر من النوم “۔ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ کو قائم رکھا اور یہ انصاری کے خواب میں نہیں تھے، ابن سعد ؓ نے یہ حضرت ابن عمر ؓ سے ذکر کیا ہے۔ (
3
) (ابن ماجہ کتاب الاذان والسنۃ فیہ، حدیث نمبر
698
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) دارقطنی نے ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو اذان خواب میں دکھائی گئی انہوں نے اس کے متعلق نبی مکرم ﷺ کو آگاہ کیا، نبی مکرم ﷺ نے انصاری کے خبر دینے سے پہلے حضرت بلال ؓ کو اذان دینے کا حکم دیا تھا، یہ انہوں نے اپنی کتاب ” المدبج “ میں نبی مکرم ﷺ کی حدیث میں ذکر کیا ہے جو انہوں نے حضرت ابوبکر ؓ سے روایت کی ہے اور حضرت ابوبکر کی حدیث میں جو انہوں نے ان سے روایت کی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
3
) اذان اور اقامت کے وجوب کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، امام مالک (رح) اور ان کے اصحاب کے نزدیک اذان مساجد میں جماعت کے لیے واجب ہے جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں، موطا میں امام مالک (رح) نے اس پر نص قائم کی ہے، امام مالک (رح) کے متاخرین اصحاب میں اختلاف ہے ان کے دو قول ہیں۔ (
1
) شہر اور جو قصبہ شہر کی طرح ہے ان پر اس کا ادا کرنا سنت مؤکدہ واجب علی الکفایہ ہے، بعض نے فرمایا : یہ فرض علی الکفایہ ہے، اسی طرح اصحاب شافعی (رح) کا اختلاف ہے، طبری نے امام مالک (رح) سے حکایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : اگر شہر والے اذان جان بوجھ کر چھوڑ دیں تو وہ نماز کا اعادہ کریں ابو عمر نے کہا : میں شہر والوں پر اذان کے وجوب پر کوئی اختلاف نہیں جانتا ہوں، کیونکہ اذان دارالاسلام اور دارالکفر کے درمیان جدائی اور تفریق کرنے والی علامت ہے، رسول اللہ ﷺ جب کسی لشکر کو بھیجتے تھے تو اسے فرماتے تھے : ” جب تم اذان سنو تو رک جاؤ اور جب تم اذان نہ سنو تو حملہ کر دو “ اور صحیح مسلم میں ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ طلوع فجر کے وقت حملہ کرتے تھے جب اذان سن لیتے تو حملہ نہ کرتے تھے ورنہ حملہ کردیتے تھے۔ عطاء، مجاہد، اوزاعی اور داؤد رحمۃ اللہ علیہم نے کہا : اذان فرض ہے انہوں نے فرض کفایہ نہیں کہا : طبری نے کہا : اذان سنت ہے واجب نہیں ہے، انہوں نے اشہب عن مالک کے سلسلہ سے یہ روایت کیا ہے اگر مسافر جان بوجھ کر اذان چھوڑ دے تو اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے، کو فیوں نے مکروہ کہا ہے کہ مسافر بغیر اذان اور اقامت کو کافی سمجھا تو بھی جائز ہوگا۔ ثوری (رح) نے کہا : سفر میں اذان کے قائم مقام اقامت ہوجاتی ہے اگر تو چاہے تو اذان دے اور اقامت بھی کہے، امام احمد بن حنبل (رح) نے کہا : مسافر اذان دے، کیونکہ حضرت مالک بن حویرث کی حدیث اس پر دلیل ہے (
1
) داؤد نے کہا : اذان اور اقامت ہر مسافر پر واجب ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت مالک بن حویرث کو اور ان کے ساتھی کو فرمایا : ” جب تم دونوں سفر میں ہو تو اذان دو اور تکبیر کہو، اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے “۔ اس کو بخاری نے نقل کیا ہے اور یہ اہل ظاہر کا قول ہے، ابن المنذر (رح) نے کہا : یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت مالک بن حویرث اور اس کے چچا کے بیٹے کو کہا : ” جب تم سفر میں ہو تو اذان دو اور تکبیر کہو اور تم میں سے بڑا امامت کرائے “ (
2
) ابن المنذر (رح) نے کہا : اذان اور اقامت سفروحضر میں ہر جماعت پر واجب ہیں، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے اذان کا حکم دیا اور امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ ابو عمر نے کہا : امام شافعی (رح)، امام ابوحنیفہ (رح)، ان کے اصحاب ثوری، احمد اسحاق، ابو ثور، اور طبری رحمۃ اللہ علیہم کا اتفاق ہے کہ مسافر جب جان بوجھ کر یا بھول کر اذان ترک کردے تو اس کی نماز ہوجائے گی، اسی طرح ان کے نزدیک حکم ہے جب اقامت کو ترک کردیں اقامت ترک کرنے میں زیادہ کراہت ہے، امام شافعی (رح) نے حجت پکڑی ہے کہ اذان واجب نہیں اور نہ نماز کے فرائض میں سے فرض ہے، کیونکہ مزدلفہ اور عرفہ میں نمازوں کے جمع کرنے کے وقت ایک نماز کے لیے اذان ساقط ہوجاتی ہے، امام مالک (رح) کا مذہب سفر میں اذان کے بارے میں امام شافعی (رح) کے مزہب کی طرح ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) اور ان کے اصحاب کا اتفاق ہے کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ ہیں اور تکبیر (اقامت) کے کلمات ایک ایک مرتبہ ہیں مگر امام شافعی (رح) پہلی تکبیر کو چار مرتبہ کہتے ہیں، یہ حضرت ابو محذورہ کی حدیث میں ثقہ راویوں سے محفوظ ہے اور حضرت عبداللہ بن زید کی حدیث میں بھی اسی طرح ہے۔ (
3
) فرمایا : یہ ایسی زیادتی ہے جس کا قبول کرنا واجب ہے، امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ اہل مکہ کی اذان ہمیشہ حضرت ابو محذورہ کی آل میں رہی، اسی طرح ان کے زمانہ تک ہے ان کے اصحاب نے کہا : اب بھی ان کے نزدیک اسی طرح ہے اور امام مالک کا جو نظریہ ہے وہ حضرت ابو محذورہ کی اذان میں اور حضرت عبداللہ بن زید کی اذان میں احادیث صحاح میں موجود ہے ان کے نزدیک مدینہ طیبہ میں آل سعد قرظی میں ابھی تک موجود ہے، امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کا اذان میں ترجیع پر اتفاق ہے۔ اور یہ موذن کا ” اشھد ان لا الہ الا اللہ “ دو مرتبہ کہنا اور ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ دو مرتبہ کہنا ہے پھر دو دو مرتبہ آواز کو بلند اور لمبا کر کے کہنا ہے، امام مالک (رح)، امام شافعی (رح) کا اقامت میں کوئی اختلاف نہیں مگر قد قامت الصلوۃ “ میں اختلاف ہے امام مالک (رح) اس کو ایک مرتبہ کہتے ہیں اور امام شافعی (رح) دو مرتبہ کہتے ہیں، اکثر علماء کی رائے امام شافعی کے قول پر ہے، آثار بھی اس کے متعلق مروی ہے، امام ابوحنیفہ (رح) ثوری (رح) اور حسن بن حی (رح) نے کہا : اذان اور اقامت دونوں کے کلمات دو دو مرتبہ کہنے ہیں ان کے نزدیک ابتدا میں تکبیر اور اذان میں اللہ اکبر چار چار مرتبہ ہے، ان علماء کے نزدی اذان میں ترجیع (ایک مرتبہ کلمہ شہادت کہنا اور دو بارہ بلند آواز سے کہنا) نہیں ہے ان کی حجت حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ؓ کی حدیث ہے فرمایا : ہمیں اصحاب محمد نے بتایا کہ حضرت عبداللہ بن زید ؓ نبی مکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کی : یا رسول اللہ ! میں نے خواب میں دیکھا ہے گویا ایک شخص کھڑا ہے اور پر دو سبز چادریں ہیں وہ دیوار کے ایک کونے پر کھڑا ہے اس نے اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہے اور اقامت کے کلمات بھی دو دو مرتبہ کہے اور اذان اور اقامت کے درمیان وہ بیٹھا حضرت بلال ؓ نے اس کو سنا اور کھڑے ہوئے دو دو مرتبہ اذان کے کلمات کہے اور پھر تھوڑا سا بیٹھے اور پھر اقامت کے کلمات دو دو مرتبہ کہے، اس حدیث کو اعمش وغیرہ نے حضرت عمرو بن مرۃ سے انہوں نے ابن ابی لیلیٰ سے روایت کیا ہے یہی تابعین اور فقہاء عراق کا قول ہے۔ (
1
) (الاستذکار، جلد
4
، صفحہ
14
) ابو اسحاق سبیعی نے کہا : اصحاب حضرت علی ؓ اور حضرت عبداللہ ؓ اذان اور اقامت کے کلمات دو دو مرتبہ کہتے تھے یہ کو فیوں کی اذان ہے۔ نسل در نسل یہ طریقہ چلا آرہا ہے جیسا کہ حجازیوں میں متوارث ہے ان کی اذان میں تکبیر چار مرتبہ ہے جیسا کہ مکیوں کے ہاں ہے پھر ” لا الہ الا اللہ “ شہادت ایک مرتبہ ہے اور ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ ایک مرتبہ ہے پھر ” حی علی الصلوۃ “۔ ایک مرتبہ ہے پھر ” حی علی الفلاح “ ایک مرتب ہے پھر موذن آواز کو اونچا کرکے کلمہ شہادت کہے اور اشھد ان لا الہ الا اللہ “ آگے مکمل اذان کہے آخر تک دو دو مرتبہ، ابو عمر ؓ نے کہا : امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، دادؤ بن علی، محمد بن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہم کا خیال ہے جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے اس کے مطابق اذان و اقامت جائز ہے انہوں نے اس کو اباحت اور تخییر پر محمول کیا ہے انہوں نے فرمایا : ہر صورت جائز ہے کیونکہ ہر صورت نبی مکرم ﷺ سے ثابت ہے اور ان کے صحابہ نے اس پر عمل کیا ہے جو چاہے اذان کی ابتدا میں اللہ اکبر دو مرتبہ کہے اور جو چاہے یہ چار مرتبہ کہے، جو چاہے ترجیع کرے اور جو چاہے ترجیع نہ کرے، جو چاہے اقامت دو مرتبہ کہے، جو چاہے ایک مرتبہ کہے سوائے قد قامت الصلوۃ کے کلمات کے یہ ہر حال میں دو دو مرتبہ کہے۔ (
2
) (شرح معانی الآثار میں اس پر مفصل بحث موجود ہے) مسئلہ نمبر : (
5
) صبح کی نماز کے لیے تشویب میں اختلاف ہے اور تثویب سے مراد مؤذن کا قول ہے ” الصلوۃ خیر من النوم “۔ امام مالکرحمۃ اللہ علیہ، ثوری، اور لیث (رح) نے کہا : صبح کی اذان میں موذن حی علی الفلاح دو مرتبہ کہنے کے دو مرتبہ ” الصلوۃ خیر من النوم “۔ کہے یہ امام شافعی (رح) کا عراق میں قول تھا اور مصر میں یہ ہے کہ یہ نہ کہے، امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب نے کہا : اگر چاہے تو اذان سے فارغ ہونے کے بعد یہ کہے، ان سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ کلمہ نفس اذان سے ہے اور فجر کی نماز میں لوگوں کا یہی معمول ہے، ابو عمر ؓ نے کہا : نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت ابو محذورہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ صبح کی اذان میں ” الصلوۃ خیر من النوم “ کہے، ان سے حضرت عبداللہ بن زید ؓ کی حدیث میں مروی ہے (
1
) (سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب کیف الاذان، حدیث نمبر
422
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : فجر کی اذان میں ” الصلوۃ خیر من النوم “ کہنا سنت سے ہے، حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ وہ یہ کہتے تھے۔ رہا موطا میں امام مالک (رح) کا قول کہ انہیں یہ خبر پہنچی ہے کہ موذن حضرت عمر ؓ کو صبح کی نماز کے متعلق آگاہ کرنے کے لیے آیا تو اس نے آپ کو سویا ہوا پایا، موذن نے کہا : ” الصلوۃ خیر من النوم “ تو حضرت عمر ؓ نے کہا : یہ صبح کی اذان میں کہا کرو، میں یہ نہیں جانتا کہ یہ حضرت عمر ؓ سے اس جہت سے مروی ہے کہ اس سے حجت پکڑی جائے اور اس کی صحت کو جانا جائے اس میں ہشام بن عروہ کی حدیث ہے جو ایک شخص سے مروی ہے جسے اسماعیل کہا جاتا ہے میں اس کو جانتا ہوں۔ ابن ابی شیبہ نے ذکر کیا ہے کہ ہمیں عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا انہوں نے ہشام بن عروہ سے انہوں نے ایک شخص سے روایت کیا جس کو اسماعیل کہا جاتا ہے، اس نے کہا : موذن آیا اس نے حضرت عمر ؓ کو صبح کی نماز کے متعلق آگاہ کیا، اس نے کہا : ” الصلوۃ خیر من النوم “ حضرت عمر ؓ کو اس پر تعجب ہوا، حضرت عمر نے موذن کو کہا : اس کو اپنی اذان میں رکھ، ابو عمر ؓ نے کہا : میرے نزدیک اس میں معنی یہ ہے کہ انہوں نے موذن کو کہا : صبح کی اذان اس قول کی جگہ ہے یہ اس کا مقام نہیں ہے گویا حضرت عمر ؓ نے امیر کے دروازے پر اس سے دوسری ندا کو ناپسند کیا جیسا کہ امراء نے بعد میں اس کو ایجاد کرلیا، ابو عمر ؓ نے کہا : مجھے اس تاویل پر ایک مخصوص وجہ نے ابھارا اگرچہ خبر کا ظاہر اس کے خلاف ہے، کیونکہ صبح کی نماز میں تثویب علماء کے نزدیک مشہور ہے اور عام لوگ یہ خیال کریں گے کہ حضرت عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ناواقف تھے نبی مکرم ﷺ نے مدینہ طیبہ میں حضرت بلال ؓ کو اور مکہ میں حضرت ابو محذورہ کو اس کا حکم دیا تھا یہ حضرت بلال ؓ اور حضرت ابو محذورہ ؓ کی اذان میں محفوظ اور معروف ہے جو نبی مکرم ﷺ کے لیے صبح کی نماز کے لیے اذان دی جاتی تھی، یہ علماء کے نزدیک، مشہور ہے، وکیع نے سفیان سے انہوں نے عمران بن مسلم سے انہوں نے حضرت سوید بن غفلہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے اپنے مؤذن کی طرف پیغام بھیجا کہ جب تو حی الفلاح پر پہنچے تو پھر کہہ ” الصلوۃ خیر من النوم “ کیونکہ یہ حضرت بلال ؓ کی اذان ہے اور یہ معلوم ہے کہ حضرت بلال ؓ نے حضرت عمر ؓ کے لیے اذان نہیں دی تھی اور نہ رسول اللہ ﷺ کے بعد انہوں نے اس کو سنا تھا مگر ایک مرتبہ جب وہ شام میں داخل ہوئے تھے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) اہل علم کا اجماع ہے کہ سنت یہ ہے کہ اذان وقت داخل ہونے کے بعد دی جائے گی سوائے فجر کی اذان کے فجر کی اذان مالک، امام شافعی، امام احمد اور اسحاق، اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم کے قول میں طلوع فجر سے پہلے دی جائے گی ان کی حجت رسول اللہ ﷺ کا قول ہے کہ حضرت بلال ؓ رات کو اذان دیتے ہیں تم (اس وقت) کھاؤ پیو حتی کہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم اذان دے، امام ابو حنیفہ، ثوری اور امام محمد بن حسن نے کہا : صبح کی نماز کے لیے اذان اس کے وقت کے داخل ہونے کے وقت دی جائے گی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت مالک بن حویرث ؓ اور اس کے ساتھی کو فرمایا :” جب نماز کا وقت ہوجائے تو اذان کہنا اور اقامت کہنا اور تم میں سے بڑا امامت کرائے “ اور ان علماء نے بقیہ نمازوں پر اس کو قیاس کیا ہے اہل حدیث کہتے ہیں : جب مسجد کے لیے دو موذن ہوں تو ایک طلوع فجر سے پہلے اذان دے اور دوسر طلوع فجر کے بعد اذان دے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) اس میں اختلاف ہے کہ موذن جو اذان دیتا ہے تکبیر اس کے علاوہ کوئی اور کہے، امام مالک (رح)، امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حضرت محمد بن عبداللہ بن زید عن ابیہ کے سلسلہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا، کیونکہ انہوں نے خواب میں دیکھی تھی کہ وہ حضرت بلال کو اذان کے کلمات سکھائیں، حضرت بلال ؓ نے اذان دی، پھر حضرت عبداللہ بن زید کو اقامت کہنے کا حکم دیا تو اس نے اقامت کہی (
1
) (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ باب فی الرجل یؤذن ویقیم اخر، حدیث نمبر
430
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ثوری، امام شافعی، اور لیث نے کہا : جو اذان دی وہی اقامت کہے، کیونکہ عبدالرحمن بن زیاد بن انعم کی حدیث ہے جو انہوں نے زیادہ بن نعیم سے انہوں نے حضرت زیاد بن حرث صدائی سے روایت کی ہے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا جب صبح کا آغاز ہوا تو آپ نے مجھے اذان دینے کا حکم دیا میں نے اذان کہی پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت بلال اقامت کہنے کے لیے آئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”(تمہارے بھائی) صدائی نے اذان دی ہے جو اذان دے وہی اقامت کہے “ (
2
) (سنن ابن ماجہ باب السنۃ فی الاذان حدیث نمبر
708
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو عمر ؓ نے کہا : عبدالرحمن بن زیاد افریقی ہے اکثر علماء نے اس کو ضیعف قرار دیتے ہیں، یہ حدیث ان کے علاوہ کسی سے مروی نہیں ہے پہلی حدیث سند کے اعتبار سے احسن ہے، اگر افریقی کی حدیث صحیح ہو کیونکہ بعض اہل علم نے انکی توثیق کی ہے اور انکی تعریف کی ہے تو اس کا قول اولی ہے، کیونکہ اختلاف کے موقع میں وہ نص ہے اور وہ حضرت عبداللہ بن زید ؓ کا واقعہ جو حضرت بلال ؓ کے ساتھ ہوا اس سے یہ مؤخر ہے اور رسول اللہ ﷺ کے آخری امر کی اتباع اولی ہے، نیز میں پسند کرتا ہوں کہ جب مؤذن ایک متعین ہو تو وہی تکبیر کہے، اگر کسی دوسرے نے اقامت کہہ دی تو نماز بالاجماع ہوجائے گی، مسئلہ نمبر : (
8
) موذن کے لیے حکم ہے کہ وہ اذان کو آہستہ آہستہ دے اور اس میں راگ نہ لگائے جس طرح آج اکثر جہلاء کرتے ہیں بلکہ اکثر لوگوں نے اسے گانے اور راگ سے بھی آگے نکال دیا ہے اس میں کئی ترجیعات کرتے ہیں اور کثرت سے تقطیعات کرتے ہیں حتی کہ یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، دراقطنی نے ابن جریج عن عطاء عن ابن عباس، ؓ کے سلسلہ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کا ایک موذن تھا جو اذان میں گانے کی طرز لگاتا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا : ” اذان آسان نرم ہے جب تیری اذان آسان نرم ہو تو فبہا ورنہ تو اذان نہ دے “۔ علماء کی ایک جماعت کے نزدیک موذن قبلہ کی طرف منہ کرے اور حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح کے وقت دائین بائیں اپنے سر کو پھیرے یہ اکثر اہل علم کے نزدیک ہے، امام احمد (رح) نے فرمایا اپنے سر کو نہ پھیرے مگر یہ کہ وہم منارہ میں ہو اور وہ لوگوں کو آواز سنانا چاہتا ہو یہی اسحاق کا قول ہے افضل یہ ہے کہ موذن باوضو اذان دے۔ مسئلہ نمبر : (
9
) اذان سننے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ شہادتین کے آخر تک اذان کے کلمات کو دوہرائے اگر مکمل اذان کے کلمات دوہرائے تو بھی جائز ہے، کیونکہ حضرت ابوسعید کی سعید کی حدیث اسی پر دلالت کرتی ہے صحیح مسلم میں حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب موذن ” اللہ اکبر، اللہ اکبر، کہے تو تم میں سے ہر سننے والا شخص کہے : اللہ اکبر، اللہ اکبر، پھر موذن اشھد ان لا الہ الا اللہ “ کہے تو وہ بھی اشھد ان لا الہ الا اللہ “ کہے پھر موذن ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ کہے تو وہ بھی کہے ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ پھر موذن حی علی الصلوۃ “۔ کہے تو سننے والا ” لاحول ولا قوۃ الا باللہ “۔ پھر موذن حی علی الفلاح کہے تو وہ ” لاحول ولا قوۃ الا باللہ “۔ کہے پھر وہ : اللہ اکبر، اللہ اکبر کہے تو وہ بھی : اللہ اکبر، اللہ اکبر کہے پھر موذن ” لا الہ الا اللہ “ کہے تو وہ بھی ” لا الہ الا اللہ “ کہے، دل سے جو یہ کہے گا وہ جنت میں داخل ہوگا، اس کے متعلق حضرت سعد بن ابی وقاص نے رسول اللہ ﷺ سے سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے کہا : جب وہ مؤذن کو سنے اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ، رضیت باللہ ربا وبمحمد رسولا وبالاسلام دینا تو اس کے پہلے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ مسئلہ نمبر : (
10
) اذان اور موذن کی فضیلت : اس کے متعلق بہت سے صحیح آثار مروی ہیں ان میں سے ایک وہ ہے جس کو مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ کر کے بھاگتا ہے اس کی بآواز بلند ہوا خارج ہو رہی ہوتی ہے حتی کہ وہ اذان نہیں سنتا “ تیرے لیے یہ کافی ہے کہ اذان اسلام کا شعار ہے، ایمان پر علامت ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، رہا موذن تو مسلم نے حضرت معاویہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے روز سب سے لمبی گردنوں والے موذن ہوں گے یہ اس دن کی ہولناکی سے امن کی طرف اشارہ ہے واللہ اعلم، عرب گردن کی طوالت سے مراد قوم کا معزز ومعتبر شخص لیتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا : طوال انضیۃ الاعناق واللمم : مؤطا میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ” موذن کی اذان کو جن وانس اور جو چیز بھی سنتی ہے وہ قیامت کے روز اس کے لیے گواہی دے گی “ اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے ثواب کی نیت سے سات سال اذان دی اس کے لیے آگ سے برات لکھی جاتی ہے “ (
1
) (سنن ابن ماجہ کتاب الا ذان حدیث نمبر
718
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس میں حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس نے بارہ سال اذان دی اس کے لیے جنت واجب ہوگی، اور اس کے لیے اذان کے عوض ہر روز ساٹھ نیکیاں لکھی جاتی ہیں، ہر اقامت کی وجہ سے تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، (
2
) (سنن ابن ماجہ کتاب الا ذان حدیث نمبر
719
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو حاتم نے کہا : یہ سند منکر ہے اور حدیث صحیح ہے حضرت عثمان بن ابی العاص سے مروی ہے فرمایا : ” مجھے جو آخری وصیت رسول اللہ ﷺ نے فرمائی تھی وہ یہ تھی کہ میں کوئی ایسا موذن نہ لوں جو اذان پر اجرت لے (
3
) (سنن ابن ماجہ باب السنۃ فی الا ذان حدیث نمبر
705
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ حدیث ثابت ہے۔ مسئلہ نمبر : (
11
) اذان پر اجرت لینے میں علماء کا اختلاف ہے قاسم بن عبدالرحمن (رح) اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علیہم نے اس کو مکروہ کہا ہے اور امام مالک (رح) نے اس میں رخصت دی ہے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں ہے، امام اوزاعی (رح) نے کہا : یہ مکروہ ہے اور بیت المال سے اس کی اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں، امام شافعی (رح) نے فرمایا : موذن کو وظیفہ خمس کے خمس سے یعنی نبی مکرم ﷺ کے حصہ سے دیا جائے گا، ابن المنذر (رح) نے کہا : اذان پر اجرت لینا جائز نہیں، ہمارے علماء نے اجرت لینے پر حضرت ابومحذورہ ؓ کی حدیث سے استدلال کیا ہے، اس میں نظر ہے اس حدیث کو نسائی اور ابن ماجہ (رح) وغیرہما نے روایت کیا ہے فرمایا : میں ایک جماعت کے ساتھ نکلا ہم کسی راستہ میں تھے تو رسول اللہ ﷺ کے موذن نے آپ ﷺ کے سامنے اذان دی، ہم نے موذن کی آواز سنی جب کہ ہم اس سے اعراض کرنے والے تھے ہم اس کا مذاق اڑاتے ہوے چیخے، رسول اللہ ﷺ نے سنا تو آپ نے کچھ لوگوں کو ہماری طرف بھیجا آپ ﷺ کے سامنے انہوں نے ہمیں بٹھا دیا، آپ ﷺ نے پوچھا ” تم میں سے کون تھا جس کی میں نے بلند آواز سنی “ تمام لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا اور سچی بات کہی، آپ ﷺ نے سب کو جانے کی اجازت دے دی اور مجھے روک لیا آپ نے مجھے فرمایا : ” تم اٹھو اور اذان دو “ میں اٹھا تو میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے امر سے کوئی چیز زیادہ ناپسندیدہ نہ تھی اور جس کا مجھے حکم دیا تھا اس سے زیادہ ناگوار امر نہ تھا میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑا ہو اتو خود رسول اللہ ﷺ نے مجھے اذان کے کلمات سکھائے فرمایا ” کہو ” اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر، اشھد ان لا الہ الا اللہ “ اشھد ان لا الہ الا اللہ “ ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ پھر مجھے فرمایا اپنی آواز کو بلند کر اور لمبار کر کے کہ اشھد ان لا الہ الا اللہ “ اشھد ان لا الہ الا اللہ “ ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ حی علی الصلوۃ، حی علی الصلوۃ، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح اللہ اکبر اللہ اکبر ” لا الہ الا اللہ “ پھر مجھے بلایا جب میں نے اذان مکمل کرلی آپ نے مجھے ایک تھیلی عطا فرمائی جس میں کچھ چاندی تھی پھر آپ نے حضرت ابو محذورہ ؓ کی پیشانی پر ہاتھ رکھا، پھر اسے اس کے چہرے پر گزارا پھر اس کے سینہ پر گزارا پھر جگر پر گزار حتی کہ رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ حضرت ابو محذورہ ؓ کی ناف تک پہنچ گیا پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تیرے لیے برکت دے، تیرے لیے برکت دے، میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ مجھے مکہ میں اذان دینے کا حکم فرمائیں آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں نے تجھے حکم دیا ، “ تو میرے دل میں رسول اللہ ﷺ کے لیے جو کراہیت تھی وہ سب ختم ہوگئی اور اس کی جگہ رسول اللہ ﷺ کی محبت پیدا ہوگئی میں مکہ میں رسول اللہ ﷺ کے عامل عتاب بن اسید ؓ کے پاس آیا میں نے رسول اللہ ﷺ کے امر سے ان کے ساتھ نماز کے لیے اذان دی (
1
) (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ کیف الاذان حدیث نمبر
422
،
425
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ ابن ماجہ کے الفاظ کا ترجمہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (
12
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ذالک بانھم قوم لایعقلون “۔ یعنی یہ عقل سے محروم ہیں جو عقل قبائح سے منع کرتی ہے گویا یہ ان کی طرح ہیں جن کے پاس عقل نہیں ہوتی روایت ہے کہ ایک نصرانی تھا جو مدینہ طیبہ میں رہتا تھا جب اس نے موذن کو ” اشھد ان محمدا رسول اللہ “۔ کہتے سنا تو اس نے کہا : حرق الکاذب جھوٹا آگ سے جلایا گیا، پس اس عیسائی کے گھر میں آگ کا ایک شعلہ گرا جب کہ وہ سویا ہوا تھا اس شعلہ نے اس کے گھر اور اس کافر کو جلا دیا، یہ مخلوق کے لیے عبرت تھی۔ آزمائش کلام کے سپرد کی گئی ہے کبھی نبی مکرم ﷺ کے ساتھ انہیں ڈھیل دی جاتی تھی حتی کہ انہیں فتح ہوتی تھی پس اس کے بعد ان کو موخر نہیں کیا جائے گا یہ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہنے ذکر کیا ہے۔
Top